نبوّت عامہ اور امامت
فھيمى : ميرى سمجھ ميں يہ بات نہيں آتى كہ شيعہ ايك امام كے وجودكوثابت كرنے پر كيوں مصر ہيں ؟ اپنے عقيدہ كے سلسے ميں آپ اتنى جد و جہد كرتے ہيں كہ : اگر امام ظاہر نہيں ہے تو پردہ غيبت ميں ہے _ اس بات كے پيش نظر كہ انبياء نے احكام خدا كو لوگوں كے سامنے مكمل طور پر پيش كرہے _ اب خدا كو كسى امام كے وجود كى كيا ضرورت ہے ؟
ہوشيار: جو دليل نبوت عامہ كے اثبات پر قائم كى جاتى ہے اور جس سے يہ بات ثابت كى جاتى ہے كہ خدا پر احكام بھيجنا واجب ہے اس دليل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احكام كا وجود بھى ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت كرنے كيلئے پہلے ميں اجمالى طور پر نبوت عامہ كے برہان كو بيان كرتا ہوں _ اس كے بعد مقصد كا اثبات كروں گا _
اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائي مسائل ميں صحيح طريقہ سے غور كريں جو كہ اپنى جگہ ثابت ہوچكے ہيں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _
1_ انسان اس زاويہ پر پيدا كيا گيا ہے كہ وہ تن تنہا زندگى نہيں گزار سكتا بلكہ دوسرے انسانوں كے تعاون كامحتاج ہے _ يعنى انسان مدنى الطبع خلق كيا گيا ہے _
89
اجتماعى زندگى گزارنے كيلئے مجبور ہے _ واضح ہے كہ اجتماعى زندگى ميں منافع كے حصول ميں اختلاف ناگزير ہے _ كيونكہ معاشرہ كے ہر فرد كى يہ كوشش ہوتى ہے كہ وہ مادہ كے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد كے حصول كى راہ ميں ركاوٹ بننے والوں كو راہ سے ہٹادے جبكہ دوسرے بھى اسى مقصد تك پہنچنا چاہتے ہيں _ اس اعتبار سے منافع كے حصول ميں جھگڑا اور ايك دوسرے پر ظلم و تعدى كا باب كھلتا ہے لہذا معاشرہ كو چلانے كيلئے قانون كا وجود ناگزير ہے تا كہ قانون كے زير سايہ لوگوں كے حقوق محفوظ رہيں اور ظلم و تعدى كرنے والوں كى روك تھام كى جائے اور اختلاف كا خاتمہ ہوجائے _ اس بنياد پر يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ بشريت نے آج تك جو بہترين خزانہ حاصل كيا ہے وہ قانون ہے اور اس بات كا بھى اندازہ لگايا جاسكتا ہے كہ انسان اپنى اجتماعى زندگى كے ابتدائي زمانہ سے ہى كم و بيش قانون كا حامل تھا اور ہميشہ سے قانون كا احترام كرتا چلا آرہا ہے _
2_ انسان كمال كا متلاشى ہے اور كمال و كاميابى كى طرف بڑھنا اس كى فطرت ہے _ وہ اپنى سعى مبہم كو حقيق مقصد تك رسائي اور كمالات كے حصول كيلئے صرف كرتا ہے ، اس كے افعال ، حركات اور انتھك كوششيں اسى محور كے گرد گھومتى ہيں _
3_ انسان چونكہ ارتقاء پسند ہے اور حقيقى كمالات كى طرف بڑھنا اس كى سرشت ميں وديعت كيا گيا ہے اس لئے اس مقصد تك رسائي كا كوئي راستہ بھى ہونا چاہئے كيونكہ خالق كوئي عبث و لغو كام انجام نہيں ديتا ہے _
4_ يہ بھى ثابت ہوچكا ہے كہ انسان جسم و روح سے مركب ہے جسم كے اعتبار سے مادى ہے _ ليكن روح كے ذريعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال ركھتى ہے ، وہ
90
ترقى يافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _
5_ انسان چونكہ روح و بدن سے مركب ہے اس لئے اس كى زندگى بھى لامحالہ دوقسم كى ہوگى : ايك دنيوى حيات كہ جس كا تعلق اس كے بدن سے ہے _ دوسرے معنوى حيات كہ جس كا ربط ا س كى روح اور نفسيات سے ہے _ نتيجہ ميں ان ميں سے ہر ايك زندگى كے لئے سعادت و بدبختى بھى ہوگى _
6_ جيسا كہ روح اور بدن كے درميان سخت قسم كا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ايسا ہى دنيوى زندگى اور معنوى زندگى ميں بھى ارتباط و اتصال موجود ہے _
يعنى دنيوى زندگى كى كيفيت ، انسان كے بدن كے افعال و حركات اس كى روح پر بھى اثر انداز ہوتے ہيں جب كہ نفسانى صفات و كمالات بھى ظاہر افعال كے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہيں _
7_ چونكہ انسان كمال كى راہ پر گامزن ہے اور كمال كى طرف راغب ہونا اس كى فطرت ميں داخل ہے ، خدا كى خلقت بھى عبث نہيں ہے _ اس لئے انسانى كمالات كے حصول اور مقصد تك رسائي كے لئے ايسا ذريعہ ہونا چاہئے كہ جس سے وہ مقصد تك پہنچ جائے اور كج رويوں كو پہچان لے _
8_ طبعى طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنى ہى مصلحت و فوائد كو مد نظر ركھتا ہے _ بلكہ دوسرے انسانوں كے مال كو بھى ہڑپ كرلينا چاہتا ہے اور ان كى جانفشانى كے نتيجہ كا بھى خودہى مالك بن جانا چاہتا ہے _
9_ باوجوديكہ انسان ہميشہ اپنے حقيقى كمالات كے پيچھے دوڑتا ہے اور اس حقيقت كى تلاش ميں ہر دروازہ كو كھٹكھٹاتا ہے ليكن اكثر اس كى تشخيص سے معذور رہتا ہے
91
كيونكہ اس كى نفسانى خواہشيں اور درونى جذبات عقل عملى سے حقيقت كى تشخيص صلاحيت اور انسانيت كے سيدھے راستہ كو چھپاديتے ہيں اور اسے بدبختى كى طرف كھينچ لے جاتے ہيں _