عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی مفتخرترین ہستیوں میں مرسل اعظم ، نبی رحمت حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے پہلا نام امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کا آتا ہے لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ عمدا" یا سہوا" افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے ہیں اور شاید اسی لئے ایک دنیا دوستی اور دشمنیوں کی بنیاد پر مختلف گـروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئی ہے خود امیرالمومنین نے نہج البلاغہ کے خطبہ ایک سو ستائیس میں ایک جگہ خبردار کیا ہے کہ : " جلد ہی میرے سلسلے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لے کر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنالیں گے ۔میرے سلسلے میں بہترین افراد وہ ہیں جو میانہ رو ہیں اور راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے ۔
عزیزان محترم ! وہ سچے مسلمان جو اہلبیت رسول (ص) سے محبت کرتے ہیں اور ان کواپنے لئے " اسوہ " اور" نمونۂ عمل " سمجھتے ہیں صرف اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ وہ ہمارے نبی (ص) کی اولاد ہیں اور ان کی نسل اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس لئے محبت و اطاعت کرتے ہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں عزیز و محترم ہیں اور ان کو اللہ نے اپنا نمائندہ اورعالم بشریت کا امام و پیشوا قراردیا ہے ۔البتہ جن کو اہلبیت (ع) کی صحیح معرفت نہیں ہے وہ ان کو یا تو اولاد رسول (ص) سمجھ کر مانتے اور احترام کرتے ہیں یا پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو ایک اچھا انسان سمجھ کر ان کی تعریف و ستائش کرتے اور عقیدت و ارادت کا اظہار کرتے ہيں ۔لیکن مسلمانوں کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ خدا نے ان کو امام و رہنما بنایاہے اور اسوہ و نمونہ قراردے کر ان کی اطاعت و پیروی واجب قرار دی ہے ۔ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنا اور ان کے آئینۂ کردار میں خود کو ڈھالنا ہمارا فریضہ ہے ۔چنانچہ حضرت علی (ع) کی محبت اور معرفت میں اس پہلو کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے مسلمانوں کو دراصل اپنی رفتار و گفتار کے ذریعہ ثابت کرنا چاہئے کہ جب ہم " علی کی پیروی " کی بات کرتے ہيں تو یہ اوروں کی پیروی سے الگ ، خدا و رسول (ص) کی پیروی کے مترادف ہے ایک مسلمان حضرت علی (ع) سے محبت و اطاعت عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے ۔جس طرح قرآن کی تلاوت رسول اسلام (ص) کی پیروی ،نماز و روزہ کی ادائگی ، حج کے اعمال اور راہ خدا میں جہاد و سر فروشی عبادت ہے علی ابن ابی طالب (ع) کی محبت اور پیروی بھی عبادت ہے ۔ظاہر ہے محبت و اطاعت اسی وقت کارساز ہے جب ان کی امامت و رہبری کی معرفت کے ساتھ ہو ۔
ورنہ محبت کی ایک وہ صورت بھی ہے جو درویشوں اور فقیروں کے یہاں پائی جاتی ہے وہ بھی حضرت علی (ع) کو اپنا قطب اور پیشوا مانتے ہیں مگر حضرت علی (ع) کی عملی زندگی سے خود کو دورکئے ہوئے ہیں عیسائي دانشور جارج جرداق ادعا کرتے ہیں کہ "میں خداؤں کی پرستش کرتا ہوں میرے لئے علی ابن ابی طالب کمال اور عدالت و شجاعت کے پروردگار ہیں " ۔ظاہرہے اس عیسائي دانشور کی محبت اور اس کا اظہار الگ عنوان رکھتا ہے وہ عیسائي تھے اور عیسائي رہے ہیں انہوں نے" انسانی عدل و انصاف کی آواز" کے عنوان سے حضرت علی (ع) کی مدح و ستائش میں ایک پوری کتاب کئی جلدوں میں لکھ دی مگر ان کی محبت اسلام کی نظر میں کسی دینی معیار پر پوری نہیں اترتی ۔اسلام میں وہی محبت کارساز ہے جو معرفت کےساتھ ہو ورنہ محبت میں سہی اگر کوئی حضرت علی (ع) کو الوہیت یا نبوت و رسالت کی منزل میں پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ غلو اورشرک ہے جس کی طرف حدیث میں آیا ہے : " ہلک فیہ رجلان مبغض قال و محب غال"
" مبغض قال " سے مراد وہ کینہ توز دشمن ہیں جو جان بوجھ کر علی (ع) کے فضائل چھپاتے یا انکار کرتے ہیں ۔ اور " محب غال " سے مراد محبت کے وہ جھوٹے دعویدار ہیں جو حضرت علی (ع) کو خدا کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں ۔ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم علی ابن ابی طالب (ع) کی سیرت اورکردار کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خدا کی بندگی رسول اسلام (ص) کی جانشینی اور مسلمانوں کی امامت و پیشوائی کے لحاظ سے بہتریں مسلمان اور کامل ترین انسان نظر آتے ہیں ۔اسی لئے ان کی شخصیت اور کردار ابدی اور جاوداں ہے چنانچہ 19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیرالمومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں " لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار " کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی : " ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام وپیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے خدا کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کااشتیاق لئے آواز دے رہا تھا" فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ " رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اور علی (ع) آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ،ان کا کردار ،ان کے اقوال وارشادات ان کی حیات اور شہادت کاایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اسی لئے علی ابن ابی طالب (ع) سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی (ع) کی شہادت تاریخ بشریت کے لئے ایک عظیم خسارہ اورایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ملت اسلامیہ کا وہ کارواں جو 25 سال پیچھے ڈھکیل دیا گيا تھا جب حضرت علی (ع) کی ولایت و امامت پر متفق ہوا اور حکومت و اقتدار امیرالمومنین کے حوالے کردیا گیا تو 18 ذی الحجّہ سنہ 35 ہجری سے 21 ماہ رمضان المبارک سنہ 40 ہجری تک چار سال دس مہینہ کی مختصر مدت میں علی ابن ابی طالب نے وہ عظیم کارنامے قلب تاریخ پر ثبت کردئے کہ اگر ظلم و خیانت کی شمشیر نہ چلتی اور جرم و سازش کا وہ گھنونا کھیل نہ کھیلا جاتا جو عبدالرحمن ابن ملجم اور اموی خاندان کے جاہ طلبوں نے مل کر کھیلا تھا تو شاید دنیائے اسلام کی تقدیر ہی بدل جاتی پھر بھی علی ابن ابی طالب (ع) نبی اکرم (ص) کی 23 سالہ زندگی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے وہ زریں نقوش تفسیر و تشریح کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کے لئے اسلام کی حیات کا بیمہ ہوچکا ہےاور قیامت تک روئے زمین پرقائم ہونے والی ہر حکومت اس کی روشنی میں عالم بشریت کی ہر ضرورت کی تکمیل کرسکتی ہے ، چونکہ 21 رمضان المبارک کو علوی زندگی کا وہ صاف و شفاف چشمہ جو دنیائے اسلام کو ہمیشہ سیر و سیراب کرسکتا تھا ہم سے چھین لیاگيا لہذا یہ مصیبت ایک دائمی مصیبت ہے اورآج بھی ایک دنیا علی (ع) کے غم میں سوگوار اورماتم کناں ہے ۔
19 رمضان:
سن40 ھ ق : حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔
عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، خوارج میں سے تھااور ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین افراد یعنی امام علی بن ابیطالب (ع) معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کرڈالیں گے ۔
ھر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اس طرح عبدالرحمن بن ملجم مرادی بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔
انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں امیرالمومنین علی (ع) کے آنے کاانتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف قطامہ نے " وردان بن مجالد" نامی شخص کے ساتھ اپنے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کیے.
اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،حضرت امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا رہا ۔ حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .
روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔
بہر حال نماز صبح کیلۓ آپ کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔
جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا :" للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک " ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک زخمی ہوگیا .
حضرت علی علیہ السلام نےمحراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔
کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑپڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگۓ ۔
حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیاتھا ۔
حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لۓ اپنے فرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔
روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکراۓ آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹا چھا گئ ، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرئيل امین نے صدا دی اور ھر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا: تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء؛ خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔
اس طرح بھترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم ، کاملترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے (ص) کے جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے ، پیغمبروں اور رسول خدا (ص) کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر گۓ