اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

مغرب ميں عشق کا غروب اور ہمدردي و مہرباني کا فقدان

آج کل مغربي ممالک ميں جس چيز کا مشاہدہ کيا جا رہا ہے وہ اپنے تشخص سے بے خبر نسل کي حيراني و سرگرداني سے عبارت ہے کہ جہاں ايک ہي شہر ميں رہنے والے ماں باپ سالہا سال اپني اولاد سے بے خبر ہيں تو دوسرے شہروں کي بات چھوڑ ديجئے ! ايسا ماحول کہ جہاں خاندانوں کا شيرازہ بکھرا ہوا ہے اور لوگ تنہا ہيں (يہ ہیں اس معاشرے کي خصوصيات) ۔

اپنے پاس موجود چيزوں کي قدر شناسي اور سپاس گزاري کي حس کي تقويت کے لئے ايک درمياني راستہ بھي موجود ہے ارو وہ ان لوگوں کو بغور ديکھنا اور مشاہدہ کرنا ہے ۔جو ان چيزوں سے يکسر محروم ہيں يا کم بہرہ مند ہيں ۔

اپنے پاس موجود اس نعمت عظميٰ کے شکرانے کے لئے کتنا ہي بہتر ہو کہ ہم ان معاشروں پر نگاہ ڈاليں کہ جنہوں نے خداوند عالم کي اس بڑي اور عظيم نعمت کو ہر ايرے غيرے کي باتيں سننے اور دل کے فريب کھانے سے گنوا ديا اور آج اس گناہ کبيرہ کے عذاب کا تازيانہ ان کے مايوس اور افسردہ چہروں پر مارا جا رہا ہے ۔

جي ہاں ہم ’’مغرب‘‘ کي ہي بات کر رہے ہيں !

يعني وہ تاريک سر زمين کہ جس کے باسيوں کے آسمانِ زندگي سے خورشيدِ عشق کب کا رختِ سفر باندھ چکاہے اور ان کي ترستي ہوئي آنکھوں ميں ’’مہرباني و محبت کے‘‘ ايک ايک قطرے کي تمنا کو بخوبي مشاہدہ کيا جا سکتا ہے ۔

خانداني نظام کے شيرازے کا بکھرنا دراصل غضب الٰہي کا وہ طوفان ہے کہ جس نے اس غربت کدے کے باشندوں سے خوش بختي کو چھين ليا ہے ۔

ہم ان کے لئے ہمدردي اور انسان دوستي کے جذبات رکھتے ہيں،

کاش ان کے لئے کوئي کام کيا جا سکتا!

ليکن بہت دير ہو چکي ہے ۔ اب بہتر يہ ہے کہ ہم اپني فکر کريں

اور ’’خانداني حرمت‘‘ کا پاس نہ رکھنے والوں اور اپني بے لگام شيطاني شہوت کے نيزوں سے اپني سعادت و خوش بختي کو زخمي اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کے حالات سے عبرت ليں ۔

وہ ہم سے حسد کرتے ہيں اور حاسد کے حسد سے ڈرنا اور خدا کي پناہ طلب کرني چاہيے ۔

’’وَمِنْ شَرٍّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ‘‘ ١

اور ميں حاسد کے شر سے اللہ کي پناہ کا طالب ہوں کہ جب وہ حسد کرے ۔

مغرب کے ظاہر پر پڑے ہوئے خوبصورت دبيز پردوں کو ہٹا کر اِس ’’حادثے‘‘ کي حقيقت تک پہنچنا آسان نہيں ہے ۔

اہلِ مغرب کا کسي بھي واقعے و حقيقت کو چھپا کر اُسے مصنوعي زينت و آرائش دينے، خبروں کو سنسر کرنے اور اپني تباہ شدہ زندگي کے عوامل و اسباب کو چھپانے کا اُن کا ’’ہنر‘‘ زبان زد خاص و عام ہے ۔

اس کے لئے نگاہ عميق اور ديد روشن کي ضرورت ہے تا کہ اِس ’’حادثے‘‘ کي حقيقت سے پردہ اٹھائے ! اور اس کام کے ليے ہمارے ہر دلعزيز رہبر سے زيادہ موزوں اور کون ہے؟ !

-----------

١ سورہ فلق ٥

اپنے تشخص سے بے خبر نسل

آج کل مغربي ممالک ميں جس چيز کا مشاہدہ کيا جا رہا ہے وہ اپنے تشخص سے بے خبر نسل کي حيراني و سرگرداني سے عبارت ہے کہ جہاں ايک ہي شہر ميں رہنے والے ماں باپ سالہا سال اپني اولاد سے بے خبر ہيں تو دوسرے شہروں کي بات چھوڑ ديجئے ! ايسا ماحول کہ جہاں خاندانوں کا شيرازہ بکھرا ہوا ہے اور لوگ تنہا ہيں (يہ ہیں اس معاشرے کي خصوصيات) ۔

يورپي اور امريکي ممالک ميں بے شوہر عورتوں اور بغير بيوي والے مرد حضرات کے اعداد و شمار بہت زيادہ ہيں کہ جس کانتيجہ والدين کي شفقت سے محروم، آوارہ اور جرائم کا پيش خيمہ بننے والے بچوں کي صورت ميں نکلتا ہے اور وہاں جرم و گناہ کي فضا حاکم ہے ۔ يہ خبريں جو آپ سنتے ہيں کہ کسي اسکول، روڈ يا ريل گاڑي ميں ايک لڑکا سامنے آ کر اچانک لوگوں کو قتل کرنا شروع کر ديتا ہے اور کئي لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار ديتا ہے، ايسے ايک يا دو واقعات نہيں ہيں ۔ دوسري جانب جرائم انجام دينے والے افراد کے سن و سال کا گراف بھي نيچے آ رہا ہے ۔ پہلے بيس سالہ نوجوان جرائم ميں ملوث تھے ليکن اب سولہ سترہ سال کے لڑکے انہي جرائم کا ارتکاب کر رہے ہيں ۔ بلکہ اب تو امريکہ ميں تيرہ چودہ سالہ بچے بھي يہ کام انجام دے رہے ہيں اور بہت آساني سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار ديتے ہيں ۔ ايک معاشرہ جب اس منزل پر پہنچ جائے تو گويا اس معاشرے کا شيرازہ بالکل بکھر گيا ہے اور اس بکھرے ہوئے معاشرے کو دوبارہ جمع کرنا تقريباً غير ممکن ہے ۔

مغرب کا گناہ ِ کبيرہ

دنيائے مغرب کي سب سے بڑي مشکل خانداني مسائل اور گھريلو نظام زندگي سے بے توجہي برتنا ہے ۔ اہل مغرب اپنے خانداني نظام زندگي کي حفاظت ميں ناکام ہو گئے ہيں ۔ مغرب ميں خاندان يا گھريلو نظام زندگي، اجنبيت، بے اعتنائي اور تحقير و اہانت کا شکار ہے ۔ اہل مغرب کي يہي مشکل ان کي تہذيب و تمدن کو ديمک کي مانند آہستہ آہستہ چاٹ کر کھوکھلا کر رہي ہے اور صنعتي اور علمي پيش رفت کے با وجود مغرب ہلاکت و نابودي کي طرف گامزن ہے ۔

عالم بشريت کے لئے مغربي تمدن کا سب سے بڑا گناہ يہ ہے کہ اس نے شادي اور خاندان کي تشکيل کو لوگوں کي نگاہوں ميں سبک اور ہلکا اور ايک لباس بدلنے کي مانند کر ديا ہے ۔ يہ ہے ان کے يہاں مياں بيوي کي زندگي کا تصور۔

وہ ممالک کہ جن ميں خانداني نظام زندگي ضائع اور برباد ہو رہا ہے حقيقت ميں اُن کي تہذيب و ثقافت کي بنياديں لرز رہي ہيں اور آخر کار يہ تباہ و برباد ہو جائيں گي ۔

نہ اُنس و محبت ، نہ شوہر اور نہ

دنيائے مغرب ميں باوجوديکہ بہت سي حکومتيں علم و ثروت اور مضبوط سياست کے لحاظ سے غني ہيں ليکن خانداني نظام زندگي ميں وہاں کے باشندوں کي زندگي بہت افسوسناک ہے ۔ ہمارے يہ خانداني اجتماعات اور تقريبات کہ جہاں خاندان کے بڑے چھوٹے سب ايک جگہ جمع ہوتے ہيں، ايک دوسرے سے محبت کرتے ہيں، مہرباني، ہمدردي اور محبت نے انہيں تسبيح کے دانوں کي مانند ايک جگہ جمع کيا ہوا ہے، يہ ايک دوسرے سے مکمل تعاون کرتے ہيں ، ايک دوسرے کي احوال پرسي کرتے اور دوسروں کو اپني ذات کا حصہ سمجھتے ہيں، اخوت و بھائي چارگي کے ساتھ رہتے ہيں اور باہم شير و شکر ہو جاتے ہيں ۔ يہ چيزيں ہمارے معاشرے ميں بہت عام نوعيت کي ہيں اور رائج ہيں ۔ ليکن مغرب ميں ان چيزوں کا دور دور تک کوئي نام و نشان نہيں ہے ۔ کتني ہي خواتين تنہا زندگي بسر کرتي ہيں ۔ اکيلي رہنے والي عورت اپنے خاندان سے دور ايک اپارٹمنٹ ميں زندگي بسر کرتي ہے، صبح کام کے لئے نکلتي ہے تو جب بھي تنہاہوتي ہے اور جب رات کو تھکي ہاري گھر لوٹتي ہے تو کوئي نہيں ہو تا کہ جو دن بھر کے اس کے خستہ بدن کي تھکاوٹ اور روح کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لئے اس کا استقبال کرے صرف گھر کي تنہائي ہي اس کا استقبال کرتي ہے ۔ نہ انس و محبت، نہ کوئي شوہر، نہ کوئي بچہ، نہ کوئي پوتا يا نواسا اور نہ کوئي اور جو گرم جوشي سے اسے گھر ميں خوش آمديد کہے ۔ اس معاشرے ميں لوگ اجتماع ميں بھي رہتے ہوئے تنہا ہيں ۔ ايسا کيوں ہے؟ اس لئے کہ وہاں کے معاشرے ميں خانداني نظام زندگي فراموش کر ديا گيا ہے ۔

بہت افسوسناک بات ہے کہ آج مغرب ميں خانداني نظام زندگي آہستہ آہستہ رُو بہ زوال ہے اور اس کے آثار ميں اپني ثقافت اور تہذيب و تمدن سے لا عملي، اپنے تمدني تشخص سے بے خبري اور گناہ و جرائم قابل ذکر ہيں کہ جن ميں وہاں کے عوام گرفتار ہيں ۔ روز بروز ان ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کي بچي ہوئي جمع پونجي بتدريج ختم ہو رہي ہے ۔

جنسي آزادي اور خانداني نظام کي تباہي

مغرب ميں خصوصاً امريکہ اور شمالي يورپ کے بعض ممالک ميں يہ بات مشہور ہے کہ خانداني نظام کي بنياديں بہت کمزور ہيں، کيوں؟ اس کا سبب يہ ہے کہ وہاں جنسي آزادي اور جنسي بے راہ روي بہت زيادہ ہے ۔ جب کسي معاشرے پر بے غيرتي اور بے عفتي اپنے سياہ پروں کو پھيلا دے تو اس کا مطلب ہے کہ مياں بيوي (مرد و عورت) اپني اس جنسي ضرورت و خواہش کو گھر کے علاوہ کہيں اور سے پورا کريں گے ۔ ايسے ماحول ميں ’’خاندان‘‘ ايک بے معنيٰ لفظ، معاشرے پر ٹھونسي ہوئي چيز اور ايک ڈيکوريشن پيس (نمائشي چيز) ہے لہٰذا ايسے ماحول ميں وہ لوگ مہرباني، ہمدردي اور ايک دوسرے کے لئے غمخواري کے جذبات کے لحاظ سے ايک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہيں ۔ اگرچہ کہ ظاہري طور پر ان ميں کسي قسم کي جدائي نہيں ہوتي ليکن حقيقتاً ان ميں پيار و محبت کے تمام رشتے ختم ہو جاتے ہيں ۔

اگر انسان آزاد ہوتے کہ جس طرح چاہيں اپني جنسي خواہش کو پورا کريں تو گويا گھرانہ ہي تشکيل نہيں پاتا يا وہ کوئي ايک بيکار، پوچ و تُہي، حملوں کي آماجگاہ اور جلد ويران ہونے والي کوئي چيز ہوتي کہ جسے ہر ہوا کا جھونکا لرزا ديتا۔ لہٰذا آپ دنيا ميں جہاں بھي جنسي آزادي کے نمونے ديکھيں گے تو وہاں کے خانداني نظام اور گھرانوں کو اسي نسبت سے ضعيف و کمزور پائيں گے ۔ کيونکہ اس کي وجہ يہ ہے کہ اس ماحول ميں مرد و عورت کو اپني جنسي خواہش کي سيرابي کے لئے کسي ايسے ’’مرکز‘‘ کي ضرورت نہيں ہے ۔ ليکن جہاں ديني حکومت ہے اور جنسي آزادي اور بے راہ روي نہيں ہے وہاں تمام چيزيں مرد و عورت کے لئے ہيں اور اس ديني ماحول ميں خانداني نظام زندگي کي حفاظت کي جاتي ہے ۔

مصنوعي عشق

علم و تمدن کے لحاظ سے زيادہ ترقي يافتہ بعض ممالک ميں رہنے والے لوگوں پر زندگي اس طرح مسلط ہے کہ ايک ہي گھر ميں رہنے والے افراد آپس ميں بہت کم ميل ملاپ رکھتے ہيں ۔ باپ ايک جگہ ملازم، ماں دوسري جگہ کام ميں مشغول، نہ ايک دوسرے سے ملاقات کر پاتے ہيں اور نہ ايک دوسرے کے لئے غذا تيار کرتے ہيں ۔ ايک چھت کے نيچے رہنے والے مياں بيوي نہ آپس ميں محبت و چاہت سے پيش آتے ہيں اور نہ ايک دوسرے کي غمخواري کرتے ہيں، نہ ايک دوسرے کي دل جوئي کرتے اور ڈھارس با ند ھتے ہيں اور نہ ہي آپس ميں ان کو واقعي کوئي کام ہوتا ہے ۔ ايسے ماحول ميں يہ اپنے بچوں کے ماہرين نفسيات کي تجويز پر عمل کرنے کے لئے آپس ميں طے کرتے ہيں کہ فلاں معين وقت پر گھر آئيں اور آپس ميں مل بيٹھيں ۔ صرف اور صرف اس لئے کہ ايک چھوٹي سي محفل سجائيں کہ جو صحيح و سالم گھرانوں ميں خود بخود اپنے وجود سے زندگي کو شيريں بناتي ہے ۔ ليکن يہ لوگ بناوٹي اور مصنوعي طور پر ايسي محفل سجاتے ہيں ۔ اس وقت مرد يا عورت مسلسل اپني گھڑي کي طرف ديکھتي رہتي ہے کہ يہ گھنٹہ کب ختم ہو گا؟ کيونکہ مثلاً اسے دو بجے کہيں اور پہنچنا ہے ۔ نہ اس طرح کوئي گھريلو محفل سجائي جا سکتي ہے اور نہ ہي ايسي محفل و گھر ميں بچے انس و محبت کا احساس کر پاتے ہيں ۔

ايسے خاندان، پيار و محبت کي گرمي سے محروم ہيں يا يوں کہا جائے تو زيادہ بہتر ہو گا کہ (وہ مادي آسائش کے لحاظ سے تو ايک بہترين گھر ہے ليکن اس گھر ميں) خانداني نظام يا گھرانہ وہاں موجود ہي نہيں ہے ۔ صحيح ہے کہ يہ مياں بيوي ايک ہي چھت کے نيچے زندگي بسر کرتے ہيں ليکن در حقيقت ان کے دل ايک دوسرے سے جدا ہيں ۔ نہ گھر کے افراد کا ساتھ اٹھنا بيٹھنا، نہ گھر کي فضا ميں وہ محبت کي ٹھنڈک اور نہ ايک دوسرے کي نسبت انس و الفت، کچھ بھي تو نہيں ہے اور جہاں مياں خود کو بيوي کي ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور بيوي خود کو شوہر کي شريکہ حيات اور ہمدرد و مونس سمجھے، ان چيزوں کا تو سرے سے ہي وجود نہيں ہے ۔ ان کي زندگي گويا ايسي ہے کہ جيسے دو اجنبي شخص ايک قرارداد کے مطابق صرف ايک چھت کے نيچے زندگي گزارتے ہوں اور تو اور اس کا نام بھي عشق رکھ ديا جاتا ہے !

مغربي تمدن کے مطابق شادي کے برے نتائج

مغربي معاشروں ميں نوجوان اپني نوجواني کے پر نشاط زمانے کو بغير کسي قيد و شرط کے گزارتے ہيں، اپنے جلد بھڑکنے والے احساسات کے پيچھے دوڑتے اور اپني فطري و جبلّي خواہشات کو آزادانہ طور پر پورا کرتے ہيں ليکن جب وہ گھر تشکيل دينے اور رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے سن و سال کو پہنچتے ہيں تو ان کي ان فطري و جبلّي خواہشات اور طبيعي ميل کا بہت زيادہ حصہ (جو جواني کي آزاد فضا ميں خواہشات کي تکميل کے ذريعے اپنے حصے کا کام کر کے) ٹھنڈا ہو چکا ہوتا ہے ۔ وہ شوق، محبت اور عشق و الفت جو مياں بيوي کي روح ميں ايک دوسرے کے لئے موجود ہونا چاہيے، ان ميں نہيں ہوتا يا کم ہوتا ہے ۔

بہت سے افراد اپني شادي کے زمانے کو اپني درمياني عمر ميں گزارتے ہيں کہ جو مغرب اور ان کي تہذيب و تمدن ميں ايک معمول ہے ۔ ان کا يہ اقدام بھي ان کے اکثر فرضيوں اور فيصلوں کي مانند غلط، انساني مصلحت و فطرت کے خلاف ہے اور اس چيز سے جنم ليتا ہے کہ يہ لوگ شہوت پرستي، خواہشات نفس کي پيروي اور بے بند و باري کي طرف مائل ہيں ۔ يہ لوگ چاہتے ہيں کہ اپني جواني کو خود ان کي اپني اصطلاح کے مطابق ہنسي خوشي گزاريں، اپني خواہشات کو جس طرح چاہيں سيراب کريں، خوب رنگ رنگيلياں اور مزے کريں اور جب ٹھنڈے اور تھک کر چور ہو جائيں اور (خدا کي طرف سے دي گئي) ان کي خواہشات کي (قدرتي) آتش خاموش ہو جائے تو اس وقت گھر بسانے کي فکر کريں ۔ ملاحظہ کيجئے کہ يہ ہے مغرب ميں خانداني نظام زندگي ۔ بہت زيادہ طلاقيں، ناکام شادياں، بے وفا مرد و عورت، جنسي آزادي کے نتيجے ميں ہونے والي بے شمار خامياں، برے نتائج اور غيرت و مروّت کي کمي يہ سب مظاہر مغربي معاشرے ميں زندگي کي عکاسي کرتے ہيں ۔

مغرب، سقوط کے دھانے پر !

اگر آپ آج مغرب کے بعض معاشروں پر نگاہ ڈاليں خصوصاً وہ معاشرے جو ٹيکنالوجي ميں پيشرفت اور صنعتي ترقي کے پھيلے ہوئے رابطوں کے جال ميں پھنسے ہوئے ہيں تو آپ ديکھيں گے کہ وہاں کي آلودگي ميں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ بد اخلاقي اور گناہ و جرائم کي آلودگي اگر کسي معاشرے کے صاف آسمان کو مکدّر اور دھندلا بنا دے تو وہ ان کي صاف و شفاف فضا کو آلودہ بنا کر تازہ ہوا ميں سانس لينے اور صحت مند زندگي گزارنے کا حق ان سے چھين کر اور انہيں ہلاک و نابود کر دے گي ۔ يہ بد اخلاقي اور گناہ و جرائم کي آلودگي زلزلے يا سيلاب کي مانند ايک دم آنے والي بلائيں نہيں ہيں بلکہ يہ تدريجي آفات ہيں اور يہ سب نا قابل علاج ہيں ۔ يہ وہ بلائيں ہيں کہ جب کسي معاشرے پر نازل ہوتي ہيں تو لوگ انہيں ايک دم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہيں، يہ آفات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ ميں آتي ہيں ۔ جب بيماري پوري طرح روح کي گہرائيوں ميں اپنا وار کر چکي ہوتي ہے اور اس کا زہر پوري روح کو زہريلا بنا چکا ہوتا ہے تو يہ اس وقت سمجھ آتي ہے ۔ ليکن اس وقت سمجھنے سے کيا فائدہ کہ جب چڑياں کھيت چگ جائيں ۔ ايسے وقت ميں نہ کوئي تدبير کام آتي ہے اور نہ کوئي علاج موثر ہوتا ہے ! آج مغربي معاشرے اسي سمت بہت تيزي سے حرکت کر رہے ہيں يعني وہ سقوط اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں ۔ ان سب کي وجہ يہ ہے کہ اس معاشرے کے لڑکے لڑکياں مناسب سن و سال ميں کامياب اور مستحکم و پائيدار شاديوں کے لئے اقدامات نہيں کرتے ۔ اس کے علاوہ وہاں کے خاندانوں اور گھرانوں کي فضا محبت سے سرشار نہيں ہے ۔

آج مغرب ميں ’’گھرانے‘‘ کي بنياديں کمزور ہو چکي ہيں، گھروں کو دير سے بسايا جاتا ہے اور وہ جلد ٹوٹ جاتے ہيں ۔ برائياں، گناہ اور جرائم ميں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر يہ آفات پورے معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليں تو وہ معاشرہ بڑي بڑي بلاوں کا شکار ہو جائے گا۔ البتہ اس بات کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ يہ بيمارياں اور آفتيں ايسي نہيں ہيں کہ پانچ يا دس سال ميں ظاہر ہو جائيں ليکن کئي سالوں کے گزرنے کے بعد جب ان کے اثرات ظاہر ہوں گے تو اس معاشرے کو مکمل طور پر ہلاک اور اس کي تمام علمي، فکري اور مادي دولت و ثروت کو نابود کر د يں گے ۔ يہ ہے بہت سے مغربي ممالک کا مستقبل !

در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، سکون کي تلاش

آج آپ امريکہ اور يورپي دنيا کو ديکھئے کہ يہ لوگ کتنے اضطراب اور پريشاني ميں ہيں، کتني نا آرام زندگي گزار رہے ہيں، سکون و آرام کے لئے کتنے سرگرداں اور حيران ہيں اور ان کے معاشرے ميں مصنوعي سکون دينے والي گوليوں اور خواب آور دواوں کا استعمال کتنا زيادہ ہے ! نوجوانوں کو ديکھئے کہ وہ کتنے غير معقول کام انجام ديتے ہيں، بڑے بڑے بے ترتيب بال، تنگ اور بدن سے چپکے ہوئے لباس، يہ سب اس لئے ہے کہ وہ اپنے معاشرے کي موجودہ حالت سے ناراض ہيں اور اپنے غصے کا اظہار کرتے ہيں ۔ ان کي خواہش ہے کہ وہ آرام و سکون کو حاصل کريں، ليکن اسي حسرت ميں ناکام مر جاتے ہيں ١۔ بوڑھے مرد اور بزرگ خواتين اپنے لئے بنے ہوئے خاص مراکز ميں دم توڑ ديتے ہيں، نہ ان کے بچے ان کے پاس ہيں اور نہ ان کي بيويوں کو ان کي کوئي خبر ہوتي ہے ۔ مياں بيوي ايک دوسرے سے دور ہيں ۔

مغرب ميں ايسے بچوں کي تعداد بہت زيادہ ہے کہ جو يہ نہيں جانتے کہ ان کے والدين کون ہيں؟ وہاں ايسے مرد و خواتين کي تعداد بھي بہت زيادہ ہے کہ جو اسماً اور ظاہراً مياں بيوي تو ہيں ليکن کئي سالوں سے ايک دوسرے سے بے خبر ہيں ۔ بہت کم خواتين مليں گي جو آسودہ خيال ہوں کہ زندگي کے آخري لمحات يا بڑھاپے تک وہ اپنے شوہر کے ساتھ باہم زندگي گزاريں گي يا ان کے مرد کا سايہ ان کے سروں پر موجود رہے گا۔ اسي طرح ايسے مردوں کي تعداد بھي بہت کم ہے کہ جو آسودہ خاطر ہوں کہ ان کي بيوياں کہ جن سے وہ محبت کرتے ہيں، کل ان کو چھوڑ کر کسي اور کي تلاش ميں نہيں جائيں گي !

کانوں پر جُوں تک نہيں رينگتي !

خود امريکہ کے اندر لوگوں حتيٰ بچوں ميں بھي مختلف قسم کي اخلاقي اور جنسي برائيوں اور جرائم وغيرہ کے بڑھنے کي شرح بہت زيادہ ہے ۔ مغرب کے مطبوعات اور دانشمند حضرات فرياد بلند کر رہے ہيں، مقالے تحرير کر رہے ہيں، گفتگو کا سلسلہ جاري ہے اور (لوگوں اور حکومت کو) خبردار کيا جارہا ہے ۔ ليکن کسي کے کان پر جوں تک نہيں رينگتي، گويا ان تمام مسائل کا کوئي علاج نہيں ہے ! جب صورتحال يہ ہو کہ بنياد ہي خراب کر دي جائے اور اسي حالت ميں تيس، چاليس يا پچاس سال گزر جائيں تو لوگوں کو خبردار کرنے،ايسي صورتحال کے خلاف فرياد بلند کرنے اور کسي سياسي تدبير سے يہ مشکلات حل نہيں ہوں گي ۔

مغربي معاشرے ميں خوش بختي رختِ سفر باندھ چکي ہے ۔ يہ کوئي (بے وزن) بات نہيں ہے کہ جو ميں بيان کر رہا ہوں بلکہ يہ وہ حقائق ہيں کہ جو آج خود ان کے مفکرين، دانشمند، سينے ميں دل رکھنے والے، صاحبان فہم و فراست نہ کہ (اقتدار کے طالب) سياستدان، اور معاشرے کے اندر زندگي بسر کرنے والے (اور ان حقائق کا بغور مشاہدہ کرنے والے) افراد بيان کر رہے ہيں اور آج ان کي فرياد بلند ہو رہي ہے ۔ آخر کيوں؟ اس لئے کہ اس معاشرے ميں سعادت مند زندگي گزارنے کے کوئي وسائل موجود نہيں ہے ۔ خوش بختي اور سعادت عبارت ہے آرام و سکون، سعادت اور امن و امان کے احساس سے (جو دور دور تک وہاں نہيں پائي جاتي) ۔

١ ان ميں سے اکثر نوجوانوں کو يہ خود نہيں معلوم کہ وہ ايسے بہت سے کام کيوں اور کس لئے انجام ديتے ہيں؟ ان کي زندگي کا مقصد انہيں يہي بتايا جاتاہے کہ اچھا کھانا، پہننا، سونا اور عيش، سارے ہفتے کام اور ويک اينڈ پر عياشي اور ذہني تفريح۔ يہ ہيں ان کے بے مقصد دن اور بے ہدف اور سکون سے خالي راتيں ! (مترجم)

جو افراد بھي بين الاقوامي صورتحال اور افکارِ عالم سے واقف ہيں وہ جانتے ہيں کہ تمام ممالک خصوصاً امريکہ سے البتہ يورپي ممالک بھي اس ميں شامل ہيں، خير خواہ مصلح اور فہم و ادراک رکھنے والے افراد کي فرياد بلند ہو گئي ہے کہ آو مل کر کوئي چارہ جوئي کرتے ہيں ۔ البتہ اتني آساني سے وہ کوئي فکر و تدبير اور چارہ جوئي نہيں کر سکتے اور اگر فکر کرنے ميں انہيں کاميابي حاصل ہو بھي جائے تو بھي وہ اتني آساني سے علاج ميں کامياب نہيں ہو سکتے ہيں ۔

غلط اہداف اور شيطاني راہ

وہ لوگ جو کسي ملک يا معاشرے ميں نفوذ کرنا چاہتے ہيں تو وہ افراد اس معاشرے کي ثقافت اور تمدن کو اپنے قبضے ميں لے کر اپني تہذيب و تمدن اور ثقافت کو اس معاشرے پر تھونپ ديتے ہيں ۔ ان کے من جملہ کاموں ميں سے ايک کام گھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرنا ہے جيسا کہ بہت سے ممالک ميں انہوں نے يہ کام انجام ديا ہے ۔ انہوں نے معاشرے ميں اس طرح نفوذ کيا ہے کہ مرد اپني ذمہ داريوں کي نسبت غير ذمہ دار اور خواتين بد اخلاق ہو گئي ہيں ۔

کسي بھي معاشرے ميں تہذيب و تمدن کي اساس اور بنيادي عناصر کي حفاظت اور آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي بہترين اور اچھے گھرانوں يا خاندانوں کے وجود سے انجام پاتي ہيں ۔ اگر ايسے گھر يا خاندان کا وجود نہ ہو تو تمام چيزيں تباہ ہو جائیں گي ۔ يہ جو آپ مشاہدہ کر رہے ہيں کہ اہل مغرب کي پوري کوشش ہے کہ مشرق وسطيٰ اور ايشيائي اسلامي اور ديگر ممالک ميں شہوت پرستي اور برائيوں کو رواج ديں تو اس کي کيا وجہ ہے ؟ اس کے جملہ اسباب ميں سے ايک سبب يہ ہے کہ ان کي خواہش ہے کہ اپنے اس کام سے وہاں کے خانداني نظام زندگي کو تباہ و برباد کر ديں تا کہ ان معاشروں کي تہذيب و تمدن اور کلچر کي بنياديں کمزور ہو جائيں اور انہيں ان اقوام پر سوار ہونے کا پورا پورا موقع مل جائے ۔ کيونکہ جب تک کسي قوم کي تہذيب و تمدن اور ثقافت کي بنياديں کمزور نہ ہوںتو کوئي بھي اس پر قبضہ نہيں کر سکتا اور نہ ہي اس کے منہ ميں لگام دے کر اسے اپني مرضي کے مطابق چلا سکتا ہے ۔ وہ چيز جو اقوام ِ عالم کو لاحق خطرات کے مقابل ميں بے دفاع اور اغيار کے ہاتھوں ميں انہيں اسير بناتي ہے وہ اُن کا اپنے قومي تشخص، تاريخي اور ثقافتي ورثے سے بے خبر ہونا ہے ۔ اس کام کے ذريعے سے کسي بھي معاشرے ميں خانداني نظام زندگي کي بنيادوں کو با آساني کمزرو بنايا جا سکتا ہے ۔ اسلام، خاندان اور ان کي بنيادوں کي حفاظت کرنا چاہتا ہے ۔ اسي لئے اسلام ميں ان بلند ترين اہداف تک پہنچنے کے لئے اہم ترين کاموں ميں سے ايک کام خاندان و گھرانے کي تشکيل اور اس کي حفاظت کرنا ہے ۔

خاندان کے بارے ميں صرف ايک جملہ !

ميں نے اقوام متحدہ کے (جنرل اسمبلي کے) اجلاس ميں تقريباً ايک گھنٹے سے زيادہ گفتگو کي اور ساتھ ہي خاندان اور خانداني نظام زندگي کے بارے ميں بھي روشني ڈالي ۔ بعد ميں مجھے اطلاع دي گئي کہ امريکي ٹي وي چينلوں نے ہماري (يعني مسلمانوں خصوصاً ايرانيوں کي) گفتگو کو سنسر اور انہيں مسخ کرنے ميں اپني تمام تر سنجيدگي کے باوجود ميري گفتگو کو معتبر اور مستند قرار ديتے ہوئے کئي بار اسے نشر کيا اور ساتھ تجزيہ اور تحليل بھي پيش کيا اور وہ بھي خانداني نظام زندگي کے بارے ميں صرف ايک جملے کي وجہ سے ۔ کيونکہ خانداني مسائل اور گھر و گھرانے سے متعلق گفتگو اہل مغرب کے لئے آج ايک پيغام ہے بالکل ايک ٹھنڈے اور گوارا پاني کي مانند کہ جس کي کمي کا وہ خود بھي احساس کر رہے ہيں ۔

مغرب ميں کتني ہي ايسي خواتين ہيں کہ جو آخر عمر تک تنہا زندگي گزارتي ہيں اور کتنے ہي ايسے مرد ہيں کہ جو زندگي کي آخري سانسوں تک گھرانے کي چھاوں سے محروم رہتے ہيں اور اپني شريکہ حيات کے عدم وجود کي تاريکي ميں ہي زندگي کو خدا حافظ کہہ ديتے ہيں ۔ ان کي زندگي غريب، اجنبي اور انس و الفت کي ٹھنڈي چھاوں سے محروم ہے ۔ کتنے ہي ايسے نوجوان ہيں کہ جو ’’گھرانے‘‘ کي پُر محبت فضا سے محروم ہونے کي وجہ سے آوارہ ہيں يا ان کے معاشرے ميں خانداني نظام زندگي کا کوئي وجود نہيں ہے يا اگر ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته

 
user comment