مقدمہ
اب تک ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دین کی اساس و بنیاد کائنات کے خلق کرنے والے پر اعتقاد (یقین ) رکھنا ہے اور معرفت الٰہی اورمعرفت مادی کے درمیان اصلی فرق اسی کا پایا جانا اور نہ پایا جانا ہے
لہٰذا سب سے پہلا وہ مسئلہ جو حقیقت کے چاہنے والوں کے لئے پیدا ہوتا ہے اور جس کا جواب ہر شی سے پہلے ضروی ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا کسی خدا کا وجود ہے یا نہیں؟ اور اس سوال کے جواب کو حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان کیا جاچکا ہے اسے حل کرنے کے لئے عقل کی جولانیوں کی ضرورت ہے تا کہ کسی قطعی نتیجہ تک پہنچا جا سکے نتیجہ چاہے ٫٫ اثبات ،،میں ہو یا
٫٫ نفی،، میںاثبات کی صورت میں اس کے فرعی مسائل (توحید عدل اور تمام صفات الٰہی ) کی باری آتی ہے، نتیجہ کے نفی ہونے کی صورت میں مادی نظریہ کی تائید و تصدیق ہوتی ہے کہ جس کے بعد دین کے بقیہ مسائل کو حل کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
حضوری اور حصولی معرفت۔
خدا کے سلسلہ میں دو اعتبار سے اس کی معرفت کا تصور کیا جاتا ہے ۔ ١۔معرفت حضوری۔
٢، معرفت حصولی۔ خدا کی نسبت معرفت حضوری کا مطلب یہ ہے کہ انسان مفاہیم ذہنی کو واسطہ بنائے بغیر شہود قلبی کے ذریعہ خد ا کی ذات سے آشنا ہو جائے۔
لہٰذا یہ بات روشن ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کے سلسلہ میں ایک واضح شہود سے روبرو ہوجائے
تو( جیسا کہ بلند مرتبہ عارفوں نے دعویٰ کیا ہے)، پھر کسی بھی عقلی استدلال و برہان کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ایسا شہود اور علم حضوری عام افراد (١) کے لئے عرفانی سیر و سلوک کے مراحل طے کرنے کے بعدہی میسر ہے، اگر چہ ایسے انکشافات کا امکان عام افراد کے لئے کسی حد تک بجا ہے لیکن چونکہ معرفت کو حاصل کرنے کے لئے کافی معلومات نہیں رکھتے لہٰذا یہ چیز ان کیلئے ممکن نہیں ہو گی ۔
معرفت حصولی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کلی مفاہیم (جیسے بے نیاز خالق، عالم و قادر) یعنی ادراکات ذھنی اور ایک لحاظ سے غائبانہ طور پر خدا کی طرف نسبت دے،اور اس حد تک اعتقاد ررکھے ، کہ ایسی ذات کا وجود ہے کہ جس نے اس جہان کو پیدا کیا ہے اور پھر معرفت حصولی کے دوسرے ذرائع کو اس سے متعلق ایک منظم اصول تک رسائی ہو سکے ، جو کچھ بھی فلسفی براہین اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ در اصل یہی معرفت حصولی ہے، لیکن جب ایسی معرفت انسان کو حاصل ہو جائے تو اسے معرفت حضوری کے سلسلہ میں بنی کوشش کرنا چا ہیے۔
فطری شناخت۔
عرفا ء ، حکماء اور دینی رہبروں کے اکثر اقوال میں اس عبارت کو اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ 'خدا کی شناخت فطری ہے' یا انسان فطرة ًخدا شناس ہے' اس مطلب کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے فطر ت کے معنی سمجھنا ہوں گے۔
.............................................
(١) البتہ ایسے مشاھدات و انکشافات کے اھل افراد سے انکار نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے زمانہ طفولیت میں بھی ایسے شہودات کے مالک ہوا کرتے تھے یہاںتک کہ بعض ائمہ نے شکم مادر میں بھی ایسی شناخت کا ثبوت دیا ہے۔
فطرت ایک عربی کلمہ اور 'نوع خلقت' کے معنی میں ہے،اورانھیں امور کو فطری کہا جاتا ہے کہ جس کا ، خلقت و آفرینش تقاضا کرے، اسی وجہ سے اس کے لئے تین خصوصیات کا لحاظ کیا گیا ہے ۔
١۔ فطرت وہ موجود ہے جو نوع از موجودات کے تمام افراد میں، پائی جائے اگر چہ وہ کیفیت شدت و ضعف کے اعتبار سے متفادت ہوں۔
٢۔ فطری امور طول تاریخ میں ہمیشہ ثابت و مستحکم و نا قابل تبدیل رہے ہیں اور ایساکبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ کسی نوع کی فطرت ایک زمانہ گذر جانے کے بعد اپنی اقتضا بدل دے اور اسی طرح زمانے کے بدلنے کی طرح اس کی اقتضا بدلتی رہے۔
(فِطرَتَ اللّہ الَّتِ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیہَا لَا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّہِ ،)
یہی خدا کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق کی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سو رہ روم۔ آیت/ ٣٠.
٣۔ فطری امور فطری ہونے کے لحاظ سے اور اقتضاء خلقت کے سبب اس کو سکھنے اور سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسے صحیح راستہ دکھانے اور قوت بخشنے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔
انسان کی فطریات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
الف: فطری معرفت کہ جو ہر انسان کے پاس تعلیم کے بغیر موجود ہے۔
ب: فطری میلانات اور رجحانات ہر فرد کی خلقت کا تقاضا و لارمہ ہیں، لہٰذا اگر ہر فطرت بشر کے لئے خدا کے سلسلہ میں ایک قسم کی شناخت ثابت ہو جائے کہ جس کے حصول کے لئے تعلیم و تعلم کی ضرورت نہ ہو تو اسے 'فطری خدا شناسی کا نام دیا جاسکتا ہے' اور اگر تمام انسانوں میں خدا کی طرف توجہ اور اس کی پرستش کے میلانات ظاہر ہوجائیں تو اسے ( فطری خدا پرستی) کہا جاسکتا ہے۔
ہم نے دوسرے درس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ بہت سے صاحبان نظر کی رو سے دین اور خدا کی طرف توجہ پیدا کرنا انسان کی روحی خصوصیات کا تقاضا ہے کہ جسے 'حس مذہبی' یا ' عاطفہ دینی ' کا نام دیا جاتا ہے، اب اس کے بعد ہم اس مطلب کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ خدا شناسی بھی انسانی فطرت کا تقاضہ ہے، لیکن جیسا کہ خدا پرستی کی فطرت ایک دیدہ و دانستہ میلان نہیں اسی طرح خدا شناسی کی فطرت بھی لاشعوری اور غیر دانستہ ہے اس لحاظ سے یہ فطرت عام افراد کو خدا شناسی کی عقلی جستجو و تلاش سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔
لیکن اس نکتہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان معرفت حضوری کے ایک ادنی درجہ پر فائز ہے لہٰذا معمولی فکر و استدلال کے ذریعہ ،وجود خدا کو ثابت کرسکتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنیلا شعوری شناخت (مشاھدہ قلبی) کو قوی بنا سکتا ہے، اور آگاھانہ طور پر معرفت کے مدارج طے کرسکتا ہے۔
نتیجہ:
خدا شناسی کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل ووجود خدا سے آشنا ہے اور اس کی روح میں خدا شناسی کی فطرت موجود ہے جسے رشد و کمال دیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ فطرت عام افراد میں اس حالت میں نہیں ہے کہ انھیں کلی حثیت سے تفکر اورعقلی استدلالات سے بے نیاز کردے۔
source : http://www.shiastudies.net