گذشتہ مباحث سے یہ بات واضح ھوگئی ھے کہ انبیاء ، راہ راست کی طرف بشر کی راھنمائی کے لئے بھیجے گئے ھیں۔ یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ انبیاء، نجات انسان کو کس شےٴ میں دیکھتے ھیں یعنی ایک انسان کس طرح نجات و کمال حاصل کرسکتا ھے؟ کیا انبیاء کے مدنظر فقط جھان آخرت ھی تھا، دنیاوی زندگی کی طرف کوئی توجہ نھیں تھی؟ آیا ان کا حقیقی ھدف معاشرے میں عدل و انصاف کو برپا کرنا اور کلی طور پر دنیاوی زندگی کو آباد کرناتھا اس معنی میں کہ اخروی زندگی کی حیثیت ان کی نگاہ میں فرعی اورثانوی تھی؟ یا پھردنیاوی اور اخروی دونوں زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ ان کی نگاہ میں اھم اور ان کا حقیقی وواقعی ھدف تھیں؟
مذکورہ سوالات کا صحیح جواب درج ذیل مقدمات کے ذریعہ باآسانی واضح ھوجائے گا:
۱) انسان کی دنیاوی زندگی اس کی اخروی زندگی کے مقابل بے انتھا مختصر اور کوتا ہ ھے اسی طرح جس طرح ایک کروڑ کے سامنے ایک ھزار کی کوئی حیثیت نھیں ھوتی جب کہ ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ انسانی زندگی ایک ھزار سال توبھت دور بلکہ بسا اوقات سو سال کی بھی نھیں ھوتی اور اس کے مقابلے میں اخروی زندگی کی نہ کوئی حدھے اور نہ کوئی شمارش۔
۲) مذکورہ بالا گفتگو کے مد نظر یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ اگر دنیاوی کمال وفلاح اور نجات کا اخروی زندگی کے کمال وفلاح و نجات سے تقابل کیا جائے تو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی کمال لایعنی اور بے معنی ھے اور اصلاً ان دونوں کو ایک ساتھ قرار نھیں دیا جاسکتا نیز نہ ھی دنیا وی زندگی کو اصل وحقیقی اور اخروی زندگی کو فرعی اور ثانوی فرض کیا جاسکتاھے۔
۳) لھٰذا، انبیاء کا حقیقی ھدف یہ ھے کہ انسان کو ایسی راہ کی طرف رھنمائی کریں جو اس کو سعادت وکمال اخروی کی صرف لے جائے۔
۴) قرآن کریم کی آیتوں کے پیش نظر فقط قرب خدا اور اس کی باگاہ میں سربسجود ھوجانا ھی انسان کی سعادت و کمال کا باعث وضامن بن سکتا ھے۔کمال انسان صرف عشق خدا اور قرب خدا ھی میں پوشیدہ ھے۔
۵) لیکن یہ بات بھی پیش نظر رھے کہ انسان کا یہ انتھائی اور اخروی کمال نہ یہ کہ دنیاوی زندگی میں سد باب بنتا ھے بلکہ درحقیقت دنیاوی زندگی کا حقیقی کمال بھی اسی کمال پر موقوف ھے یعنی اگر انسان راہ قرب خدا میں قدم اٹھا لے تو اس کی آخرت تو کامیاب ھو گی ھی دنیا بھی جنت نظیر ھوجائے گی کیونکہ اس صورت میں دنیا سے ظلم ، ناانصافی اورفتنہ و فساد وغیرہ کا سرے سے خاتمہ ھوجائے گا۔
۶) اگر آیات قرآن مجید میں مزید غور کیاجائے تو یہ بھی واضح ھو جاتا ھے کہ انبیاء، انسان کواس کے کمال اور اس کے حقیقی مقام و منصب تک پھونچانے کے لئے ظالموں اور ستمگروں سے مقابلہ نیز عدل و انصاف بر قرار کرنے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے کیونکہ اگر معاشرے پر کسی عادلانہ نظام کی حکومت نہ ھو تو قرب خدا کا یہ سفر بھت مشکل ھوجائے گا اور اسے بھت سے موانع کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یھیں سے سورہٴ حدید کی گذشتہ سطور میں مذکورپچیسویں آیت کا مفھوم بھی نمایا ںھوجاتا ھے۔
غرض یہ کہ انبیاء کی آمد کا حقیقی وواقعی ھدف اور غرض وغایت یہ ھے کہ لوگوں کوخدا پر اعتقاد وایمان ، اس کی عبادت و پرستش ، قرب خدا نیز اس کے حضور میں تسلیم محض ھوجانے کی طرف دعوت دیں اور اس طرف راغب کریں۔ یھی وہ مسلمہ حقیقت ھے جو تمام آسمانی ادیان کا لب لباب ھے۔
<ان الدّین عنداللہ الاسلام>
خدا کے نزدیک بھترین دین ، اسلام ھے۔
لیکن یہ بات مد نظر رھے کہ مذکورہ ھدف صرف اور صرف عدالت اجتماعی کی برقراری، اخلاقی اقدار کی محافظت اور انسانی صفات کی حفاظت کے ساتھ ھی حاصل کیا جاسکتا ھے اور اس کی رسائی کے ذریعہ انسان نہ فقط آخرت میں بلکہ اس دنیا میں بھی کمال ونجات حاصل کرسکتا ھے نیز ھمہ جھت ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں کامیاب بھی ھوسکتا ھے۔
source : tebyan