۲۔ نص ، اس علم نفس کے قاعدے سے بھی ھم آہنگ ھے جو انسان کے اندر قانون سے سرکشی اور طغیانیت کی روح کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ھے۔
کیونکہ جب امام خداوند وحدہ لاشریک کی طرف سے بلافصل معین هوگا تو تمام لوگوں کے نزدیک موثق ، عادل، مخلص اور تمام رذائل و برائی سے پاک وپاکیزہ سمجھا جائے گا اور اس امام کے ذریعہ وہ اسباب جو انسان کے اندر سرکشی اور طغیانیت کے پائے جانے والے اسباب ختم هوجائیں گے۔
۳۔ نص ، اس نظریہ سے بھی ھم آہنگ ھے جس کو علماء کرام دین کے لئے ضروری سمجھتے ھیں کیونکہ اجتماعی زندگی میں روابط کے لئے بہت ضروری چیز ھے جس کی وجہ سے وحدت واتحاد اور استحکام پیدا هوتا ھے۔
لہٰذا امام منصوص ایک عظیم درجہ کانام ھے جو مبداء اعلی اور ایمان بلند درجوںپر فائز هوتاھے۔
لیکن اھل تحقیق اس بات کو جانتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے وقت بھی خطرناک اور حسّاس حالات تھے اور چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان حالات پر مکمل طریقہ سے علم رکھتے تھے او راپنے بعد هونے والے واقعات سے بھی باخبر تھے، چنانچہ اپنے بعد هونے والے واقعات کی خبر بھی دی اور خداوندعالم نے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا ھے:<اٴَفَاِنْ مَّاتَ اٴَوْ قُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلٰی اٴَعْقَابِکُمْ >[29]
”اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں توتم الٹے پاوٴں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے“پس کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے بعد کے لئے نص اور وضاحت نھیں فرمائی اور کیوں دوسروں نے اس کام کو انجام دیا؟! (معاذ اللہ) کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدوسروں سے کم درک وفھم رکھتے تھے او ر آپ میں ذمہ داری کا احساس وشعور کم تھا؟!!
چنانچہ یہ نظریہ نقصان دہ نھیں هوتا (جبکہ قرآنی آیات او راحادیث نبوی کے ذریعہ اسلامی اصول ثابت کرنے کے بعد اور فطرت انسانی اور علمی دلائل نیز اجماع کے قیام کے بعد) کہ اس کو کوئی چھوڑنے والا چھوڑدے یا اس کو برے القاب سے یاد کرے یا اپنی مرضی سے اس پر کوئی بھی نام منطبق کرے۔
اسی طرح یہ بات بھی امامت کے لئے نقصان دہ نھیں ھے کہ اس پر ”ٹیوقراطی“ "Theocratic" کانام دیا جائے جیسا کہ بعض مولفین نے امامت پر یہ نام منطبق کیا ھے۔
کیونکہ اگر اس سے مراد ”دینی حکومت“ هو تو اس میں کوئی حرج بھی نھیں ھے بلکہ صحیح معنی بھی یھی ھیں،اور اگر اس سے دین کے نام پر لوگوں پر حکومت کرنا مراد هو تویہ قیاس ھے اور نظریہ امامت کے برخلاف ھے۔
اسی وجہ سے ڈاکٹر” مجید خدوری“ نے اس نظریہ کو ردّ کیا اور امامت پر یہ نام منطبق نھیں کیا کیونکہ یہ واقع پر صادق نھیں ھے بلکہ ایک دوسرا نام ”نوموقراطی“[30]رکھایعنی وہ حکومت جس میں قانون کی حکومت اور قانون کو فوقیت حاصل هو، چنانچہ یہ وہ حقیقت ھے کہ جس میں شک کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کے لئے شک اور انکار کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہتی۔
اسی طرح امامت کو”ڈکٹیٹری“ "Dictaorship" کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے جیسا کہ بعض مولفین نے ایسا کھا بھی ھے۔
کیونکہ ”ڈکٹیٹری“ میں خاص فرد یا خاص افراد کی حکومت هوتی ھے گویا وہ حکومت کے مالک هوتے ھیں اور قانون ان کے ھاتھوں میں ایک کھلونا هوتا ھے اور یہ ”ڈکٹیٹری“ واقعاً اسلامی حکومت کے برخلاف ھے کیونکہ اسلامی حکومت میں تو صرف قانون کی حکومت هوتی ھے اور اس میں قانون کے علاوہ کچھ بھی نھیں هوتا۔
اور یہ بات بھی مسلم ھے کہ قانون کی حکومت جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں (چاھے وہ جنگ کا زمانہ هو یا غیر جنگ کا) قانونی حکومت کو بروئے کار لائے ھیںچنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ”ڈکٹیٹری“سے بالکل مخالف تھی۔
اسی طریقہ سے امامت پر ”طبقاتی حکومت“ (خاص طبقہ کی حکومت) کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا ھے۔
کیونکہ کسی خاص طبقہ کی حکومت کامطلب یہ ھے کہ وہ طبقہ تشریعات کو مسخر کرلے اور تمام نظام سے اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرتا رھے، چنانچہ اس طرح کی حکومت سے بھی اسلام کا کوئی سروکار نھیں ۔
کیونکہ قانون کی حکومت میںکسی کے لئے کوئی نرمی کا خانہ نھیں هوتا (یھاں تک کہ خود امام کے لئے) یعنی امام کو بھی یہ حق نھیں هوتا کہ وہ احکام میں تبدیلی کرے کہ امامت اور طبقہ کے تمام افراد کے درمیان قطع تعلق کرے۔
اسی طرح امامت کو ”غیرڈیموکریٹی“ کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے کیونکہ ”ڈیموکریٹی“ میں اھمیت اور بنیاد کسی خاص شعبہ کی حکومت هوتی ھے اورشعبہ کی حکومت کا مصدر بھی دین هوتا ھے جو حکومت کی اصل اور بنیاد ھے۔
اور چونکہ خداوندعالم مالک الملک ھے جو چاھے کرے جو چاھے نہ کرے لہٰذا اس کے لئے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ھے کہ کائنات کے ھر نظام میں اس کا حکم اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ھے، یعنی ھر حال میں اس کی اطاعت کرنا ضروری ھے۔
اور چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممالک الملک کے نمائندے ھیں اور اسی کی طرف سے بولتے ھیں اور اس کے امین ھیں لہٰذا ان پر امام کو منصوب اور معین کرنا ضروری ھے اور یہ کام خدا کی مرضی سے هونا چاہئے، چنانچہ یھی بات سیاسی نظریہ سے بھی ھم آہنگ ھے کہ انتخاب میں مصدر حکومت سے مشورہ هونا چاہئے۔
امام کے بارے میں وضاحت
گذشتہ گفتگو کا خلاصہ :
۱۔ راہ اسلام کو جاری وساری رکھنے کے لئے امامت کا هونا ضروری ھے۔
۲۔ امامت کا انتخاب بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر ضروری ھے کیونکہ آپ کی ذات <لاینطق عن الهوی> کی مصداق ھے اور جب بات یھاں تک آگئی ھے اور واضح خلاصہ بھی آپ حضرات نے ملاحظہ فرمالیا تو بات آگے بڑھ کرایک جدید مرحلہ تک پهونچتی ھے اوروہ یہ کہ ھم اس امام کی تلاش کریں جس کے بارے میں نص او راعلان کیا گیا ھے نیز ان واضح نصوص کو بھی ملاحظہ کریں جن کے ذریعہ سے امام کی معرفت و شناخت هوتی ھے۔
اور چونکہ امامت سے متعلق روایات اور رایوں کی تعداد اس قدر زیادہ ھیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نھیں کیا جاسکتا اور راویوں کے بیان کرنے کا طریقہ بھی جداجدا ھے، لیکن ھم یھاں پر فقط تین عدد شاہد پیش کرتے ھیں اور باقی تفصیل کو تفصیلی کتابوں کی طرف حوالہ دیتے ھیں۔(مثلاً الغدیر علامہ امینیۺ ، عبقات الانوار اورالمراجعات وغیرہ)
پھلی حدیث: ” حدیث دار “
ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل هوئی :
<وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ>[31]
”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ هوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خطبہ دیتے هوئے فرمایا:
”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰہ ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومہ باٴفضل ممّا قد جئتکم بہ، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰہ تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیہ، فاٴیکم یوازرنی علی ہذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟“
(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نھیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا هو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ھے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ هوگا۔)
چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے هوئے اور کھا:
”انا یا نبي اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال (ص) ان ہذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“
(یا رسول اللہ میں حاضر هوں اور میں آپ کا وزیر هوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:
یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے هوئے چلے گئے:
”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“[32]
قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ھے:
۱۔وزیرهونا۔
۲۔وصی هونا۔
۳۔خلیفہ هونا۔
اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟
اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ھے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ھم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:
قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے اس پھلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔
کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق هوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم هوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں هوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا هوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)
اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح هوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ هوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے هو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح هوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص هوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔
اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا هو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔
لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے روز اول ھی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ هوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی هوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ هوجائے۔
اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔