مقدمہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ عظیم شخصیات کی زندگی کے آخری لحظات کے کلمات، خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ اس موقع پر اپنی زندگی کے تمام تجربات کا نچوڑ اور خلاصہ بیان کرکے جاتے ہیں۔ خدا کے خاص و خالص بندے بھی اپنے بعد آنے والوں کیلئے ایسے کلمات چھوڑ کر جاتے ہیں جو لوگوں کی زندگی کی اصلاح کرکے انہیں صاحب شرف بناسکتے ہیں۔
خدا کے عظیم اور خاص بندوں میں حضرت علی(علیہ السلام) کا نام نامی قابل اہمیت اور لائق ذکر ہے کیونکہ اپنے ہمیشہ اطاعت خدا میں سب سے آگے رہے اور دوسروں کو بھی اپنی سیرت اور قول و فعل کے ذریعے راہ پروردگار کی طرف دعوت دیتے رہے۔
نہج البلاغہ آپ کے کلمات و ارشادات کا زندہ اور بے مثل و بے نظیر نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس عظیم اور مقدس کتاب سے ہم نے بستر شہادت سے بیان کئے گے )آخری پیغام( کے عنوان سے امیر المومنین(علیہ السلام) کی وصیتوں کو انتہائی اختصار سے بیان کرنے کا شرف حاصل کیا ہے اور خدا کے حضور دعاگو ہیں کہ خدا ہمیں امیر المومنین(علیہ السلام) کے اس آخری پیغام کو سمجھنے، سمجھانے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تقویٰ:
امیر المومنین حضرت علی(علیہ السلام) نے وقت شہادت امام حسن(علیہ السلام) و امام حسین(علیہ السلام) سے فرمایا: بیٹا حسن(علیہ السلام) و حسین(علیہ السلام) میری تمام اولاد کو جمع کرو، مولائے کائنات کی جتنی اولاد تھی سب کو جمع کیا گیا اور وصیتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نہج البلاغہ پڑھیے اور دیکھئے امیر المومنین(علیہ السلام) فرماتے ہیں یہ وصیتیں میں تمہیں کررہا ہوں ومَن بَلَغَہُ کتابی ھذا اور جہاں تک میری یہ تحریر پہنچ جائے۔
پھر امام ؑنے وصیتیں شروع کیں اور فرمایا: (اُوصیکما بِتقویَ الله)میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں۔ تقویٰ کے حقیقی معنی بیان کرنے اور اس کی حقیقت کو مجسم کرنے کیلئے مختلف علماء و افاضل نے بہت سی اعلیٰ اور بہترین مثالیں پیش کی ہیں اور ان کی مختلف تفسیر و توضیح بھی بیان کی ہے لیکن غالباً سب سے بہترین اور پر معنی تعریف اس روایت میں بیان کی گئی ہے جسے شیخ السالیکن و قدوة العارفین علامہ ابن فہد حلی نے صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ امام عالی مقام فرماتے ہیں: (أَن لَا یفقُدَک الله اَمَرَکَ وَلَا یَراک حیثُ نهاکَ) (عدّة الداعی ص٢٨٤) تقویٰ یہ ہے کہ پروردگار نے تمہیں جہاں رہنے کا حکم دیا ہے وہیں دکھائی دو اور جس جگہ سے روکا ہے وہاں نہ نظر آؤ۔ اپنے اور دوسروں کے تقویٰ کو پرکھنے کا یہ بہترین و دقیق معیار ہے۔ پس اگر ہم وہیں ہوں جہاں خدا نے ہمیں رہنے کا حکم دیا ہے یعنی میدان اطاعت میں ہمہ وقت حاضر ہوں اور وہاں موجود نہ ہوں جہاں سے روکا ہے یعنی معصیت و گناہ کی محفلوں میں نہ ہوں تو ہم باتقویٰ ہیں ورنہ بے تقویٰ ہوں گے چاہے گوشۂ تنہائی میں ہوں جہاں ظاہراً ہمیں کوئی دیکھنے والا نہیں اور چاہے معاشرے کی نگاہوں کے سامنے ہوں۔
امام(علیہ السلام) نے اپنی وصیت کا آغاز تقویٰ سے کیا ہے اور اس پر مسلسل زور دیا ہے۔ امام(علیہ السلام) کا تقویٰ کے لئے تاکید کرنا اور اس سے وصیت کے آغاز کرنے میں بھی ایک راز پوشیدہ ہے اور ممکن ہے کہ امام (علیہ السلام) نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ سب لوگ جان لیں کے معاشرے کی روح و جان ، تقویٰ و پرہیز گاری ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کیلئے چاہے وہ کوئی ہو اور کیسے ہی حالات سے دچار ہو تقویٰ و پرہیز گاری لازمی و ضروری ہے ۔ اور ایک دوسرے کو تقویٰ کی تلقین کرتے رہنا چاہیے،خود قرآن بھی آواز دے رہا ہے (ولقد وَصَّینَا الذینَ اُوتوا الکتاب من قبلکم وایّاکم أن اتّقوا الله)(نساء / ١٣١) ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کو اور اب تمہیں یہ وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تقویٰ کیوں اختیار کیا جائے اس کا فائدہ کیا ہے؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر تقویٰ کے بارے میں گفتگو کی ہے اور اس کے مختلف فوائد و آثار بیان کئے ہیں۔ مثلاً
١۔ تقویٰ وسیلہ حفظ و امان: وَاِن تصبروا وتتقوا لا یَضرُّکم کیدُهم شیأً (القرآن/١٢٠) اگر تم صبر و شکیبائی سے کام لو اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو گے تو ان کی سازشیں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا پائیں گی۔
٢۔ اصلاح عمل کا سبب: یا ایها الذین اٰمنوا اتقوا الله وقولوا قولاً سدیداً یصلح لکم اعمالکم(احزاب/ ٧٠) اے ایمان والو تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور سیدھی سچی بات کرو تاکہ خدا تمہارے اعمال کی اصلاح کردے۔
٣۔ گناہ کی بخشش کا ذریعہ: اس آیت (احزاب / ٧٠) میں آگے فرماتا ہے ویغفر لکم ذُنُوبکم اگر تم تقویٰ اختیار کروگے تو تمہارے گناہ بخش دے گا۔
٤۔ محبت پروردگار کے حصول کا سبب: اِن الله یُحِبُّ المتقین (آل عمران/ ٧١) خدا اہلِ تقویٰ سے محبت کرتا ہے۔
٥۔ اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ: انّما یتقبّل الله من المتقین (مائده /٢٧ ) خدا عمل تو صرف متقین ہی کا قبول کرتا ہے۔
٦۔ پروردگار کے نزدیک محترم بنادیتا ہے: انّ اکرمکم عندا لله أتقٰکم (حجرات / ١٣) جو جتنا متقی ہوگا خدا کے نزدیک اتنا ہی محترم اور عزت دار ہوگا۔
٧۔ موت کے وقت بشارت کا سبب ہے: الذین اٰمنو و کانوا یتقون لهم البشریٰ فی الحیاة الدنیا و فی الآخره (یونس/ ٦٣) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ الٰہی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے زندگانی دنیا و آخرت دونوں مقامات پر بشارت ہے۔
٨۔ تقویٰ نجات کا سبب ہے: ثُمَّ نُنجِیّ الذین اتقوا (مریم/ ٧٢) جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا پس ہم انہیں نجات دیں گے۔
٩۔ تقویٰ جنت کی دائمی زندگی کا سبب ہے: اُعِدَّت للمتقین ( آل عمران/ ١٣٤) جنت کو صاحبان تقویٰ کیلئے مہیا کیا گیا ہے۔
١٠۔ تقویٰ کی بناء پر حساب قیامت آسان ہوجائے گا''ومَا علی الذین یتقون من حسابهم من شیٍٔ (انعام/ ٦٩) صاحبان تقویٰ پر ان کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
١١۔ تقویٰ مصیبت سے نجات دے گا اور رزق حلال عطا کرے گا:من یتق الله یجعل له مخرجاً و یرزقه من حیث لا یحتسبُ (طلاق / ٢و٣) جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راہ نجات پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا۔
١٢۔ حق و باطل کی تمیز عطا کرتا ہے: اِن تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً اگر تم تقویٰ اختیار کروگے تو خدا تمہیں حق و باطل کی تمیز عطا کرے گا۔
نظم:
(ونَظمِ أمرِکُم)تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تمہارے کاموں میں نظم و ترتیب ہونا چاہیے۔ زندگی کے تمام امور میں نظم و امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارومدار ہوتا ہے، چاہے امور مادی ہوں یا معنوی دونوں مقام پر نظم و ترتیب ضروری ہے کیونکہ بدنظمی اور بے ترتیبی انسان کی ناکامی کا سبب بن جاتی ہیں جبکہ وہ انسان جس کی زندگی میں نظم و ترتیب جاری رہے وہ آہستہ آہستہ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
تفہیم معنی کیلئے سادہ سی مثال پیش خدمت ہے آپ کے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کتنا ٹھیک اور صحیح ٹائم بتاتی رہتی ہے اور وقت ضرورت پر الارم بھی دیتی ہے، چھوٹا سا بلب بھی روشن ہوکر اندھیرے میں آپ کو ٹائم دکھا دیتا ہے لیکن اگر آپ اپنی گھڑی کو ہاتھ سے اتار کر اس کے تمام پرزے باہر نکال ڈالیں تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح ٹائم بتاتی رہے گی؟ ہرگز نہیں اور اگر سارے پرزے اس میں اسی طرح اٹھا کر بھر دیجئے کیا اب وقت بتانا شروع کردے گی؟ نہیں۔ آخر کیوں؟ حالانکہ اب تو تمام پرزے گھڑی کے اندر موجود ہیں۔ تو آپ کہیں گے بیشک پرزے ضرور موجود ہیں لیکن ان میں نظم و ترتیب نہیں ہے اگر ایک خاص نظم و ترتیب سے اس کے پرزے نصب کردیئے جاتے تو وہ صحیح کام شروع کردیتی لہٰذا معلوم ہوا کہ صرف اجزاء کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان میں نظم و ترتیب کا ہونا بیحد ضروری ہے۔
اسلام نے ابتداء ہی سے نظم و ترتیب پر زور دیا ہے ۔ فروع دین کا پہلا جزء نماز ہے اور نماز کی ایک اہم شرط وضو ہے اور خود نماز کے علاوہ وضو میں بھی ترتیب و موالات اہم شرط ہے، اعمال حج میں بھی ترتیب ہے مختصر یہ کہ اسلام دین نظم ترتیب ہے اور قرآن کریم مسلمانوں کو نظم وانضباط کا درس دیتا ہے۔
اصلاح ذات البین:
امام(علیہ السلام) فرماتے ہیں اپنے درمیان اصلاح رکھنا اس لئے کہ پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آپس کی اصلاح تمام مستحب نماز و روزوں سے افضل ہے۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آخر اصلاح ذات البین یعنی آپس کی اصلاح کو تمام مستحب نماز و روزوں سے افضل کیوں قرار دیا ہے؟ اس سلسلے میں حکیم اسلام میثم بحرانی کی تحریر کا خلاصہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے اس کے ذیل میں تحریر کی ہے، فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم کی نگاہ میں مہم ترین بات یہ ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی راہ پر گامزن ہوں اور دین کی راہ میں منظم بھی رہین لیکن یہ ہدف و مقصد لوگوں کی باہمی کشیدگی و منافرت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اصلاح ذات البین وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت لوگ راہِ دین و شریعت اور سعادت ابدی کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں لیکن اگر اصلاح ذات البین نہ ہو تو تنہا نماز و روزے کے ذریعے نہ تو معاشرہ سعادت کی طرف بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی وہ منظم ہوسکتے ہیں(اشعر حیات از بستر شہادت ص ٣٧ آیت اللہ کریمی جھرمی۔)۔
پس معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا بنیادی مقصد معاشرے کی اصلاح، سماج کی تنظیم اور لوگوں کے معاملات کی ترتیب ہے اور نماز و روزے کو بھی در حقیقت اس کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے ورونہ پروردگار کسی کی عبادت و بندگی کا محتاج نہیں ہے لہٰذا آپس کی کشیدگی اور باہمی منافرت کو ختم کرنے کیلئے پیش قدمی کرنی چاہیے اور اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم کرنی چاہیے، کیونکہ یہی مقصد الٰہی کی تکمیل اور ارتقاء بشریت کی بہترین علامت ہے ۔ یاد رہے کہ نماز و روزہ انسان کے ذاتی اعمال ہیں اور معاشرے کے فتنہ و فساد سے چشم پوشی کے ساتھ ذاتی اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو اللہ کے معصوم بندے کبھی گھر سے باہر ہی نہ نکلتے اور ہمیشہ سجدۂ پروردگار میں پڑے رہتے!
یتیم:
یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اور یتیم تمہارے سامنے ضائع اور برباد نہ ہونے پائیں۔
یعنی صرف غذا دے دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لباس، مکان تعلیم و تربیت اور تمام ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ۔ اس لئے کہ قرآن اس بارے میں یوں تاکید کرتا ہے (فامّا الیتیم فلا تقھر) (ضحی /٩) یتیم پر قہر مت کرنا۔اور دوسری جگہ یتیموں کا خیال رکھنے کی تاکید یوں کرتا ہے کہ خدانے جن کی روزی کو بطور آزمائش تنگ کردیا اور وہ کہنے لگے کہ خدا نے گویا ہماری توہین کی ہے تو خدا نے پلٹ کر جواب دیا ایسا ہرگز نہیں ہے (کلا بل لا تکرمون الیتیم) بلکہ (ایسا اس لئے کیا ہے کہ) تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو۔ تو آپ نے محسوس کیا کہ پروردگار فقط یتیموں سے غیظ و غضب سے بات کرنے اور ان پر ظلم کرنے ہی کو منع نہیں کرتا بلکہ ان کا احترام کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ہے : (من عالَ یتیماً حتی یستغنِی اوجب اللّٰه بذالک الجنة)( تحف العقول ص ١٩٨۔)
جس نے یتیم کی اس کے پیروں پر کھڑنے ہونے تک سرپرستی کی تو خدا اس کے سبب اس شخص پر جنت واجب کردے گا۔
اس کے علاوہ مستدرک الوسائل جلد اول میں پیغمبر اسلام(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا گیا ہے (خیرُ بیوتکم بیت فیه یتیم یحسن اِلیه وشرّ بیوتکم بیت یساء اِلیه) تمہارے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم پر احسان کیا جائے اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔
یتیم پر احسان اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا ایک او ر منظر ملاحظہ فرمائیے:
ابو اوفی ٰ کا کہنا ہے کہ ہم پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بارگاہ یں موجود تھے کہ ایک لڑکا آیا اور آکر کہنے لگا: میں ایک یتیم ہوں اور میری ایک بہن ہے اور میری ماں کا کوئی والی و سرپرست نہیں لہٰذا پروردگار نے جو طعام آپ کو عنایت فرمایا ہے اس میں سے کچھ عطا کردیجئے تو خدا اپنے فضل سے اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی و خوشنود ہوجائیں گے۔
سرور کائنات نے اس کی بات سن کر فرمایا اس نے کتنی اچھی بات کہی ہے ۔ پھر اس سے فرمایا: قریب آؤ، یہ خرمے کے سات دانے تمہارے لئے، یہ سات تمہاری بہن کیلئے اور یہ سات تمہاری والدہ کیلئے ہیں۔ اس کے بعد معاذ بن جبل اس کے قریب آئے اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنے لگے۔ پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ معاذ نے جواب دیا: یا رسول اللہ اس کے حال پر مجھے ترس آگیا۔ پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: (لا یلِی احد منکم فَیُحسنُ ولا یته و وضع یده علیٰ رأسه الّا کتب اللّٰه له بکلّ شعرة حسنة و محا عنه بکلّ شعرة سَیّئَة و رفع له بکلّ شعرة درجة)( مجمع البیان ج١٠، اسی آیت کے ذیل میں۔) ۔ تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو کسی یتیم کا والی و سرپرست بن جائے، اس کی اچھی طرح سرپرستی کرے اور خدا اس یتیم کے ایک ایک بال کے بدلے نیکی نہ لکھے، ہر ایک بال کے بدلے ایک گناہ نہ بخش دے اور ہر ایک بال کے بدلے ایک درجہ عطا نہ کردے۔
لہٰذا فقط ان کی خوراک و لباس ہی نہیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت اور تقویٰ و پرہیز گاری کی طرف بھی بھرپور توجہ دینا چاہیے تاکہ جسم کی نشوونما کے ساتھ ساتھ روح میں بھی بالیدگی پیدا ہو اور اس کی قوت پرواز بڑھتی چلی جائے۔
قرآن:
خبردار قرآن پر تم سے پہلے کوئی غیر عمل نہ کرلے۔
ذرا مولا کے فقرے کی بلاغت پر غور کیجئے یعنی قرآن پر عمل کرنے میں تمہیں سب سے آگے ہونا چاہیے۔ غور کیجئے کہ کتنی بڑی وصیت کی پامالی ہے کہ مولاعلی(علیہ السلام) منزل عمل میں فرما رہے ہیں کہ کوئی تم سے پہلے عمل نہ کرلے سب سے پہلے تمہیں عمل کرنا چاہیے مگر یہاں پڑھنے ہی کی توفیق نہیں ہوتی تو عمل کا کیا سوال!۔
ہوا و ہوس کا شکار انسان جانتا ہے کہ اگر قرآن پڑھ کر اس پر عمل کیا گیا تو پھر ہوائے نفس کی پیروی ناممکن ہوجائے گی۔ آتش شہوات کو کس طرح ٹھنڈا کیا جائے گا، مشہور و معروف واقعہ ہے: عبدالملک بن مروان کو (حمامة المسجد) یعنی مسجد کا کبوتر کہا جاتا تھا وہ ہر وقت مسجد میں قرآن پڑھتا رہتا تھا اورجب خلافت کی خبر ملی ہے اس وقت بھی قرآن کی تلاوت میں مصروف تھا خبر سنتے ہی قرآن ایک طرف رکھ کر کہنے لگا: (سلام علیک هذا فراق بینی و بینک ) اے قرآن خدا حافظ یہ لحظہ ہماری اور تمہاری جدائی کا لحظہ ہے(تاریخ الخلفا۔ سیوطی، تاریخ ابن کثیر۔)۔
معلوم ہوا وہ خود بھی جانتا تھا کہ قرآن کے ساتھ رہتے ہوئے فتنہ و فساد ممکن نہیں، ظلم و بربریت کا امکان نہیں اورتباہ و بربادی و بدکاری کی راہ نہیں۔
اس نے خود اپنے عمل سے اعلان کردیا ہے کہ جو دوسروں کا خون نچوڑنا چاہتا ہے، لوگوں کو بلاجواز قید و بند اور مصیبتوں میں مبتلا کرکے انہیں نابود کرنا چاہتا ہے تو وہ قرآن سے جدائی کا اعلان کرکے اسے خدا حافظ کہہ دے کیونکہ قرآن سے جدائی کے بغیر ہر برائی ناممکن ہے۔
کعبہ:
کعبے کا خیال رکھنا۔ کعبہ تم سے خالی نہ ہونے پائے۔
کعبے کے گرد طواف کرنے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن تم ضرور جانا اس لیے کہ جو رشتہ کعبہ کا تم سے ہے کسی اور سے نہیں ہے، تمہارا رشتہ کعبے سے اور ہے اور دوسروں کا رشتہ اور ہے۔اس لیے کہ دوسروں کا رشتہ کعبے سے باہر باہر کا ہے، انہوں نے طواف کیا اور چلے گئے مگر تمہارا کعبے سے دُہرا رشتہ ہے ان کا رشتہ فقط مکان سے تمہارا رشتہ مکان سے بھی ہے اور مکین سے بھی ہے، تمہارا رشتہ کعبے کے باہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی ہے اگر تم فراموش کردو گے تو کعبے کی عظمت اور قدر پہچاننے والا کون ہیں۔
حقیقت امر یہ ہے کہ کعبہ سے وابستگی ہی پر دنیا و آخرت میں مسلمانوں کی عظمت و رفعت منحصر ہے۔ اگر کعبے سے دور ہوگئے تو پھر دنیا و آخرت میں کہیں بھی قابل توجہ نہ رہیں گے اور وابستگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان کعبے کے پاس جائیں اور سات چکر لگا کر واپس آجائیں بلکہ حج کے فلسفے کو سمجھنا چاہیے ورنہ ایسے طواف کا کیا فائدہ جہاں جسم تو کعبے کے گرد گھوم رہا ہو اور دل دشمنان اسلام کے گرد طواف کررہا ہو۔
امیر المومنین(علیہ السلام) نے یہاں کعبہ کہنے کی بجائے (بیت ربّکم) یعنی پروردگار کا گھر کہا ہے تاکہ یہ تفسیر خود کعبے کی طرف خاص توجہ اور اس مرکز توحید کی زیارت کا سبب بن سکے ۔ کیونکہ کعبے سے انسان ساز تاریخ وابستہ ہے اور رحمتِ الٰہی کی خاص توجہ کا مرکز ہے۔
نماز:
دیکھو نماز سے غافل نہ ہوجانا کیونکہ یہی دین کا ستون ہے۔
امام(علیہ السلام) نے اس فقرے میں نمازکی وصیت کی ہے اس نماز کو دین کا ستون قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت پر زور دیا ہے کیونکہ یہ شعائر اسلامی میں سب سے اہم ہے، نماز کے بارے میں قرآن، روایات اور نہج البلاغہ میں مختلف تعبیرات ذکر کی گئی ہیں جو خود اس کی عظمت و بلندی اور اس کے مؤثر ہونے کا پتہ دیتی ہیں، مثلاً
۱۔ بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے (اِنّ الصلواة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر)(عنکبوت ٤٠)
۲۔ مومن کی معراج ہے: سرور کائنات ،سرکار رسالت فرماتے ہیں ( الصلواة معراج المومن ) (سفینة البحار ج ١۔)
۳۔ نعمات الٰہی کا دستر خوان ہے۔ پیغمبر اسلام(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں: (ألَا ان الصلواة مأ دَبة اللّٰه فی الارض قد هنَّئَها لِأهل رحمته فی کلِّ یومٍ خمس مرّاتً ) (جامع الاحادیث/ ٤۔)آگاہ رہو کہ نماز زمین پر خدا کی نعمتوں کا ایسا دستر خوان ہے جسے ان لوگوں کیلئے دن میں پانچ مرتبہ قرار دیا گیا ہے جو نعمتوں کے اہل ہیں۔
۴،۵محبوب ترین عمل اور انبیاء کی آخری وصیت: امام صادق(علیہ السلام): (احب الاعمال اِلیٰ اللّٰه عزوجل الصلواة وهیَ آخر وصایا الانبیاٍء )( وسائل الشیعه/ ٣۔)
۶۔ دین کا ستون ہے۔
جیسا کہ خود امام(علیہ السلام) نے فرمایا ہے (فانھا عمود دینکم) یہ تمہار دین کا ستون ہے اور امام صادق(علیہ السلام) سے منقول ہے کہ پیغمبر(صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں (انّما مثل الصلواة مثل عمود الفسطاط اِذا ثبت نفعت (ثبّت) الاطناب والاوتاد والفشاء و اِذا انکسر لم ینفع طنب ولا وَتد ولا غشاء )( جامع الاحادیث/ ٤۔ ) نماز کی مثال خیمے کے ستون کی مانند ہے جب تک ستون استوار ہے خیمے کی رسیاں، کیلیں اور چادر مفید ہیں اور ثابت رہتی ہیں لیکن اگر ستون ٹوٹ جائے تو رسیاں،کیلیں اورچادر بے فائدہ ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا بس یہ نتیجہ ملتا ہے کہ جو چاہتا ہے کہ اس کا دین قائم اور پائیدار رہے وہ لازمی طور پر نماز کو اہمیت دے۔
نماز نہ پڑھنے کیلئے بلاوجہ اور بے بنیاد دلیلیں نہیں تراشنی چاہئیں۔ یہ کہنا کہ وقت نہیں ملتا، دن بھر مصروف رہے ہیں اس لیے بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ہمیں تاریخ میں ایسے کردار ملتے ہیں جنہوں نے سخت ترین حالات میں بھی نماز کو وہ ہی اہمیت دی ہے جو عام حالات میں دی ہے۔ بطورمثال دیکھئے کہ جنگ صفین میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے دشمن سخت نبرد آزما ہے، کشتے کے پشتے لگ رہے ہیں، ایک چیخ و پکار ہے، بھاگتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں، گرتے ہوئے سپاہیوں کی درد ناک چیخیں، تلواروں کی کڑکڑاہٹ، سنساتے نیزے، فضاء میں اڑتے ہوئے تیر اور زمین سے اٹھتی ہوئی
غبار میں جہاں ہرایک کو اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے لیکن ایسے میں میرے مولا امیر المومنین حضرت علی ابن طالب(علیہ السلام)، اسد اللہ غالب، لڑتے ہوئے سپاہیوں کے درمیان مصلّیٰ بچھادیتے ہیں یہ دیکھ کر، جب امام(علیہ السلام) نماز سے فارغ ہوئے تو مالک اشتر نے بڑھ کر پوچھ لیا مولا: یہ نماز کا کیا محل تھا؟! امام نے فوراً جواب دیا: ہم اس نماز ہی کیلئے تو یہ جنگ کررہے ہیں اور اسی کو چھوڑ دیں!۔
اور اگر اس سے بھی زیاہ سخت حالات اور شدید مصائب میں سجدۂ الٰہی دیکھنا ہو تو کربلا پر نظر کیجئے جہاں اصحاب و انصار کے لاشے پڑے ہوئے ہیں، بھائی کا لاشہ فرات کے کنارے ہے بیٹوں اور دیگر عزیزوں کے لاشے ریگ گرم پر سلگ رہے ہیں، پیاس کی شدت بڑھی ہوئی ہے دشمن ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے پھر تپتی ریت پر امام حسین(علیہ السلام) معبود کی بارگاہ میں آخری سجدہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سجدوں کو وہ رفعت و کمال عطا کرکے جارہے ہیں کہ اب قیامت تک سجدہ الٰہی کا تقدس پامال نہیں کیا جاسکتا۔
لہٰذا جو مولائے کائنات(علیہ السلام) کا پیروکار اور حسین(علیہ السلام) کا عزادار ہے وہ کبھی سجدوں کو فراموش نہ کرے گا بلکہ ہمیشہ اپنے عظیم و بے مثال پیشواؤں کی تأسّی میں خالق کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہے گا اور اپنی صداقت و ایمان کی گواہی دیتا رہے گا۔
روزہ:
امیر المومنین حضرت علی(علیہ السلام) نے اپنے اس فقرے میں روزے کو بدن کی زکات اور آتش کے مقابل، سپر قرار دیا ہے۔
زکات کے دو معنی اہل لغت نے خصوصیت کے ساتھ ذکر کئے ہیں۔ یا بمعنی نمو ہے یا بمعنی تطہیر۔ لہٰذا معنی اول کی صورت میں امام(علیہ السلام) کی مراد یہ ہوجائے گی کہ بدن، روزے کے ذریعے رشد و نمو کرتا ہے یعنی روزے کے ذریعے انسان صحت مند رہتا ہے اور بہت سی بیماریوں کو دور کرتا ہے یا انسان کی فضیلت و کرامت میں اضافہ کرتا ہے۔
معنی دوم کی صورت میں گویا روزہ بدن کی تطہیر کرتا ہے جیسا فیلسوف و علامہ ابن میثم بحرانی بھی یہی معنی مراد لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسرار روزہ میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ شہوت و خواہش نفس کو کم کرکے اسے اطاعت اِلٰہی کیلئے آمادہ کردیتا ہے۔( اشعر حیات از بستر شہادت ص ٢٤٥ آیت اللہ کریمی جھرمی۔)
روزہ آتشِ جہنم کے مقابلے میں روزہ دار کیلئے سپر ہے۔ جس طرح سپر دشمن کے آھنی اسلحوں کی زد سے بچاتی ہے اسی طرح روزہ بھی روزہ دار کو خواہش نفس کے آتشی حملوں سے بچاتا ہے کیونکہ روزہ انسان کو گناہوں سے بچاتاہے اور گناہ عذاب اِلٰہی کا سبب بنتے ہیں اور آتش جہنم کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں لہٰذا روزہ انسان کو خود گناہوں سے بچاتا ہے تاکہ آتش جہنم کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔
خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: (یا ایها الذین آمنوا قوا انفسکم واهلیکم ناراً و قودها الناسُ والحجارة)( تحریم /٦۔) اے ایمان لانے والو! اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
اس آیت میں آپ نے مشاہدہ کیا ہے کہ پروردگار نے یہ نہیں کہا کہ اپنے کو گناہوں سے بچاؤ بلکہ کہا ہے کہ آگ سے بچاؤ۔
یہ وصیتیں کرتے کرتے مولا کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ امام حسن(علیہ السلام) نے شانہ ہلایا دیکھا کہ باپ پر غشی طاری ہے۔