الٰہي نمائندوں اورآسماني راہنماۆں نے ديني حکومت قائم کرنے کي آخري سانسوں تک کوشش کي ہے- اورظلم و ستم سے بشريت کو نجات دلانے کے ليے کچھ قوانين مقرر کيے ہيں - امام علي (ع) کي شہادت کے بعد بني اميہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامي حکومت استعماري حکومت ميں تبديل ہو گئي- حکام نے اسلامي خليفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا ليا-
سماج ميں طبقہ بندي شروع گئي حضرت علي(ع) کے چاہنے والوں کو تمام اسلامي اور سماجي حقوق سے محروم رکھا جانے لگا- شعيوں پر زندگي نہات تنگ کر دي گئي- علي (ع) اور ان کے خاندان سے محبت عظيم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شيعوں کي محروميت کا سبب بن گيا- معاويہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئي کام نہيں تھا- مختصر يہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستي سے مٹانے کي سازش رچائي گيئ-
بعض لوگ اشکال کرتے ہيں کہ کيوں امام حسين (ع) نے زندگي کو خطرے ميں ڈال ديا اور حکومت کے ساتھ صلح نہيں کي؟
مگر چين کي زندگي کياہے؟ راحت کي زندگي الٰہي رہبروں کے نزديک يہ ہے کہ معاشرہ چين سے زندگي گذارے- لوگ اپني زندگي پر راضي ہوں- آزادي ہو ظلم وستم نہ ہو- قومي اور طبقاتي تعصب نہ پايا جاتا ہو-
امام حسين (ع) اس وقت آرام کي زندگي گذار سکتے ہيں کہ لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں اور لوگ اپنے مذہب پر آزادي سے عمل پيرا ہو سکيں نہ يہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کيا جائے اور وہ تنگ ماحول ميں زندگي گذار رہے ہوں ايسا ہر گز نہيں ہونا چاہيے کہ ايک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کي زندگي جي رہا ہو اور خوشيوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ايک لقمہ نان کے ليے ترس رہا ہو-
حسين (ع) اس کا بيٹا ہے جسے ہميشہ بے کسوں اور بے بسوں کي فکر لاحق رہتي تھي- اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے ميں کوشاں رہتا تھا- راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر حمل کرتا تھا اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتا تھا اور کبھي بھي ايک ساتھ دوقسم کي غذا تناول نہيں کي-اور فرماتے تھے: ميں کيسے نيا لباس پہنوں اور پيٹ بھر کے کھانا کھاۆں حالانکہ ممکن ہے اسلامي ممالک ميں کوئي بھوکا اور برہنہ ہو-
source : tebyan