آپ کی ولادت
حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے بعدپچاس راتیں گزریں تھیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کانطفہ وجودبطن مادرمیں مستقرہواتھا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں کہ ولادت حسن اوراستقرارحمل حسین میں ایک طہرکافاصلہ تھا(اصابہ نزول الابرار واقدی)۔
ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھاکہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاپ کرمیری آغوش میں رکھاگیاہے اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوئیں کہ حضورآج ایک بہت براخواب دیکھاہے ،حضرت نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایاکہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے اے ام الفضل کی تعبیریہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جو تمہاری آغوش میں پرورش آئے گا ۔
آپ کے ارشاد فرمانے کوتھوڑی ہی عرصہ گزراتھاکہ خصوصی مدت حمل صرف چھ ماہ گزرکرنورنظررسول امام حسین بتاریخ ۳/ شعبان ۴ ء ہجری بمقام مدینہ منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آگئے۔ (شواہدالنبوت ص ۱۳ ،انوارحسینہ جلد ۳ ص ۴۳ بحوالہ صافی ص ۲۹۸ ،جامع عباسی ص ۵۹ ، بحارالانوارومصاح طوسی ابن نما ص ۲ وغیرہ)۔
ام الفضل کابیان ہے کہ میں حسب الحکم ان کی خدمت کرتی رہی ،ایک دن میں بچہ کولے کر آنحضرت کی خدمت میں حاضرہوئی آپ نے آغوش محبت میں لے کرپیارکیااورآپ رونے لگے میں نے سبب دریافت کیا توفرمایاکہ ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے وہ بتلاگئے ہیں کہ یہ بچہ امت کے ہاتھوں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہیدہوگا،اوراے ام الفضل وہ مجھے اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دے گئے ہیں (مشکواة جلد ۸ ص ۱۴۰ طبع لاہور)۔
اورمسنداامام رضا ص ۳۸ میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایادیکھویہ واقعہ فاطمہ سے کوئی نہ بتلائے ورنہ وہ سخت پریشان ہوں گی ،ملاجامی لکھتے ہیں کہ ام سلمہ نے بیان کیاکہ ایک دن رسول خدامیرے گھراس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سرمبارک کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اورچہرہ پرگردپڑی ہوئی تھی ،میں نے اس پریشانی کودیکھ کرپوچھا کیابات ہے فرمایامجھے ابھی ابھی جبرئیل عراق کے مقام کربلامیں لے گئے تھے وہاں میں نے جائے قتل حسین دیکھی ہے اوریہ مٹی لایاہوں ائے ام سلمہ اسے اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ خون ہوجائے توسمجھنا کہ میرا حسین شہیدہوگیا ۔الخ(شواہدالنبوت ص ۱۷۴) ۔
آپ کااسم گرامی
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعدسرورکائنات صلعم نے امام حسین کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایااوراپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرماکر حسین نام رکھا (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔
علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کارکھاہواہے (ارجح المطالب وروضة الشہداء ص ۲۳۶) ۔
کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھاہواہے۔
آپ کاعقیہ
امام حسین کانام رکھنے کے بعد سرورکائنات نے حضرت فاطمہ سے فرمایاکہ بیٹی جس طرح حسن کاعقیقہ کیاگیاہے اسی طرح اسی کے عقیقہ کابھی انتظام کرو،اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن کے لیے کرچکی ہو ،الغرض ایک مینڈھا منگوایاگیا،اوررسم عقیقہ اداکردی گئی (مطالب السؤل ص ۲۴۱) ۔
بعض معاصرین نے عقیقہ کے ساتھ ختنہ کاذکرکیاہے جومیرے نزدیک قطعا ناقابل قبول ہے کیونکہ امام کامختون پیداہونا مسلمات سے ہے۔
کنیت والقاب
آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی ،البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں جن میں سیدوصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ سبط اورسیدخودرسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص ۳۱۲) ۔
آپ کی رضاعت
اصول کافی باب مولدالحسین ص ۱۱۴ میں ہے کہ امام حسین نے پیداہونے کے بعدنہ حضرت فاطمہ زہراکاشیرمبارک نوش کیااورنہ کسی اوردائی کادودھ پیا، ہوتایہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرورکائنات تشریف لاکرزبان مبارک دہن اقدس میں دے دیتے تھے اورامام حسین اسے چوسنے لگتے تھے ،یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے ،معلوم ہوناچاہئے کہ اسی سے امام حسین کاگوشت پوست بنااورلعاب دہن رسالت سے حسین پرورش پاکر کاررسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔
خداوندعالم کی طرف سے ولادت امام حسین کی تہنیت اورتعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسین کی ولادت کے بعدخلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمدمصطفی کومیری طرف سے حسین کی ولادت پرمبارک بادد یدو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت اداکردو،جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پرواردہوئے اورانہوں نے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے ،یہ سن کرسرورکائنات کاماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا ،جبرئیل ماجراکیاہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولاایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرخنجرآبداررکھاجائے گا اورآپ کایہ نورنظربے یارومددگارمیدان کربلامیں یکہ وتنہاتین دن کابھوکاپیاسا شہیدہوگا یہ سن کرسرورعالم محوگریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ ہوگئے ۔
جناب سیدہ نے جوحضرت علی کوروتادیکھا دل بے چین ہوگیا،عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیاہے فرمایابنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اوروہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبرہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیرہوگیا،آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا،فرمایاجب میں نہ ہوں گانہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھابابامیرابچہ کس خطاپرشہید ہوگافرمایافاطمہ بالکل بے جرم وخطاصرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی، فاطمہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گااوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا،راوی کابیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزندکاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کاماتم قیامت تک جاری رہے گا ایک روایت میں ہے کہ رسول خدانے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایاتھا کہ خداکچھ لوگوں کوہمیشہ پیداکرتارہے گا جس کے بوڑھے بوڑھوں پراورجوان جوانوں پراوربچے بچوں پراورعورتیں عورتوں پر گریہ وزاری کرتے رہیں گے۔
فطرس کاواقعہ
علامہ مذکوربحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ رقمطرازہیںکہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھاکہ ایک فرشتہ زمین پرپڑاہوازاروقطاررورہاہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھااس نے کہااے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرسترہزارفرشتوں کی قیادت کرتاتھا میرانام فطرس ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبودکے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہاہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاںکنج تنہائی میں پڑاہوں ۔
ائے جبرئیل خدارامیری کچھ مددکروابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیاائے روح الامین آپ کہاں جارہے ہیں انہوں نے فرمایاکہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلعم کے یہاں ایک فرزندپیداہواہے جس کانام حسین ہے میں خداکی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جارہاہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خداکے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفااورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضورکی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین آغوش رسول میں جلوہ فرماتھے جبرئیل نے عرض حال کیا،سرورکائنات نے فرمایاکہ فطرس کے جسم کوحسین کے بدن سے مس کردو ،شفاہوجائے گی جبرئیل نے ایساہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔
وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتاہوااپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجاپہنچا اورمثل سابق سترہزارفرشتوں کی قیادت کرنے لگا ،بعدازشہادت حسین چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیاجس میں امام حسین نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجاکردشمنان حسین سے جنگ کروں ارشادہواکہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توسترہزارفرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیاکراوراس کاجوثواب ہواسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلاپرجاپہنچا اورتا قیام قیامت شب وروزروتارہے گا(روضة الشہداازص ۲۳۶ تاص ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی)۔
امام حسین سینہ رسول پر
صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کابیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھاہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے اورامام حسین نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں ،ان کے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تومیرے سینے پرکودچنانچہ امام حسین آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعدحضورصلعم نے امام حسین کامنہ چوم کرخداکی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حدچاہتاہوں توبھی اسے محبوب رکھ ،ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت امام حسین کالعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کجھورکوئی چوسے (ارجح المطالب ص ۳۵۹ وص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۱ ،کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴ ،کنوزالحقائق ص ۵۹) ۔
جنت کے کپڑے اورفرزندان رسول کی عید
امام حسن اورامام حسین کابچپناہے عیدآنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کاکیاذکرپرانے کپڑے بلکہ نان جویں تک نہیں ہے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عیدکے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عیدمنائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤنہیں ،تمہارے کپڑے درزی لائے گا عیدکی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کاتقاضاکیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔
ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا،دروازہ کھٹکھٹایافضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیااب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کادل باغ باغ ہوگیاوہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایاکپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہامادرگرامی یہ توسفیدکپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، امام جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔
حضور انورکواطلاع ملی ،تشریف لائے، فرمایاگھبراؤنہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل آفتابہ لیے ہوئے آپہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفی کے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہناسرخ جوڑاحسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگالیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے نونہالو،رسالت کی باگ ڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار) ۔
بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشت پربٹھاکردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کی آوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔
امام حسین کا سردارجنت ہونا
پیغبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران دنوں سے بہترہیں (ابن ماجہ)صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن سرورکائنات صلعم کوبے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھاحضور،افراط مسرت کی کیاوجہ ہے فرمایااے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہواہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں ایاتھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہاہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ، تاریخ الخلفاص ۱۲۳ ،اسدالغابہ ص ۱۲ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۲ ،ترمذی شریف ،مطالب السول ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔
اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کاذاتی شرف موجوتھا اورخودسرورکائنات نے باربارآپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب ،سیدالمتقین ،سیدالمومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے حضرت علی کاسرداران جنت امام حسن اورامام حسین سے بہترہونا واضح کرتاہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلنددرجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک جملہ اولادعلی سیدہیں یہ اوربات ہے کہ بنی فاطمہ کے برابرنہیں ہیں۔
امام حسین عالم نمازمیں پشت رسول پر
خدانے جوشرف امام حسن اورامام حسین کوعطافرمایاہے وہ اولادرسول اورفرزندان علی میں آل محمدکے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کاذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوارہوجائیں ،تونمازمیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا،اکثرایساہوتاتھاکہ یہ نونہالان رسالت پشت پرعالم نمازمیں سوارہوجایاکرتے تھے اورجب کوئی منع کرناچاہتاتھا توآپ اشارہ سے روک دیاکرتے تھے اورکبھی ایسابھی ہوتاتھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہاکرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خودنہ اترآئیں آپ فرمایاکرتے تھے خدایامیں انہیں دوست رکھتاہوں توبھی ان سے محبت کر؟ کبھی ارشادہوتاتھااے دنیاوالو! اگرمجھے دوست رکھتے ہوتومیرے بچوں سے بھی محبت کرو(اصابہ ص ۱۲ جلد ۲ ومستدرک امام حاکم ومطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔
حدیث حسین منی
سرورکائنات نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشادفرمایاہے کہ اے دنیاوالو! بس مختصریہ سمجھ لوکہ ”حسین منی وانامن الحسین“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدااسے دوست رکھے جوحسین کودوست رکھے (مطالب السؤل ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴ ،نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ ومسنداحمدجلد ۴ ص ۹۷۲ ،اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱) ۔
مکتوبات
باب جنت سرورکائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتاہواجنت کے قریب پہنچاتودیکھاکہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھاہواہے۔
”لااله الاالله محمدحبیب الله علی ولی الله وفاطمة امةالله والحسن والحسین صفوة الله ومن ابغضهم لعنه الله“
ترجمہ : خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدصلعم اللہ کے رسول ہیں علی ،اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں،حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱ )
امام حسین اورصفات حسنہ کی مرکزیت
یہ تومعلوم ہی ہے کہ امام حسین حضرت محمدمصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے نواسے،حضرت علی وفاطمہ کے بیٹے اورامام حسن کے بھائی تھے اورانہیں حضرات کو پنتن پاک کہاجاتاہے اورامام حسین پنجتن کے آخری فردہیں یہ ظاہرہے کہ آخرتک رہنے والے اورہردورسے گزرنے والے کے لیے اکتساب صفات حسنہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ،امام حسین ۳/ شعبان ۴ ہجری کوپیداہوکرسرورکائنات کی پرورش وپرداخت اورآغوش مادرمیں میں رہے اورکسب صفات کرتے رہے ، ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری کوجب آنحضرت شہادت پاگئے اور ۳/ جمادی الثانیہ کوماں کی برکتوں سے محروم ہوگئے توحضرت علی نے تعلیمات الہیہ اورصفات حسنہ سے بہرہ ورکیا، ۲۱/ رمضان ۴۰ ہجری کوآپ کی شہادت کے بعدامام حسن کے سرپرذمہ داری عائد ہوئی ،امام حسن ہرقسم کی استمدادواستعانت خاندانی اورفیضان باری میں برابرکے شریک رہے ، ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری کوجب امام حسن شہیدہوگئے توامام حسین صفات حسنہ کے واحدمرکز بن گئے ،یہی وجہ ہے کہ آپ میں جملہ صفات حسنہ موجودتھے اورآپ کے طرزحیات میں محمدوعلی وفاطمہ اورحسن کاکردارنمایاں تھا اورآپ نے جوکچھ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا،کتب مقاتل میں ہے کہ کربلامیں حب امام حسین رخصت آخری کے لیے خیمہ میں تشریف لائے توجناب زینب نے فرمایاتھا کہ ائے خامس آل عباآج تمہاری جدائی کے تصورسے ایسامعلوم ہوتاہے کہ محمدمصطفی ،علی مرتضی، فاطمةالزہراء، حسن مجتبی ہم سے جداہورہے ہیں۔
حضرت عمرکااعتراف شرف آل محمد
عہدعمری میں اگرچہ پیغمبراسلام کی آنکھیں بندہوچکی تھی اورلوگ محمدمصطفی کی خدمت اورتعلیمات کوپس پشت ڈال چکے تھے لیکن پھربھی کبھی کبھی ”حق برزبان جاری“ کے مطابق عوام سچی باتیں سن ہی لیاکرتے تھے ایک مرتبہ کاذکرہے کہ حضرت عمرمنبررسول پرخطبہ فرمارہے تھے ناگاہ حضرت امام حسین کاادھرسے گزر ہوا آپ مسجدمیں تشریف لے گئے اورحضرت عمرکی طرف مخاطب ہوکربولے ”انزل عن منبرابی“ میرے باپ کے منبرسے اترآئیے اورجائیے اپنے باپ کے منبرپربیٹھے آپ نے کہاکہ میرے باپ کاتوکوئی منبرنہیں ہے اس کے بعدمنبرسے اترکرامام حسین کواپنے ہمراہ گھرلے گئے اوروہاں پہنچ کرپوچھاکہ صاحب زادے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ہے توانہوں نے فرمایاکہ میں نے اپنے سے کہاہے ،مجھے کسی نے سکھایانہیں اس کے بعدانہوں نے کہاکہ میرے ماں باپ تم پرفداہوں ،کبھی کبھی آیاکروآپ نے فرمایابہترہے ایک دن آپ تشریف لے گئے توحضرت عمرکومعاویہ سے تنہائی میں محوگفتگوپاکوواپس چلے گئے ۔۔۔۔ جب اس کی اطلاع حضرت عمرکوہوئی توانہوں نے محسوس کیااورراستے میں ایک دن ملاقات پرکہاکہ آپ واپس کیوں چلے آئے تھے فرمایا کہ آپ محوگفتگوتھے اس لیے میں نے عبداللہ (ابن عمر) کے ہمراہ واپس آیاحضرت عمرنے کہاکہ ”فرزندرسول میرے بیٹے سے زیادہ تمہاراحق ہے“ فانما انت ماتری فی روسنااللہ ثم انتم“ اس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ میراوجودتمہارے صدقہ میں ہے اورمیرا رواں تمہارے طفیل سے اگاہے (اصابة ج ۲ ص ۲۵ ،کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ،ازالة الخفاء )۔
ابن عمرکااعتراف شرف حسینی
ابن حریب راوی ہیںکہ ایک دن عبداللہ ابن عمرخانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں حضرت امام حسین علیہ السلام سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دئیے ابن عمرنے لوگوں کی طرف مخاطب ہوکرکہاکہ یہ شخص یعنی امام حسین اہل آسمان کے نزدیک تمام اہل زمین سے زیادہ محبوب ہیں۔
کرم حسین کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں زیرآیة ”علم آدم الاسماء کلہا“ لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگناہوتوچارقسم کے لوگوں سے مانگو : ۱ ۔ شریف عرب سے ۲ ۔ کریم حاکم سے ۳ ۔ حامل قرآن سے ۴ ۔ حسین شکل والے سے ۔
میں آپ آپ میں یہ جملہ صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ،کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاگ آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ صبیح وحسین ہیں، رسول خداکاارشاد ہے کہ جومجھے دیکھناچاہے وہ حسن اورحسین کودیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفرازفرمائیے، آپ نے فرمایاکہ جدنامدارنے فرمایاہے کہ ”المعروف بقدرالمعرفة“ معرفت کے مطابق عطیہ دیناچاہئے، تومیرے سوالات کاجواب دے ۔ بتا:
سب سے بہترعمل کیاہے؟اس نے کہااللہ پرایمان لانا۔ ۲ ۔ ہلاکت سے نجات کاذریعہ ہے؟ اس نے کہااللہ پربھروسہ کرنا۔ ۳ ۔ مردکی زینت کیاہے؟ کہا ”علم معہ حلم“ ایساعلم جس کے ساتھ حلم ہو، آپ نے فرمایادرست ہے اس کے بعدآپ ہنس پڑے۔ ورمی بالصرةالیہ اورایک بڑاکیسہ اس کے سامنے ڈال دیا۔ (فضائل الخمسة من الصحاح الستہ جلد ۳ ص ۲۶۸)
امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسول اوراصحاب صفہ میںسے کہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیاررکررہے تھے ،اسی دوران میں فرمایا،ان ابنی هذا یقتل بارض یقال لهاکربلاء فمن شهدذالک منکم فلینصرہ“ کہ میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گاجس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مددکرے۔
راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلامیں شہیدہوگئے تھے(اسدالغابہ جلد ۱ ص ۱۲۳ و ۳۴۹ ،اصابہ جل ۱ ص ۶۸ ،کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۲۳ ،ذخائرالعقبی محب طبری ص ۱۴۶) ۔
امام حسین علیہ السلام کی عبادت
علماء ومورخین کااتفاق ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام زبردست عبادت گزارتھے آپ شب وروزمیں بے شمارنمازیں پڑھتے تھے اورانواع واقسام عبادات سے سرفرازہوتے تھے آپ نے پچس حج پاپیادہ کئے اوریہ تمام حج زمانہ قیام مدینہ منورہ میں فرمائے تھے، عراق میں قیام کے دوران آپ کواموی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی حج کاموقع نہیں مل سکا۔ (اسدالغابہ جلد ۳ ص ۲۷) ۔
امام حسین کی سخاوت
مسندامام رضا ص ۳۵ میں ہے کہ سخی دنیاکے لوگوں کے سرداراورمتقی آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین سخی ایسے تھے جن کی نظیرنہیں اورمتقی ایسے تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسول علیل تھے امام حسین انھیں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حدرنجیدہ ہیں، پوچھا،ائے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے”واغماہ“ کیوں کہتے ہو،عرض کی مولا، ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبراو نہیں اسے میں اداکردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرضے کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اوراس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکربذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں،اس نے شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعدآپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اپنی پشت پرلادکراشرفیاں اورغلوں کے گٹھربیواؤں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایاکرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک غیرمعصوم فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزاراشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۴ ص ۷۴) ۔
امام شلبجی اورعلامہ محمدابن طلحہ شافعی نے نورالابصاراورمطالب السؤل میں ایک اہم واقعہ آپ کی صفت سخاوت کے متعلق تحریرکیاہے جسے ہم امام حسن کے حال میں لکھ آئے ہین کیونکہ اس واقعہ سخاوت میں وہ بھی شریک تھے۔
جنگ صفین میں امام حسین کی جدوجہد
اگرچہ مورخین کاتقریبااس پراتفاق ہے کہ امام حسین عہدامیرالمومنین کے ہرمعرکہ میں موجودرہے، لیکن محض اس خیال سے کہ یہ رسول اکرم کی خاص امانت ہیں انہیں کسی جنگ میں لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی (نورالحسینہ ص ۴۴) ۔
لیکن علامہ شیخ مہدی مازندرانی کی تحقیق کے مطابق آپ نے بندش آپ توڑنے کے لیے مقام صفین میں نبرآزمائی فرمائی تھی(شجرئہ طوبی طبع نجف اشرف ۱۳۵۴ ئھ وبحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۵۷ طبع ایران)۔
علامہ باقرخراسانی لکھتے ہیں کہ اس موقع پرامام حسین کے ہمراہ حضرت عباس بھی تھے (کبریت الاحمرص ۲۵ وذکرالعباس ص ۲۶) ۔