اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگي

اسلام دین فطرت ہے یہ اپنا ایک مکلمل و جامع نظام حیات رکھتاہے اسلامی طرزمعیشت و اعتدال و میانہ روی
اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگي



اسلام دین فطرت ہے یہ اپنا ایک مکلمل و جامع نظام حیات رکھتاہے

اسلامی طرزمعیشت و اعتدال و میانہ روی


اسلامی طرززندگي کا اہم پہلو معاشرت میں کھانے پینے اور خرچ کرنے کے بارے میں بھی بہترین اصول و قوانین عطا کۓ گۓ ہیں ۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذھب ہے کہ جس نے دینی اور دنیوی ہرمرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زرین اصولوں سے نوازا ہے ۔جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان اپنے اہل وعیال اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تاکید و تلقین فرمائي ہے کہ خرچ کرنے میں راہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں ۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ "اے ایمان والو(اللہ کے دۓ ہوۓ پاک مال میں سے )کھاؤپیواور اسراف (فضول خرچي )نہ کرو"۔ایک مقام پر یوں ارشاد باری تعالی ہے کہ "اے لوگو زمین کی ان چیزوں میں سے کھاؤ،جو حلال اور طیب ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کروبے شک وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے (البقرہ )۔
اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہےکہ "خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوزکیا جاۓ"جبکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ "ناجائزاور حرام کاموں میں خرچ کرنااسراف و فضول خرچی کہلاتاہے "جبکہ میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ "ہرچيزمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا،خواہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔اسلام ہمیں اسراف وفضول خرچي سے رکنے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم اورتعلیم دیتاہے۔
عقل مند آدمی ہمیشہ اپنی دولت سوچ سمجھ کرخرچ کرتاہے اپنی ضروریات پوری کرتے وقت حد سے زیادہ بڑھ جانا اسراف اور فضول خرچی کہلاتاہے یعنی انسان نمود ونمائش یا اظہار غرورو تکبریا دوسروں سے آگے نکل جانے کی دوڑمیں اپنی ناجائزضروریات یعنی لباس اور رہائش وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرے اور اسلامی لحاظ سے یہ طرزعمل قطعاناپسندیدہ اور قابل اجتناب عمل ہے ۔

مال خرچ کرنے سے متعلق اسلامی تعلیمات

اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام ایک مذہب اعتدال ہے اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئي ہے ۔قرآن میں اسراف وتبذیر اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اورفضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائي قراردیا گيا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ "اور اسراف و بے جاخرچ کرنے سے بچو،بلاشبہ بے جاخرچ کرنے والے شیطان کے بھائي ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑاہی ناشکرا ہے "(سورہ بنی اسرائیل)خرچ کرنے کے بارےمیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کی جائزضروریات مناسب طریقے سے پوری کرے،غریب رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں اور حاجت مندمسافروں پراپنا مال خرچ کرے ،اپنی دولت سے ان محروم لوگوں کا حق اداکرے جواپنی بنیادی ضرورتیں بھی پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور یہ لوگ خود داری اور شرم حیا کی وجہ سے امیرکبیراور دولت مند لوگوں سے سوال بھی نہیں کرسکتے،ایسے لوگوں کی ہمیں ہرحال میں اور ہرممکن طریقے سے مددکرنی چاہیے ۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی یہ صفت بیان کی گئي ہےکہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں اور نہ اسراف و فضول خرچی کرتے ہیں بلکہ (خرچ کرنے میں )میانہ رواورمعتدل ہوتے ہیں ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ "اور یہ لوگ (رحمان کے پسندیدہ بندے)جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اورنہ تنگي اختیار کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ دومیانی راہ اختیارکرتے ہیں "(الفرقان )
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےکہ "میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا "اس مختصر حدیث شریف میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناداری غریبی اور تنگ دستی جیسی خطرناک آفتوں سے بچنے کے لۓ ہمیں خرچ میں "میانہ روی"اختیارکرنے کی تاکید و تلقین فرمائي ہے ،اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام تمام مذاہب سے ممتازومنفرد ہے اسلام ہمیں ہرعمل میں میانہ روی ارو اعتدال کی تعلیم دیتاہے البتہ حدیث مذکورہ میں خاص طور پر خرچ کرنے میں میانہ روی کی طرف متوجہ کیا گيا ہے ۔
اسراف و فضول خرچي سے پرہیزکرنے والا کبھی تنگ دستی اورفقر و فاقے میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ ایسا شخص اپنے حالات او اپنی آمدنی سے مطابق نہایت سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا ونہ تونمود و نمائیش میں اپنی رقم ضایع کرے گا اورنہ عیش وعشرت میں اپنی دولت برباد کرےگا اور نہ فضول خرچي میں اپنی دولت اڑاۓگا بلکہ جو کچھ بھی خرچ کرے گا انتھائي سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا ۔اسی طرح مال خرچ کرنے کے متعلق ایک اور مقام پر قرآن کریم نے مومنین کو یہ ھدایت و تعلیم دی ہے کہ "نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو (یعنی حد درجہ کنجوسی کرو)اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو(یعنی بے تحاشاخرچ کرنے لگ جاؤکیونکہ اگر ایسا کروگے تو )ملامت کا نشان بن جاؤگے اور افسوس سے ہاتھ ملتے اور عاجزبن کررہ جاؤگے (سورہ بنی اسرائيل )
ہمیں چاھیے کہ ہم فضول خرچی اور بے جا خرچ کرنے سے پرہیزکریں اور بخل وکنجوسی سے بھی کام نہ لیں،بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کریں ۔اگرہم اعتدال اور میانہ روی کے اس سنہری اصول کو اختیار کرلیں تو ہمارامعاشرہ بے شمار برائيوں اور مشکلات سے ازخود نجات حاصل کرلے گا ۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمانی کتابوں کی روشنی میں صیہونیستوں کی سرنوشت
فريقين كى دو كتابيں
عوام قرآن سے سبق حاصل کريں
حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور ...
حسن و قبح كے معنی
اسلام کے عملی ارکان اور احکام شرعی
حرص جيسي بيماري کا قناعت سے علاج ممکن ہے
خطبہ غدیر کا خلاصہ
معنائے ولی اور تاٴویل اھل سنت
گناہگاروں کي آسائش کا فلسفہ

 
user comment