قرآن کریم میں بحث و گفتگو کے بارےمیں متعدد آیات ہیں۔ قرآن کریم جو کہ وحی الھی اور آسمانی پیغام ہے اس کی اساس منطق و گفتگو پر ہے بنابریں دین اسلام جس کی اساس قرآن کریم وہ بھی منطق و گفتگو کا ہی علمبردار ہے۔ قرآن کریم ایسی سرزمیں میں نازل ہوا جو علم و ثقافت سے عاری تھی لیکن کچھ ہی عرصے میں قرآن کی برکت سے نہ خود عظیم تہذیب و تمدن کی مالک بن گئي بلکہ اس کے جزیرہ نمائےعرب کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں بھی پھیلتی گئي۔ قرآن کریم نے گفتگو اور بحث و مباحثہ اور مناظرے کے مخصوص آداب ذکرکئےہیں۔ ان موضوعات پر قرآنی آیات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ بعض آیات اخوت و برادری سے مخصوص ہیں، کچھ آیات تواضح اور تکبر سے پرہیز کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ بعض آیات میں صبر و عفو و درگذشت اور نرم خوئي نیز آرام و سکوں سے پیش آنے اور تہمت و افترا اور سرگوشیوں سے پرہیز کرنے کی تلقین کی گئي ہے۔ کچھ آیتوں میں جدل احسن کی تعلیم دی گئي ہے اور برہان دلیل سے بات کرنے حق کا ساتھ دینے شجاعت مد مقابل کی بات غور سے سننے، ظن و گمان سے پرہیزکرنے عقل جمعی سے کام لینے اور تعصب اور غصے سے پرہیزکرنےپر زوردیاگيا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان آیات کا جائزہ لینے کے بعد گفتگو کےسلسلےمیں سنت نبوی علی صاحبھا و الہ الاف التحیۃ والثناء کی اتباع پر بات کریں گے۔
مقدمہ:
اکثر گفتگو اور مذاکرات ہوائے نفسانی پر مبنی ہوتےہیں اسی وجہ سے بیشتر اوقات جھگڑے اور تنازعے کی صورت میں تبدیل ہوجاتےہیں۔ جب گفتگو غیر خدا کے لئے شروع ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ بھی مایوس کن ہوتا ہے۔ ایسے افراد مد مقابل کی گفتگو سننے اور حقیقت کو تسلیم کرنے کےلئے ہرگز آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ ان پر ان
کا نفس حاکم ہوتا ہے۔
کیا قرآن نے مسلمانوں کو منطقی گفتگو کرنے کا راستہ نہیں دکھا کیا ہے جو تنازعے پرمنتج نہ ہویا پیروان اسلام نے ان اصولوں کو نظرانداز کردیا ہے اور ان کی پیروی نہيں کرتےہیں؟
قرآن میں گفتگو کے جن اصولوں کا ذکرکیا گيا ہے کیا وہ تشدد طلب ہیں یا رحمانی اصول ہیں؟ قرآن کریم میں بیان کے گئے اخلاقی اصول باہمی گفتگو میں کس حدتک دخیل ہیں؟
گفتگو کےذریعے حقیقت پک پہنچنے کے لئے کیا اخلاق و رواداری اور اختلافات کے بجاے اشتراکات پر توجہ کرنےکی ضرورت ہے یانہیں؟ قرآن کریم نے تو مشرکین کے ساتھ بھی گفتگو کے اصول بیان کردئےہیں تو بھلا وہ مسلمانوں کو آپسی گفتگو کا راستہ کیسے نہ دکھائےگا؟ اگر اسلام کی دعوت کی اساس تشدد اور سختگیری پرہوتی تو کیا وہ چار دانگ عالم میں تیزی سے ترقی کرسکتا تھا؟ بلاشبہ قرآن کریم گفتگو کے لئے اخلاق حسنہ، اشتراکات پرتوجہ اور علمی اصولوں کی پابندی کا خواہاں ہے تاکہ انسان حقیقت تک پہنچ سکےلیکن بڑے افسوس کی بات ہےکہ ہم باہمی گفتگو کے لئے بیان شدہ قرآنی اصولوں کو بھلابیٹھے ہیں اور یہ اصول علمی اور عملی میدانوں میں مہجور نظر آتےہیں۔ کیونکہ اگر ایسانہ ہوتا تو آج ہمیں مسلمانوں کے مذاکرات اور گفتـگو کا ثمرہ دکھائي دیتا اور امت اسلامیہ کی یہ حالت نہ ہوتی جوآج ہے۔
اخلاق نہایت وسیع اور ظریف امور کو شامل ہے۔ اخلاق پر مبتی گفتگو ادب و احترام کی ضامن ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ محبت و برادری کی صورت میں نکلتا ہے اور دوستانہ ماحول میں گفتگو انجام پاتی ہے۔ اسی بناپر ہم نے اپنی گفتگو کی بنیاد قرآنی آیات پررکھی ہے۔
1۔اخوت و برادری کا رشتہ پیدا کرنا
قران مجید میں عام طور سے لوگوں میں مصالحت اور دوستی قائم کرنے پرتاکید کی گئي ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے و تصلحوا بین الناس واللہ سمیع علیم (بقرہ 224)
ایک اور آيت میں بطور خاص مومنین کے درمیاں مصالحت کرانے کی بات کی گئي ہے اور انہیں برادران ایمانی قراردیا گيا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بنی اخویکم واتقواللہ لعلکم ترحمون (حجرات 10)
اس کےعلاوہ قرآن مجید میں کئي جگہوں پر مسلمانوں کے درمیان برادری، اخوت اور الفت کو ایک اصل بناکر پیش کیا گيا ہے قرآنی لحاظ سے بحث و گفتگو میں یہ اصل بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور خدا کی جانب سے ان کےدلوں میں قربت پیدا کرنے کونہایت اہم امر قرار دیا گيا ہے اور یہ تاکید کی گئي ہے کہ انہیں یہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ برادران ایمانی ہیں۔
اس آيت میں حکم ہورہا ہےکہ مسلمانوں کو کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس کے ذریعے شیطان ان کےدرمیان اختلاف ڈالے اور انکے تعلقات کو خراب کردے۔ ارشاد ہوتاہے قل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطان ینزع بینھم ۔ان الشیطان کان للناس عدوا مبینا۔ ( اسراء 53)
اس آیت اور اسکے بعد والی آیت میں خداوند متعال اہل ایمان کےقلوب میں دشمنی کو رد کرتا ہے۔ ارشاد ہوتاہے ونزعنا ما فی صدورھم من غل اخوانا علی سرر متقابلین(حجر47)
والذین جاؤا میں بعد ھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم (حشر10)
درج ذیل آیات میں انس و دلوں کی نرمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
والمولفۃ قلوبھم (توبہ 60)
ویذھب غیظ قلوبھم (توبہ 15)
واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا (آل عمران 103)
قرآن کی روسے دشمنون کےدرمیاں بھی محبت پیدا کی جاسکتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے عسی اللہ ان یجعل بینکم و بین الذین عادیتم منھم مودۃ واللہ قدیر واللہ غفوررحیم (ممتحنہ 7)
قرآن مجید بعض آیات میں واعتصموا اور واستمسکوا جیسی تعبیرین استعمال کرکے اعتصام و تمسک پرتاکید کی ہےاور تمام مسلمانوں کو خدا اور اسکی مضبوط رسی سے متمسک ہونے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے واعتصموا باللہ وھو مولاکم فنعم المولی و نعم النصیر(حج 78)
ایک اور آيت میں ارشاد ہوتاہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ( ال عمران )
الاالذین تابو و اصلحوا واعتصموا باللہ واخلصوا دینھم للہ فاولئک مع المومنین وسوف یوت اللہ المومنین اجرا عظیما ( نساء 146)
فاما الذین امنوا باللہ و اعتصموا بہ فسیدخلھم فی رحمۃ منہ و فضل و یھدیھم الیہ صراطا مستقیما( نساء 175)
و من یسلم وجھھ الی اللہ وھو محسن فقد استمسک بالعروۃ الوثقی و الی اللہ عاقبۃ الامور( لقمان 22)
فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین (مائدۃ 54) اس آیت مبارکہ میں خدا ایسے لوگوں کی صفت بیان کررہا ہےجو خدا کو دوست رکھتےہیں اور خدا بھی انہیں دوست رکھتا ہے اوروہ مومنین کے ساتھ نرمی سے پیش آتےہیں جبکہ کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتےہیں۔
مشترکات پرتوجہ
خدا وند کریم نے قرآن مجید میں اھل کتاب کے ساتھ بھی مشترکات پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے۔ ان دوآیتوں میں کہا جارہا ہےکہ جو چیز ہم پر اور تمہارے اوپر نازل ہوئي ہے ایات خداوندی ہیں اور سب سے بنیادی چیز توحید جو ہمارے اور تمہارے درمیاں مشترک ہے۔ قران مجید یہ بھی کھ رہا ہےکہ اھل کتاب بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کی آیات کی تلاوت کرتےہیں ۔ من اھل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون آیات اللہ اناء اللیل و ھم یسجدون( ال عمران 113)
ان آیات سے پتہ چلتا ہےکہ اھل کتاب کے ساتھ مشترکہ امور جیسے توحید، آیات خداوندی اور پرستش خدا کے بارےمیں گفتگو ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے کچھ افراد کو حق کا پیرو قراردیتےہوئے کہتاہےکہ ومن قوم موسی امۃ یھدون بالحق و بہ یعدلون (اعراف 159)اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اھل کتاب سے جو حق پسند ہیں الھی مشترکات کی ا ساس پرقریب ہواجاسکتا ہے۔
source : http://www.taghrib.ir