ايک وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کيلئے تمام شعبہ ہائے زندگي ميں اسلام کي پيش رفت، ہر قيمت پر رضائے الٰہي کا حصول، اسلامي تعليمات کا فروغ اور قرآن و قرآني تعليمات سے آشنائي ضروري و لازمي تھي- حکومتي نظام اور تمام محکمے و ادارے ، زھد و تقويٰ کے حصول ميں کو شاںاور دنيا و مافيھا اور خواہشات نفساني سے بے اعتنائي برتنے کے سائے ميں پيش پيش تھے- انہي حالات ميں علي ابن ابيطالب جيسي ہستي خليفہ بنتي ہے اور حسين ابن علي ايک ممتاز شخصيت کي صورت ميں سامنے آتے ہيں- اس ليے کہ ان ہستيوں ميں دوسروں سے زيادہ ہدايت و راہنمائي اور امامت و خلافت کے معيارات وجود رکھتے تھے-
جب تقويٰ، دُنيا سے بے اعتنائي اور راہ خدا ميں جہاد؛ امامت و خلافت کا معيار ہوں اور ايسے افراد جو ان صلاحيتوں کے مالک ہوں ، حکومتي باگ ڈور سنبھاليں اور زمام کار کو اپنے ہاتھوں ميں ليں تو معاشرہ، اسلامي معاشرہ ہو گا- ليکن جب امامت و خلافت کے انتخاب کے معيار ہي تبديل ہوجائيں اور سب سے زيادہ دنيا طلب ، سب سے زيادہ شہوتوں اور خواہشات کا اسير و غلام ، شخصي منافع کو جمع کرنے کيلئے سب سے زيادہ عيّار و چالاک اور حيلہ گر اور دوسروں کي نسبت صداقت و سچائي سے بيگانہ و ناآشنا فرد حکومت کي باگ ڈور سنبھالے تو نتيجہ يہ ہوگا کہ عمر ابن سعد، شمر اور عبيد اللہ ابن زياد جيسے افراد زيادہ ہوں گے اور حسين ابن علي جيسے افراد کو مقتل ميں بے دردي سے قتل کرديا جائے گا-
دلوں ميں تڑپ رکھنے والے افراد، معياروں کو تبديل نہ ہونے ديں
يہ دو جمع دواور چار کا قاعدہ ہے - لہٰذا دلوں ميں ميں تڑپ رکھنے والے افراد اس بات کا موقع ہي نہ آنے ديں کہ معاشرے ميں خدا کي طرف سے مقرر کيے گئے معيار اور اقدار تبديل ہوں- اگر انتخاب خليفہ کيلئے تقويٰ کا معيار معاشرے ميں تبديل کرديا جائے تو ظاہر سي بات ہے کہ حسين ابن علي جيسي با تقويٰ ہستي کا خون آساني سے بہايا جاسکتا ہے- اگر امّت کي زعامت و ہدايت کيلئے دنياوي امور ميں عيّاري ومکاري، چاپلوسي، کوتاہي، ناانصافي، دروغگوئي اور اسلامي اقدار سے بے اعتنائي ، معيار بن جائے تو معلوم ہے کہ يزيد جيسا شخص تخت سلطنت پر براجمان ہوجائے گا اور عبيد اللہ ابن زياد جيسا انسان ، عراق کي شخصيت اوّل قرار پائے گا- اسلام کا کام ہي يہ تھا کہ (زمانہ جاہليت کے) ان معياروں کو تبديل کرے اور ہمارے اسلامي انقلاب کا بھي ايک مقصد يہ تھا کہ بين الاقوامي سطح پر معروف و رائج باطل ،غلط اورمادّي معياروں کے مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن جائے اور اُنہيں تبديل کردے-
آج کي دُنيا، کذب و دروغ، ظلم و ستم، شہوت پرستي اور معنوي اقدار پر مادي اقدار کو ترجيح دينے کي دُنيا ہے؛ يہ ہے آج کي دنيا اور اس کي يہ روش صرف آج سے مخصوص نہيں ہے، دنيا ميںصديوں سے روحانيت رُوبہ زوال اور کمزور رہي ہے- اس معنويت و روحانيت کو ختم کرنے کيلئے باقاعدہ کوششيں کي گئي ہيں؛صاحبان قدرت واقتدار، دولت پرستوں اور سرمايہ داروں نے مادي نظام کا ايک جال پوري دنيا ميں پھيلايا ہے کہ جس کي سربراہي امريکہ جيسي بڑي طاقت کر رہي ہے- سب سے زيادہ جھوٹي، سب سے زيادہ مکّار، انساني مقامات و درجات ميں سب سے زيادہ بے اعتنائي برتنے والي،انساني حقوق کو سب سے زيادہ پائمال کرنے والي اور دنيا کے انسانوں کيلئے سب سے زيادہ بے رحم حکومت اس مادي نظام کا نظم و نسق سنبھالے ہو ئے ہے اور اس کے بعد دوسري طاقتيں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے ا س ميں شريک ہيں؛ يہ ہے ہماري دنيا کي حالت-
source : tebyan