اور وحدانیت پروردگارپر ایمان کا نتیجہ، عبادت میں توحیدِ ھے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نھیں، چونکہ اس کے علاوہ سب عبد اور بندے ھیں<إِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْداً>[51] غیر خد اکی عبودیت وعبادت کرنا ذلیل سے ذلت اٹھانا،فقیر سے بھیک مانگنا بلکہ ذلت سے ذلت اٹھانا اور گداگر سے گداگری کرناھے <یَا اٴَیَُھَا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلیَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ>[52]
وحدانیت خداوندمتعال پر ایمان،اور یہ کہ جو کچھ ھے اسی سے اور اسی کی وجہ سے ھے اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ھے، کو تین جملوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ھے ((لا إلہ إلا اللّٰہ))،((لا حول ولا قوة إلا باللّٰہ))، <وَ إِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ اْلاٴُمُوْرُ>[53]
سعادت مند وہ ھے جس کی زبان پر یہ تین مقدّس جملے ھر وقت جاری رھیں، انھی تین جملات کے ساتھ جاگے،سوئے،زندگی بسر کرے، مرے اور یھاں تک کہ<إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ>[54] کی حقیقت کو پالے۔
اور توحید پر ایمان کا اثر یہ ھے کہ فرد ومعاشرے کی فکر و ارادہ ایک ھی مقصد وھدف پرمرتکز رھیں کہ جس سے بڑھ کر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا ھدف و مقصد ھے ھی نھیں <قُلْ إِنَّمَا اٴَعِظُکُمْ بِوَاحِدَةٍ اٴَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی>[55]۔ اس توجہ کے ساتھ کہ اشعہٴِ نفسِ انسانی میں تمرکزسے انسان کو ایسی قدرت مل جاتی ھے کہ وہ خیالی نقطے میں مشق کے ذریعے حیرت انگیز توانائیاں دکھا سکتا ھے، اگر انسانی فکر اور ارادے کی شعاعیں اسی حقیقت کی جانب مرتکز هو ں جومبدا ومنتھی اور <نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ>[56]ھے تو کس بلند واعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ھے ؟!
جس فرد ومعاشرے کی <إِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اٴَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ>[57]کے مقام تک رسائی هو، خیر وسعادت وکمال کا ایسا مرکز بن جائے گا جو تقریر وبیان سے بہت بلند ھے۔
عن اٴبی حمزة عن اٴبی جعفر (ع) :((قال سمعتہ یقول: ما من شيء اٴعظم ثواباً من شھادة اٴن لا إلہ إلا اللّٰہ، لاٴن اللّٰہ عزوجل لا یعدلہ شیٴ ولا یشرکہ فی الاٴمر اٴحد))[58]
اس روایت سے یہ بات واضح هوتی ھے کہ جیسا کہ کوئی بھی چیز خداوند متعال کی مثل وھمسر نھیں، اس ذات قدوس کے امرمیں بھی کوئی اس کا شریک نھیں ھے۔ کوئی عمل اس حقیقت کی گواھی کا مثل و ھمسر نھیں جو کلمہٴِ طیبہٴِ ((لا إلہ إلااللّٰہ))کا مضمون ھے اورعمل کے ساتھ شایان شان جزاکے ثواب میںبھی اس کا کوئی شریک نھیں۔
زبان سے ((لا إلہ إلااللّٰہ)) کی گواھی، دنیا میں جان ومال کی حفاظت کا سبب ھے اور دل سے اس کی گواھی آتش جھنم کے عذاب سے نجات کا باعث ھے اور اس کی جزا بھشت بریںھے۔ یہ کلمہ طیبّہ رحمت رحمانیہ ورحیمیہ کا مظھر ھے۔
چھٹے امام (ع) سے روایت ھے کہ: خداوند تبارک وتعالی نے اپنی عزت وجلال کی قسم کھائی ھے کہ اھل توحید کو آگ کے عذاب میں ھر گز مبتلا نہ کرے گا۔[59]
اوررسول خدا (ص)سے منقول ھے: ((ماجزاء من اٴنعم عزوجل علیہ بالتوحید إلا الجنة))[60]
جو اس کلمہ طیبہ کا ھر وقت ورد کرتاھے ، وہ حوادث کی جان لیوا امواج، وسواس اور خواھشات نفسانی کے مقابلے میں کشتی ِ ٴدل کو لنگرِ ((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کے ذریعے ھلاکتوں کی گرداب سے نجات دلاتا ھے<اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوَبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اٴَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ>[61]
کلمہ طیبہ کے حروف کوبالجھر اور بالاخفات دونوں طریقوں سے ادا کیا جاسکتا ھے کہ جامعِ ذکرِ جلی وخفی ھے اور اسم مقدس ((اللّٰہ))پر مشتمل ھے، کہ امیرالموٴمنین (ع) سے منقول ھے کہ: ((اللّٰہ)) اسماء خدا میں سے بزرگترین اسم ھے اور ایسا اسم ھے جو کسی مخلوق کے لئے نھیں رکھا گیا۔ اس کی تفسیر یہ ھے کہ غیر خدا سے امید ٹوٹ جانے کے وقت ھر ایک اس کو پکارتا ھے <قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اٴَوْ اٴَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اٴَ غَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَةبَلْ إِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَےَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَیْہِ إِنْ شَاءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ>[62]
ابو سعید خدری نے رسول خدا (ص)سے روایت کی ھے کہ خداوند جل جلالہ نے حضرت موسی (ع) سے فرمایا :
اے موسی! اگر آسمانوں، ان کے آباد کرنے والوں (جو امر کی تدبیر کرنے والے ھیں)اور ساتوں زمینوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کو دوسرے پلڑے میں تو یہ دوسرا پلڑا بھاری هوگا۔[63] (یعنی اس کلمے کے مقابلے میں تمام مادّیات ومجرّدات سبک وزن ھیں)۔