اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

اسلام؛ حقوقِ انسان اور غلامی

آج مغرب اپنی کج فہمی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے جس مسئلہ پر اسلام کو سب سے زیادہ مطعون ٹھہرا رہا ہے اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے،وہ مسئلہ غلامی ہے ۔ مغرب کا اس مسئلہ کو اچھالنا دراصل اسلامی احکام کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ غلامی کے بارے میں جو نقطہ نظر اسلام نے دیا ہے وہ اس کے کامل و برتر، روشن خیال، بلندظرف ہونے کی بڑی واضح دلیل ہے اور اسلام میں غلامی کا جو تصور اس کا دشمن (مغرب) پیش کررہا ہے، وہ سراسر غلط اوربے بنیاد ہے۔

یہ قرآنِ مجید کا اعجاز ہے کہ ربّ العالمین نے اس میں اسلام کے قانونِ غلامی کونہایت تفصیل اور وضاحت سے بیان کردیا ہے : ﴿يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الِفَاصِلِيْنَ ﴾(الانعام:۵۷)

’وہی (اللہ) حق کو بیان کرتاہے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“

پھر وہ حقوق کسی مفسر کے استنباط کانتیجہ نہیں بلکہ صریحاً وہ حقوق موجود ہیں جن کا تحفظ مطلوب ہے۔ پھر اسلام کا قانونِ غلامی، عدل و انصاف کا ایسا نمونہ ہے جس میں عدل کی وسعت درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔ اس سے بڑھ کر کیا انصاف ہوگا کہ اسلام جہاں غلام کویہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آقا کے حقوق پورے کرے، وہاں آقا کوبھی یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے غلام کے حقوق پورے کرے اور اسے خبردار کرتا ہے کہ روزِقیامت تجھے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔

اصولاً اور عملاً اسلام کا قانونِ غلامی وہ واحد قانون ہے جس نے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کا جامع تصور دیا بلکہ وہ شخصی اغراض اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شروع دن سے ان حقوق کا محافظ اور علمبردار بھی ہے اور اس نے غلام اور آقا کے درمیان مساوات ،یکسانیت اور باہمی رحم دلی اور ہمدردی کا ایسا تعلق پیدا کردیا ہے جس سے عظمت ِاسلام کی ایسی دلکش اور خوبصورت تصویر صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے جو دھوکہ ، فراڈ، مبالغہ اور لوگوں کے لئے ملمع ساز ی سے یکسر پاک ہے۔اس کے برعکس مغرب کا انسانی حقوق کا نعرہ سراسر، فراڈ، دھوکہ اور صریح ڈھونگ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کیلئے رچایا گیا ہے 

اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ان انسانی حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں جوفقہاءِ اسلام نے شریعت ِمحمدی کی روشنی میں ’غلاموں‘ کے بارے میں مدوّن کئے ہیں :

اسلام وہ مذہب ہے جس نے کسی بھی شخص کو محض نسل، وطن، رنگ، زبان اور دین و مذہب کی بنیاد پر غلام بنانا حرام قرار دیا ہے۔جب مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا وجہ مارا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے برسرعام اس کو سزا دی اور ساتھ ہی گورنر کو قہرآلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا:

”متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا“

”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کیا ہے، جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا“

اسی طرح صحیح بخاری میں ابوہریرة رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

”ثلاثة أنا خصمهم يوم القيٰمة وذکرمنهم ورجل باع حرّا فأکل ثمنه“ ”روزِ قیامت تین شخص ایسے ہوں گے کہ میں ان کے خلاف وکیل بن کر اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گا، ایک ان میں سے وہ شخص ہوگا جس نے کسی آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی ہوگی۔“

۲۔ اسلام غلامی کا سبب صرف کفر کو قرار دیتا ہے کیونکہ جو شخص اللہ کے احکام او رپیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے، وہ خواہ شکل و صورت کے لحاظ سے پوری کائنات سے حسین کیوں نہ ہو اور حسب و نسب ، جاہ وجلال او رمقام و مرتبہ کے اعتبار سے لوگوں سے معززکیوں نہ ہو،لیکن درحقیقت ایسا شخص انسان کہلوانے کا بھی روادار نہیں ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے بلکہ وہ عظمت ِآدم اور شرفِ انسانیت کی سطح سے گر کر ڈھور ڈنگروں بلکہ ان سے بھی حقیر ترین مخلوق کا فرد بن چکا ہے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿أوْلٰئِکَ کَالأنْعَامِ بَلْ هُمْ أضَلّ﴾

”یہ لوگ ڈنگر ہیں بلکہ ڈنگروں سے بھی زیادہ بدتر۔“

چونکہ کفر اور شرک اسلام کے نزدیک ظلم عظیم ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾”بے شک شرک البتہ بہت بڑا ظلم ہے“ 

لہٰذا اس کا مرتکب ظالم اور مجرم ہے : ﴿وَالْکَافِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (البقرة:۲۵۴)

”یقینا یہی لوگ ظالم ہیں“

۳۔ پھر اسلام ہر کافر کو غلام نہیں بناتا بلکہ صرف اس کافر کو غلامی کا طوق پہناتا ہے جو اسلام کے خلاف صف آرا، مسلمانوں سے برسرپیکار اور دعوة الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے ،جو دوسروں کو کفر و شرک کے ظلمت کدوں سے نکلنے او راسلام کی تجلیات سے فیض یاب ہونے سے روکتا ہے۔ جو بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے اور اللہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے سے منع کرتا ہے اوراسلام کی تبلیغ کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایسے شخص کو غلام بنانا کسی طور بھی ظلم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

نیز جب کافر مسلمانوں سے برسرپیکار اور اسلام کے خلاف صف آرا ہوجائے تو تب بھی اسلام ہر کسی کو قطعاً یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ جس کو چاہے پکڑ کر غلام بنالے اور کہے: یہ میرا غلام ہے، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، حکیم و خبیر ذات نے اس کے لئے ایک ضابطہ اور قانون بنا دیا ہے کہ کس کافر کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں ۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص خلیفة المسلمین کی اجازت کے بغیر کسی کافر کو غلام نہیں بنا سکتا،گویا اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو امیرالمومنین کی صوابدید سے مربوط کرکے اسے ایک قانون او رضابطہ کے تابع کردیا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:

﴿فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ أوْزَارَهَا ﴾(محمد:۴)

”پھر اس کے بعد ان پراحسان کرو یا تاوان لے کر چھوڑ دو۔“

۴۔ پھر اس پر بس نہیں کیا بلکہ غلاموں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لئے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی او راس پر بہت بڑے اجروثواب کی نوید سنائی۔ اس کے علاوہ ان کی آزادی کے لئے مختلف دروازے کھول دیئے۔ مثلاً غلام کی آزادی کو کفارہ قرار دیا اور قتل، ظہار اور دیگر متعدد صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے لئے اس کفارہ کو واجب ٹھہرایا۔

آزادی کی ایک صورت’مکاتبت‘کو جائز قرار دے کر غلام کو یہ حق دیا کہ وہ کچھ رقم دے کر اپنے آقا سے معاہدہ کرکے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرلے اور پھر ایسے غلاموں کو رقم بہم پہنچانے کے لئے انہیں زکوٰة کا مستحق قرار دیا اور قرآن میں فی الرقاب کے جملہ سے فرض زکوٰة میں سے ایک حصہ ان کے لئے مقرر کردیا۔اسی طرح لوگوں کو غلامی کے چنگل سے نکالنے کے لئے ایک اور نظام رائج کیا،جو کتب ِفقہ اسلامی میں’تدبیر‘کے نام سے معروف ہے۔ یعنی اگر آقا اپنے غلام سے کہہ دے کہ تو میری وفات کے بعد آزاد ہے تو شرعی لحاظ سے آقا کی وفات کے بعدکوئی شخص اسے غلام بنانے کا مجاز نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح اگر کوئی لونڈی اپنے آقاکے کسی بچے کو جنم دے تو وہ اس کے بعد آزاد تصور ہوگی اور آقا کے لئے اس کو غلام بنانا یا اسے بیچنا حرام ہوگا۔

پھر اسلام نے غلاموں کی آزادی پر اجر ِعظیم کی نوید سنائی۔ حتیٰ کہ خود نبی اکرم ا نے جب ایک باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں۔ پوچھا :میں کون ہوں؟ باندی نے کہا :آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو آپ نے اس کے آقا کو حکم دیا کہ اسے آزاد کردو، یہ موٴمنہ ہے۔ (مسلم:۵۳۷)

البتہ اسلام نے جھوٹ اوراسلام قبول کرنے کے جھوٹے دعوؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے غلاموں کے محض اسلام میں داخل ہونے کو آزادی کا سبب قرار نہیں دیا۔

۵۔ اسلام آقا پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ غلام کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ اگر اسے سواری کی ضرورت ہو تو اسے سواری مہیا کرے۔ پھر اخراجات کی یہ ذمہ داری اس کی محنت کا معاوضہ نہیں بلکہ اسلام اسے غلام کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ نیز آقا کے لئے حرام قرار دیا کہ وہ غلام کو ایسے کام کی مشقت دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ آپ نے فرمایا:

”للمملوک طعامه وکسوته ولا يکلف من العمل إلا ما يطيق“ (مسلم:۱۶۶۲)

”غلام کو کھلاؤ اور پہناؤ اور اسے وہ کام نہ دو جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔“

اسی طرح شریعت نے غلام کو کسی ایسے کام کی مشقت سے دوچار کرنا حرام قرار دیا جو اس کی بیماری کا باعث بن جائے۔ پھر آقا کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ غلام کو آرام اور نماز کے لئے وقت فراہم کرے۔ امام جحاوی اپنی کتاب زاد المستقنع میں فرماتے ہیں:

”آقا کا یہ فرض ہے کہ وہ غلام کو قیلولہ، نیند اور نماز کے لئے وقت دے۔ اس کی اولاد سے ان کے بڑے ہونے تک کسی قسم کا کام نہیں لیا جائے گا، حتیٰ کہ شریعت نے انہیں مالِ غنیمت سے حصہ عطا فرمایا ہے ۔ اسی طرح اگرمالک اپنی وراثت کا کچھ حصہ غلام کے لئے مقرر کردے تو اسلام اسے اس وراثت کا حق دار قرار دیتا ہے۔“ فرمانِ لٰہی ہے:

﴿قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِیْ أزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَکَتْ أيْمَانُهُمْ﴾(الاحزاب:۵۰)

”ہم جانتے ہیں کہ ہم نے موٴمنوں پر ان کی بیویوں اور مقبوضہ کنیزوں کے بارے میں کیا فرض کیا ہے۔“

پھر غلام اپنے آقا کی جو خدمت انجام دیتا ہے اس کے عوض شریعت نے اس سے بعض شرعی احکام ساقط کردیئے ہیں۔ مثال کے طورپر غلام پر جمعہ اور حج اور بعض دیگر احکام فرض نہیں ہیں۔

۶۔ اسلام غلاموں کے جسمانی حقوق کے ساتھ معنوی حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ لہٰذا ان کی توہین اور تحقیر کرنا اور انہیں مارنا حرام قرار دیا۔امام نووی نے اپنی کتاب ’ریاض الصالحین‘ کے باب :غلام، جانور، عورت اور بچے کو بغیر کسی عذر کے مارنا اور مار میں حد ِادب سے تجاوز کرنے کی ممانعت کے ضمن میں حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ایک حدیث ذکر کی ہے اور امام مسلم نے بھی اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیاہے۔ حضرت ابومسعود بدری بیان کرتے ہیں:

”میں ایک دفعہ اپنے غلام کو کوڑے سے پیٹ رہا تھا تو مجھے پیچھے سے آواز سنائی دی : ”اے ابومسعود! ہوش سے کام لو؟“ لیکن میں شدتِ غضب سے مغلوب ، آواز کو سمجھ نہ سکا۔ پھر جب آواز قریب ہوئی تو میں نے مڑ کر دیکھا کہ اللہ کے پیغمبر پکار رہے تھے: اے ابومسعود، ہوش کرو! اے ابومسعود،ہوش سے کام لو۔ میں نے سنا او رکوڑا زمین پر پھینک دیا ۔

پھر آپ نے فرمایا :اے ابومسعود! اس بات کو قطعاً فراموش نہ کرناکہ جتنااختیار تجھے اس غلام پرہے ، اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ اختیار ہے، میں نے کہا: اللہ کے رسول ا! آج کے بعد کسی غلام کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا اور اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ یہ سن کر پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: اگر تو ایسے نہ کرتا تو آگ کی لپیٹ سے بچ نہ سکتا۔“ (مسنداحمد: ۶/۲۹۰)

اسلام نے جس قدر غلاموں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، ا س کا اندازہ آپ ا کی اس وصیت سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ ا نے آخری وقت میں اپنی اُمت کو الوداع کہتے ہوئے فرمائی تھی، فرمایا:

”الصلوة وما ملکت أيمانکم“ ”نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا“ (مسلم، رقم:۱۶۵۹)

یقینا یہ حدیث دشمنانِ اسلام کے تمام اعتراض کا نہایت بلیغ انداز میں ردّ کرتی ہے اور وہ مسلمان جو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان کے نظریاتی حملوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لئے پرتول رہے ہیں انہیں ثابت قدمی اور نیا ولولہ عطا کرتی ہے۔ اور وہ مسلمان جو مغربی پروپیگنڈے سے متاثرہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ قانونِ غلامی بتقاضا ضرورت مشروع کیا گیا تھا اور اب یہ منسوخ ہوگیا ہے، ان کے تمام شکوک کو رفع کرتی دیتی ہے۔اسلام کا یہ دستور ہمیشہ باقی رہے گا اور ہمارا یہ یقین ہے کہ جب تک دنیاباقی ہے اور لیل ونہار کی گردش جاری ہے، اس وقت تک اسلام کا یہ قانون غلامی قائم و دائم ہے۔ خواہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے: ﴿وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰی أمْرِه وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسَ لاَ يَعْلَمُوْنَ﴾ (یوسف:۲۱)

”اور اللہ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے ۔“ 

(۵) محمد مصطفی ا کے عہد میں غلاموں پر نہایت وحشیانہ مظالم توڑے جاتے تھے اور غلامی کی غلط صورتیں معاشرے میں اس طرح رَچ بس چکی تھیں کہ ان کا ختم کرنا فوری طور پر ممکن نہ تھا۔لہٰذا آپ نے ابتدائی طور پر اس طبقہ مظلوم کو ظلم و ستم سے بچانے کے لئے سخت ہدایات جاری فرمائیں اور ان کو وہ حقوق دیئے جس سے آقا اور غلام کی تمیز بالکل ختم ہوگئی۔


source : http://www.ahl-ul-bait.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نور عظمت حق
امام خمینی(رہ) کی تحریک کا مقصد اسلامی اقدار کا ...
امام معصوم طلاق کا عمل اتني مرتبہ کيونکر انجام دے ...
شب قدر کی اہمیت و منزلت
دعا ،اسلامی تعلیمات کا بیش بہا خزانہ
''شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال
اسلامی فلسفہ
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
خطبہ ۲ اچھے گھر سے مراد مکہ اور برے ہمسایوں سے ...
دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

 
user comment