ولایت کا لفظی معنی سرپرستی اور حق تصرف ہے اور شیعہ اصطلاح میں عموماً ولایت یعنی معصومین(ع) کا خداوند کی طرف سے لوگوں کے سرپرست ہونا ہے۔ ولایت کی چار اقسام اور شاخیں ہیں: ولایت تشریعی، ولایت تفسیری، ولایت تکوینی، ولایت سیاسی۔
قرآن کریم کی رو سے ولایت کا حق صرف خداوندعالم سے مخصوص ہے اور وہ جسے چاہے یہ حق عطا کر سکتا ہے۔ دینی متون کے تحت خداوندعالم نے پیغمبروں، اماموں، اور مجتہدین کو ولایت میں دخالت کا حق دیا ہے۔ اگرچہ ولایت تشریعی جو کہ حکم شرعی کو جعل کرنے کا حق ہے، یہ ولایت صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور چند محدود امور میں صرف پیغمبر اسلام کو دخالت کا حق ہے۔ اس ولایت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ ولی کا حکم حجت ہے اور اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔
فہرست
1 ولایت معنی
2 انسان کی ولایت کا امکان
3 ولایت کی اقسام
3.1 تکوینی یا باطنی ولایت
3.2 تشریعی ولایت
3.3 ولایت اجتماعی
3.4 ولایت تفسیری
4 اولیاء
5 حوالہ جات
ولایت معنی
ولایت، مادہ ولی کا مصدر ہے جس کا اصلی معنی ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ اس طریقے سے رکھنا کہ دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہو[1]، اسی لئے یہ لفظ نزدیکی کے لئے استعمال ہوتا ہے، چاہے مکانی نزدیکی ہو یا معنوی نزدیکی۔[2] ولی بھی اسی مادے سے لیا گیا ہے جو کہ خداوند کا اسم گرامی ہے۔[3] اور جو ٢٧ معنی رکھتا ہے کہ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں: حاکم، امور میں دخالت اور تدبیر کرنے والا، مطیع اور تابع، زیادہ حقدار، قریب اور نزدیک، اچھی تبعیت کرنے والا، دوست، یاور، ہم عہد، ہم پیمان، ہمسایہ، حافظ، قریبی رشتہ دار و چچا کا بیٹا، آزاد کرنے والا اور آزاد کیا گیا۔ [4] اصطلاحی معنی، ولایت یعنی نزدیک اور قرب کی ایک قسم جو دوسروں سے مرتبط امور میں دخالت کا معنی رکھتی ہے۔[5]
انسان کی ولایت کا امکان
قرآن کریم کی آیات کے مطابق، وہ خداوند جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کا پروردگار ہے، وہ انسان کے امور میں ولایت کا حق رکھتا ہے اور وہی اپنے بندوں کا ولی ہے۔[6] اسی لئے ولایت اپنی تمام اقسام کے ساتھ خداوند متعال کے لئے مخصوص ہے اور فقط وہی ولی ہے اور اس کے علاوہ کسی کو بندوں کے امور میں دخالت کا کوئی حق نہیں ہے۔ کچھ انسانوں نے اس ولایت کو قبول کیا اور خداوند کو اپنا سر پرست سمجھا ہے اور کچھ نے اس ولایت سے فرار کیا اور خود کو شدیطان کے سپرد کر دیا۔ مومنین نے خداوند کی ولایت کو قبول کیا ہے۔[7] اور خداوند بھی انکی سرپرستی کرتا ہے اور انکو گمراہی اور ضلالت سے بچا کر سعادت اور کامیابی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔[8] لیکن جنہوں نے خداوند کی سرپرستی کا انکار کیا اور اس کی جگہ بتوں اور طاغوت کی سرپرستی کو قبول کیا،[9] جب کہ انکا خیال باطل ہے اور کافر دوسروں پر ولایت کا کوئی حق نہیں رکھتے۔[10] اور فقط خداوند ہے جو تکوینی امور کو بجالانے کی طاقت اور عالم تکوین میں دخالت کا حقدار ہے اور فقط وہی ہے جس نے دینی امور میں قانون نشر کیا ہے اور جو اجتماعی اختلاف کو برطرف کرتا ہے اور لوگوں کو سعادت کی زندگی کی طرف ہدایت دیتا ہے۔[11] خداوند نے اپنے کچھ خاص بندوں کو جو کہ اس ولایت کے لائق ہیں یہ حق دیا ہے البتہ این کی ولایت خداوند کی ولایت کے برابر نہیں ہے بلکہ خداوند کی ولایت کے ساتھ ہے اور یہ افراد صرف خداوند کی رضایت اور مرضی سے ہی اس ولایت میں دخالت کر سکتے ہیں۔
ولایت کی اقسام
تکوینی یا باطنی ولایت
تکوینی یا حقیقی ولایت یعنی ہر چیز کی تدبیر اور اس کا استعمال ولی کے اختیار میں ہے جیسے چاہے استعمال کرے۔[12] اسی طرح دنیا کے تمام امور میں قدرت اور اختیار رکھنا جیسے کہ اگر چاہے تو اس عادی نظام کو خراب کر سکتا ہے۔[13] تکوینی ولایت دراصل صرف خدا کے متعلق ہے اور توحید ربوبی کے تحت فقط خدا ہی ہے جو اپنی قدرت سے اس جہان کے نظام کو چلا رہا ہے اور تمام امور پر اس کی سرپرستی ہے اور وہی رب ہے۔[14] قرآن کریم میں خداوند کی تکوینی ولایت کے بارے میں بیان ہوا ہے، کہ خداوند مومنین کا ولی ہے اور انکو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتا ہے۔[15] خداوند متعال نے قرآن کریم میں کئی جگہ پر فرمایا ہے کہ ولایت فقط خدا پر منحصر ہے اور خدا کے علاوہ کوئی کسی کام کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا اور خدا کے علاوہ کسی کی طرف توجہ کرنا یعنی کسی سے مانگنا مضر ہے۔ جیسا کہ ایک آیت میں آیا ہے کہ ظالموں کا کوئی ولی یا یاور نہیں ہے اور اگر کسی نے خدا کے علاوہ کسی کو اپنا ولی یا سرپرست بنایا ہے انکی سرزنش کی ہے اور فرمایا ہے، کہ فقط خداوند اپنے بندوں کا ولی ہے اور فقط وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔[16]
تشریعی ولایت
ولایت تشریع کے دو معنی ہیں عام اور خاص۔ ولایت تشریعی عام، سے مراد ایسی ولایت ہے جو تکوینی امور میں دخالت کا مستلزم نہ ہو ولایت کی اس قسم میں ولایت تفسیری، ولایت سیاسی اور ولایت تشریعی خاص شامل ہوتا ہے۔
ولایت کی یہ قسم ولایت تکوینی کے خلاف اختیاری ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی زبردسیتی یا اجبار درکار نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم دین خدا اور ولایت کے قبول کرنے کو اختیاری جانتا ہے اور خدا کی ولایت کو قبول نہ کرنے والوں کو اپنی ولایت سے خارج جانتے ہیں اور خدا کو صرف اور صرف ان لوگوں کا ولی قرار دیتا ہے جو اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ [17]
علامه طباطبایی ولایت کی اس قسم کی توضیح میں فرماتے ہیں: ولایت تشریعی سے مراد شریعت اور انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے، امت کی تربیت اور ان کے اختلافی امور میں قضاوت کرنی کو کہا جاتا ہے اسی لئے خداوندعالم پیغمبر کو مؤمنین کا ولی قرار دیتا ہے۔[18]
ولایت تشریعی خاص، شریعت اور دینی احکام کے جعل کرنے کی حق کو کہا جاتا ہے ۔ ولایت تشریعی خاص کی چند قسمیں ہیں جن میں سے بعض اقسام صرف رسول خدا(ص) سے مختص ہیں اور بعض اقسام دینی حکمرانوں سے مربوط ہیں۔ روایات کی روشنی میں یہ حق ہمارے اماموں کیلئے بھی تفویض ہوتی ہے [19]
بعض روایات میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم(ص)، نے بعض مواقع اپنی طرف سے حکم شرعی جعل کئے ہیں جیسے چار رکعتی نمازوں کے آخری دو رکعت کو پیغمبر اکرم (ص) نے واجب کیا ہے۔
البته ولایت تشریعی کی اس قسم میں کبھی حکم اولیہ اور کبھی حکم حکومتی اور کبھی صرف مصداق کی تشخیص یا حکم کو موضوع پر تطبیق کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ حضرت علی(ع) نے ایک زمانے میں اسلامی حکومت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے گھوڑوں پر بھی زکات واجب کیا جبکہ حکم اولی کے مطابق گھوڑوں پر زکات واجب نہیں ہوتی ہے۔ امام علی (ع) کا یہ کام حکومتی احکام کے زمرے میں آتی ہے نہ کہ حکم اولی کے زمرے میں۔
ولایت کے اس قسم کے نفاذ میں اختلاف نظر ہے۔ بعض کا نظریہ ہے کہ حکم اولی کی تشریع کا حق صرف خدا کو ہی ہے اور کسی کو بھی حتی پیامبر اسلام کو بھی قانونگذاری کا حق نہیں ہے؛ لیکن دوسروں کا نظریہ ہے کہ اس کام میں بھی استثنائ موجود ہے اور پیغمبر اکرم(ص) اور بارہ امام اس سے مستثنی ہیں یعنی انہیں بھی قانونگزاری کا حق حاصل ہے۔
ولایت اجتماعی
ولایت اجتماعی یا زعامت یعنی اجتماعی اور سیاسی سرپرستی اور رھبری کا حقدار ہونا۔ قرآنی آیات کے مطابق حکم فقط خداوند کا ہے اور فقط وہی ہے جو اپنے بندوں پر سرپرستی کرتا ہے یہ ولایت کے تمام اقسام جیسے ولایت اجتماعی و۔۔۔ پر مشتمل ہے۔ لیکن کیونکہ خداوند مستقیم طور بغیر واسطے کے مادی امور پر حکمرانی نہیں کر سکتا اسی لئے یہ ولایت اپنے خاص بندوں کو دی ہے۔ اسی لئے خداوند نے بعض انسانوں کو یہ مقام عطا فرمایا ہے تا کہ اس کے حکم کے مطابق ان امور پر نظارت رکھیں اور انکو کمال کی طرف لے جائیں۔[20] یہ مقام فقط پیغمبروں کے لئے نہیں اگرچہ ان میں سے بہت کم تعداد میں پیغمبروں نے اپنی امت پر رہبری اور حکومت کی اور امت کے امور کو سھنبالا۔ رسول اسلام(ص) آخری پیغمبر تھے جنہوں نے ١٠ سال مدینہ میں لوگوں پر حکومت کی اور آپ(ص) کے بعد روایات کے مطابق یہ مقام اہل تشیع کے اماموں کر ملا اور خداوند کے حکم سے حضرت پیغمبر(ص) نے غدیر خم کے مقام پر امام علی(ص) کی رہبری اور خلافت کا اعلان فرمایا اور لوگوں نے آپ(ع) کی بعیت کی۔ [21] یہ تعارف اور اعلان اتنا اہم تھا کہ اس کے بعد والی آیت میں حضرت پیغمبر(ص) پر وحی ہوئی کہ اگر یہ حکم جاری نہ ہو تو گویا تم نے اپنی تمام زحمات پر پانی پھیر دیا اور گویا کہ خداوند کی پیغمبری کو انجام ہی نہیں دیا ہے۔ اسی وجہ سے اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد تمام لوگوں کے رہبری امام معصومین کے ہاتھوں میں ہے اور امام معصومین(ع) کے علاوہ کوئی اس رہبری اور حکومت کا حقدار نہیں ہے۔
ولایت تفسیری
اس قسم کی ولایت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے خاص بندے اپنی لدنی اور خدادای علم کی وجہ سے آسمانی کتب کی تفسیر اور توضیح دیں اور ان کتب کو تحریف ہونے سے بچائیں[22] جب تک پیغمبران الہی موجود تھے یہ کام ان کے عہدے پر تھا اور یہ مسئولیت اکثر پیغمبروں پر تھی اور اکثر پیغمبر جو کہ خداوند کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے وہ اسی گروہ میں سے ہیں۔ یہ افراد گذشتہ پیغمبروں کی شریعت اور انکی کتب کے بارے میں توضیح دیتے تھے۔ اور یہ مقام جو کہ خداوند کی کتاب کی تفسیر اور خدا کے دین کی تبلیغ کی خاطر تھا رسول گرامی(ص) کے بعد اماموں کو حاصل ہوا۔
اولیاء
خداوند: دینی متون کے مطابق حقیقی ولی خداوند ہے اور یہ ولایت کسی کی طرف سے اسے حاصل نہیں ہوئی۔ قرآن کریم کی مختلف آیات میں اس مسئلے کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٧ میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پیغمبران الہی: اپنی ولایت کے دوران خداوند کے حکم سے لوگوں کے امور میں دخالت کے حقدار ہیں۔ یہ ولایت تشریعی خاص کے علاوہ تمام اقسام کو شامل کرتی ہے البتہ رسول اکرم(ص) پیغمبروں میں واحد وہ پیغمبر ہیں جنہوں نے بعض تشریع امور پر حکم جاری کیا جیسے کہ چار رکعتی نمازوں میں دو رکعت اور تین رکعتی نمازوں میں ایک رکعت اضافہ کی یا روزانہ کی نافلہ نمازوں کو مستحب کرنا، یا ہر ماہ تین دن روزہ مستحب کرنا۔ [23] امامان معصوم، رسول اسلام(ص) کی ولایت کے بعد ولایت کے حقدار ہیں جو ولایت تکوینی، تفسیری اور ولایت سیاسی اور امت کی رہبری اور زعامت پر مشتمل ہے۔ مجتہدین، بعض روایات کے مطابق بعض فقہاء کو ولایت میں دخالت کا حق ہے۔ اس قسم کی ولایت کو ولایت فقیہ کہتے ہیں۔ دینی متون کے تحت بعض افراد کو محدود ولایت کا حق دیا گیا ہے جیسے فرزند کی ولایت باپ اور داد کو دی گئی ہے یا مومنین کو محجور اور سفیہ افراد کی ولایت دی گئی ہے۔
حوالہ جات
راغب، ص۸۸۵
جوادی آملی، ص۱۸و۱۹
ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷
امینی، ج۱، ص۶۴۱
طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲
ام اتخذوا من دونه اولیاء فالله هو الولی و هو یحیی الموتی و هو علی کل شیء قدیر(سوره شورا، آیه9)
ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا(سوره محمد، آیه11)
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا یخرجهم من الظلمات الی النور (سوره بقره، آیه257)
وَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ
وَ أَنَّ الْكافِرِينَ لا مَوْلى لَهُمْ (محمد، ص11)
طباطبایی، المیزان، ج18، ص231
طباطبایی، المیزان، ج۶، ص۱۳
مطہری، ولاہا و ولایتہا، ص۵۶و۵۷
جوادی آملی، ص۱۲۸
بقرہ، آیہ۲۵۷
شوری، آیہ۸ و۹
سوره بقره، آیه256و257
طباطبايی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج6، ص13
کلینی، ج1، ص268؛ مفید، الاختصاص، ص331
مطہری، ولاہا و ولایتہا، ص50-52
سورہ مائدہ، آیہ67
طباطبایی، شیعہ در اسلام، ص۳۱و۳۲
ر.ک: کلینی، ج۱، ص۲۶۶
source : abna24