اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

امام حسین اپنے والد بزرگوار کے ساتھ

امام حسین اپنے والد بزرگوار کے ساتھ

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی عطوفت کے زیر سایہ پرورش پائی آپ کے والد بزرگوار آپ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے دونوں فرزندوں کو میدان جنگ میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی کہ کہیںان کے شہید ہوجانے سے نسل رسول منقطع نہ ہو جائے، مولائے کائنات آپ اور آپ کے بھا ئی امام حسن کی تعریف کرتے تھے، آپنے ان دونوں کو اپنے فضائل و کمالات سے آراستہ کیااور اپنے آداب اور حکمتوں کے ذریعہ فیض پہنچایایہاں تک یہ دونوں آپ کے مانند ہو گئے ۔

امام حسین شجاعت ،عزت نفس ،غیرت اور نورانیت میں اپنے پدر بزرگوار کی شبیہ تھے ،آپ نے بنی امیہ کے سامنے سر جھکانے پر شہادت کو ترجیح دی ،جس کی بنا پر آپ نے ظاہری زندگی کو خیرآباد کہا اور راہِ خدا میں قربان ہونے کیلئے آمادہ ہو گئے ۔ہم اس سلسلہ میں ذیل میں قارئین کرام کیلئے کچھ مطالب پیش کرتے ہیں :

حضرت علی کا امام حسین کی شہادت کی خبر دینا

حضرت علی نے اپنے بیٹے ابوالاحرار کی شہادت کی خبر کو شایع کیا اس سلسلہ میں ہم امام حسین سے متعلق حضرت علی کی چند احا دیث بیان کرتے ہیں :

 

١۔معجم کبیر طبرانی ''ترجمہ امام حسین ''،جلد ٣،صفحہ ١٠٨۔

٢۔تاریخ خمیس ،جلد ٢، صفحہ ٣٣٤

١۔عبداللہ بن یحییٰ نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین تک کاسفر طے کیا، یحییٰ کے والد مولائے کا ئنات کا لوٹا اپنے ساتھ رکھتے تھے، جب ہم نینوا کو پا ر کرچکے تو مو لائے کائنات نے بلند آواز میں فرمایا:اے ابو عبد اللہ ٹھہرو!اے ابو عبد اللہ ٹھہرو فرات کے کنارے پر''یحییٰ آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے :ابو عبداللہ کیا بات ہے ؟تو امام نے فرمایا:''میں ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ آپ کو کسی نے رنجیدہ کردیا ہے ؟آپ کی آنکھوں میں آنسو کیسے ہیں ؟آنحضرت نے فرمایا:میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے مجھے خبر دار کیا ہے کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کردیا جا ئیگا،اور فرمایا:کیا تمہارے پاس اس جگہ کی مٹی ہے جس کامیں استشمام کروں؟جبرئیل نے جواب دیا :ہاں،تو مجھے ایک مٹھی خاک اس جگہ کی اٹھا کر دی لہٰذا میری آنکھیں آنسووں کو نہیں روک سکی ''۔(١)

٢۔ہرثمہ بن سلیم سے مروی ہے کہ ہم جنگ صفین کیلئے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ چلے جب ہم کربلا میں پہنچے تو ہم نے نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ نے اس جگہ کی مٹی کو اٹھایا اور اس کو سونگھنے کے بعد فرمایا:''اے زمین !تجھ سے ایک ایسی قوم محشور ہو گی جو بغیر حساب کے جنت میں جا ئیگی ''

ہرثمہ کو امام کے اس فرمان پر تعجب ہوا ،اور امام کی بات بار بار اس کے ذہن میں آنے لگی ، جب وہ اپنے شہر میں پہنچے تو انھوں نے یہ حدیث اپنی زوجہ جرداء بنت سمیر کوجو امام کے شیعوں میں سے تھی کو سنا ئی ۔ اس نے کہا : اے شخص! ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو ،بیشک امیرالمومنین حق کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتے ،ابھی کچھ دن نہیں گذرے تھے کہ ابن زیاد نے اپنے لشکر کو فرزند رسول امام حسین کے ساتھ جنگ کر نے کیلئے بھیجا،ان میں ہر ثمہ بھی تھا جب وہ کر بلا پہنچا تو ان کو امیر المو منین کا فرمان یاد آگیااور ان کے فرزند ارجمندامام حسین سے جنگ کر نے کے لئے تیار نہیں ہوا ۔

اس کے بعد امام حسین کی خدمت اقدس میں پہنچا اور جو کچھ آپ کے پدربزرگوارسے سنا تھا اُن کے سامنے بیان کیاامام نے اس سے فرمایا :''انت معنااوعلینا ؟''تو ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف ہے ''،ہر ثمہ نے کہا :نہ آپ کے ساتھ ہوں اور نہ آپ کے خلاف ہوں، بلکہ میں نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ

 

١۔تاریخ بن عساکر (مخطوط)،جلد ١٣، صفحہ ٥٧۔٥٨،معجم کبیر طبرا نی نے کتاب ترجمہ امام حسین ،جلد ٣ ،صفحہ ١٠٥۔١٠٦۔

دیا ہے اور اب ان کے سلسلہ میں ،میں ابن زیاد سے ڈررہا ہوں ،امام نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ''ولّ ھارباحتی لاتریٰ لنامقتلا،فوالذی نفس محمد بیدہ لایریٰ مقتلنا الیوم رجل ولایغیثنا الّاادخلہُ النار ''ہر ثمہ وہاں سے جلد ہی چلا گیا اور اس نے امام کو قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔(١)

٣۔ثابت بن سویدنے غفلہ سے روایت کی ہے : ایک دن حضرت علی نے خطبہ دیا تو آپ کے منبر کے پاس سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا :یا امیر المو منین !میرا وا دی قریٰ کے پاس سے گذر ہوا تو میں نے خالد بن عرفطہ کو مرے ہوئے دیکھا! لہٰذا آپ اس کے لئے استغفار کردیجئے ۔

امام نے فرمایا :''خدا کی قسم وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک ایک گمراہ لشکر کی قیادت نہ کرلے اور اس کا پرچمدار حبیب بن حمار ہوگا ۔۔۔''۔

ایک شخص نے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :اے امیر المو منین میں حبیب بن حمار ہوں ،اور آپ کا شیعہ اور چا ہنے والا ہوں ۔۔۔

امام نے اس سے فرمایا :'' تو حبیب بن حمار ہے؟'' ۔اس نے کہا :ہاں۔

امام نے کئی مرتبہ اس کی تکرار فر ما ئی اور حبیب نے ہر مرتبہ جواب دیا :ہاں ۔امام نے فرمایا :'' خدا کی قسم تو پرچمدار ہوگا یا تجھ سے پرچم اٹھوایا جا ئے گا ،اور تجھے اس دروازے سے داخل کیا جا ئے گا ' 'اور آپ نے مسجد کو فہ کے باب فیل کی طرف اشارہ کیا ۔

ثابت کا کہنا ہے : میں ابن زیاد کے زمانہ تک زندہ رہا اور اس نے عمر بن سعد کوامام حسین سے جنگ کرنے کے لئے بھیجااور خالد بن عُرفطہ کو ا پنے ہراول دستہ میںقرار دیااور حبیب بن حمار کو پرچمدار قراردیا،اور وہ باب فیل سے داخل ہوا ۔۔۔(٢)

٤۔امیر المو منین نے براء بن عازب سے فرمایا:''اے براء !کیا حسین قتل کر دئے جا ئیں اور تم زندہ

 

١۔حیاة الامام الحسین ،جلد ١،صفحہ ٤٢٦۔

٢۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد١٠،صفحہ ١٤۔

رہتے ہوئے بھی ان کی مدد نہ کر سکو؟''۔

براء نے کہا : اے امیر المو منین ! ایسا نہیں ہو سکتا ،جب امام حسین شہید کئے گئے تو براء نادم ہوا اور اس کو امام امیر المو منین کا فرمان یاد آیااور اس نے کہا:سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ میں وہاں پر حا ضر نہ ہو سکا! ان کی جگہ میں قتل کر دیا جاتا ۔(١)

حضرت علی سے اس طرح کی متعدد احا دیث مروی ہیںجن میں فرزند رسول ۖ امام حسین کی کربلا میںشہادت کا اعلان کیا گیا ہے اور ہم نے اس سے متعلق احادیث اپنی کتاب (حیاة الامام الحسین ) میں بیان کی ہیں ۔

 


source : www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عباس(ع) کی زندگی کا جائزہ
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اے انسان ! تجھے حوادث روزگار کي کيا خبر ؟
قراء سبعہ اور ان کی خصوصیات
تبدیلی اور نجات کیلئے لکھا گیا ایک خط
جہاد
ائمہ عسکرئین کا عہد امامت اور علمی فیوض
فہم قرآن کے لۓ چند شرائط
حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا(حصہ اول)

 
user comment