مصنف:
مترجم:
موضوع:
حوالہ:
تاريخ:
علی انصاری بویر احمدی
مظفر حیدر شاکری
تعارف کتاب> انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی
کتابیں>اصحاب در دیدگاہ قرآن وحدیث
2010/2/24 »
خلاصہ :
فراوان عقلی و نقلی ادلہ اور اسلام کے مسلّم اعتقادی مبانی,اصولوں اورمعیارات کی موجودگی نے صحابہ(رض) کے بارے میں تنقید , اظہار نظر اورقضاوت کو جائز اور مورد پسندقرار دیا ہے۔اسلام کے صحیح معارف و اصول کی بنیاد پر عمیق,دقیق اورفراگیرتحقیقات کے ذریعے اصحاب کی زندگی اوران کے کردار کے بارے میں تحقیق و جستجو اورتجزیہ وتحلیل کی جاسکتی ہے۔
صحابہ(رض) کے بارے میں تشیّٖع کا نظریہ,اصحاب کے اعتقادی,فکری,سیاسی اور اخلاقی جھکاؤ کے اعتبار سے وسیع معلومات پر مشتمل ہے۔یہ ایسا نظریہ ہے جو حق پر مبنی اوراستنباط کی صحیح روشوں سے ماخوذ ہے۔ یہ نظریہ افراط و تفریط سے دوری اختیار کرتے ہوئے, نہ مکتب کی اساس و بنیاد صحابہ کےکردار کو قراردیتا ہے ,اورنہ ہی غلطی کرنے والوں کی تائید و تمجید کرتا ہے۔[
متن:
کا مقدمہ جو عالیجناب حجة الاسلام استاد علی انصاری بوير احمدی نے تحریر فرمایا ہے کو ہم یہاں بطور تعارف کتاب پیش کر رہے ہیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمه
بے حد و حصر حمد و تعریف پروردگار عالم کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص ہے۔
خالق اورخلائق کے بے انتہا اورفروان درودوسلام نثارہوں آسمان عصمت و طہارت کے پاکیزہ گوہروں,عظیم الٰہی ہادیوں, پیغمبر اسلام| اوران کے اہل بیت^پر۔
{للهم و اصحاب محمد خاصّة الّذين احسنوا الصحابة...}[1]
اے خداوند! بالخصوص حضرت محمد|کے اصحاب (رض)اور ان کے دوستوں کو جنہوں نے حضرت| کی محبت اور آپ کے ہمراہ رہنے کو اچھی طرح پایہ تکمیل تک پہچایا اور جنگوں میں ان کی مدد کے لئے عظیم بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اورآنحضرت|کی مدد کی... اپنی رحمت سے راضی و خوشنود فرما۔انھوں نے تیری راہ میں اپنے شہروں اور رشتہ داروں سے دوری اختیار کی اور آرام دہ اورفرحت بخش زندگی کے بدلے ,زندگی کی سختیوں کو انتخاب کیا, جزوپاداش عنایت فرما۔۔۔[2]
فراوان عقلی و نقلی ادلہ اور اسلام کے مسلّم اعتقادی مبانی,اصولوں اورمعیارات کی موجودگی نے صحابہ(رض) کے بارے میں تنقید , اظہار نظر اورقضاوت کو جائز اور مورد پسندقرار دیا ہے۔اسلام کے صحیح معارف و اصول کی بنیاد پر عمیق,دقیق اورفراگیرتحقیقات کے ذریعے اصحاب کی زندگی اوران کے کردار کے بارے میں تحقیق و جستجو اورتجزیہ وتحلیل کی جاسکتی ہے۔
صحابہ(رض) کے بارے میں تشیّٖع کا نظریہ,اصحاب کے اعتقادی,فکری,سیاسی اور اخلاقی جھکاؤ کے اعتبار سے وسیع معلومات پر مشتمل ہے۔یہ ایسا نظریہ ہے جو حق پر مبنی اوراستنباط کی صحیح روشوں سے ماخوذ ہے۔ یہ نظریہ افراط و تفریط سے دوری اختیار کرتے ہوئے, نہ مکتب کی اساس و بنیاد صحابہ کےکردار کو قراردیتا ہے ,اورنہ ہی غلطی کرنے والوں کی تائید و تمجید کرتا ہے۔[3]
مکتب تشيّع اعتدال اور عقلانيت کي رعايت اور تعصب وھٹ دھرمي سے دوري اختيار کرتے ہوئے, رسول خدا| کے سچے اور پرہيزگار اصحاب(رض) اور ان افراد کے لئے جو آخری دم تک اپنے ايمان و اسلام پرثابت قدم رہے,عظیم مقام و منزلت سے ہمکنار ہونے کا قائل ہے۔[4] ليکن اصحاب(رض) ميں سے وہ افراد جن کي عدالت ساقط ہوگئي ہے اور جنہوں نے پيغمبر اسلام|کے احکام اور ان کی وصیتوں سےانکار اور سر پیچی کی ہے اور اپني چاہت کے مطابق عمل کيا ہے۔ان کے بارے میں شیعہ حضرات احتياط کي مراعات کرتے ہیں اور اسلامي احکام و معارف کے مطابق حکم لگاتے ہيں۔حقيقت ميں شيعہ رسول خدا| کے اصحاب (رض)کے بارے میں بہت ہی زیادہ عزت و احترام کے قائل ہيں اور اصحاب (رض)ميں سے صرف خطا کاروں اور گناہکاروں کو مورد تائيد قرار نہيں ديتے۔[5]
اصحاب (رض)کی زندگی کے مختلف گوشوں اورپہلووں کے بارے میں علمی اور مستند مطالعہ اور تحقیق, نیز ان کی زندگی کی اجتماعی,سیاسی,مذہبی, تہذیبی فضا اور ماحول کا ادراک,رقابت ,مصلحت یا عدالت سے ماخوذ ان کے تاثیر گذار اور معنی دار عکس العمل اور نونک جھونک کا“کشف و بیان” بے پناہ اہمیت کا حامل ہیں۔
صحابہ کے ایک دوسرے سے مختلف اور متضادمذہبی اور سیاسی حالات کی پہچان اور ان کو بیان کرنا۔ نیز ایک دوسرے کے مخالف متضاد اور معاند رد عمل ,رہن سہن اور طرزتفکر کی کیفیت کا تذکرہ کرنا اوراسی طرح ان کے ایک دوسرے سے متضاد اور کاملاً مخالف کردار کے بارے میں آگاہانہ تجزیہ وتحلیل قیمتی کلامی اور اعتقادی فوائد و نتائج کی حامل ہے اور تاریخ اسلام میں نئے ابواب کا دروازہ کھولتی ہے۔
تاريخي مستند اور تعصّب سے دور مطالعات اور تحقيقات اس چيز کي نشاندھي کرتي ہيں کہ بعض اصحاب اس فاني دنيا کي لذتوں کے فریفتہ اور عاشق ہوگئے تھے ,تقوي و پرہيز گاري کو ہاتھ سے کھوہ دينے کي وجہ سے اور طاعات و عبادات کے ترک کرنے کے باعث اپني شانيت اور مقام و منزلت تباہ و برباد کربیٹھے تھے۔
يہ افراد مال و دولت اور حشمت و جلال کے پيچھے جانے سے منہیات ميں گرفتار اورمحرمات کے مرتکب ہوگئے ان لوگوں نے ظاہر سازی اور عوام فریبی سے مسلمانوں کے عمومي افکار کا رخ موڑ کر اھلبيت^ کے مسلّم حقوق کو غصب و ھڑپ کر لیا۔[6]
ان کے مقابلے ميں بعض دوسرے اصحاب رسول اکرم| کي روايات و احاديث اور وصايا کي مکمل تبعيت و پيروي کرتے ہوئے وفادار رہے اور پرہيز گاري کے ساتھ امامت و ولايت کي اصل سے متمسک رہ کر اپني زندگي کے آخري لمحات تک اہل بيت^ کي حمايت کرتے رہے اور ابدي سعادت و خوش بختی اور رستگاري کو پا کر راہی جنت ہوئے۔
شیعیوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ تشیّع کی ابتداء صحابہ کبار اور پیامبر اسلام|کے برجستہ اصحاب(رض) کےذریعے ہوئی ہے ان صحابہ کبار(رض) ہی کی تعلیمات اور رہنمائیوں کی بدولت شیعہ حضرت علی(ع) کی خلافت بلا فصل کا عقیدہ رکھتے ہیں اور آپ(ع)کی بلا فصل خلافت و ولایت سے متمسک ہیں۔ ان پاک صحابہ(رض) میں سےاکثر کے نام تاریخ میں ثبت و درج ہیں۔[7]
ابن ابی الحدید پہلے اور ابتدائی شیعوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
علی(ع) کی افضلیت کا قول قدیمی و پرانا ہے جس کےبہت سے اصحاب اور تابعین قائل تھے۔ اصحاب میں سے عمار, مقداد, ابوذر, سلمان, جابر, ابی ابن کعب,حذیفہ, بریدہ,ابو ایوب,سہل ابن حنیف, عثمان بن حنیف, ابوالہیثم ابن تیہان, حزیمۃ ابن ثابت, ابوالطفیل, عامر ابن واثلہ, عباس ابن عبدالمطلب,تمام بنی ہاشم,تمام بنی مطلب اور اسی طرح زبیربھی ابتداء میں آنحضرت(ع) کے تقدّم کے قائل تھے۔ بنی امیہ میں سے بھی بعض جیسے خالد ابن سعید اور بعد میں عمر ابن عبد العزیز آپ (ع)کی افضلیت کے معتقد تھے۔[8]
رسول خدا|کے معروف ترین صحابہ تشیّع اورحضرت علی(ع) کی بلافصل خلافت کا راسخ اعتقاد رکھتے تھے۔[9]
بعض شیعہ علماء اور رجالی افراد کا اعتقاد ہے کہ شیعہ اصحاب(رض) کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی چنانچہ شیخ مفید& ان صحابہ(رض) جنہوں نے مدینہ میں آنحضرت(ع) کی بیعت کی ہے, بالخصوص ان صحابہ (رض)کو جو مختلف جنگوں میں آپ(ع) کے ساتھ شریک تھے شیعوں اور امام علی(ع) کی امامت کے معتقدین میں سے سمجھتے ہیں, صرف جنگ جمل میں اصحاب(رض) میں سے (۱۵۰۰) پندرہ سو صحابہ موجود تھے۔[10]
حافظ بن عبد البرقرطبی اپنی کتاب الاستیعاب میں ان صحابہ کے نام جو تشیّع پر اعتقاد کامل رکھتے تھے ذکر کرتے ہیں اور تحریر فرماتے ہیں سلیمان ابوذر مقداد,خباب,جابر, ابو سعید خدری, زید ابن ارقم, سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت علی(ع) پہلے شخص تھے جو ایمان لائے یہ حضرات امیرالمومنین علی(ع) کو دوسروں پر ترجیح و فضلیت دیتے تھے۔[11]
سید محسن امین لکھتے ہیں:
پیغمبر اسلام| کے اصحاب میں سے کثیر تعداد امیرالمومنین(ع) کی امامت کا کاملاً اعتقاد رکھتی تھی جن کی تعداد شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے, اور روایات کے ناقلین کا اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی جنگوں میں آپ (ع)کے ہمراہ تھے۔[12]
محمد ابن ابي بکر معاويہ کے نام لکھے گئے ايک خط ميں,حضرت علي(ع) کي حقانيت کي علامتوں ميں سے ايک آنحضرت(ع)کے ہمراہ پيغمبر اسلام| کے اصحاب کا ہونا بیان کرتے ہیں۔[13]
حضرت علي(ع) کے باوفا دوست محمد ابن ابي حذيفہ نے جو معاويہ کے ماموں کے بيٹے تھے اور حضرت علي(ع) کے ساتھ محبت کي وجہ سے کئی سال معاویہ کے قید خانوں میں پابند سلاسل رہے اور آخر کار زندان میں ہی اس دنيا سے رخصت ہو گئےمعاويہ کے ساتھ کي گئي گفتگو ميں معاويہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اس دن سے جس دن سے ميں تجھے جانتا ہوں چاہےزمانہ جاهليت کی زندگی ہو اور چاہے اسلام لانے کے بعد کی زندگی تجھ میں کسی قسم کی تبديلي واقع نہیں ہوئی اور اسلام نےتیرے لئے کسی چيز کا اضافہ نہيں کیا, اس کي واضح علامت يہ ہے کہ تم مجھے علي(ع) کي محبت اور دوستی کي وجہ سے ملامت کرتے ہو, حالانکہ تمام زاهد, عبادت گذار, مہاجر اور انصار ان کے ساتھ ہيں اور تمہارے ساتھ فقط منافقين اور طلقاء ہيں۔[14]
رسول خدا| کے اصحاب کے علاوہ تابعين ميں سے بھي کثیر تعداد مکتب تشيّع کا کامل اور راسخ اعتقا رکھتے تھے اور علي(ع) کي امامت و ولايت کے حامي (حمايت کرنے والے)تھے۔ابن قتبيہ تابعين ميں سے بعض کے نام کتاب”المعارف“ ميں ذکر کرتے ہيں اور کہتے ہيں, وہ شيعہ تھے۔[15]
شیعہ رسول خدا|کے اصحاب کے حقوق, مقام اور عظمت کے بارے میں خاص اہمیت کے قائل ہیں البتہ صحابہ بھی مکتب تشیّع اور حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے معترف تھے, جیسا کہ معتبر تاریخی کتب میں ہے نقل ہواہے۔[16]
مکتب تشيع اصحاب کے بارے میں تمایز اور تفصیل کاقائل ہے۔ وہ اصحاب جو مؤمن,مخلص اور اپنے ايمان پر ثابت قدم تھے,تشيع کي نظر ميں عظيم,بلند مرتبہ,علوّ درجہ, شرافت اور مدح و تعريف کےمستحق ہيں۔ ان کے مقابلے ميں وہ اصحاب جنہوں نے اپني خواہشات نفساني کي پيروي کي اور رسول خدا|کي سنت اور ان کے بلافصل خليفہ کے ساتھ مخالفت کي اور حضرت علی(ع) کي ولايت وامامت کے مقابلے ميں دشمني اورہٹ دھرمي کا مظاہرہ کیا, ہمارے اعتقاد کے مطابق یہ گروہ راہ حق سے منحرف ہے اور انہوں نے پيغمبر اسلام| کے پاک اصحاب کي عزت و آبرو کو داغدار کياہے, اور یہ لوگ تنہا ظاہری اسلام اور مسلمانی لئے پھر رہے ہیں۔
اس بنا پر اسلام میں قانون گذاری کی بنیاد صرف قرآن اور روايات ہيں اور قرآن و روايات کے حوالے سے آگاہ و باخبر ترین و مطلع ترین افراد اهل بيت^ ہيں۔ صرف ان دو قيمتي او ربھاري ارکان پر عمل کرنا ضروريات اسلام ميں سے ہے اور اصحاب کے کردار کا بھي انہي دو رکنوں سے مقائسہ کيا جائیگا۔
«ان اُريد الاّ الاصلاح, ما استطعت و ما توفيقي الاّ با الله عليه توکلت و اليه انيت»
و السلام عليکم و على جميع اخواننا المومنون في اقطار العالم و رحمة الله و برکاته.
سرپرست اعلیٰ مجمع جہانی شیعہ شناسی
علی انصاری بویر احمدی
حواشی
[1]۔{...والذين ابلو البلاء الحسن في وکانفوه واسرعوا الي وفادته و سابقوا الي دعوته واسجابوا له حيث اسمعهم حجه رسالاته وفارقوا الازواج والاولاد في اظهار کلمته وقاتلوا الاباء والابناء في تثبيت نبوته في مودته والذين هجرت هم العشائر تعقلوا بعروته وانتفت منهم القربات اذ سکنوا في ظل قرابته, فلا تنس لهم اللهم ماترکوا لک وفيک وارضهم من رضوانک وبما حاشوا الخلق عليک وکانوا مع رسولک دعاه لک اليک واشکرهم علي هجرهم فيک ديار قومهم وخروجهم من سعه المعاش الي ضيقه و من کثرت في اعزاز دينک من مظلومهم.}
[2]۔امام زين العابدين(ع)”صحيفه سجاديه“دعا چہارم۔
[3]۔بعض صحابہ نے اسلام کوبہت ساری مصیبتوں سے دچار کیا ہے اور پیکر اسلام پر کاری ضربیں لگائی ہیں:۱۔مسيلمہ کذاب نے اپني قوم کی طرف پلٹتے وقت نبوت کا دعواي کيا۔”تاريخ کامل, ج٢,ص٣٦٠“؛٢۔بسر ابن ارطاۃ نے حجاز اور يمن ميں بہت سے بے گناہ لوگوں کا خون بہايا۔”اسد الغابة, ج١, ص١٨٠“؛٣۔ سفيان بن عامد عراق ميں ويراني اور عظیم قتل و غارت کا مرتکب ہوا۔”شرح ابن ابي الحديد, ج٢, ص٨٥“؛٤۔مسلم بن عقبہ نے مدينۃ الرسول| ميں واقعہ حرہ کے موقع پر ہزاروں مسلمان کو بے گناہ قتل کر ڈالا اورتین دن تک مدينہ کي لڑکيوں اور عورتوں کي عزت و ناموس کو يزيد کي فوج کے لئے حلال قرار ديا جس کے نتیجے میں ايک ہزار بے گناہ لڑکياں حاملہ ہوگئيں”طبقات کبراي, ج٥, ص٣٨٣“؛٥۔خالد بن وليد نے رسول خدا| کے عظيم صحابي مالک ابن نويرہ(رض)کو قتل کیا اور اسي رات اس کي بیوی کے ساتھ زبردستی زنا کیا۔”تاريخ کامل, ج٢, ص٣٥٨“پس کسی طرح تمام صحابہ کو عادل اور ان کے کردار و اعمال کے مبناء کو مشروع اور شرعی قرار دیا جا سکتا ہے؟
[4]۔شيعہ معتقد ہيں:رسول خدا|کے تمام اصحاب(رض) ميں سےہرميدان ميں افضل ترین صحابي, امام علي(ع)ہيں۔آپ (ع)اورآپ(ع) کے دو عظیم فرزند امام حسن(ع)اور امام حسين(ع)پيغمبر|کےبہترين اور افضل اصحاب ہيں۔
[5]۔خالد بن وليد نے مالک بن نويرہ(رض) کوجواصحاب (رض)ميں سے شمار ہوتےتھے اور ايک پرہيزگار مسلمان تھے قتل کيا اور اسي رات ان کي بيوي کے ساتھ زنا کیا جب خالد مدينہ واپس پلٹا تو عمر ابن خطاب نے اس سے کہا:کيا يہ اچھي خدمت ہے؟ تم نے ايک مسلمان کوقتل کيا اورکے بعد اس کي بيوي سے تجاوز کيا! خدا کي قسم ميں تمہیں سنگسار کروں گا۔ خالد نے خاموشي اختيار کي ۔ عمر نے ابوبکر سے کہا: خالد نے زنا کيا ہے اس کو سنگسار کرو, ابوبکر نے جواب ديا :ميں اسے سنگسار نہيں کروں گا , اس نے اجتھاد کيا ہے اور اس اجتھادمیں غلطی کی ہے!
پیغمبر اسلام|کے صحابی (رض)کے بے گناہ قتل کا قبیح جرم اس کے ساتھ اس کی بیوی کی ناموس کے ساتھ گھناؤنا کھیل اور اس کی ہتک حرمت اور ادھر دیگرصحابہ کا عجیب و غریب فیصلہ!
[6]۔امیر المومنین علی(ع) کے خلاف بعض صحابہ وصحابیات جیسے طلحہ, زیبراورعائشہ کی دشمنی,عداوت اور کینہ توزی,معاویہ بن ابی سیفان کاصفین کے مقام پر خلیفہ مسلمین حضرت علی(ع)کے مد مقابل جنگ کرنا جبکہ اس جنگ میں صحابہ کی اکثریت حضرت علی(ع)کے ہمرکاب تھی اور معاویہ کے ہاتھوں ہزاروں صحابہ شہید ہوئے,بعض دوسرے صحابہ کے ذریعے رسول خدا|کے اصحاب (رض)کا قتل عام اور ان کے اموال کی غارتگری,نمونہ کے طور پر عظیم صحابی حضرت ابوذز رضی اللہ تعالی عنہ کو شکنجہ اور ان کو جلاوطن کرنا متقدمین صحابہ میں عمار یاسررضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کرنا... پس کس طرح تمام صحابہ کو عادل تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ کس طرح ادعی کیا جاسکتا ہے کہ وہ جرح و تعدیل اور نقد و نظر سے بلند و بالا اور پاک ہیں؟
[7]۔محمد کرد علي ”خطط الشام“ میں لکھتے ہیں:
رسول اکرم|کے زمانہ ميں کچھ بزرگ صحابہ,علي(ع) کي دوستي و محبت کی وجہ سےمشہور و معروف تھے, جيسے سلمان فارسي رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:ہم نے رسول خدا|کے ساتھ بيعت کي کہ ہم مسلمانوں کے خير خواہ رہیں اور علي ابن ابي طالب (ع)کي اقتداءکريں اور ان کے ساتھ محبت کریں۔ یاجيسے ابو سعيد خدري رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:ہميں پانچ چيزوں کا حکم ديا گيا ہے لوگوں نے چار چيزوں پر عمل کيا اور ا يک کو چھوڑ دياہے,لوگوں نے پوچھا:چار چيزيں کون سی ہيں؟ انہوں نے جواب دیا:نماز,زکات,ماہ رمضان کے روزےاور حج پوچھا گیا:ايک چيز جو لوگوں نے چھوڑي ہے کونسي ہے؟ انہوں نے کہا:ولايت علي ابن ابي طالب(ع)۔ لوگوں نے کہا:کيا يہ بھي ان کي طرح واجب ہے؟ ابو سعید خذری رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:ہاں يہ بھي ان کي طرح واجب ہے ۔یا مثلا ً ابوذر, غفاري,عمار ياسر, خديقۃ ابن يمان,حريمہ ابن ثابت ذولشہادتين,ابو ايوب انصاري,خالد ابن سعيد اورقيس ابن سعدرضون اللہ علیہم وغیرہ”خطط الشام“ مکتبہ النوري,دمشق,ط,سوم,١٤٠٣,ج٦؛ ص٢٤٥.
[8]۔ابن ابي الحديد”شرح نهج البلاغه“ دار احياء التراث العربي, بيروت, ج٢٠, ص٢٢١,٢٢٢.
[9]۔سيدعلي خان شيرازي نے ”الدرجات الرفيعه في طبقات الشيعه“ص٤١, ميں تشيع کا اعتقاد رکھنے والے رسول خدا|کے اصحاب کے نام اسطرح ذکر کئے ہیں:
ابوطالب,عباس ابن عبدالمطلب,عبداللہ ابن عباس,فضل بن عباس,عبيد اللہ بن عباس,قثم ابن عباس,عبدالرحمن,ابن عباس ,تمام ابن عباس,عقيل ابن ابي طالب,ابوسفيان ابن حارث ابن عبدالمطلب,نوفل ابن حارث ابن عبدالمطلب,عبداللہ ابن زبير ابن عبدالمطلب, عبداللہ ابن جعفر,عون ابن جعفر,محمد ابن جعفر,ربيعہ ابن حارث ا بن عبدالمطلب,عباس ابن عتبہ ابن ابي لهب,عبدالمطلب,ابن ربيعہ ابن ابن حارث ابن عبدالمطلب,جعفر ابن ابي سفيان ابن حارث ا بن عبدالمطلب,عمر ابن ابي سلمہ,سلمان فارسي,مقداد ابن اسود,ابوذر غفاري , عمار ياسر,حذيفہ ابن يمان خزيمہ ابن ثابت ,ابو ايوب انصاري,ابو الهيثم مالک ابن تيهان,ابن اُبی ابن کعب,سعد ابن عبادۃ,قيس ابن سعد,سعد ابن سعد ابن عبادۃ, ابو قتادہ انصاري,عدي ابن حاتم,عبادۃ ابن صامت,بلال ابن رباح,ابو الحمراء ابو رافع,هاشم ابن عتبہ ابن ابي وقاص ,عثمان ابن حنيف,سهل ابن حنيف,حکيم ابن جبلہ العدوی,خالدبن سعید بن عاص,ولید بن جابربن طلیم الطائی,سعید بن مالک بن سنان,براء ابن مالک انصاري,ابن حصيب اسلمي,کعب ابن عمروانصاري,رفاعہ ابن رافع انصاري,مالک ابن ربیعہ ساعدی,عقبہ ابن عمر بن ثعلبہ انصاری,ہند ابن ابی ہالہ تمیمی,جعد بن ہبیرہ,ابوعمرانصاری,مسعود ابن اوس,نضلہ ابن عبيدہ,برزہ اسلمي,مرداس ابن مانگ اسلمي,مسور ابن شداد فهري,عبداللہ ابن بديل الخزاعي,حجر ابن عدي الکندي, عمرو ابن الحمق الخزاعي,اسامہ ابن زيد,ابو ليلي انصاري,زيد ابن ارقم اور براء ابن عازب اوسي۔
[10]۔تاریخ تشیّع,غلام حسن محرمی شیخ مفید محمد بن النعمان کی کتاب ”الجمل“ مکتب الاعلام الاسلامی,قمی,ص۱۰۹و ۱۱۰ سے نقل کرتے ہوئے۔
[11]۔ابن عبد البر قرطبي”الاستيعاب في معرفه الاصحاب“ ج٣: ص١٠٩٠.
[12]۔امين, سيد محسن”اعيان الشيعه“ دارالتعارف للمطبوعات, بيروت (بي تا)ج٢, ص٢٤.
[13]۔بلاذري,”انساب الاشراف“ منشورات الاعلمي للمطبوعات, بيروت, ١٣٤٩ھ ج٢, ص٣٩٥.
[14]۔شيخ طوسي ابي جعفر, ”رجال کشي“ص٢٧٨.
[15]۔وہ اُن ميں سے بعض کے نام اس طرح ذکر کرتے ہيں:حارث اعور,صعصعہ ابن صوحان,اصبغ ابن نباتہ,عطيہ عوض,طاووس , اعمش,ابواسحاق سبيعي,ابو صا دق,سلمہ ابن کميل,حکم ابن عتيبہ,سالم ابن ابي ھبت ابراهيم نخعي,حبہ ابن جوين,حبيت ابن ابي ثابت,منصور ابن معتمر,سفيان ثوري ,شعبہ ابن حجاج,قطر ابن خليفہ,حسن ابن صالح ابن حي,شريک محمد ابن فضيل,وکيع,حمدي الرواسي,زيد ابن حباب,فضل ابن دکين,مسعود الاصغر,عبيداللہ ابن موسي,جرير ابن عبدالمجيد,عبداللہ ابن داود,هيثم,سليمان تيمي, عوف اعرابي,جعفر جنيعي,يحيي ابن سعيد,قطان,ابن لهيعہ,ھشام ابن عمار,مغيرہ صاحب ابراهيم,معروف ابن فربون عبدالرزاق,معمر اورعلي ابن جعدہ.
[16]۔سليم ابن قيس العامري, منشورات دار الفنون للطباعه والنشر والتوزيع, بيروت,١٤٠٠ ھ, ص١٨٦ اور طبرسي, ابي منصور احمد ابن علي ابن ابي طالب الاحتجاج, انتشارات اسوہ, ج١, ص٤٧٢ پرلکھتے ہيں:
امير المؤمنين (ع)صفين ميں منبر پر تشريف لے گئے اورلشکر میں سے تمام افراد جن میں مہاجرین و انصاربھی موجود تھے منبر کے پاس جمع ہوگئے آنحضرت(ع) نے خداوند متعال کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور اس کے بعد فرمايا:
اے لوگو!ميرے مناقب اورفضایل اس سے زيادہ ہيں کہ ان کا شمار کيا جائے, ميں صرف اسی پر اکتفاء کرتاہوں کہ رسول خدا|سے لوگوں نے آيہ”السابقون السابقون اُولئک المقرّبون“ کے بارے ميں پوچھا تو آنحضرت|نے فرمايا: خداوند متعال نے يہ آيہ ابنياءاور ان کے اوصياء کي شان میں نازل کي ہے , ميں تمام انبياء اور پيغمبروں سے افضل ہوں اور میرے وصی علي ابن ابي طالب(ع)تمام اوصیاء سے افضل ہیں اس موقعہ پر بدر کے ستر اصحاب جن ميں اکثر انصار تھے,کھڑے ہوئے اورگواہي دي کہ ہم نے رسول خدا|سے ايسا ہی سنا ہے۔
source : http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=1036