اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

بقاء روح کی دلیل

خلاصہ :

 

روح باقی او رمستقل ہے :(وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّہِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّھِم یُرزَقُونَ )''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے'' (وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ)جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔ 

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

 

متن:

 

روح باقی او رمستقل ہے :(وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّہِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّھِم یُرزَقُونَ )''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے'' (١)(وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ)جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔ (٢)(قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔ (٣)

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

 

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

(وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً)اے رسول! تم سے روح کے بارے میںسوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔ (4)

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میںسے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

 

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

 

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

١۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

٢۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

٣۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

 

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

 

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا م ۖنے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبر ۖنے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :'' ھل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔ (5)

سلمان فارسی مولا امیر المومنینں کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیںقبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اھلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا''میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی (6)

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابہ فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ'' (٢)

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

..............

(١)آل عمران آیة ١٦٩

(٢) بقرہ آیة ١٥٤

(٣) سجدہ آیة ١١

(4) اسراء آیة :٨٥

(5) سیرہ ابن ہشام ج ،١ ص ٦٣٩

(6) بحار الانوار ج١، معادفلسفی ٣١٥

(7)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ١٢٥

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا
قبر کی پہلی رات
انسانی زندگی میں انفرادی ذمہ داریاں
مصبَاحُ الدُّجیٰ یونیورسٹی
تقیہ کیا ہے ؟
عصرِ جدیدمیں وحی کی ضرورت
آغاز تشيع
اصحاب الجنۃ
صفات ثبوتی و صفات سلبی
کسي حالت ميں يارب چھين مت رنگ عوامانہ

 
user comment