يورپ کے موجودہ تمدن کي بنياد، روم کي قديمي تہذيب و ثقافت پر قائم ہے۔ يعني يورپ و مغرب اور اُس کے ذيل ميں امريکي تہذيب و ثقافت پر سر سے پير تک جو چيز مسلط و حاکم ہے، وہ وہي اصول و نکات ہيں کہ جو رومي شہنشاہيت کے زمانے ميں موجود تھے اور وہي اصول و قوانين آج ان ممالک کي ثقافت اور تہذيب و تمدن کا معيار بنے ہوئے ہيں۔ اُس زمانے ميں بھي خواتين کا بہت زيادہ احترام کيا جاتا تھا ، انہيں بہت بلند مقام و مرتبہ ديا جاتا تھا اور مختلف قسم کے زيوراور آرائش وزينت سے انہيں مزين کيا جاتا تھا مگر کس ليے؟ صرف اس ليے کہ مرد کي ايک خاکي و پست اور سب سے زيادہ مادي (اور حيواني وشہوتي) خصلت کي سيرابي کا وسيلہ بن سکے! يہ ايک انسان اور صنف نازک کي کتني بڑي تحقير اور توہين ہے !
ايراني شہنشاہيت کے زمانے ميں ايران بھي بالکل ايسا ہي تھا۔ ساساني سلسلہ بادشاہت کے حرم سراوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے۔ حرم سرا کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟! حرم سرا يعني عورت کي اہانت و تذليل کي جگہ۔ ايک مرد چونکہ قدرت کا حامل ہے لہٰذا وہ خود کو يہ حق ديتا ہے کہ وہ ايک ہزار عورتوں کو اپنے حرم سرا ميں رکھے۔ اُس زمانے کے بادشاہ کي رعايا کا ہر فرد بھي اگر قدرت و توانائي رکھتا تو وہ بھي اپني حيثيت و طاقت کے مطابق ايک ہزار، پانچ سو، چار سو يا دو سو عورتوں کو اپنے پاس رکھتا ۔ يہ واقعات و حقائق عورت سے متعلق کون سے افکار و نظريات کي عکاسي کرتے ہيں؟
کتاب کا نام عورت ، گوہر ہستي
تحریر حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ
ترجمہ سيد صادق رضا تقوي
source : tebyan