عظیم افراد اوران کے دوست اور دشمن
کائنات کی اھم اور بزرگ شخصیتوں کے سلسلے میں کئی طرح کے پھلو نظر آتے ھیں کبھی بالکل مختلف اور کبھی بالکل برعکس، کبھی ان کے دوست ایسے ھوتے ھیں کہ دوستی کے آگے وہ کچھ نھیں دیکھتے اور پروانہ کے مانند اپنی ساری زندگی ان پر نثار و قربان کردیتے ھیں اور اس دوستی کی وجہ سے بدترین مصیبت اور مشکلات، سختی اور شکنجے کو بھی برداشت کرتے ھیں اور اسی کے برعکس ان کے دشمن بھی ایسے ھوتے ھیں جو شیطان صفت، کینہ و بغض اور حسد میں ھمیشہ جلتے رہتے ھیں اور کبھی بھی عداوت و دشمنی سے باز نھیں آتے کہ صلح و آشتی کی راہ ھموار ھوسکے، ان افراد کی دوستی اوردشمنی کبھی کبھی اس قدر حد سے تجاوز کرجاتی ھے جس کی انتہا نھیں ھوتی اور وقت اور مقام کا بھی خیال نھیں رکھتی اور پھر بہت دنوں تک اور مختلف جگھوں پر یہ سلسلہ قائم رہتا ھے اور یہ عداوت و دشمنی انسان کے باعظمت اور محترم و باکمال ھونے کی وجہ سے پیدا ھوتی ھے۔
کائنات کی عظیم اور بزرگ شخصیتوں کے درمیان مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نھیں ھے جس کے بارے میں نظرئیے قائم ھوئے ھوں۔
آپ سے محبت اور دشمنی کرنے میں بھی آپ جیسا کوئی نھیںھے ، آپ کے چاہنے والوں کی بھی تعداد بہت ھے اور آپ کے دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے، عظیم شخصیتوں اور انسانوں کے درمیان فقط جناب حضرت عیسیٰ مسیح -کی طرح ھیں جو مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام کی طرح ھیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ- سے دوستی اور دشمنی کرنے والے دو متضاد دھڑے نظر آتے ھیں ، اس طرح دونوں آسمانوی پیشواؤوں میں مشابہت پائی جاتی ھے ۔
حضرت عیسیٰ- دنیا کے تمام عیسائیوں کے گمان وخیال میں وھی خدا ئے مجسم ھےں جس نے اپنے بندوں اور چاہنے والوں کو اپنے باپ حضرت آدم (ع) سے ورثہ میں ملے ھوئے گناھوں سے نجات دلانے کے لئے زمین پر آئے اور آخرکار سولی پر چڑھا دیئے گئے وہ عامعیسائیوں کی نگاہ میں الوھیت کے علاوہ کوئی اور شخصیت کے مالک نہ تھے۔
ان کے مقابلے میں یھودی ان کے بالکل برخلاف ھیں انھوں نے حضرت پر الزام و اتہام لگایاھے اور جھوٹ کی نسبت دی ھے اور ایسی ناروا تھمتیں لگائیں کہ جس کا تذکرہ باعث شرم ھے اور آپ کی مقدس و پاکیزہ ماں کی طرف غلط نسبتیں دی ھیں۔
بالکل ایسے ھی اور بھی کچھ افراد ھیں جو مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام کے بارے میں متضاد فکر رکھتے ھیں ایک گروہ کم ظرف اور تنگ نظرھے اور دوسرا کچھ زیادہ ھی الفت و محبت کی وجہ سے خدا کے مطیع و فرماںبردار کو مقام الوھیت تک پھونچا دیا ھے اور جو کرامتیں اور معجزات حضرت کی پوری زندگی میں ظاہر ھوئے اس کی وجہ سے وہ خدا مان بیٹھے ھیں افسوس کہ اس گروہ نے اپنے کو اس مقدس نام ”علوی“ سے منسوب کر رکھا ھے اور آج بھی اس نظریہ پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے افراد کثرت سے موجود ھیں۔ لیکن افسوس کا مقام ھے کہ شیعیت کی تبلیغ کرنے والوں نے آج تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نھیں لیا تاکہ حضرت علی علیه السلام کے حقیقی چہرے کو ان کے سامنے ظاہر کریں اور ان لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریں جس راستے پر خود حضرت علی علیه السلام افتخار کر رھے ھیں اس گروہ کے مقابلے میں، ایک اور گروہ جس نے خلافت ظاہری کے ابتدائی دنوں سے ھی امام علیه السلام سے بغض و عداوت اپنے دل میں بٹھا رکھی اور پھر کچھ مدت کے بعد خوارج اور نواصب نامی گروہ کے شکل میں ابھر کر سامنے آگئے، پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی علیه السلام کے زمانہ حکومت میں ان دونوں گروھوں کے ظھور کے سلسلے میں بخوبی آگاہ تھے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی علیه السلام سے ایک موقع پر فرمایا تھا:
”ہَلَکَ فِیْکَ اِثْنٰانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ“[1]
تمہارے ماننے والوں میں سے دوگروہ ھلاک ھوں گے ایک وہ گروہ جو تمہارے بارے میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو تم سے دشمنی و عداوت رکھے گا۔
حضرت علی علیه السلام اور حضرت عیسیٰ علیه السلام کے درمیان ایک اور بھی مشابہت پائی جاتی ھے اوریہ وہ مقام ھے جہاں پران دو شخصیتوں کی ولادت ھوئی ھے۔
حضرت عیسیٰ علیه السلام کی ولادت مقدس ،سرزمین بیت اللحم (بیت المقدس کے علاوہ ھے) پر ھوئی اور یھی وجہ ھے کہ بنی اسرائیل کے تمام پیغمبروں سے آپ ایک جہت سے برتر وافضل ھیں، اور مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام کی ولادت مکہء مکرمہ کی مقدس سرزمین خانہ کعبہ کے اندر معجزاتی طور پر ھوئی، اور آپ نے خدا کے گھر (مسجد کوفہ) میں جام شہادت نوش کیا اور حسن مطلع کے مقابلے میں حسن ختام سے بہرہ مند ھوئے جو حقیقت میں بے مثال ھے اور کتنی عمدہ بات ھے کہ آپ کے متعلق کہا جائے ”نازم بہ حسن مطلع و حسن ختام او“ (یعنی ھم اس حسن مطلع اور حسن ختام پر افتخار کرتے ھیں اور نازاں ھیں)
حضرت علی علیه السلام کی شخصیت کے تین پھلو:
ماہرین نفسیات کی نظر میں ہر انسان کی شخصیت کے نکھار میں تین اھم عوامل ھوتے ھیں جن میں سے ہر ایک شخصیت سازی میں موٴثر ھوتا ھے گویا انسان کی روح اور صفات اور فکر کرنے کا طریقہ مثلث کی طرح ھے اور یہ تینوں پھلو ایک دوسرے سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آتے ھیں اور وہ تینوں عامل یہ ھیں۔
۱۔ وراثت ۔
۲۔ تعلیم و تربیت۔
۳۔ محیط زندگی۔
انسان کے اچھے اور برے صفات اور اس کی عظیم و پست خصلتیں ان تینوں عامل کی وجہ سے وجود میں آتی ھیں اور رشد و نمو کرتی ھیں۔
وراثت کے عوامل کے سلسلے میں مختصروضاحت: ھماری اولادیں ھم سے صرف ظاہری صفات مثلاً شکل و صورت ھی بطور میراث نھیں لیتےں بلکہ ماں باپ کے باطنی صفات اور روحانی کیفیت بھی بطور میراث اولاد میں منتقل ھوتی ھیں۔
تعلیم و تربیت اور اور محیط زندگی، جو انسانی شخصیت پر اثر انداز ھوتی ھیں، بہترین تربیت جسے خداوند عالم نے انسان کے ہاتھوں میں دیا ھے یا مثالی تربیت جسے بچہ ماں باپ سے بطور میراث حاصل کرتا ھے اس کی بہت عظمت و منزلت ھے، ایک استاد بچے کی تقدیر یا اس کے درسی رجحان کو بدل سکتا ھے اور اسی طرح گناھوں سے آلودہ انسانوں کو پاک و پاکیزہ ،اور پاک و پاکیزہ افراد کو گناھوں کے دلدل میں ڈال سکتا ھے یہ دونوں صورتیں انسان کی شخصیت کو اتنا واضح و روشن کرتی ھیں کہ جس کی وضاحت کی ضرورت نھیں ھے ۔البتہ یہ بات فراموش نھیں کرنا چاھیئے کہ ان تینوں امور پر انسان کاارادہ غالب ھے ۔
حضرت علی علیه السلام کی خاندانی شخصیت :
حضرت علی علیه السلام کی ولادت جناب ابوطالب (ع) کے صلب سے ھوئی۔۔۔ حضرت ابوطالب علیه السلام بطحاء (مکہ) کے بزرگ اور بنی ہاشم کے رئیس تھے۔ آپ کا پورا وجود مہربانی و عطوفت، جانبازی اور فداکاری اور جود و سخا میں آئین توحیدکا آئینہ دار تھا ۔جس دن پیغمبر اسلام (ص) کے دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ھوا اس وقت آپ صرف آٹھ سال کے تھے اور اس دن سے ۴۲ سال تک آپ نے پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت، سفر ھو یا حضر، کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی اور بے مثال عشق و محبت سے پیغمبر اسلا(ص)م کے مقدس ہدف، جو کہ وحدانیت پروردگار تھا ،میں جم کر فداکاری کی اور یہ حقیقت آپ کے بہت سے اشعار ”دیوان ابوطالب“ سے واضح ھوتی ھیں مثلاً:
”لِیَعْلَمُ خِیَارُ النَّاسِ اَنّ محمداً نَبِیٌ کَمُوْسیٰ وَ الْمَسِیْحِ بنِ مَرْیَمِ“[2]
پاک و پاکیزہ اور نیک طینت والے یہ جان لیں کہ محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)، موسیٰ اور عیسیٰ علیهم السلام کی طرح پیغمبر ھیںاور دوسری جگہ فرماتے ھیں:
”اَلَمْ تَعْلَمُوْا اَٴنَّا وَجَدْنَا مُحمداً رَسُولْاً کَمُوْسیٰ خُطَّ فِی اَوَّلِ الْکُتُبِ“[3]
کیا تم لوگ نھیں جانتے کہ محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) موسیٰ -کی طرح آسمانی رہبر اور رسول ھیں، اور ان کی پیغمبری کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں درج ھے۔
ایک ایسی قربانی ، کہ جس میں تمام بنی ہاشم ایک سوکھی اور تپتی ھوئی غار میں قید ھوگئے اور یہ چیز مقصدسے عشق ومحبت کے علاوہ ممکن نھیں ھے کہ اتنا گہرا معنویت سے تعلق ھو، رشتہ کی الفت ومحبت اور تمام مادی عوامل اس طرح کی ایثار وقربانی کے روح انسان کے اندر پیدا نھیں کرسکتیں۔
حضرت ابو طالب کے ایمان کی دلیل اپنے بھتیجے کے آئین وقوانین پر اس قدر زیادہ ھے جس نے
محققین کی نظروں کواپنی طرف جذب کر لیا ھے ۔ مگر افسوس کہ ایک گروہ نے تعصب کی بنیاد پر ابوطالب پر شک کیااور دوسرے گروہ نے تو بہت ھی زیادہ جسارت کی ھے اور آپ کوغیرمومن تک کہہ ڈالاھے ۔حالا نکہ وہ دلیلیں جوحضرت ابو طالب کے لئے تاریخ وحدیث کی کتابوں میں موجود ھیں اگراس میں سے تھوڑا بہت کسی اور کے متعلق تحریر ھوتا تو اس کے ایمان واسلام کے متعلق ذرہ برابر بھی شک و تردیدنہ کرتے۔
مگر انسان نھیں جانتا کہ اتنی دلیلوں کے باوجود بعض انسانوں کا دل روشن نہ ھوسکا (اور وہ گمراھی کے دلدل میں پھنسے ھیں )
حضرت علی علیه السلام کی ماں کی شخصیت :
آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد،جناب ہاشم کی بیٹی ھیں ۔آپ وہ پھلی خاتون ھیں جو پیغمبر پر ایمان سے پھلے آئین ابراھیمی پر عمل پیرا ھوئیں ۔ وہ وھی پاکیزہ ومقدس خاتون ھیںجو دردزہ کی شدت کے وقت مسجداالحرام کی طرف آئیں اور دیوار کعبہ کے قریب جاکر کہا :
پروردگارا: ھم تجھ پر اورپیغمبروں پر اور آسما نی کتابوں پرجو تیری طرف سے نازل ھوئی ھےں اور اپنے جد ا براھیم کے آئین پر جنھوں نے اس گھر کو بنا یا ھے ایمان کامل رکھتی ھوں۔
پرور دگارا: جس نے اس گھر کو تعمیر کیا اس کی عظمت اور اس مولود کے حق کا واسطہ جومیرے رحم میں ھے اس بچہ کی ولادت کو مجھ پر آسان کردے۔
ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ فاطمہ بنت اسد معجزاتی طریقہ سے خدا کے گھر میں داخل ھوگئیں اور مولائے کائنات کی ولادت ھوئی۔[4]
اس عظیم فضیلت کو مذہب شیعہ کے معتبرمحدثین اور مورخین اور علم انساب کے معتبر دانشوروںنے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے ۔اھلسنت کے اکثر دانشوروں نے اس حقیقت کو صراحت سے بیان کیاھے اور اس کو ایک بے مثال فضیلت کے نام سے تعبیر کیا ھے۔[5]
حاکم نیشاپوری کہتے ھیں :
خا نہ کعبہ میں علی -کی ولادت کی خبر حدیث تواترکے ذریعہ ھم تک پہنچی ھے ۔[6]
مشھور مفسرآلوسی بغدادی لکھتے ھیں :
کعبہ میں علی -کی ولادت کی خبر دنیا کے تمام مذہبوں کے درمیان مشھور ومعروف ھے اور آج تک کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نھیں ھوئی ھے۔ [7]
پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کی آغوش میں:
اگر امام علیہ السلام کی عمر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آپ کی زندگی کا ابتدائی دور پیغمبر اسلامﷺ کی بعثت سے پھلے کا دور ھوگا ۔اس وقت امام علیہ السلام کی عمر دس سال سے زیادہ نھیں تھی۔ کیونکہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ھوئی تو پیغمبر اسلام کی عمر۳۰ سال سے زیادہ نہ تھی ۔اور پیغمبر اسلام چالیس سال کی عمر میں رسالت کے لئے مبعوث ھوئے۔ [8]
امام علیہ السلام کی زندگی کے حساس ترین واقعات اسی دور میںرونما ھو ئے یعنی حضرت علی علیه السلام کی شخصیت پیغمبر کے توسط سے ابھری، عمر کایہ حصہ ہر انسان کے لئے اس کی زندگی کا سب سے حساس اور کامیاب واھم حصہ ھوتاھے ایک بچے کی شخصیت اس عمر میں ایک سفید کاغذ کے مانند ھوتی ھے اور وہ ہر شکل کو قبول کرنے اور اس پر نقش ھونے کے لئے آمادہ ھوتاھے۔ اس کی عمر کا یہ حصہ پرورش کرنے والوںاور تربیت کرنے والوں کے لئے سنہرا موقع ھوتا ھے تا کہ بچے کی روح کو فضائل اخلاقی سے مزین کریں کہ جس کی ذمہ داری خدا نے ان کے ہاتھوں میں دی ھے تاکہ ان کی بہترین تربیت کریں اور اسے انسانی اور اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائےں اور بہترین اور کامیاب زندگی گذارنے کا طورطریقہ اسے سکھائیں۔
پیغمبر عظیم الشان نے اسی عظیم مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی ولا دت کے بعد ان کی تربیت کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی، جس وقت حضرت علی علیه السلام کی والدہ نو مولود بچے کولے کر پیغمبر کی خدمت میں حاضر ھوئیںتوپیغمبر اسلام نے والہانہ عشق ومحبت کے ساتھ اس بچے کودیکھا اور کہا اے چچی علی کےجھولے کو میرے بستر کے قریب رکھ دیجیئے ،اس جہت سے امام علی علیہ السلام کی زندگی کا آ غاز پیغمبر اکرم کے لطف خاص سے ھوا، پیغمبر صرف سوتے وقت حضرت علی علیه السلام کے گھوارہ کو جھولا تے ھی نھیں تھے بلکہ آپ کے بدن کو دھوتے بھی تھے اور انھےں دودھ بھی پلاتے تھے ، اور جب علی علیہ السلام بیدار ھوتے تو خلوص والفت کے ساتھ ان سے بات کرتے تھے اور کبھی کبھی انھیں سینے سے لگا کر کہتے تھے ”یہ میرا بھائی ھے اور مستقبل میں میرا ولی وناصر اور میرا وصی اور میراداماد ھوگا“
پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کبھی بھی ان سے جدا نھیں ھوتے تھے اور جب بھی مکہ سے باہر عبا دت خدا کے لئے جاتے تھے توحضرت علی علیہ السلام کو چھوٹے بھائی یا عزیز ترین فرزند کی طرح اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ [9]
اس حفاظت و مراقبت کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا دوسرا پھلو جوکہ تربیت ھے آپ کے ذریعے ھو اور پیغمبر کے علاوہ کوئی شخص بھی ان کی تربیت میں شامل نہ ھو ۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے خطبے میں پیغمبر اسلام کی خدمات کو سراہتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں:
وَقَدْعَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی الله علیه و آله و سلم) بِالْقَرَا بَةِ الْقَرِ یْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ وَضعْنِیْ فِیْ حجْرِہِ وَاَنَا وَلَدٌیَضُمُّنِيْ اِلَی صَدْرِہِ وَ یَکْنُفُنِيْ فِیْ فِرَاشِہِ وَ یَمَسَّنِیْ جَسَدَہ٘ وَ یُشِمُّنِيْ عَرْفَہُ وَ کَانَ یَمضُغُ الشَّیٴَ ثُمَّ یُلقمُنِیْہِ۔[10]
اے پیغمبر کے صحابیو! میرے اور پیغمبر کے درمیان رشتہء اخوت اور جو احترام ومقام حضرت کے نزدیک میرا تھا اس سے تم لوگ بخوبی واقف ھو ، اور تم لوگ یہ بھی جانتے ھو کہ میں ان کی آغوش محبت میں پروان چڑھا ھوں جس وقت میں کمسن تھا ، مجھے سینے سے لگایا اور اپنے بسترکے قریب میرے گھوارے کو رکھا اور اپنے ہاتھوں کو میرے بدن پر پھیرا اور میں نے خوشبو ئے رسالت کو استشمام کیا(سونگھا) اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلایا ۔
پیغمبر ا سلام حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے
جب خدا نے چاہا کہ اس کے دین کا عظیم ولی سردار انبیاء پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کے گھر مےں پرورش پائے اور رسول اسلام کے زیر نظر اس کی تربیت ھو تو پےغمبر اسلام کو اس کی طرف متوجہ کیا ۔
اسلام کے مشھور مورخین لکھتے ھیں :
مکہ میں سخت قحط پڑا ،پیغمبرکے چچا ابو طالب اپنے اھل و عیال کے ساتھ اخراجات کے متعلق بہت پریشان ھوئے،پیغمبر اکرم(ص) اپنے دوسرے چچا عباس جو ابو طالب سے زیادہ امیر اوردولتمندتھے، سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان یہ طے پا یا کہ ہر ایک حضرت ابو طالب کے لڑکوں میں سے ایک ایک کو اپنے گھر لے جائے تا کہ اس قحط کے زمانے میں ابو طالب کی پریشا نیوں میں کچھ کمی واقع ھوچنانچہ جناب عباس ، جعفر کو اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) حضرت علی علیه السلام کو اپنے گھر لے گئے ۔[11]
اب جبکہ حضرت علی علیه السلام مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں تھے حضرت علی -نے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا یا اور پےغمبر اسلام کی سر پرستی میں کمال کے بلندترین درجے پر فائز ھوئے، امام علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اس زمانے اور پیغمبر کی تربیت کی طرف اشارہ کیا ھے آپ فرماتے ھیں :
”وَلَقَدْکُنْتُ اتَّبِعُہُ الْفَصِیْلُ اُمِّہِ یِرْفَعُ لِیْ کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاٰقِہِ عَلَماً وَ یَاْٴمُرُنِیْ بِالْاِقْتِداءِ بِہِ“[12]
میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنی ماں کی طرف جاتاھے ، پیغمبر کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پھلو سکھاتے تھے اور حکم دیتے کہ ان کی پیروی کروں۔
حضرت علی علیہ السلام غار حرا میں
پیغمبر اسلام (ص)رسالت پرمبعوث ھونے سے پھلے تک سال میں ایک مھینہ غار حرا میں عبادت میں مصروف رہتے تھے اور جیسے ھی مھینہ ختم ھوتاتھا آپ پہاڑ سے نیچے اترتے تھے اور سیدھے مسجدالحرام کی طرف جاتے تھے اور سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے پھراپنے گھرواپس آتے تھے ۔
یہاں پر سوال یہ ھے کہ جب پیغمبر اسلام حضرت علی علیه السلام سے اس قدر محبت کر تے تھے تو کیا اس عجیب وغریب جگہ پر عبادت ودعا کے لئے حضرت علی علیه السلام کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے یا انھیں اتنی مدت تک چھوڑ کر جاتے تھے ؟
تمام قرائن سے پتہ چلتا ھے کہ جس دن سے پیغمبراسلام حضرت علی علیه السلام کو اپنے گھرلے گئے اس دن سے ایک دن کے لئے بھی انھیں اپنے سے جدا نھیں کیا۔
مورخین لکھتے ھیں :
حضرت علی علیه السلام ھمیشہ پیغمبر کے ساتھ رہتے تھے اور جب بھی پیغمبرشہر سے باہر جاتے اور بیابان اور پہاڑ کی طرف جاتے تو حضرت علی علیه السلام کو اپنے ساتھ لے جاتے۔[13]
ابن ابی الحد یدکہتے ھیں :
حدیثوں سے پتہ چلتا ھے کہ جب جبرئیل پھلی مرتبہ پیغمبر اسلام پر نازل ھوئے اور انھیںرسالت کے عہدے پر فائز کیا اس وقت علی علیه السلام پیغمبر (ص)کے ھمراہ تھے اوروہ دن انھی دنوں میں سے تھا جن دنوںپیغمبر اسلام غار حرا میں عبا دتوں کے لئے جایا کر تے تھے ۔
حضرت امیرالمٴومنین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ھیں :
وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِزُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحَراءِ فَاٴرَاہُ وَ لاٰیُرَاہُ غَیْرِیْ۔۔۔[14]
”پیغمبر ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انھیں نھیں دیکھا“ اس جملے سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ مولائے کائنات غار حرا میں پیغمبر اسلام کے ھمراہ ،رسالت کے بعدبھی تھے لیکن گذشتہ قرآئن سے مولائے کائنات کا پیغمبر اسلام کے ساتھ غار حرا میں ھونا غا لباً رسالت سے پھلے ھے اور خودیہ جملہ اس بات کی تائیدکرتا ھے کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کی رسالت سے پھلے کا ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی طہارت وپاکیزگی اورپیغمبر اسلام کے ہاتھوں ان کی پرورش کاھونا اس بات کا سبب بنا کہ اسی بچپن کے زمانے میں حساس دل ا و ر چشم بصیرت اور اپنی بہترین سماعتوں کے ذریعے ایسی چیزیں دیکھیں اور ایسی آوازیں سنیں کہ جن کا سننا یا دیکھنا عام آدمی کے لئے ممکن نھیں ھے ۔
چنانچہ ا مام علیہ السلام خوداس سلسلے میں فرماتے ھیں :
”اٴَرْیَ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الَّرَسٰالَةِ وَ اَٴشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَةِ“[15]
ھم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کے ساتھ وحی اور رسالت کے نور کو دیکھا جو پیغمبر پر چمک رہا تھااور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں :
امیرالمو منین (ع)نے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کی رسالت سے پھلے نور رسالت اور وحی کے فرشتے کی آواز کو سنا تھا اس عظیم موقع پر جب کہ آپ پر وحی نا زل ھوئی۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : اگر میں خاتم الانبیاء نہ ھوتا تو تم میں پیغمبری کی تمام چیزیں بدرجہ اتم موجودتھیں اورتم میرے بعد پیغمبرھوتے لیکن تم میرے بعد میرے وصی اور وارث اور تمام وصیوں کے سردار اور متقیوں کے پیشوا ھو۔[16]
امیرالمومنین علیہ السلام اس غیبی آواز کے متعلق جس کو آپ نے بچپن میں سنا تھا ارشاد فرماتے ھیں : جس وقت پیغمبر پر وحی نازل ھوئی اسی وقت میرے کانوں سے کسی کے نالہ وفریاد کی آواز ٹکرائی میں نے رسول خدا سے پوچھا یارسول اللہ (صلی الله علیه و آله و سلم) یہ نالہ و فریاد کیسا ھے ؟
آپ نے فرما یا: یہ شیطان کی نالہ وفریاد ھے اور اس کی علت یہ ھے کہ میری بعثت کے بعد زمین والوں کے درمیان جو اس کی اطا عت وپر ستش ھوتی اس سے یہ نا امید ھوگیا ھے پھر پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) علی علیه السلام کی طرف مخاطب ھوکر کہتے ھیں:
”اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اسْمَعُ وَتَریٰ مٰا اَرَیٰ ، اَٴلٰا اَٴَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍٍ وَلٰکِنَّکَ وَزِیْرٌ“[17]
اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اور سنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نھیںھو بلکہ تم میرے وزیر اور مدد گار ھو ۔
[1] نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۱۷۷، فیک کے بجائے فیّ ھے۔
[2] مجمع البیان، ج۴، ص۳۷۔
[3] مجمع البیان، ج۴، ص۳۷۔
[4] کشف الغمہ ، ج۱ ص ۹۰
[5] جیسے مروج الذہب، ج۲ ص۳۴۹،بشرح الشفاء ، ج۱ ص ۱۵۱
[6] مستدرک حاکم ، ج۳ ص ۴۸۳
[7] شرح قصیدہ عبدالباقی آفندی ص ۱۵
[8] بعض لوگوں نے مثلاابن خشاب نے اپنی کتاب موالید الائمہ میں علی علیه السلام کی کل عمر ۶۵ سال اور بعثت پیغمبر سے پھلے ۱۲ سال لکھی ھے۔ تفصیل کے لئے کتاب کشف الغمہ تالیف مشھور مورخ علی بن عیسیٰ اربلی (متوفی ۶۹۳ھ) ص ۶۵ پر دیکھ سکتے ھیں۔
[9] کشف الغمہ، ج۱، ص ۹۰۔
[10] نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲، خطبہٴ قاصعہٴ ۔
[11] سیرہٴ ابن ہشام، ج۱ ص ۲۳۶ ۔
[12] نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲۔
[13] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۲۰۸
[14] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۷ (قاصعہ)
[15] قبل اس کے کہ پیغمبر اسلام (ص) خدا کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز ھوں وحی اور غیبی آوازوں کو سنا جیسا کہ روایات میں ذکر ھے ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱۳ ص ۱۹۷
[16] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۳۱۰
[17] نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ