اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

خدا کی معرفت اور اس کا حکیمانہ نظام

انسان کواس لئے پیدا کیاگیا ہے  تاکہ  وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے  لہذا اس کی تمام سر گرمیاں خداسے رابطہ کو تحفظ بخشنے کے سلسلے میں ہونی چاہئے۔ اگر وہ اپنی توانائیوں کو دوسرے امورمیں صرف کرتاہے، تو اس نے انھیں ضائع کیا ہے ۔ تمام باطنی اورظاہری توانائیوںاور ساری نعمتوں کوخداسے رابطہ کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے

انسان اور اس کا خدا سے رابطہ:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتوں کا یہ حصہ ،خداسے رابطہ ،مشکلات میں اسکی طرف توجہ ، اس سے مددمانگنے اور دوسروں سے بے نیازی کے بارے میں ہے ۔خداسے رابطہ کے بارے میں کہنا چاہئے کہ:انسان کواس لئے پیدا کیاگیا ہے  تاکہ  وہ قرب الہی کے مقام تک پہنچ جائے  لہذا اس کی تمام سر گرمیاں خداسے رابطہ کو تحفظ بخشنے کے سلسلے میں ہونی چاہئے۔ اگر وہ اپنی توانائیوں کو دوسرے امورمیں صرف کرتاہے، تو اس نے انھیں ضائع کیا ہے ۔ تمام باطنی اورظاہری توانائیوںاور ساری نعمتوں کوخداسے رابطہ کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے ،گویا یہ راستہ کافی وسیع اور مختلف صورتوں میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہماری روح کی مختلف جہتوں میںسے کسی ایک جہت سے مربوط ہے ،کیونکہ خدائے متعال نے ہماری روح کو مختلف چہروں ،پہلوؤں اور گوناگون حیثیتوںسے سزاوار کیا ہے یہتمام پہلوایک سمت میں معین کئے گئے ہیں اور سب کا رخ خدا کی طرف ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے وجودی پہلوؤں میں سے ایک پہلو خدا کی جہت میں ہے اور دیگر تمام پہلو ایسے نہیں ہیں۔

انسان کے وجودی پہلوؤںکے بارے میں کچھ تقسیم  بند یاں ہوئی ہیں ،مثال کے طور  پر کہا جاتا ہے کہ وجود انسانی کا ایک پہلو خداسے رابطہ کے لئے ہے اور اس کا ایک پہلو اپنے آپ سے  رابطہ کے لئے ہے اور ایک پہلو دوسرے انسانوں سے رابطہ کے لئے ہے اور اسکا ایک اور پہلو تمام مخلوقات سے رابطہ کے لئے ہے ۔یہ تقسیم بندی انسان سے مربوط احکام کی نظرسے صحیح ہو سکتی ہے انسان کے اپنے آپ سے رابطہ کے پہلو میں بیان ہوتاہے کہ کونسی چیز یں اس کے بدن کے لئے نفع بخش  ہیں اور کونسی چیز مضر ہیں، فلاں چیز حلال ہے اور فلاںچیز حرام۔ انسان کے بعض احکام خداسے رابطہ کو معین کرتے ہیں،جیسے نماز اور روزہ ․ انسان کے بعض احکام مخلوق سے رابطہ کو معین کرتے ہیں ،جیسے ماں باپ سے بر تاؤ،رشتہ داروں،دوستوں اور دشمنوں سے بر تاؤ۔

یہ تقسیم بندی قابل قبول ہے،لیکن اس امر کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ انسانی حیثیتوںکی یہ تقسیم بندی اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم خدا کی بارگاہ میں تقرب کے علاوہ کوئی اور مقصد رکھتے ہوں،بلکہ اعتراف کرناچاہئے  کہ ہمارے تمام وجودی پہلو  ---- ان میںمو جودہ  اختلاف کے باوجود ----ایک نقطہ پر منتہی ہوئے ہیں ۔یعنی وہی رابطہ جو انسان دوسرے انسانوں سے رکھتا وہی خدا اور دوسروں سے  رکھنا چاہئے ۔

ہمارے کاموں کی صورت میں فرق ہے:ایک کام نماز کی صورت میںہے اور ایک سبق پڑھانے کی صورت میںیا درس پڑھنے کی صورت میں یاروز مرہ کے امور انجام دینے کی صو رت میں ، لیکن یہ سب امور ہمارے لئے اسی وقت اور اسی حالت میں مفید ہیں کہ جب خداکے لئے ہوں،لہذا انسان  کے اپنے تمام کام حتی اس  کے تفکرات خدا کے لئے ہونا چاہئے اور وہ اس کے علاوہ کسی کونہ چاہے،نہ طلب کرے اور نہ ڈھونڈے۔

یارب زتوآنچہ من گدامی خواہمافزون زہزار پاد شاہ می خواہم

ہر کس زدرتو حاجتی می خواھدمن آمدہ ام از تو ترامی خواہم

(اے پروردگار ! میں بھکاری ،جو تم سے مانگنا چاہتا ہوں وہ ہزاروں بادشا ہوں سے زیادہ چاہتا ہوں ، ہر کوئی تیرے در سے کوئی حاجت چاہتا ہے، میں آیا ہوںاورخود تجھے چاہتا ہوں)

انسان جو اپنے مادی وجوداور مادی زندگی کے تمام پہلوؤں کی ضرورتوں کو پو را کر نے کےلئے جو محدود کششیں رکھتا ہے ،اس کے علاوہ اپنی نا محدود زندگی ،نامحدود مقصد، نامحدودجمال و کمال اور نامحدود توانائی کے لئے بھی کچھ کششیں رکھتا ہے ۔حقیقت میں انسان کی وجودی عمارت بے نہایت مقصد کے لئے تعمیر کی گئی ہے اور بے نہایت عالم کی طرف حر کت کرنے کے لئے انسان کے اندر فطرتیں معین کی گئی ہیں اور جو کچھ دنیا کے بارے میںمحدود ہو تاہے یہ اس کا مقد ماتی پہلو ہے اور اس لئے ہے کہ انسان کی حرکت کاانجن ر کنے نہ پائے اور اپنی راہ کو خداکی طرف جاری رکھے۔

یادرکھنا چاہئے جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے وہ خدا سے انسان کارابطہ ہے ، کیونکہ انسان کا انتہائی کمال خدا سے رابطہ میں منحصر ہے اور یہ رابطہ پہچان اور عمل سے حاصل ہوتا ہے ، اس کے بغیر  انسان دوسرے حیوانات کی فہرست  میں ہوتا ہے بلکہ ان سے پست تر:

<اولئک کا لانعام بل ہم اضل>(اعراف/۱۷۹)

”یہ(گمراہ)چو پایوں جیسے ہیںبلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں“

 اس کے درمیان ،انبیاء اور اولیائے الہی کا وجود ان کے علمی آثار،سنت وسیرت اور ان سے ظاہر ہونے والی طاقتیں ان کے خدا سے رابطہ کی نشانیاں تھیں ۔البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عقلی تجزیہ کے مطابق ہر شئے کا وجود ، خالق سے عین رابطہ ہے اور ممکن نہیں ہے کی خالق اپنی مخلوق سے رابطہ نہ رکھے ، لیکن یہ رابطہ تکوینی ہے کہ جونظام ہستی کے مجموعہ میں واقع ہوا ہے اور ناقابل گریز ہے اور کوئی بھی مخلوق ممکن نہیں ہے خدا سے تکوینی رابطہ نہ رکھے ۔بالاخر اس تکوینی رابطہ کے علاوہ انسان ایک اور خصوصیت رکھتا ہے اور خدائے متعال نے یہ قدرت اسے عنایت کی ہے کہ وہ اپنی عقل،فہم وشعورکی برکت سے اس رابطہ کودرک کرسکتا ہے اور اسکی قدر وقیمت اس میں ہے کہ وہ اس رابطہ کو بہتر اورزیادہ عمیق صورت میںدرک کرے ۔

عام طور پر شناخت کا آغاز اور خدا سے رابطہ علم حصولی کے ذریعہ ہو تا ہے جو فکر اور عقلی وفلسفی استدلال کو بروئے کار لاکر حاصل  ہوتا ہے۔لیکن یہ معرفت و شناخت آخری اور نقطہٴکمال کی انتہا  نہیں ہے اور اسے مقصد و منزل تک نہیں پہنچاتی ہے اور اس میں راسخ اعتقاد و یقین ایجاد نہیں کرتی ہے۔مکمل شناخت ،شناخت حضوری ہے۔یعنی انسان ایک ایسے مقام پر پہونچ جاتاہے جہاں سے پورے وجود سے خدا سے رابطہ کو درک کرتاہے ،بلکہ وہ خداسے خود عین رابطہ ہوتا ہے ،نہ یہ کہ صرف جان لے۔ دین کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو ایسے مقام تک پہنچا دے ۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا :

”ماراٴیت شیئاً الا و راٴیت اللّٰہ قبلہ وبعدہ ومعہ“

”میں نے کسی چیز کو نہیںدیکھا ،مگر یہ کہ اس سے پہلے اس کے بعد اور اس کے ساتھ خدائے متعال کو دیکھا“

اگر انسان کو-----جو کمال تک کوشش کرتا ہے-----اس دنیا میں یہ معرفت مکمل طورپر حاصل نہ ہوئی،تو اسے ایسے مواقع فراہم کر نا چاہئے تاکہ دوسری دنیا میں اس رابطہ کو مکمل طور پر حاصل کرسکے ۔ اس جہت سے دین کی زبان میں اور احادیث  اہل بیت علیہم السلام میں، خداسے رابطہ کے سلسلہ میں”رویت“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اور کہاگیا ہے کہ بہشتیوں کی بالا ترین نعمت یہ ہے کہ اپنے کمال کے درجہ کے مطابق انوار الہی کے مشا ہدہ سے فیضاب ہو تے ہیں ۔جو بلند ترین مقامات تک پہنچے ہیں ان کے لئے ہمیشہ انوار الہی کا مشاہدہ میسر ہوتا ہے اور جن کامقام پست ہے ،ان کے لئے کمتر تجلیات الہی حاصل ہوتی ہیں ۔

نقل کیاگیا ہے کہ ایک تہرانی عالم دین جو ایک متقی و پرہیزگارشخص تھے کینسر کی بیماری کی وجہ سے اس دنیاسے چلے گئے مرحوم کے ایک رشتہ دار نے جو ان سے بہت زیادہ محبت و عقیدت رکھتے تھے ان کو خواب میں دیکھا اور اپنے خواب کو ----- حقیقت  میں ایک سچا خواب ----- قم کے ایک عالم دین کی خدمت میں یوں بیان کیا:جب میں نے ان کو خواب میں دیکھا  توان سے سوال کیا :کیا آپ اس دنیا (برزخ )میں ائمہ اطہاراور امام حسن علیہم السلام کی زیارت کرتے رہیں؟انھوںنے جواب میں کہا:کیا کہتے ہو!اس دنیا میں ہمارے اور سید الشہداء علیہ السلام کے درمیان تیس ہزار سال کا فاصلہ ہے،ہمیں تیس ہزارسال انتظار کرنا ہے تاکہ انکی زیارت کر سکیں !

جی ہاں!دیکھنا چاہئے انسان اپنادل کس کے سپرد کرتاہے اور انسان کی قدروقیمت اس چیز کی وجہ سے ہے جس چیز کو اس نے اپنادل حوالے کیا ہے ۔جس کادل باغ اور گھر  سے تعلق رکھتا ہو،اسکی قدرومنزلت اسی حدمیں ہے لیکن اگر اس کادل خداسے متعلق ہو اوراس کے دل کا رابطہ خدا سے ہے،تو اس کی قیمت بے بہا ہے ،پھر وہ دنیا کی محدود اور ناپائدار تعلقات کی قید میںنہیں ہوتا ہے، وہ خدا کے علاوہ تمام لوگوں اور چیزوں سے دل کھینچ لیتا ہے:

آنکس کہ ترا شناخت جان را چہ کندفرزند  وعیال وخانمان را چہ کند

دیوانہ  کنی  ہردو  جہانش  بخشیدیوانہ  تو ہر دو جہا  نرا  چہ کند

(جس نے تجھے  پہچان لیا اس کو اپنی جان کے ساتھ کیا کام ہے ۔اپنے اہل و عیال اور خاندان سے اسے کیا لینا دینا ہے ۔(پہلے تو اپنی محبت میں) دیوانہ کرتے ہو اور پھر دونوں جہاں بخشتے ہوتیرے دیوانہ کودونوں جہاں سے کیاکام ہے!

لہٰذا انسان کی حقیقی قدرومنز لت خداسے اس کے رابطہ اوراس کے تقرب میںہے ،نہ مادی لذتوں اور سرمایہ میں ۔انسان کی انسانیت اس کے درک اور قلبی توجہات میں ہے ،دیکھنا چاہئے کہ اس کادل کہاں پر رابطہ بر قرار کر چکا ہے اور جس قدر اسکا رابطہ خدائے متعال سے عمیق تر ہوگا اتنا ہی محکم و مستحکم تر ہوگا۔جب انسان اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے لگتا ہے تو انوار الہی اس کے لئے بیشتر تجلی کرتے ہیں اور عطیا ت و نعمات الہی سے وہ زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہو تا ہے اس لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

” یا اباذر!الا اعلمک کلما ت ینفعک اللّٰہ عزوجل بہن ؟قلت:بلی یارسول اللّٰہ․قال:احفظ اللہ یحفظک“

”اے ابوذر!کیا میںتجھے ایسی باتیں نہ سکھا ؤ ںکہ خدائے متعال ان کی برکت سے تجھے نفع پہنچا ئے ؟میں نے عرض کی: جی ہاں، اے اللہ کے رسول ۔آپنے فرمایا:خدائے متعال سے اپنے رابطہ کو حفظ کرو تاکہ خدائے متعال اپنے رابطہ کوتیرے ساتھ حفظ کرے“

جتنی بھی نصیحتیں اب تک بیان ہوئیں فائدہ منداور نفع بخش تھیں ،پس یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کو توجہ دلاتے ہیں کہ تیرے لئے ایسی باتیں بیان کروں کہ خدائے متعال ان کی وجہ سے تجھے بخشے گا ۔گویا اس کا یہ معنی ہے کہ یہ باتیں گزشتہ مطالب کا خلاصہ اور منتخب مجموعہ ہے اور اس کی خاص اہمیت ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کو ان کی طرف توجہ دلاتے ہیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ خدائے متعال نے تمھارے اور اپنے درمیان ایک تکوینی رابطہ رکھا ہے اور یہ رابطہ اعظم الو ہیت اور تمہارے جیسے  بندہ حقیر کے درمیان استوار ہے، کوشش کرو یہ رابطہ بر قرار رہے اور ٹوٹنے نہ پائے۔ اگر اس رابطہ کو تحفظ بخشنے کےلئے تم نے تلاش وکوشش کی تو خدا وند متعال بھی تمھاری حفاظت کرے گا ۔ اس مفہوم کو حافظ نے اپنے ایک خوب صورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :

گرت ہواست کہ معشو ق نگسلد پیوندنگہدار  سر  رشتہ  تا  نگہدارد

اس سے بڑھ کر کونسی سعادت ہو سکتی ہے کہ ایک بندئہ حقیر جو دنیا میں کسی چیز میں شمار نہیں ہوتا خالق کائنات سے رابطہ رکھتا ہے اور اس سے بڑھ کر کونسی نعمت ہوسکتی ہے!پس اس کی حفاظت کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کی وجہ سے خدا کی عنایتیں ہمیشہ اس پر نازل ہوتی رہیں ․ لیکن اگر اس کی حفاظت کے لئے کو شش نہ کی اور بندگی کی رسم بجانہ لایا ،تو اسے خدائے متعال کی مہر بانیاں اور عنایتیں حاصل کرنے کی تو قع نہیں رکھنا چاہئے ۔

شاید بعض لوگوں کے  لئے یہ امر مبہم ہو کہ میرے اور خدا کے درمیان کس قسم کا رابطہ ہے کہ  میںاس کی حفاظت کروں ،میں جو اس عالم خاکی میں زندگی کرتا ہوں اورخدائے متعال اور عرش الہی کے درمیان کونسا رابطہ ہو سکتا ہے۔ اس ابہام کو دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

”احفظ اللّٰہ تجدہ امامک“

”خدا سے اپنے رابطہ کی حفاظت کرو تاکہ اسے اپنے سامنے پاؤ “

یعنی تمھارے اورخداکے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے وہ ہمیشہ تمھارے پاس حاضر ہے اور تجھ سے جدا نہیں ہے۔

<۔۔۔وہو معکم اینما کنتم واللہ بماتعملون بصیر>   (حدید/۴)

”ور وہ تمہارے ساتھ ہے  تم جہاں بھی رہو وہ تمہارے اعمال کادیکھنے والا ہے“

اس بنا پر انسان کو خداکی عنایات میںشامل رہنا چاہئے تاکہ وہ بلاؤں،شیطان کے شراور نفسانی وسوسوں سے اس کی حفاظت کرے (پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں حفاظت کرنا مطلق ہے اور اس میں انسان کو ہر مادی ومعنوی خطرہ سے حفاظت کرنا شامل ہے) خداکے ساتھ اپنے رابطہ کو محفوظ رکھنا چاہئے اوراسے کمزور ہونے نہیں دینا چاہئے۔

مشکلات اور آسائش میں خداکی طرف توجہ کرنے کی رورت :

 پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں:

” تعرف الی اللّٰہ فی الرخاء یعر فک فی الشدة“

”گنجائش کے وقت اپنے آپ کو خدائے تعالے سے آشنا کروتاکہ وہ تجھے تنگدستی کی حالت میں پہچانے۔“

اس کے پیش نظر کہ خدائے متعال بے نہایت قدرت رکھتا ہے اور جو کچھ کائنات میں انجام پاتا ہے اسکے  ارادہ ومشیت سے ہے اور اس کے ارادہ کے دائرہ سے کوئی چیزخارج نہیں ہے ،ہرحالت میںانسان کو اس کی طرف توجہ رکھنی چاہئے․ اگر مشکل اور گرفتاری سے دوچار ہے تو صرف خدا کی طرف توجہ کرے اور اس سے مشکلات کو دورکرنےکی درخواست کرے اسی طرح جب آسائش نصیب ہو توخدا کو مد نظررکھے ،کیونکہ آسائش کی نعمت کو خدائے متعال نے اس کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

فطری بات ہے کہ جب انسان کسی گرفتاری اور نامناسب حادثہ سے دو چار ہوتا ہے تو خدائے متعال کی طرف رخ کرتا ہے ،چنانچہ پروردگار عالم مشرکین کے بارے میں فرماتا ہے:

<فا ذا رکبوا فی الفلک دعوااللّٰہ مخلصین لہ الدین فلما نجیہم الی البر اذاہم یشر کون>    (عنکبوت/۶۵)

”پھر جب یہ لو گ کشتی میں سوار ہوتے ہیں(اور کشتی خطرے سے دو چار ہوتی ہے)تو ایمان وعقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھرجب وہ نجات پاکر خشکی میں پہونچ جاتے ہیں تو مشرک ہوجاتے ہیں “

 

      یہ کوئی کمال نہیں ہے کہ انسان سختیوں ومشکلات اور ہر طرف سے بلاؤں کے حملوں کے وقت خداکی طرف توجہ کرے ،البتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بارگاہ الہی سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ حتی مصیبتوں میں بھی خدا کو یاد نہیں کرتے،لیکن جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان ہے تو کم ازکم سختی اور مشکل کے وقت خدا کو یاد کرتا ہے ․پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:اگر چاہتے ہوکہ ہر وقت خدا کو یاد کرو ، وہ تجھے جواب دے اور تیری فریاد رسی کرے ،توآرام و آسایش کے وقت خداسے اپنے رابطہ کی حفاظت کرو اور اس سے آشنائی حاصل کرنا ،چونکہ اگر اس وقت اس سے ناآشنا ہوئے ، تو یہ تو قع نہ رکھنا کہ وہ گرفتاری کے وقت تیری فریاد رسی کرے گا،آرام وآسائش کے وقت خدا کو یاد کرو ، تاکہ مشکلات میں اس کو پکارتے وقت وہ تجھے لبیک کہے۔

ہم سب،کم وبیش،اپنی اپنی زندگی میں مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں،اور تھوڑی دیر یا زمانے کے بعد اس سے نجات اور جھٹکا رہ پاجاتے ہیں ،لیکن ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ ان قضیوں پس پشت ڈال دیتے ہیںاور اس رہائی اور آسائش کی نعمت جسے خدائے متعال نے ہمیں مشکلات کے بعد ہمیںعنا یت کی تھی اس کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے ۔جبکہ بلائیں اور مشکلات انسان کو بیدار کرنے اور اسے خدا کی طرف توجہ دلا نے کے لئے ہوتی ہیں تاکہ وہ نعمتوں کی قدر کو جان لے۔

اگر ہمارے لئے کوئی خطر ناک صورت حا ل پیش آجاتی ہے۔مثلا ہمارا کوئی عزیز سخت بیما ر ہوجاتا ہے امیدوں کے تمام دروازے ہمارے لئے بند ہوجاتے ہیں اور شدید خطرے سے دو چار ہوتے ہیں،اگر اس مایوسی و ناامیدی کے عالم میںکسی نے ہماری مدد کردی ،ایک طبیب یا ڈاکٹر اچانک آگیا اور اس نے ہمارے بیمار کا علاج کردیا اور اسے ہلاک ہونے سے بچالیااور اسی طرح سیکڑوںحوادث جو ہمارے لئے پیش آتے ہیں اور ہم اس سے نجات پاجاتے ہیں،ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ان مشکلات سے رہائی کے بارے میں ہم کیا اخذ کیا ہے ؟کیا ان سب کو ہم اتفاقی سمجھیں اور کہیں کہ اتفاقا ایسا ہوا ہے ؟ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب خدائے متعال کی مہر بانیاں ہیں ،خدائے متعال کی مہر بانیاں اور عنایتیں ہمارے شامل حال ہوتی ہیں اور ہم ان خطرات سے بچ جاتے ہیں۔

نظام خلقت میں جو کچھ واقع ہوتا ہے ،سب ارادئہ الہی کے نتیجہ میں ہے اور کوئی چیز خدا کی مرضی کے خلاف واقع نہیں ہو تی ۔اگر انسان کو کوئی نعمت ملتی ہے یا کوئی بلا اس سے دور ہوتی ہے ،سب خدائے متعال کے ارادہ سے ہے ۔ وہ اسباب اور شرائط کو فراہم کرتا ہے ،خواہ وہ اسباب معمولی ہوں یا غیر معمولی خواہ ہم انھیں جانیں یانہ جانیں۔( اگر چہ جب ہم غیر معمولی اسباب ----- جنھیں ہم اتفاق  سے تعبیر کر تے ہیں-----پر توجہ کرتے ہیں تو متاٴ ثر ہوتے ہیں )یہ خدائے متعال ہے  جو ہمیشہ انسان کو رزق پہنچا تا ہے  ،خواہ معمولی اسباب کے ذریعہ جیسے کسب معاش یا خواہ غیر معمولی اسباب کے ذریعہ ،جیسے مائدہ آسمانی ۔ انسان کی مشکلات کا دور ہونابھی خدائے متعال کے توسط سے ہے ،خواہ معمولی راستوں سے یاغیر معمولی راستوں سے ۔

ایک تقسیم بندی کے ذریعہ انسانوں کو خدا کی طرف توجہ کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

پہلا گروہ :وہ لوگ ہیں جو ہرحالت میں،خواہ خوشحالی اور آسائش میں یا گرفتاری اور بلا میں خدائے متعال کی طرف توجہ رکھتے ہیں اورقرآن مجید کی تعبیر کے مطابق صبح وشام اس کی یاد میں مصروف ہیں اور صرف مشکلاتمیں اسے یاد نہیں کر تے ہیں:

<واذکر ربک فی نفسک تضر عا وخیفة ودون الجہرمن القول بالغدو والاصال ولاتکن من الغافلین>   (اعراف/۲۰۵)

”اور خداکو اپنے دل ہی دل میں بغیر منھ سے آواز نکالے ہوئے تضرع اور تنہائی کے عالم میں بھی کم بلند آواز سے صبح وشام یاد کرو اور خبردار غافلوں میں نہ ہوجاؤ“

<فی بیوت اذن اللّٰہ ان ترفع ویذکر فیہا اسمہ یسبح لہ فیہا بالغد و والا صال>   (نور/۳۶)

(یہ چراغ)ان گھروں میں(جیسے مساجد،انبیاء اوراولیاء کے گھر)ہے ،جن کے بارے میںخدا کاحکم ہے کہ انکی بلندی کا احترام کیا جائے اور ان میں اس کے نام کاذکر کیا جائے کہ ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں۔

اس گروہ کی ہر حالت میں خدا کی یاد میں ہونے کا راز یہ ہے کہ خد اکی طرف سے تمام نعمتیں حاصل کرنے کے باوجود بھی اس سے بے نیاز نہیں ہیں،اور کم از کم ان نعمتوں کی پائد اری کے لئے خود کو خدا کا محتاج جانتے ہیں،چونکہ وہ اپنے مراتب میں اختلاف کے مطا بق خدا سے اپنی نیاز مندی کو درک کرتے ہیں ،لہذا ان کے لئے نعمت و بلا میںکوئی فرق نہیں ہے وہ شائستہ بندے ہیں اور ہمیشہ خدائے متعال کو مد نظر رکھتے ہیں اورخداکی طرف سے بھی ان پر توجہ ہوتی ہے ۔

دوسراگروہ:اکثر مو منین اس گروہ میں شامل ہیں ․یہ وہ لوگ ہیں کہ نعمت وآسائش کی حالت میں کم و بیش غفلت میں مبتلا ہوتے ہیں،لیکن جب کوئی مشکل اور گرفتاری پیش آتی ہے تو بیدار ہوجاتے ہیں اورخدا کی نسبت نیاز مندی کا احساس کرتے ہیں ․یہ لوگ بھی نسبتا اچھے ہیں ،لیکن خدائے متعال ان سے شکوہ کر تا ہے کہ کیوں جب ہم انھیں کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو ہمیں فراموش کردیتے ہیں اورجب وہ نعمت ان سے چھین  لی جاتی ہے تو ہماری(خدا متعال کی)طرف متوجہ ہوتے ہیں:

<و اذا انعمنا علی الانسان اعرض ونئابجانبہ و اذا مسہ الشر فذودعا ء عریض>(فصلت/۵۱)

 اور ہم جب انسان کو نعمت دیتے ہیں تو ہم سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اورپہلو بدل کر الگ ہو جاتا ہے اور جب سخت موقع آتا ہے تو خوب لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ۔

تیسرا گروہ:  یہ وہ لوگ ہیں جوکسی بھی حالت میں ،حتی مصیبت اوربلاؤں میں بھی خدا کی طرف رخ نہیں کرتے اس گروہ کے بعض افراد بلاؤں کو خداکی طرف سے جانتے ہیں ،لہذا جب وہ بلائیں ان پر نازل ہوتی ہیں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا تے ہیں کیونکہ ان بلاؤں کو غیر طبیعی اسباب کی پیداوار اور خدا کا قہر و غضب جانتے ہیں ۔قوم یونس کی طرح کہ جب ان کے لئے عذاب کا وقت آگیا اور نزدیک تھا ان پر عذاب نازل ہو جائے ،چونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ عذاب خدا کی غضب کی نشانی ہے اس لئے ہوش میں آگئے اور تو بہ کی ،اور خدا ئے متعال نے بھی  انھیں نجات دی ۔

اس گرو ہ کے اکثر لوگ بلاؤں کے بارے میں یہ تصور نہیں کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے،لہذا وہ خداکی طرف توجہ نہیں کرتے ہیں ، خدائے متعال ان لوگوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے:

<فلولا اذجاء ہم باٴسنا تضرّعوا ولکن قست قلو بہم وزین لہم الشیطان ماکانوا یعملون>   (انعام/۴۳)

پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیںکی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہو گئے ہیں  اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کر دیا ہے ۔دوسری جگہ فرما تے ہیں:

<ثم قست قلو بکم من بعد ذلک فہی کالحجا ر ة او اشد قسوة وان من الحجارة لما یتفجر منہ الا ٴنہا ر وان منہا لما یشقق فیخر ج منہ الما ء وان منہا لما یھبط من خشیةاللّٰہ وما اللّٰہ بغافل عما تعملون>(بقرہ/۷۴)

” پھر تمہارے دل سخت ہو گئے  جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں  میں سے بعض سے نہریں بھی جاری ہو جاتی ہیں اور بعض شگافتہ ہو جاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خوف خداسے گر پڑتے ہیں،لیکن اللہ تمھارے  اعمال سے غافل نہیں ہے“

خدا سے درخواست کرنے اور مدد چاہنے کی ضرورت:

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں کہ انسان کو صرف خدائے متعال سے درخواست کرنی چاہئے اورخداکے علاوہ کسی اورسے مدد نہیں مانگنی چاہئے ، فرما تے ہیں :

”و اذا سالت فاسال اللّٰہ عزوجل واذا استعنت فا ستعن باللّٰہ ، فقد جری القلم بما ہو کائن الی یوم القیامة“

اگر درخواست کرنا چاہتے ہو  تو خدائے متعال سے درخواست کرو ۔ اور کسی سے مدد چاہتے ہو تو پروردگار سے مدد مانگو کیو نکہ قیامت تک رونما ہونے والا سب کچھ لکھا جا چکا ہے ۔

طبعی بات ہے کہ انسان کی کچھ حاجتیں ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے ، اور اپنی  تمام خواہشا ت کو پورا نہیںکر سکتا ہے۔لہذ اخواہ نخواہ کسی کے پیچھے دوڑتا ہے کہ اس کی مدد کرے اور اس کی ضرو رتوں کو پورا کرے  ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر سے فرماتے ہیں کہ اگر کسی سے کوئی چیز مانگنا چاہتے ہو تو خدائے متعال سے مانگو ۔جب دیکھتے ہو کہ کسی چیز کے حاجت مند ہو اور خود اس کو پورا نہیں کرسکتے ہواور کسی اور سے مدد مانگنے پر مجبور ہو تو خدائے متعال سے مانگو ،کیونکہ تیری حاجت کے بارے میںاس سے بہتر کوئی آگاہ نہیں ہے اور اس کی طرح کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ تیری حاجتوں کو پورا کرسکے ․پوری ھستی اس کی ملکیت ہے اور اس کی قدرت تمام چیزوں پر تسلط رکھتی ہے اگر کوئی امر واقع ہو نا چاہتا ہے تو وہ اس کے ارادہ و مشیت سے واقع ہو تا ہے اس کے علاوہ خدائے متعال ہر شخصسے زیادہ اپنی مخلوق اور اپنے بندہ سے محبت رکھتا ہے اور اس کی بھلائی چاہتا ہے ،اس لئے خود اپنے بندہ کو حکم دیا ہے کہ اس کو پکارے اور اسی سے مدد کی درخواست کرے ․ہم دعائے افتتاح میں پڑھتے ہیں:

”اللہم اذنت لی فی دعائک و مسئلتک“

”پر وردگارا !تم نے مجھے اجازت دی ہے کہ تجھے پکا روں اور تجھ سے درخواست کروں“

فطری و طبیعی بات ہے جب خدائے متعال انسان کے لئے دعاومناجات کا دروازہ کھولتا ہے ، تو اس کا جواب دینے اور قبول کرنے کےلئے آمادہ ہے اور اس کے علاو ہ خدائے متعال انسان کو ہمیشہ اپنی نعمتوں سے نواز تا ہے ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اسکی جملہ نعمتوں میں بلاؤںسے رہائی اور ان کو دورکرنا بھی ہے یہ نعمت بھی خداکے توسط سے انسان متواترخداکی مہربانیوں اور محبتوں کامرہون منتٌ ہے اور ا سے جانناچاہئے کہ صرف خدا اس کی مدد کرنے پر قادر ہے اور کائنات میں اس کی اجازت کے بغیرکوئی کام انجام نہیں پاتا ہے ،لہذا صرف اس سے مدد مانگنی چاہئے ۔ ہم دعائے افتتاح کے ایک دوسرے حصے میں پڑھتے ہیں:

”فکم یا الھی من کربة قد فرجتہا و ہموم قد کشفتہا  و عثرة قد اقلتہاورحمة قد نشرتہا وحلقة بلاء  قدفککتہا“

پروردگارا!کتنی زیادہ مصیبتوںکو تونے مجھ سے دور کیا اوراسے برطرف کردیا ، میری لغزشوں کو معاف فرمایا ،رحمتوں کو پھیلا یا  اور بلاؤں کے حلقہ کو توڑدیا ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

”اذا اراد احدکم ان لا یسال ربہ شیئا الا اعطاہ  فلییاس من الناس کلہم ولا یکون لہ رجا ء الا عنداللّٰہ فاذا علم اللّٰہ عزوجل ذلک من قلبہ لم یسال اللّٰہ شیئا الا اعطاہ“

چونکہ اگر تم میں سے کسی نے یہ چاہا کہ جس چیز کی پروردگار سے درخواست کرے وہ اسے مل جائے تو اسے لوگوں سے ناامید ہوجانا چاہئے اورجو خدا کے پاس ہے اس کے علاوہ کسی چیز کی امید نہیں رکھنا چاہئے ،چونکہ خدائے متعال اس کے دل پر نظر رکھتا ہے اورجو بھی اس سے چاہتاہے ، عطا کرتا ہے

ہم میںسے ہر ایک کم از کم  روزانہ کہتا ہے :”ایاک نستعین“لیکن ہم عمل میں ایسے نہیں ہیں۔جیسے کہ ہم بہت سے لوگوں کا عمل یہ ثابت کرتاہے کہ ہم صرف خدا سے مدد نہیں  چاہتے ہیںبلکہ دوسروں سے بھی مدد طلب کرتے ہیں ۔البتہ ایسے لوگ بھی ہیںجو اس بات میں صادق ہیں اور جب”ایاک نعبدوا وایاک نستعین“کہتے ہیں تو حقیقت میں اسی کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ۔لیکن ہم  سچ نہیں کہتے ہیں اور ہمیشہ خدا کے بندوں کے سامنے ہاتھ پھیلا تے ہیں ۔ مصیبتوں اور مشکلات میں امید رکھتے ہیں کہ ماں ،باپ ،بھائی،بہن اور دوست و احباب ہماری مددکریں اور کبھی اپنی امید اور توقع  کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔

----------------------------------------

۔اصول  کافی․ج۳،ص۲۱۹

پیغمبراسلام صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم تاکید فرماتے ہیں کہ صرف خدائے متعال سے درخواست کرو اور اسی سے مدد چاہو ۔اس کے بعد جناب ابو ذر کو قضاو قدر اور تقدیر ات الہی کی طرف توجہ دلاتے ہیں اس سے پہلے بھی اس کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔تقدیرات الہی اور قضاوقدر پراعتقاد کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اگر انسان کو آرام وآسائش ،دولت اور خوشحال کرنے والا کوئی واقع پیش آتاہے تو بہت زیادہ اترتا نہیںہے اسی طرح پریشانی اور ناگواری کے کوئی واقعات پیش آتے ہیں تو بہت زیادہ رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نہیں ہو تاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ پیش آتا ہے وہ تقدیرات الہی ہے، اس سے فرارنہیں کیاجاسکتا ۔

<مااصاب من مصیبة فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراہا ان ذلک  علی اللّٰہ یسیر>  (حدید/۲۲)

زمین میں کوئی بھی مصیبت (قحط،آفت،فقروظلم)وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفسسے تم کو پہچتی ہے تو دنیا میں وارد ہونے سے پہلے وہ کتاب الہی(لوح محفوظ)میں ثبتہوچکی ہے اوریہ خدا کے لئے بہت آسان شے ہے۔

یہ تصورنہ کیا جائے کہ خدائے متعال اپنے بے شماربندوں میں سے ہر بندہ کے لئے ،پوری تاریخ میں جو کچھ اس کے لئے واقع ہوا ہے یاواقع ہو گا وہ کس طرح مقدر کر تاہے !کیو نکہ یہ کام اسکے لئے آسان ہے جیسےہی وہ ارادہ کرتاہے تمام معلومات جو اس کے پاس موجود ہے لوح محفوظ میںبھی  در ج ہے۔پھر بعدوالی آیت میں اس مطلب کی دلیل یوں ذکرکرتا ہے:

<لکیلا تاسوا علی مافاتکم ولاتفرحوابما اتکم واللہ لا یحب کل مختال فخور>    (حدید/۲۳)

یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جوتمھارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اورجو مل جائے اس پر غرور نہ کرو کہ اللہ اکڑ نے والے مغرور افراد کوپسند نہیں کر تا ہے ۔

تقدیرات الہی پراعتقاد کے من جملہ فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کی نظر ہمیشہ خدا پر ہو تی ہے،کیونکہ وہ جانتاہے کہ جس چیز کواس نے مقد ر بنایا ہے وہ اس میں تبدیلی لا سکتا ہے ،غیر از خدا دوسرے اس سلسلہ میںکچھ نہیں کرسکتے ہیں ،کہ کوئی ان سے امید رکھے ۔اگر اس کے لئے کوئی ناخوشگوار واقعہ اور مصیبت پیش آئے،تو وہ جانتا ہے کہ خدا نے اپنی حکمت کے پیش نظر اسے مقدر فرمایاہے ۔یا اگر اس سے کوئی چیز چھین لی جاتی ہے ،تو وہ جانتا ہے کہ وہ لوح محفوظ میں لکھی گئی ہے اور خدا کے حکیمانہ تد بیر کی بنیاد پر اس قسم کے واقعات رو نما ہونے چاہئے ،اس لئے ناراض نہیں ہو تا ہے اور پھر بھی بارگا ہ الہی میں اپنے ہاتھ پھیلا تا ہے اور اس سے چاہتا ہے اس کی مشکلات اور گرفتاریوں کو دور کرے ۔اگر ہمیں کوئی نعمت عطا ہو تو ہمیں مست و مغرور نہیں ہو  ناچاہئے اور خدائے متعال کو نہیں بھولنا چاہئے ،بلکہ اس حالت  میںبیشترخداکی طرف توجہ کریںاور اس نعمت کے عطاہونے پرشکر بجا لائیں اور بار گاہ الہی میںاپنی تواضع اور گدائی کی حالت کی حفاظت کریں  ، نہ یہ کہ قارون کے مانندان نعمتوں کواپنی تلاش و جستجو کا نتیجہ جان لیں :

<قال انما او تیتہ  علی علم عندی اولم یعلم ان اللّٰہ قد اہلک من قبلہ من القرون من ہواشد منہ قوة واکثر جمعا۔۔۔>(قصص/۷۸)

قارون نے کہا کہ مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بنا پر دیا گیا ہے تو کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی نسلوں کو ہلاک کردیاہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور مال کے اعتبار سے دولت مند تھیں اور ایسے مجرموں سے تو ان کے گناہوں کے بارے میں سوال بھی نہیں کیا جاتا ہے․ 

جان لو جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ تقدیر الہی کی بنیاد پر تجھے ملا ہے اور خدائے متعال نے اس کے اسباب فراہم کئے ہیں ، اس بنا پر اگر کسی سے مدد کی درخواست کرنا چاہتے ہو ،تو اس سے مدد طلب کرو کہ تمام امور جس کے ہاتھ میں ہیں اور تمام کام اس کی تقدیر کے مطابق انجام پاتے ہیں ،اگر وہ مصلحت جان لے تو اپنے مقدرات میں تبدیلی لا سکتا ہے،بہر حال تمہیں اس کے سامنے ہاتھ پھیلانا چاہئے اور اسی کی رحمت سے امید باندھنی چاہئے اور جب کسی بلا یامصیبت میں مبتلا ہو جاؤ تو، تم میں کوئی خاص تبدیلی رو نما نہیں ہونی چاہئے ،کیونکہ وہ بلا و مصیبت ایک حساب شدہ پرو گرام کے تحت اور حکیمانہ تدبیرکی بنیاد پر رو نما ہوئی ہے لہٰذا گریہ وزاری نہ کرو اور اپنے گریبان چاک نہ کرو کہ کیوںایسا ہوا ؟!ہمارے جزع فزع اور آہ وزاری سے خدائے متعال اپنے حکیمانہ تدبیرسے صرف نظر نہیں کریگا۔

اگر کوئی نعمت تجھے عطا کی گئی ہے ،تو یہ تصور نہ کرو کہ اسے تم نے اپنی فطانت اور زیرکی سے حاصل کیا ہے بلکہ تقدیرات الہی اورخداکی حکیمانہ تدبیر کے سبب وہ نعمت تجھے ملی ہے اس کے علاوہ یہ تیرے امتحان وآزمائش کے لئے ہے کہ تم اس نعمت سے کیا کرتے ہوپس قضا وقدر پر اعتقاد کے فوائدمیں سے ایک یہ ہے کہ انسان جان لے کہ جو کچھ واقع ہو تاہے وہ حکیمانہ تدبیر کی بنیاد پر ہوتا ہے اوراگر اس نے کسی قسم کی کمی بیشی کا مشاہدہ کیا تو زیادہ ناراض نہیں ہو تا ہے ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس نے اس نظام کو قائم کیا ہے ،اس نے اس تقدیرکوتدبیر قرار دیا ہے ،وہ اپنے کئے پر اس سے آگاہ تھا اور اپنے بندوںکی بھلائی اور مصلحت سے واقف تھا۔مذکورہ مطالب کے پیش نظرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم جناب ابو ذرکو خداسے مدد مانگنے کی تاکید کرنے کے بعد انھیں تقدیرات الہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

”فقد جری القلم بما ہو کائں الی یوم القیا مة“

کیونکہ جو کچھ قیا مت تک واقع ہوگا ، قلم اس پر جاری ہو چکا ہے

 ہم نے اس سے پہلے بھی یاددہانی کرائی ہے اور یہاںپربھی تاکید کر رہے ہیںکہ ہمیں قضا و قدراور معارف الہی کے مسئلہ سے ناجائز فائدنہیں اٹھانا چاہئے ۔ایسا نہ ہو کہ ہم بیان معارف میں پوشید ہ حکمتوں سے غافل ہو جائیں اور فکر کریں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ واقع ہوکر رہے گا ، اور ہمارے ہاتھ میںکچھ نہیں ہے! پس ہم کنارہ کشی کریں اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوںسے پہلو تہی کریں !بلکہ ہمیں  جاننا چاہئے ہماری تلاش وکوشش بھی  تقدیرات الہی کے زمرے میں ہے ،اس بناپر ہمیں بیشتر کوشش و جستجو کرنی چاہئے اور اپنے فرائض کے بارے میں بیشتر عزم و ارادہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے ایسا نہ ہو  کہ قضاو قدرپر بھروسہ کر کے فرائض و تکلیف سے پہلو تہی اختیار کی جائے اور سستی وکاہلی کو اپنا یا لیا جائے ، یہ شیطان کے وسوسے میںسے ہے۔

قضا وقدر پر اعتقاد اس امر کا سبب بننا چاہئے کہ ہم خدا کی طرف بیشتر توجہ کریں اور صرف اس کادامن تھا رہیں اور بیہودہ طور پر دوسروں کے پیچھے نہ جائیں اور ان کی چاپلوسی نہ کریں اور اپنی ذاتی  غرض کے لئے اپنے فرائض او رتکا لیف کو ترک نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم شیطان کے دھو کے میں آئیں اور تصور کریں ،اب جب کہ سب چیزیں مقدر ہیں ، ہما رے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، لہذا گوشہ نشینی اختیار کریں ،اگر علم حاصل کرنے میں مشغول ہیںتو ا سے چھوڑ دیں ،اپنی جگہ پر کہیں کہ اگر مقدر میں ہوگا ہم عالم بن جائیں، توخواہ درس پڑھیں یانہ پڑھیںعالم تو ہو ہی جائیں گے !حقیقت میں اگرمقدر میں عالم ہونا ہے از راہ تعلیم تو اگر ہم درس پڑھیں گے تب عالم بن جائیں اور اگر ہم درس نہ پڑھیںتو عالم نہیں بنیں گے البتہ ممکن ہے کسی تلاش و محنت کے بغیر ہی کوئی علم انسان کو عطا ہو جائے تو یہ فضل الہی ہے جو کبھی انسان کو نصیب ہو تا ہے ،لیکن بہر حال انسان کواپنے فریضہ کو انجام دینے کی راہ میں کو شش کرنی چاہئے اور کسی بھی کوشش سے فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے ․

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کو جاری رکھتے ہوئے اپنے گذشتہ بیانات کی تاکید میں فرماتے ہیں:

”فلوانّ الخلق کلّہم جہدوا ان ینفعوک بشی ء لم یکتب لک ماقدروا علیہ ولو جہدواان یضروک  بشیء لم یکتبہ اللہ علیک ما قدروا علیہ“

اگر تمام انسان تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں جسے خدائے متعال نے تیرے مقدرمیں نہیں لکھا ہے تو وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے ہیں،اسی طرح اگر تمام لوگ تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیںجسے خدا نے تمھارے لئے نہ لکھا ہو تو وہ ہرگز ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔

اگر خدائے متعال کی مر ضی وارادہ کسی کام سے متعلق ہو تو، دنیا کی تمام قابل تصور طاقتیں اسے روک نہیں سکتی ہیں :

<واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون>(یوسف/۲۱)

اور اللہ اپنے  کام پر غلبہ رکھنے والا ہے یہ اور بات ہے اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے ․

ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے :

<و ان یمسسک اللّٰہ بضرّ فلا کاشف لہ الاّ ھو وان یمسسک بخیر فہو علی کل شی ء قدیر> (انعام۱۷)

اگر خداکی طرف سے تم کو کوئی  نقصان پہنچ جائے تو اس کے علاوہ کوئی ٹالنے والا بھی نہیں ہے اور اگر وہ خیر دے تو وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے ۔

اس لحاظ سے آخری فیصلہ اور قطعی وحتمی ارادہ  خدائے متعال کے ہاتھ میں ہے ، پس اگر کوئی چیز چاہتے ہو تو اس سے مانگو جس کے پاس اس قسم کا ارادہ و قدرت موجود ہو ایسے افراد کے پیچھے نہ جاؤ  جو تمھارے مانند دوسروں کے گدا ہوں اور وہ کوئی کام نہ کرسکیںاور جان لو کہ اگر خدائے متعال نہ چاہے  تو کوئی تمھاری مدد نہیں کرسکتا ہے ۔

خدا کی حکیمانہ تد بیر کی معر فت اور یقین کا نتیجہ:

آخری نکتہ جس کی ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابو ذر کو یاد دہانی کراتے ہیں ، کہ اگر اپنے اندر یہ وصف پیدا کرلو تو اس کا بہت زیادہ ثمرہ اور فائدہہے ،وہ نکتہ یہ ہے کہ خدا کے بارے میں اس کی معرفت یقین کی منزل تک پہنچ جا ئے ․یقین پیدا کرے کہ جو کچھ خدا نے مقدر کیا ہے وہ واقع ہوگا اور  جو مقدر میں نہیں ہے وہ انجام نہیں پائے گا  اور جو مقدر ہے وہ لغو اور بیہودہ نہیں ہے بلکہ وہ حکیما نہ تدبیر کے مطا بق انجام پاتا ہے ۔اس معر فت و شناخت  سے مو من اطمینان پیدا کر تا ہے کہ جو کچھ واقع ہو تا ہے وہ اسکی مصلحت میں ہے  ،کیونکہ خداوند متعال اپنے بندہ کا ضرر و نقصان نہیں چاہتا ہے بالخصوص اس بندہ کے لئے جس نے اپنا کام خدا کے سپرد کیا ہے ۔ وہ اطمینان کے ساتھ  اپنافریضہ انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، وہ مطمئنہے کہ جو واقع ہو تا ہے وہ حکمت الہی کے موافق  ہے اور اس کی مصلحت اور نفع  میں ہے  ،خواہ  وہ ظاہرا ًخوش گوار ہو یا نا خوش گوار۔وہ جانتا ہے کہ جو کچھ قضاو قدرالہی کی بنیاد پر رونما ہو تا ہے اس میںخیر ہے اور تقدیرات  الہی میں شر کے لئے کو  ئی  جگہ نہیں ہے۔ فطری بات ہے کہ اگر انسان یقین اور معرفت کے اس مرحلہ تک پہنچ جائے کہ دنیا کے تمام حوادث اور روداد کو خیر اور حکیمانہ تدبیرالہی کے تناظر میں دیکھے تو جو بھی واقع ہو گا اس پر راضی اور مطمئن ہوگا اور جو بھی واقع ہوگا وہ خیر ہے اور انسان خیر سے خوشحال ہوتا ہے اور ممکن نہیں ہے وہ اسے برا لگے۔

 البتہ یہ یقین اور و معرفت اور یہ ایمان کا بلند درجہ آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہو تا ہے اور ہرآدمی اس قسم کے ایمان کو آسانی کے ساتھ اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا ہے اور ہر کوئی یہ لیاقت نہیں رکھتا کہ اس  مقام تک پہنچ جائے ۔ جو شخض اس قسم کے مقام تک پہنچنا چاہے اسے چاہئے کہ وہ تہذیب نفس کے لئے سخت کو شش کرے اور ایک ایسے مرحلہ پر پہنچ جائے کہ اپنے نفس پر مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرلے اور الہی احکام پر عمل کر نے کے لئے اور اولیائے الہی کی سیرت سے سبق حاصل کرے نیز انسانیت کے عالی مراتب تک پہنچ جائے تاکہ ہمیشہ اپنی مر ضی پر خدا کی مر ضی کو تر جیح دے  اورفطری بات ہے کہ ہر کوئی اس مقام تک پہنچ سکتا ہے․پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی یقین و معرفت کی منزل کو اس حد تک درک کرلیاکہ حوادث کو اپنی صلاح اور خیر کے تناظر میں دیکھے اور ناخوشگوار حالت پر رنجیدہ و کبیدہ خاطر نہ ہو اور کم از کم تلخ اور ناخوشگوار حوادث کے مقابلہ میںصبر اور بردباری کا مظاہرہ کر تا ہو۔ا سے جاننا چاہئے کہ مقدرکے مطابق انجام پانے والے حوادث کے مقا بلے میں کمز وری اور بے صبری کا کوئی فائدہ نہیں ہے انسان جس قدر بے تا بی کرے ،خداکی مرضی کے مطا بق انجام پانے والا حادثہ انجا م پائے گااور اس کو روکنے کے لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں

اگر اس کے لئے کو ئی مصیبت پیش آئے ،کسی بیماری یا فقر میں مبتلا ہوجائے ،زلزلہ یاسیلاب کے نتیجہ میں اس کا سب کچھ لٹ جائے ،یا کوئی اور حادثہ پیش آجائے،تو وہ صبر کر ے اور برداشت کو اپنا  پیشہ قرار دے ،تو اس صورت میں وہ خدا کی عنایتوںکا حقدار و مستحق ہے ۔البتہ اگر کسی حادثہ کی پہلے سے پیش بینی (اطلاع) سے پہلے ہو تو کچھ مقدمات کے بارے میں غور و حوض کر کے اسے روکا جاسکتا ہے تو انسان پر فرض ہے اسے روکے ۔ لیکنبہتسے ترقی یافتہ مما لک بھی تمام امکا نات اور جدید ترین وسائل کے باوجود یسے ناگہانی حادثات و آفات سے روبرو ہوتے ہیں کہ جس کی پہلے سے اطلاع اور پیش بینی ممکن نہیں ہوتی اور وہ اسکے مقابلہ کی  طاقت نہیں رکھتے ہیں ․چنانچہ مشہور ہے کہ جاپان سب سے زیادہ زلز لہ زلزلہ کی زد میں آ نے والا ملک ہے ،اور سے مقابلہ کرنے کےلئے مدافعت کرنے والی عمارتیں وہاں تعمیر کی گئی ہیں،متو قع مصیبت اور حادثہ سے متاثر ہونے والوں کی بر وقت امداد کے لئے پہلے سے ہی وسائل آمادہ رکھے گئے ہیں ،کیو نکہ وہ ملک اس سلسلہ میں کافی رکھتا ہے اور وہ لوگترقی یافتہ ہیں اور اس پر کافی سرمایہ بھی خرچ کرتےہیں ۔اس کے باوجود مشاہدہ کیا گیا ہے کہ دنیا ایک سب سے افسوس ناک اور خطر ناک زلزلہ جاپان میں آیا اور اس کے نقصانات ان  نقصات سے کہیں زیادہ تھے جو دوسرے پسماندہ ممالک میں زلزلوں سے ہواکر تے ہیں ․

پس حوادث مقدر ہیں اور رونما ہوتے ہیں ۔لوگ اس سے بے خبر ہیں ۔ ان حوادث کا امر ایک ایسے مدبر عالم کے ہاتھوں میں ہے کہ کائنات اسکی تدبیر سے چلتی ہے ۔وہ جانتا ہے کہ کس فارمولے کے مطابق ،کب اورکہاں زلزلہ آنا چاہئے ۔اور کہاں سیلا ب آنا چاہئے۔ممکن ہے خدا نہ کرے ہما رے لئے بھی کوئی مصیبت نازل ہو جائے ،اب اگر ہم خدا کی حکیمانہ تدبیر اور خداکے احسن نظام پر یقین اور معرفت رکھتے ہیں تو ناراض نہیں ہوں گے،کیونکہ ہم الہی تدبیروںپر حسن ظن رکھتے ہیں اور سب کو خیر اور اپنی اصلاح کے ذریعہ جانتے ہیں ․جب ہم کمی اور کسی کمزوری کا مشاہدہ کرتے ہیں  تو اس سے ناراض ہو تے ہیں ،لیکن اگر ہم اسے سو فیصدی اپنی مصلحت اور بھلائی میں دیکھیں تو کوئی وجہ نہیں ہے  کہ ہم اس سے ناراض ہو جائیںاور ہمیں غصہ آئے۔ممکن ہے کوئی انسان تکلیف اوربیماری کی شدت  سے تڑ پے اور درد اسے فرصت نہ دے،لیکن جب دیکھتا ہے وہ بیماری اس کے حق میں بہتر ہے اور اس کے لئے صلاح کا باعث ہے تو اس کی آؤبھگت کر تا ہے بالکل اسی طرح کہ جس کا دانت خراب ہو گیا ہے اور اسے نکالوانا چاہتاہے۔وہ دانت نکالنے کے لئے خود پیشکش کر تا ہے اور اس کے لئے پیسے بھی صرفہے ،کیونکہ وہ اس کام کو اپنی مصلحت میں جانتا ہے اور کبھی ناراض نہیں ہو تا ہے کہ اس کاکیوں دانت کو نکالا گیا،کیونکہ وہ جانتا ہے خراب شدہ دانت بدن کے لئے مضر ہے اور اسے نکالاجاناچا ہئے۔ کبھی انسان ایسی تکلیف اور بیما ری میں مبتلا ہو تا ہے کہ اسے علاج کر نے کے لئے کسی دوسرے ملک جانے کی ضرورت ہوئی ہے اور لاکھوں روپیہ خرچ کرنا پڑ تا ہے ، یا اپنی صحت یا بی کے لئے مجبور ہوتا ہے اپنے بدن کے کسی عضو سے محروم ہو جائے اور اس کے معالجہ کے لئے پیسے بھی خرچ کرتا ہے یا جس کے کسی اعضاء کے کاٹے جانے پر راضی ہوجا تا ہے ،لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مقام رضا تک پہنچا ہے اور دل سے اس کے لئے آمادہ ہے جو اسے در پیش ہے اور کسی قسم کا شکوہ نہیں رکھتا ہے ۔ بلکہ ممکن ہے پیش آنے والی چیز سے گلہ مند ہو ،اگر جراٴت ہوتیتو خدا سے شکوہ کے لئے لب کشائی کرتا ۔چنانچہ ضعیف الایمان افراد پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اپنی طاقت کو کھو دیتے ہیں اور حتی خدائے متعال سے بھی شکوہ کر تے ہیں ․ اسی مطلب کے پیش نظر پیغمبراسلام صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم فر ما تے ہیں :

”فان استطعت ان تعمل للّٰہ عز وجل بالر ضا والیقین فافعل وان لم تستطع فان فی الصبر علی ما تکر ہ خیراً کثیر اًوان النصر مع الصبر والفرج مع الکرب وانّ مع العسر یسرا“

”پس اگر تم اپنی رضا و یقین کے ساتھ خداکے لئے کو ئی کام انجام دے سکتے ہو تواسے انجام دو اور اگر انجام نہیں دے سکتے توجس چیز سے تمہیں نفرت ہے اس پر صبر وتحمل کرنے میں تمھارے لئے فراوان خیر ہے ۔کامیا بی صبر کے ساتھ ہے اور آسائش و آسودگیغم واندوہ کے ساتھ ہے ۔ بیشک ہر دشواری کے ساتھ آسانی بھی ہے۔“

اگر مقام رضا تک تمہارے لئے پہونچنا ممکن ہوتا ----- کہ البتہ رضا،یقین کے سایہ میں حاصل ہو تی ہے اور جب تک انسان مقام یقین تک نہیں پہونچتاہے وہ مقدرات الہی پر راضی نہیں ہو سکتا ہے-----تم کتنے  خوش قسمت ہو کہ انسانیت کے بہترین مقام تک پہونچ گئے ․اس لئے انسان کا بہترین مقام اور خصو صیت یہ ہے کہ وہ تقدیر ات الہی پر راضی ہواور تہہ دل سے خوش ہو اورکسی قسم کا گلہ وشکوہ نہ کرے ۔پس کو شش کرو کہ تمھاری رفتار رضا و یقین کی بنیاد پر ہو۔ اس صورت میں تلخ و شریں حوادث کے لئے اپنے آپ کوآمادہ کرسکتے ہو اور کسی قسم کی ناراضگی اور شکوہ سے عاری ہو ۔لیکن اگر اس حد تک نہیں پہنچے اور نا راضگیوں اور ناخوشگوارحوادث کے بارے میں اپنے لئے توجیہ نہیں کرسکتے کہ جس کی وجہ سے راضی ہوسکو،تو سختیوں کے مقابلہ میں صابر بننے کی کوشش کرو ، گریہ وزاری نہ کرو اور اپنے آرام وسکون کی حفاظت کرو ․اگر ان مشکلات کے بارے میں دل سے راضی نہ ہو سکے ،تو جان لو کہ یہ تمھاری معرفت کی کمی ہے کہ مقام رضا تک نہیں پہونچ سکے ہو ،کم از کم بے تابی نہ کرو اس لئے کہ  اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اپنی عقل وایمان کی حفاظت کرو۔ جان لو کہ اگر تم نے مصیبتوںاور مشکلات کے مقابلہ میں صبر کیا تو خدائے متعال تمہیں فراوان خیر عنایت کرے گا۔

انسان کی معنوی بلندی اورتکامل میں مشکلات کا رول :

اس کے بعد اپنی بات کی تاکید فرماتے ہیں :صبر و شکیبائی کے سائے میں کامیابی ہے اور ہر غم واندوہ کے ساتھ راحت و آسودگی ہے اور ہر سختی کے ساتھ آسانی بھی ہے ۔قرآن مجید میں خدائے متعال بھی فرماتا ہے:

<فان مع العسریسرا۔ان مع العسریسرا>  (انشراح/۵۔۶)

ہاں زحمت کے ساتھ آسانی بھی ہے ۔بیشک تکلیف کے ساتھ سہولت بھی ہے ۔

قرآن مجید میں بہت کم کوئی مطلب دوبار تکرار ہو ا ہے اور وہ بھی صرف تاکید ”انّ“سے․یہ خدائے متعال کی اس مطلب کے بارے میں توجہ اور عنایت کی دلیل ہے ۔خدائے متعال  مذکورہ آ یہ شریفہ میں فرما تا ہے :ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے ،یہ نہیں فرماتا ہے کہ ہر سختی کے بعد آسانی ہے ،گویا آسانی خود سختی کے اندر پو شیدہ ہے۔

خدا ئے متعال سورہ ”انشراح“ میں محبت آمیزلہجہ میں  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہ جو گویا آزردہ خاطر۔تسلی دیتا ہے اور آپ  کو آرام و اطمینان دلاتا ہے کہ کس طرح خدائے متعال نے ان کے کندھوں سے سنگین بوجھ کو اٹھا کر،دشواریوںکو آسانیوں میں تبدیل کیا ہے ۔ اس کے بعد فرما تاہے :ہر رنج و سختی کے ساتھ آسانی ہے ، پس اگر فراغت ملے تو اپنے آپ کو پھر سے زحمتوں میں ڈالنا  اور کوشش کو پھر سے شروع کرنا ․ حقیقت  میں خدائے  متعال  اس نکتہ کی طرف  اشارہ کر تاہے کہ سختیاں اور مصیبتیں انسان کے کمال و پیش رفت کا مقدمہ ہیں ،جواس کے لئے توانائی حاصل کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔ اس لحاظ سے مصیبتیںاور سختیاںانسان کے تکامل وترقی کے لئے ضروری ہیں:

<لقد خلقنا الانسان فی کبد> (بلد/۴)

”بیشک ہم نے انسان کورنج و مشقت میں رہنے والا  بنایا ہے۔“

یہ آیہ شریفہ انسان کی خلقت اور تکا مل ترقی میں رنج و مصیبت کے اہم رول کو بیان کرتی ہے ۔اگر اس کے علاوہ کچھ اور ہو تا  تو خدائے متعال جو مہر بانیوں اور رحمتوں کا سر چشمہ ہے اور اپنے بندے کے لئے ہمیشہ خیر و سعادت چاہتا ہے اسے رنج و مصیبت سے دوچار نہ کرتا ۔

مذ کورہ مطالب کے علاوہ ،خدائے متعال اپنے بندوں کی متواتر آزمائش کر تا ہے تاکہ شائستہ افراد کی پہچان کی جاسکے ،اس سلسلہ میں خدائے متعال نے انسانوں کی تر بیت و پرورش  کے لئے دو پرو گرام مقرر فرما ئے ہیں:عبادات کا تشر یعی پرو گرام اور مصائب ومشکلات کا تکوینی پرو گرام ۔بالآخر جو احکام الہی کی صحیح معنوں میں پیروی کرتے ہیں اور سختیوں اور دشوایوں کو دل وجان سے قبول کرتے ہیں ،ان کی رحمت اورمعرفت الہی کی طرف راہنمائی کی جاتی ہے:

<ولنبلونکم بشی ء من ا لخوف والجو ع ونقص من الاموال والانفس و الثمرات وبشر الصابرین ۔الذین اذا اصابتہم  مصیبة قالوا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون>(بقرہ/۱۵۵۔۱۵۶)

اور ہم یقینا تمھیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اورثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر!ان صبر کرنے والوں کوبشارت دیں جو مصیبت پڑ نے کے بعد یہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں․۔

حضرت امام محمد باقر  علیہ السلام فرما تے ہیں :

((ان اللّٰہ عزو جل لیتعاہد المومنین بالبلا ء کما یتعاہد الرجل  اہلہ  بالہدیة من الغیبة۔۔۔))  ۱#

خدائے متعال اپنے بندہ پر مہر بانی کر تاہے اور اس کے لئے بلاؤں کو تحفہ کے طور پر پیش کرتاہے ،

------------------------------------------------------

۱۔اصول کافی ،ج۳ص۳۵۴

اسی طرح جیسے ایک مرد سفر سے اپنے بال بچوں کے لئے تحفے لاتا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان کے گھر مد عو ہو ئے۔آپجب میز بان کے گھر میں داخل ہوئے تو ایک مرغی کودیکھا کہ جس نے دیوار کے اوپر انڈا دیا تھا اور  وہ انڈا ایک میخ پر رک گیا اور زمین پر نہیں گرا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعجب میں پڑگئے۔میز بان نے کہا :آپنے تعجب کیا؟اس خدا کی قسم جس نے آپ  کو پیغمبری کے لئے مبعوث فرمایا ہے ،مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچا ہے !رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے یہ جملہ سنا ،آپ  کھڑ ے ہو گئے اور اس شخص کے گھر میں کھانا نہیں کھایا اور فرمایا :جس نے کبھی کوئی مصیبت نہ دیکھی ہو اس پر خدا کی مہر بانی نہیں ہو تی ہے!

اس بناپر اگر بلاؤںکو صحیح نگاہ سے دیکھا جائے ،تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ سختیاں اور بلا ئیں تربیت اور بیداری کا رول انجام دیتی ہیں ۔مشکلات اور سختیاں سوئے ہوئے اور بے حرکت انسانوں کو بیدار و ہوشیارکر دیتی ہیں اور ان کے عزم وارادہ کو ابھار تی ہیں اور حقیقت میں سختیاں انسان کواستقامت و مقامت کی قدرت بخشتی ہیں۔انسان کی دنیوی زندگی کی خاصیت سختیوں کے ساتھ ہے ،اس میں جس قدر انسان کی قوت مقاومت میں اضافہ ہو گا اسی اعتبار سے اس کے تکامل میں اضافہ ہو تا جائیگا اور رفتہ رفتہ اس کی فطانت اور پوشیدہ قابلیتیں ظاہر ہو تی جائیں گی اور یہ لطف وعنایت الہی کی دلیل ہے۔مولانا رومی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

گندمی را زیر خاک انداختندپس ز خاکش خوشہ ہابرساختند

بار دیگر کوفتندش ز آسیاقیمتش افزون و نا ن شد جانفرا

با ز نان را زیردندان کوفتندگشت عقل وجان وفہم سود مند

( گندم کے ایک دانہ کوزیر خاک رکھا جاتا ہے ،پھر اس کے خوشے نکل آ تے ہیں،پھر اس گندم کے دانے کو چکی میں پیسا جاتاہے ،اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے پھر وہ روٹی میں تبدیل ہوجاتے ہےں ، پھر اس روٹی کودانتوں سے چبایا جا تاہے،پھروہ فائدہ بخش عقل،جان وشعورمیں تبدیل ہوجاتے  ہےں)

<۔۔۔سیجعل اللّٰہ بعد عسر یسرا۔>(طلاق/۷)

”․․․عنقریب خدا تنگی کے بعد وسعت عطا کرے گا․“

یہ آیت ان افراد کے لئے قابل توجہ ہے جن کی ظرفیت کم ہے اور جب وہ سختی اور مصیبت میں گرفتار ہو تے ہیںتو نا امید ی سے دوچار ہوتے ہیںاور خیال کرتے ہیں سب کچھ لٹ گیا ہے۔حتی ، دعا اور اولیا ئے الہی سے تو سل اورخدا سے التجا کی طرف بھی رخ نہیںکر تے اور اپنے لئے تمام دروازے بند دیکھتےہیں ․مو من کومصیبتوںکے مقابلہ میں بیقرار ہو کر اپنے ہوش نہیںکھو نا چاہئے،بلکہ اسے اپنے آرام وسکون کی حفاظت کرنی چاہئے اور جاننا چاہئے کہ ہر سختی کے بعد ایک آسانی ہے اور خدائے متعال نے ایسا مقدرنہیں کیا ہے کہ اس کا بندہ ہمیشہ سختیوں سے مقابلہ کرتا رہے اور پوری زندگی سختیوںاور مشکلات میں گزارے ۔بلکہ اگر خدا ئے متعال سختی کو قرار دیتا ہے تو اس کے بعد آرام وآسائش کو بھی قرار دیتا ہے اور اس کے انتظار میں رہنا چاہئے۔

قناعت اور لوگوں سے بے نیازی:

اس بحث کے اختتام پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حد یث کے اس حصہ میں فرماتے ہیں :

”یا اباذر!استغن بغنی اللہ یغنک اللہ“

”اے ابو ذر !خدا داد دولت کے توسط سے بے نیازی کی جستجو کرو  تاکہ خداتجھے بے نیاز کردے۔“

گویا اس بیان سے پیغمبر اسلام   کا مقصود جناب ابوذر ۻکے لئے صحیح طور پر واضح نہیں تھا۔چونکہ معلوم ہے کہ جو شخص دولت حاصل کرتا ہے وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے اورکسی کی تلاش میں نہیں جاتا اور اس میں کوئی مفہوم نہیں ہے کہ ایسے شخص کو کہا جائے کہ اپنے کوبے نیاز شمار کرواور کسی کی طرف اپنا ہاتھ نہ پھیلاو۔پس قطعا پیغمبر اکرم کے کلام میں کوئی راز مضمر ہے اور اس میں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اسی جہت سے آنحضرت  کے مقصود کے بارے میں جناب ابوذرۻ سوال کرتے ہیں اور آنحضرت جواب میں فرماتے ہیں:

”غدا ء ة یوم و عشا ء ةلیلة،فمن قنع بمارزقہ اللہ فہو اغنی الناس“

”(خدا کی دولت کا مقصودجس سے تم اپنے کو دوسروں سے بے نیاز سمجھتے ہو) تمھاری شب وروز کی غذا ہے جو شخص خدا کی دی ہوئی ہرچیز پر قناعت کرے وہ غنی ترین لوگوں میں سے ہے۔ “

 آنحضرت فرماتے ہیں:جب آج دن کے لئے تیرے پاس غذا موجود ہے تو دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاو اور اس فکر میں نہ رہوکہ کل کیا ہو گا ۔جو کچھ اس وقت تمھارے ہاتھ میںہے اسی پر قناعت کرو اور اس کے علاوہ اپنے کو بے نیاز جانو اور دل میں دوسروں کی نیاز مندی کا تصورتک نہ کرو اگر نیاز مندی کا احساس کیا اور کل کی بہبودی کی فکر میں رہے تو خود کو دوسروں کا محتاج بنا یا ہے اور کل کی بہبودی کے لئے وسائل حاصل کرنے کی غرض سے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہوگے  اور اس طرح ذلیل ہو گے ، کیونکہ جو بھی دوسروں کے سامنے اپنی نیازمندی کا ہاتھ پھیلا تا ہے وہ ذلیل ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر عزیز اور سر بلند رہنا چاہتے ہو اسی رزق پر قانع وراضی رہو جسے  خدائے متعال نے تمھارے لئے مقدر کیا ہے ۔ اگر انسان طمع اورلالچ میں مبتلا ہوا،تو جس قدر آرام وآسائش کے وسائل اس کے لئے فراہم ہو جائیں،پھر بھی وہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ کیا کروں  تاکہ اپنے مال ودولت میں اضافہ کروں اور اپنے لئے مزید و سائل و امکا نات حاصل کروں ۔وہ اس طرزتفکر کی وجہ سے ہمیشہ اپنے آپ کودوسروں کا محتاج پاتا ہے اور اپنے بارے میںسوچنے کی فرصت پیدانہیں کرتاہے تاکہ کمالات انسانی کے بارے میںغورو فکر کرے۔ کہ کس لئے پیدا کیاگیا ہے ،اپنی آخرت کے لئے کیا کیا ہے ۔ وہ دنیا میںطمع اورلالچ کے دام میں گرفتار ہوتا ہے اور ایک لمحہ بھی فراغت وآسائش سے نہیں گزار تااور بالآخر زاد راہ کے بغیرخالی ہاتھ اس دنیاسے رخت سفر باندھتا ہے ۔

اگر انسان آج کے رزق پر مطمئن ہو جائے اورخود کو بے نیاز کرلے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے، تو وہ اپنا وقت اپنی ترقی ،بلندی اور کمال حاصل کر نے کے لئے صرف کر سکتا ہے ۔ اپنے قناعت کے سرمایہ سے کہ جس کو اس نے ذخیرہ کر رکھا ہے اسے مواقع فراہم کرلے تاعبادت، تحصیل علم ، جہاد ، خدمت خلق بالآخر خداکی مرضی کے مطابق اور اپنی آخرت کے لئے  ہر مفید کام کو انجام دے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اظہر الیاس من الناس فان ذلک من الغنا ۔۔۔ “  ۱# 

”لوگوں سے ناامیدی کا احساس  ظاہری کرو،کیونکہ یہ حالت غنی اور بے نیاز ہونے کا نتیجہ ہے۔“

اور حضرت امیرا لموٴمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

”اشرف  الغنی ترک المنی“ ۲#

-------------------------------------------------

۱۔ بحار الانوار،ج/ ۷۱،ص/ ۱۸۵

۲۔ نہج البلا غہ (فیض الاسلام)حکمت / ۳۳، ص/ ۱۱۰۳

”بالا ترین بے نیاز ی طولانی آرزؤںسے دوری ہے “

انسان کو لو گوں کے پاس موجودہ چیزوں سے زیادہ اس پر امیدرکھنی چاہئے جو خدا کے پاس موجود ہے اور یہ نفس و خلق سے بے نیازی تب تک حاصل نہیں  ہو سکتی ہے جب تک کہ انسان خدائے متعال پر اطمینان ،اس پر تو کل، دوسروں پر اعتماد نہ کرنا اور نفع و نقصان کے خداکے ہاتھ میں ہونے کا یقین پیدا نہ کرے اور جان لے کہ جو بندوں کے حق میں ہے اسے خدا انجام دیتا ہے ،اور جوان کی صلاح میں نہیں ہے اس سے انھیں باز رکھتا ہے ،اس صورت میںبندہ دوسروں سے بے نیاز ہوتا ہے ،حتی اگر اس کا ہاتھ مال دنیا سے خا لی بھی ہوتو بھی اپنے آپ کودولت مند تصور کرتاہے ،چنانچہ نبی اکرم   فرماتے ہیں :

”لیس الغنا فی کثرة العر ض انما الغنی غنی النفس“   ۱#

” دولت مندی اور غنی ہونازیادہ  مال میں نہیں ہے اور بیشک دولت مندی نفس کی بے نیازی میں ہے۔“

۱۔بحار الانوار ج۱۰۳،ص۳۰

 

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقيدہ توحيد اور شرک
انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دوگروہ ہیں
معاد کے لغوی معنی
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
اصالتِ روح
موت کی ماہیت
خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
خدا اور پیغمبر یہودیت کی نگاہ میں

 
user comment