بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو
محمد بن قیس نے پانچویں لالِ ولایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے‘ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اور انہوں نے اپنے جدامجد امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
اشرار افراد کے ساتھ ہمنشینی اختیار کرنا یہ افراد صالح کے بارے میں بھی سوء ظن کا موجب بنتی ہے ‘ اور صالح افراد کے ساتھ آمدورفت رکھنا یہ افراد بدطینت کو بھی صالح محسوب کرنے کا سبب بنتی ہے اور فاسق و فاجر افراد کا نیک و صالح افراد کے ساتھ مجلس اختیار کرنا یہ ایسے افراد کو اچھا شمار کرتی ہے‘ پس تم میں سے اگر کسی کا معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ اپنے دین کو نہ پہچان سکے تو اسے اپنے ساتھیوں کو دیکھنا چاہیے‘ پس اگر وہ اللہ والے ہیں تو وہ بھی دین خدا پر باقی ہے۔ اگر وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی دین پر قائم ہیں تو پس اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس کسی کا اللہ کی توحید اور قیامت پر دل کی گہرائیوں سے ایمان ہے تو ایسا شخص قطعی طور پر کسی کافر سے دوستی نہیں رکھے گا‘ اور کسی فاسق و فاجر شخص سے ہمنشینی اختیار نہیں کرے گا‘ اور اگر کوئی شخص کسی کافر سے دوستی رکھے گا یا اس سے ہمنشینی اختیار کرے گا تو ایسا شخص بھی کافرو فاجر محسوب ہوگا۔
امام رضا کی اہل بیت کے دشمن سے بے زاری
ابن فضال نے آٹھویں امام حضرت رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
ابن فضال کا بیان ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو بیان فرماتے ہوئے سنا:
اگر کوئی شخص ایسے شخص سے دوستی اختیار کرے جو ہم سے قطع تعلق ہوچکا ہے‘ یا ایسے شخص سے قطع تعلق ہو جو ہماری مودّت کے جامِ ولایت پیتا ہو‘ یا کوئی ایسے شخص کی مدح سرائی کرے جو ہمارے عیوب نکالتا ہو‘ یا ایسے شخص کو عزت دار سمجھے جو ہمارا دشمن ہو--- ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے یا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نارِ جہنم سے بچو
ابن فضال روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص نے دشمنانِ خدا سے دوستی کی‘ گویا کہ اس نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی۔ جس شخص نے دوستانِ خدا سے دشمنی کی تو اس نے خداوند بزرگ و برتر سے دشمنی کی‘ تو اللہ تعالیٰ کے لیے سزاوار ہے کہ ایسے شخص کو نارِ جہنم میں داخل کرے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے رویت ہے کہ آپ نے فرمایا:
خدا کی قسم! ہمارا شیعہ وہ ہے جو اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچا کر رکھے‘ اور اپنے اعمال کو خالق کی خوشنودی و رضایت کے لیے انجام دے‘ او اس کے ثواب کا امیدوار ہو اور اس کے عتاب سے خوف زدہ ہو۔
محمد بن عجلان نے کہا کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ اوپر سے ایک شخص آیا اور اس نے سلام کیا۔ امام نے اس سے پوچھا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو کس حال میں چھوڑا؟
اس شخص نے اپنے برادرانِ ابجائی کی مدح سرائی اور پاکیزگی قلب بیان کی۔ اس نے ان کے تزکیہٴ نفس اور طہارت قلبی کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ثروت مند لوگ ان فقراء اور تہی دست لوگوں کی عیادت و تیمارداری کس مقدار میں جاتے ہیں اور ان کے احوال سے کس طرح باخبر رہتے ہیں؟
اس نے کہا: بہت تھوڑے غریبوں‘ فقیروں اور بے سہارا لوگوں کی تیماداری کے لیے جاتے ہیں۔
صادق آلِ محمد نے فرمایا:
ثروتمنت لوگ غریبوں‘ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ کس حد تک مالی ارتباط رکھتے ہیں؟ یعنی کیا امراء غریبوں کی مالی کمک کرتے ہیں؟
اس شخص نے عرض کیا: آپ نے اخلاق اور صفات کے بارے میں پوچھا‘ جب کہ ہمارے لوگوں کے درمیان ایسی صفاتِ حسنہ بالکل ناپید ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
ایسے لوگ کس طرح گمان کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شیعہ ہیں؟
حسن خزاز کا بیان ہے کہ میں نے آٹھویں لالِ ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
ہماری محبت کے بعض دعویدار ہمارے شیعوں کے لیے دجال سے بھی زیادہ ضرر رساں ہیں۔
میں (راوی) نے کہا: فرزند رسول !وہ کیسے؟
آپ نے فرمایا: ہمارے دوستوں سے دشمنی کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں۔ اور جب ایسا ہونے لگے تو حق باطل کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے اور مومن و منافق کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔