آيت اللہ بير جندي لکھتے ہيں:حضرت ابو الفضل العباس اہل بيت عليہم السلام کے اکابر ،افاضل ،فقہاء اور علماء ميں سے تھے ،بلکہ ايسے عالم تھے کہ جنوں نے کسي سے زانوئے ادب تہہ نہيں کيا تھا -
مرحوم مقرم لکھتے ہيں :جہاں امير المومنين ـ اپنے بعد اصحاب کو اس طرح تعليم وتربيت ديتے تھے کہ عالم وجود کے اسرار ورموز منجملہ علم منايا وبلايا (يعني گزشتہ کے حالات اور موت کا علم) رکھتے تھے(جيسے حبيب بن مظاہر، ميثم تمار اور رُشَيد حجري و غيرہ) کيا يہ بات معقول ہے کہ امير المومنين ـ اپنے اصحاب کو اس طرح کے علم سے سرفراز فرمائيں اور اپنے نور چشم اور پارہ جگر کو اپنے علوم سے محروم رکھيں ؟ جبکہ آپ کي صلاحيت و استعداد ان افراد سے کہيں زيادہ تھي !کيا ہمارے مولا و آقا حضرت ابوالفضل العباس کے پاس ان علوم کے حاصل کرنے کي صلاحيت و استعداد نہيں تھي؟
خدا کي قسم نہيں، ايسا نہيں ہے !حضرت امير المومنين ـ نے اپنے ان تمام شيعوں کو جو علوم و معارف حاصل کرنے کي صلاحيت و استعداد رکھتے تھے اپنے علوم سے سرفراز کرتے تھے چہ جائيکہ آپ کے نور چشم و پارہ جگر، نہ يہ کہ دوسرے افراد جو آپ سے کسب علوم کرتے تھے ان کي صلاحيت و استعداد آپ کے فرزندوں سے زيادہ تھي -
مختصر يہ کہ حضرت عباس اپني بہن زينب کبري' عليہا السلام کي طرح ہيں کہ حضرت امام سجاد ـ کے بيان کے مطابق کہ آپ نے فرمايا: ہماري پھوپھي زينب عالمہ غير متعلمہ ہيں (يعني کسي سامنے زانوئے ادب تہہ نہيں کيا) اسي طرح جناب عباس کے بارے ميں فرمايا ہے کہ آپ عالم غير متعلم ہيں -
اس کے علاوہ سردار کربلا ، قمر بني ہاشم حضرت ابو الفضل العباس طيب وطاہر نفس اور پاک و پاکيزہ طينت اور اس عظيم اخلاص کي بنياد پر کہ آپ جس کے حامل تھے اس حديث شريف کے مکمل مصداق ہيں کہ :
''م'ا اَخلَصَ عَبد لِلّہِ عَزَّوَجَلَّ اَربَعِينَ صَباحاً اِلاّ' جَرَت يَنابيعُ الحِکمَةِ مِن قَلبِہِ عَلي' لِس'انِہِ ؛ جو شخص اپنے اعمال کو خدا کے لئے چاليس دن انجام دے اس کے قلب سے اس کي زبان پر حکمت کے چشمے جاري ہوں گے -' '
پس اس صورت ميں اس شخص کے متعلق کہ جس نے اپني عمر کے تمام اعمال و مراحل کو خداوند عالم کي مرضي و خوشي ميں گزار ديئے ہوں اور تمام اخلاقي رذائل سے منزہ و مبرہ اور تمام فضائل سے آراستہ ہو ، کيا اس کے سوا تصور کيا جا سکتا ہے کہ اس کي ذات اقدس الہي علوم ومعارف کے انوار سے متجلي ہو اور اس کا علم ، علم لدني ہو ؟
دوسري دليل اس بات پر کہ قمر بني ہاش کا علم وجداني ہے ،اگر چہ برہاني علوم ومعارف ميں بھي ماہر تھے ، معصو م ـ کا کلام ہے کہ فرماتے ہيں :''اِنَّ العَبّاسَ بنَ عليٍّ زُقَّ العِلمَ زُقّاً ؛ بے شک عباس بن علي کو بچپن ہي ميں اس طرح علم سے سير وسيراب کيا گيا کہ جيسے پرندہ اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے- ' '
مرحوم مقرم اس کے بعد لکھتے ہيں: امام کي تشبيہ نہايت بديع استعارہ ہے اس لئے کہ ''زق'' پرندے کا اپنے بچے کو دانہ بھرانے کے معاني ميں ہے کہ جس وقت وہ خود تنہا دانہ کھانے پر قادر نہيں ہے - حضرت امام علي ـ کے کلام ميں اس استعارہ کے استعمال سے ہميں معلوم ہوتا ہے کہ سقائے سکينہ بچپن ہي سے حتي آغوش مادر سے علوم و معارف کے حاصل کرنے کي صلاحيت و استعداد کے حامل تھے -
source : tebyan