اگر کسی نے مستند مقالہ لکھا تو وہ مستقل طور پر " عاشورا خلقت کا راز" کے حصے میں درج کیا جائے گا اور پوری امانتداری سے لکھاری کا نام بھی درج کیا جائے گا۔راہنمائی کے لئے اشارہ:امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنے کے وقت سے لے کر کربلا پہنچنے تک دسیوں مرتبہ اپنے مقاصد بیان فرمائے تھے جن میں احیاء شریعت محمدیہ (ص)، اصلاح امت جد (ص)، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، ظلم اور تحریف اسلام کے خلاف قیام وغیرہ جیسے مقاصد شامل تھے۔ روز عاشور بھی امام حسین اور تین اماموں کے مکتب میں تربیت حاصل کرنے والے عالم و دانشور حضرت عباس علمدار علیہما السلام نے کم از کم دس مرتبہ شامیوں اور ان کے کوفی ساتھیوں سے خطابات فرمائے کیونکہ ہدایتِ انسان خاندان رسالت (ص) کا اولین مقصد تھا اور اگرچہ علی اصغر کی شہادت، عباس علمدار کی پانی پہنچانے سے ناامیدی اور مظلومانہ شہادت، امام حسین علیہ السلام کی رخصتی اور شہادت اور اس کے بعد حرم رسول اللہ (ص) کی صورت حال، خیموں کا جلایا جانا، امام سجاد علیہ السلام کا بیمار ہوجانا، سیدانیوں کو لاشوں کے قریب سے گذارا جانا وغیرہ سب بہت بڑے بڑے غم ہیں، پیاس اور پانی کا بند ہوجانا بھی بہت بڑا غم ہے، خاندان رسول (ص) کی اسیری بھی بہت بڑا غم ہے لیکن امام حسین علیہ السلام سمیت شہداء کربلا اور اسیران دشت نینوا کے لئے ـ جو ان تمام واقعات سے امت کو شعور دینے کا فائدہ اٹھاتے رہے ـ سب سے بڑا غم یہ تھا کہ وہاں کسی نے امام حسین علیہ السلام کی بات نہیں سنی حتی کہ هل من ناصر کا جواب بھی کسی نے نہیں دیا سوائے کمسن عبداللہ بن حسن علیہاالسلام کے جو 10 سال کی عمر میں چچا کی آغوش میں تیر حرملہ کا نشانہ بنے اور اس چھوٹے نواسۂ رسول (ص) کی کیفیت شہادت علی اصغر جیسی تھی فرق صرف یہ تھا کہ علی اصغر (ع) شیرخوار تھے۔ چنانچہ غم سب سے بڑا یہ تھا کہ پیغام امام حسین علیہ السلام نہیں سنا گیا اور دعوت امام حسین علیہ السلام لبیک کی صدا سے آشنا نہ ہوسکی۔ یا یوں کہئے کہ اس صدا سے کسی کو شعور نہیں ملا۔ چنانچہ ہم نے عاشورا کو شعار بنایا؛ ہماری سینہ زنی، ہمارا گریہ جو باعث جنت قرار دیا گیا ـ من بکی او ابکی اور تباکی علی الحسین (ع) وجبت له الجنة ـ ہماری مجالس سب کے سب شعار ہیں جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کی صدا بھی شعار تھی اور مقصد لوگوں کو شعور بخشنا تھا۔ لہذا ہم یہ شعار اٹھا رہے ہیں تا کہ ہمیں بھی اور دیکھنے اور سننے والوں کو شعور ملے۔ شعائر عاشورا میں سب سے زیادہ قدر و منزلت گریہ و بکاء کے لئے عطا ہوئی شاید اس لئے کہ آپ کو روتا دیکھ کر سبب گریہ پوچھا جاتا ہے جس کا اگر آپ بہتر جواب دے دیں تو بہت زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔روایت ہے کہ ایک دفعہ امام سجاد علیہ السلام قصاب کی دکان کے سامنے سے گذر رہے تھے۔ قریب تشریف لے گئے اور قصاب سے دریافت کیا: بھائی! جب آپ بکرا یا دنبہ یا بیل ذبح کرتے ہو تو کیا اس کو پانی دیتے ہو؟قصاب نے کہا: یابن رسول اللہ (ص)! یہ تو ہماری مقدس روایت ہے اور اس پر ہم ضرور عمل کرتے ہیں تو امام (ع) کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ قصائی نے سبب پوچھا تو امام (ع) نے فرمایا: میرے والد کو پانی دیئے بغیر کربلا مین ذبح کیا گیا۔
اسی طرح ہیں ہمارے تمام اعمال جو امام حسین علیہ السلام کی یاد میں انجام دیتے ہیں اور اگر ایسے نہیں ہیں اور ان کا نتیچہ ایسا نہیں ہے تو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
بہرحال آپ بھی اسی اشارے کو بنیاد بنا کر لکھیں تا کہ یہ ایک پیغام بن جائے شعار بن جائے شعور لینے اور دینے کے لئے۔ آیئے اور لکھئے۔
یہ البتہ درست ہے کہ پاکستان کی حد تک تو یہ مسئلہ اب پیچیدہ ہوگیا ہے اور سیکورٹی کے بہانے سڑکوں اور جلوس کے راستوں کو بلاک کیا جاتا ہے چنانچہ ہماری صدا اتنی بڑی بڑی شاہراہوں سے گذر کر بھی کسی تک نہیں پہنچتی اور سڑکیں بند ہونے سے لوگوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ بھی اس شعار سے متأثر ہونے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ بھی ایک پروگرام کا حصہ ہو شعار سے شعور حاصل کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے! ورنہ سیکورٹی کا یہ طریقہ تو نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔
حسن رضا جعفری صاحب لکھتے ہیں:تمام مومنین و مومنات کو السلام علیکم۔ برادران گرامی نے اوپر چند اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے میں کچھ اس میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک پاکستان میں عزاداری کے پیغام کو حقیقی معنوں میں پہنچانے کی بات ہے تو اس سلسلے میں ہمارے منبروں پر ہونے والے وعظ و نصیحت کی تاثیر بہت کم ہے۔ زیادہ تر یہاں پر ذاکرین عظام جو کہ ایک قابل احترام طبقہ ہے، کو تربیت یافتہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خدا محمد و آل محمد کے طفیل شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی حفاظت کرے اور دشمنوں کے ہر شر و فساد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکممیں امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے۔عزاداری سید الشہداء (ع) ایک شعار ہے جو انسان کو شعور بخشتا ہے جو انسان کو حق و باطل میں تمیز کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے۔ کربلا وہ ابدی پیغام ہے جو انسان کو حُرّ بنانی کی طاقت رکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عزاداری کو روایتی حدود تک محدود نہ ہونے دیا جائے۔آج پاکستان میں عزاداری کے پیغام میں ہونے والی معنوی اور لفظی تحریفات میں سے جس تحریف نے زیادہ نقصان پہنچایا وہ الفاظ کی تحریف ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔والسلام
لیاقت علی مرتضوی لکھتے ہیں:
حضرت امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے عراق کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا: قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ علی بصیرة، کہو یہی میرا راستہ ہے کہ میں خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور دعوت الی اللہ کا معیار بصیرت کی بنیاد پر ہے۔ یہ آیت شریفہ جو امام عالی مقام کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے، اس بات کی ترجمانی کرتی ہے کہ امام کا قیام شعور، بیداری اور بصیرت کی بنیاد پر ہے۔ پس ہماری عزاداری بھی شعور کی بنیاد پر ہونی چاہئے اور دنیا والوں کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ ہماری عزاداری ، ماتم اور مجالس امام عالی مقام کے اس بنیادی نکتے کی ترجمانی کرتی ہیں۔
احمد علی صاحب نے لکھا:کربلا ہمیں اصول دین پر اعتقاد اور فروع دین پر عمل کرنا سکھاتی ہے۔ در اصل میں یہ سمجھتا ہوں کہ کربلا اصول دین اور فروع دین کی مکمل تشریح ہے بس مسلمان ان پر عمل کرنے کے لئے عزاداری مظلوم کربلا نہ چھوڑیں چاہے اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔