تقیہ کیا ہے ؟
کیا اسلام میں تقیہ نام کا کو ئی حکم پایا جاتا ہے؟ کیا تقیہ باعث کذب و نفاق نہیں ہوتا؟
کیا تقیہ حقیقی عقائد کو پوشیدہ کرنے کا ایک وسیلہ نہیں ؟
تقیہ؛ کا مادہ وقایہ ہے جس کے معنی کسی ضرر اور خطرے سے حفاظت کرنا، لفظ تقوی بھی اسی مادہ سے آیا ہے، تقوی یعنی نفس کو محرمات الٰہی سے بچا کے رکھنا، بنابرین تقیہ کے معنی؛ جان، شرف، آبرو یا مال کو دوسر ے کے خطرے سے محفوظ کرناہے ایسے عقیدہ یا عمل کے اظہار کرنے سے جو خود اس کے مذہب کے تو برخلاف ہو لیکن دوسرے کے مذہب کے مطابق ہو، البتہ یہ معنی تقیہ کے لغوی اور عرفی ہیں، اور شرعی اصطلاح میں تقیہ کے معنی، اپنے قول یا فعل کو موافق کرتے ہوئے کسی امر میں حق کے برخلاف خو د کو ایسے ممکن ضرر سے بچانا جو دوسرے کی جانب سے پہنچنے والا ہے ۔
((التحفظ علی ضررالغیربموافقته فی قول اوفعل مخالف للحق)) 1
بالفاظ دیگر تقیہ کے معنی شرعی اصطلاح میں یہ ہے کہ اپنے فعل یا قول کے ذریعہ حکم دین کے بر خلاف کسی امر کا ظاہر کرنا تاکہ اپنی یا دوسرے کی جان یا مال یا شرف وآبرو بچا سکے۔
((اظهار خلاف الواقع فی الامور الدینیة بقول اوفعل خوفاً اوحذراًعن النفس، اوالمال اوالعرض، المعبرعنه فی هذاالزمان بالشرف، علی نفسه اوعلی غیره)) 2
عقل اور تقیہ
تقیہ در اصل ایک عقلی امر ہے، جس کی بنا مہم اور اہم کے عقلی قاعدہ پرہے، کیونکہ تمام انسان، قطع نظر دینداراور غیر دیندار، کی یہ سیرت رہی ہے کہ جب بھی اپنی جان، مال و آبرو کو، خطرے میں محسوس کرتے ہیں، اور دیکھتے ہہں کہ اگر اپنے مذہب کے بر خلاف قول اور فعل کو اظہار کریں گے جو کہ خطرے پہنچانے والے کے موافق ہے تو محفوظ رہیں گے، یعنی تقیہ کے ذریعہ ہم ان خطرات سے بچ جائیں گے تو ان موارد پر تمام لوگ تقیہ اختیار کرتے ہیں، اور دشمن کے خطرے کو اس طرح ٹال دیتے ہیں، اس وقت بھی تمام انسانی معاشرہ میں یہ سیرت رائج اور مستقر ہے، جیسا کہ اگر کسی مقام پر کوئی جان اور مال یا آبرو سے اہم امر خطرے میں ہو تو اس کو مقدم کرتے ہیں اور اپنی جان، مال اور آبرو سے ہاتھ دھو لیتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہم اور مہم کے مصادیق میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن یہ اختلاف جبکہ تمام عقلائے عالم تقیہ کے کلی حکم میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، منافات نہیں رکھتا، البتہ ایسے مصادیق بھی پائے جاتے ہیں جہاں تمام عقلاء اتفاق نظر رکھتے ہیں، جیسے عمومی امنیت کی حفاظت کرنا، یہ وہ مصلحت ہے جہاں تمام عقلائے بشر اس کی اہمیت کے خصوصی طور سے قائل ہیں، اور اسکی حفاظت کے لئے اپنی جان اور مال کو بھی قربان کرنا صحیح سمجھتے ہیں ۔
قرآن اور تقیہ
بعض آیات نے واضح طور پر تقیہ کو ایک شرعی قاعدہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے:
1۔ < لَا یَتَّخِذِ الْمُوْٴمِنُوْنَ الْكَافِرِینَ اَوْلِیٰاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُوْٴمِنِینَ، وَمَنْ یَّفعَلْ ذَالِكَ فَلَیسَ مِنَ الِله فِیْ شَیٍٴ اِلَّا اَنْ تَتَّقُوْا مِنهمْ تُقَاْةً > 3
ترجمہ: ۔مومنین ؛مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کچھ سرو کار نہیں، مگر(اس قسم کی تدبیروں سے )کسی طرح ان (کے شر) سے بچنا چاہو، تو (خیر) ۔
عالم اہل سنت علامہ مراغی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: علمائے اسلام نے اس آیت سے جواز تقیہ کا استنباط کیا ہے، یعنی انسان ایسی بات کہے یا ایسا کام انجام دے جو حق کی بر خلاف ہو، اس ضرر سے بچنے کے لئے جو دشمن کی جانب سے اس کی جان، مال، آبرو یا شرف کو پہنچنے والا ہے۔ 4
2۔< مَنْ كَفَرَ بِالله مِنْ بَعدِ اِیمَاِنه اِلَّا مَنْ اُکه وَ قَلْبُه مُطَمَئِنٌّ بِالاِیمَانِ وَلٰكِنْ مَنْ شَرَحَ باِلكُفرِ صَدْراً فَعَلَیهمْ غَضَبٌ مِنَ اللِه وَلَهمْ عَذَاْبٌ عَظِیمٌ > 5
ترجمہ: ۔سوا اس شخص کے جو کلمہ ٴ کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو، اور جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے بلکہ خوب سینہ کشادہ ( جی کھول کر )کفر کرے تو ان پر خدا کا عذاب ہے، اور ان کے لئے بڑا سخت عذاب ہے ۔
مذکورہ آیت کا مفہوم قانون تقیہ کے علاوہ کسی اور قاعدہ سے منطبق نہیں ہوتا ۔
تمام اسلامی محدثین اور مفسرین ( شیعہ و سنی ) نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت جناب عمار یاسر کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب وہ، ان کے ماں باپ ( سمیہ اور یاسر)اور دوسرے اصحاب کو، کفار و مشرکین کی جانب سے آزار و اذیت دی گئی اور یاسر اور سمیہ شہید ہوگئے تو عمار نے وہ کلمہ کہہ دئے جسے مشرکین چاہتے تھے، لہٰذا آپ نے ان کی اذیت سے نجات حاصل کی اور اپنی جان اس طرح بچا لی، لیکن اپنے عمل کے بارے میں بہت پشیمان ہوئے لہٰذا روتے ہوئے رسول کے پاس پہونچے اور سارا واقعہ بیان کیا، رسول اسلام(ص) نے انھیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا: اگر وہ دوبارہ پھرتم سے ایسی بات کہلوانا چاہیں تو کہہ دینا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔ 6
3۔< وَقَاْلَ رَجُلٌ مُوْٴمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَکتُمُ اِیمَانَه اَتَقتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَقُوْلَ رَبِّیَ الله…> 7
ترجمہ: ۔ اور فرعون کے لوگوں میں ایک ایماندار شخص( حزقیل ) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے رہتا تھا ( لوگوں سے ) کہا: کیا تم ایسے شخص کے قتل کے در پے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا پرور گا ر اللہ ہے ۔
مومن آل فرعون جو حضرت موسی پر ایمان لے آئے تھے، اور حضرت موسی سے پوشیدہ طریقہ سے رابطہ رکھتے تھے، آپ نے حضرت موسی کو فرعونیوں کی جانب سے انھیں قتل کرنے کے منصوبہ کو بتا دیا تھا:
8
ترجمہ: ۔ ایے موسی!( تم یہ یقین جانو کہ شہر کے ) بڑے بڑے آدمی تمھارے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تم کو قتل کر ڈالیں تو تم( شہر سے )نکل بھاگو میں تم سے خیر خواہانہ کہتا ہوں ۔
لیکن اس کے باوجود اپنے ایمان کو فرعونیوں سے پوشیدہ کر رکھا تھا، اور ایمان کا پوشیدہ رکھنے کا مطلب یہی تھاکہ آپ اپنے ایمان اور اعتقاد کو زبان اور افعال سے ان کے سامنے ایسے ظاہر کرتے تھے جو ان کے عقیدے اور ایمان کے موافق ہو لیکن حق کے بر خلاف ہوا کرتا تھا، اور یہ کا م آپ اپنی حفاظت اور حضرت موسی(ع)کی نصرت اور ان کی فرعونیوں کے خطرے سے جان کی حفاظت کی خاطر انجام دیتے تھے، گویا وہ تقیہ پر عمل کرتے تھے، قرآن کریم نے ان کے اس عمل کو بزرگ جانتے ہوئے ستائش کی ہے ۔
4۔ ان آیات کے علاوہ بھی ذیل کی آیتیں ہیں جن کی عمومیت اور اطلاق تقیہ کے جواز یا اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں:
< وَلَا تُلقُوْابِاَیدِیكُمْ اِلَی التَّهلُكَةِ> 9
اور اپنے ہاتھوں کو ( جان ) ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
10
خدا نے جس کو جتنا دیا ہے بس اسی کے مطابق ذمہ داری دیا کرتا ہے ۔
11
ترجمہ:۔ اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی۔
مسلمانوں کا تقیہ
مذکورہ تینوں آیتوں کا عموم یا اطلاق جو کہ جواز تقیہ پر دلالت کرتاہے، کافر اور مسلمان دونوں کے مقابلہ میں تقیہ کو مساوی طور پر ثابت کرتا ہے، لیکن پہلی تینوں آیتیں کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے تقیہ کے بارے میں تھیں، البتہ یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ مورد اور مقام حکم کیلئے مخصِّص نہیں ہوا کرتا، چنانچہ اگر اس کا ملاک عمومیت رکھتا ہے تو حکم بھی عام ہو گا، اور یہاں چونکہ تقیہ کا ملاک عام ہے لہٰذا اس کا حکم بھی عام ہو گا، جس کے نتیجہ میں تقیہ کا حکم ان مسلمانوں کو بھی شامل ہو جائے گا جو دیگر مسلمانوں کے مقابلہ میں تقیہ کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ فخر الدین رازی پہلی آیت( آل عمران۔ 28) کی تفسیر میں کہتے ہیں:
ظاہراً یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مسلمان صرف کفار کے مقابلہ میں تقیہ کرسکتے ہیں، جبکہ ان کی طرف سے ڈر اورخوف پایا جاتا ہو، لیکن امام شافعی کا فتوی یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو دوسرے مسلمانوں کے سامنے ایسی صورت حال پیش آجائے جو کفار کے مقابلہ میں آنے پر تقیہ کرنا پڑتا ہے تو وہ ان مسلمانوں کے سامنے بھی تقیہ کرسکتا ہے، گویاامام شافعی کی نظر میں تقیہ مسلمانوں کی جان کی حفاظت کے خاطر ہے، البتہ مال کی حفاظت میں بھی تقیہ ترجیح رکھتا ہے، کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے:
"حرمة مال مسلم کحرمة دمه"
مال مسلم کا احترام اس کے خون کے برابر ہے ۔
نیز فرمایا: "من قتل دون ماله فهو شهید" 12
جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کردیا جائے وہ شہید ہے ۔
علامہ مراغی دوسری آیت (نحل آیت 106) کے ذیل میں کہتے ہیں:
"کفار، ظالم، اور فاسقوں سے مدارا ت اختیار کرنااور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آنا، اس آیت کے حکم میں شامل ہے، یعنی انسان ان کے ساتھ نر می سے پیش آئے، اور ان کو کچھ بخش دے، خوش اخلاقی اور تبسم کی ساتھ ان سے برتاوٴ کرے، تاکہ ان سے اپنی جان اور آبرو محفوظ رہے "۔ 13
یعقوبی اور دیگر موٴرخین نے نقل کیا ہے کہ جب بسر بن ابی ارطاة نے مدینہ پر حملہ کیا تو جابر بن عبد اللہ کو بلایا اس وقت جابر نے ام سلمہ سے کہا: اس کی بیعت کرنا ضلالت ہے، اور بیعت نہ کروں تو ڈر اس بات کا ہے کہ وہ مجھے قتل کردے گا، ام سلمہ نے کہا: بیعت کرلو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کی صورت میں اپنی قوم کے مخصوص تیو ہار میں شرکت کرتے تھے، اور ان کے جیسا لباس پہنتے تھے ۔ 14
طبری اپنی تاریخ میں مامون عباسی کی طرف سے قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ بہت سے محدثین اور قاضی حضرات جو مامون کے ڈرانے اور دھمکانے اور سختی کے تحت زندگی گزار رہے تھے، وہ ڈر کی وجہ سے قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ ظاہر کرتے، جس پر بہت سے لو گوں نے ان کی اس بات پر مذمت کی، تو انھوں نے اپنے اس کام کی توجیہ عمار یاسر کے واقعہ سے کی ۔ 15
یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ تقیہ ایک کلی عقلی قاعدہ ہے، جو کافروں سے مخصوص ہے، بلکہ کافر مسلمان جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تقیہ؛ روایات اہل بیت علیہم السلام کی روشنی میں
یہاں تک ثابت ہوگیا کہ تقیہ ایک عقلی قاعدہ ہے، اور یہ انسان کی زندگی کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اور اسے آسمانی اور الٰہی تمام مذاہب نے قبول کیا ہے، اور مسلمانوں نے (قطع نظر اپنے مذہبی عقائد کے) اس پر عمل کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اہل بیت کی روایتوں میں اس پر خاص توجہ دی گئی ہے اور اس کے لئے بہت اہتمام اور تاکید فرمائی ہے، یہاں تک کہ روایات میں اس طرح وارد ہوا ہے:
" لا ایمان لمن لا تقیة له" و" لادین لمن لا تقیة له" 16
جو تقیہ نہیں کرتا اسکے پاس ایمان نہیں ہے، نیز فرمایا: جو تقیہ کا قائل نہیں ہے اس کے پاس گویا دین نہیں ہے ۔
نیزامام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
" التقیّة من دینی ودین آبائی"
تقیہ ہمارا اور ہمارے آباء و اجداد کا دین ہے
اسی کے مانند امام جعفر صاد ق علیہ السلام سے بھی احادیث مروی ہیں۔ 17
بہر کیف اہل بیت(ع)کی اُن تمام روایتوں کے مطالعہ کرنے سے جو تقیہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت(ع)نے دو طرح کے تقیہ کو بیان کیا ہے، اور دو تقیہ کی اپنے شیعوں کو تلقین کی ہے:
ایک خوفی تقیہ، اور دوسرا مداراتی تقیہ، البتہ خوفی تقیہ کے بارے میں مداراتی تقیہ کی بنسبت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں ۔
اورخوفی تقیہ کبھی اپنی جان، عزت و آبرو مال کے خطرے سے مربوط ہوتا ہے، ور کبھی دوسرے موٴمن یا رشتہ داروں کی جان اور مال و عزت و آبرو سے مربوط ہوتاہے، اورکبھی اسلام اور مذہب سے مربوط ہوتا ہے، لیکن مداراتی تقیہ اس جگہ ہوتا ہے کہ جب مذکورہ امور کے بارے میں کوئی خوف نہ پایا جاتا ہو، لیکن تقیہ کے ذریعہ انسان بہتر طریقہ سے اپنی دینی ذمہ داری کو پورا کرسکتا ہے، اس کے ذریعہ دوسروں کی ہدایت اور اسلامی وحدت و اخوت بہتر انداز میں کر سکتا ہے، چنانچہ روایات میں جس جگہ تقیہ کو سپر اور سنگ سے تعبیر کیا ہے اس جگہ خوفی تقیہ مراد ہے، اور وہ روایات جن میں حسن معاشرت اور پسندیدہ اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے وہاں بیشتر مداراتی تقیہ سے مناسبت رکھتا ہے۔
ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا: ایسے امور مت انجام دو جن کی بناپر ہماری سرزنش کی جائے، کیونکہ ناخلف اولاد ایسے کام انجام دیتی ہے جس کی بنا پر ان کے باپ کی ملامت کی جاتی ہے، لہٰذا تمھارا جس سے واسطہ ہے اس کے لئے زینت کا سبب بنو اور ان کے لئے عیب جوئی اور برائی کا باعث مت بنو، ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو، ان کے بیماروں کی عیادت کرو، ان کی تشییع جنازہ میں جاوٴ، دیکھوکسی بھی نیک کام میں وہ لوگ تم سے بازی نہ لے جائیں، پھر آپ نے فرمایا:
"والله ما عبد الله بشیٴ احب الیه من الخباء"
خدا کی قسم اس کی عبادت، خباء سے محبوب ترین اور کسی شئے کے ذریعہ نہیں ہوئی، ہشام نے دریافت کیا خباء کیا ہے ؟ امام نے فرمایا: خباء سے مراد تقیہ ہے۔
ائمہ طاہرین (ع) نے متعدد روایتوں کے ضمن میں اس آیت
18
"اور بھلائی برائی( کبھی) برابر نہیں ہو سکتی تو( سخت کلامی کا) ایسے طریقہ سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو اگرایسا کروگے تو( تم دیکھو گے کہ) جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمھارا دل سوز دوست ہے، یہ بات بس ان ہی لوگوں کو حاصل ہوئی ہے، جو صبر کرنے ولے ہیں، اور ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب ور ہیں"۔
کی تقیہ سے تفسیر کی ہے، واضح ہے کہ یہاں مداراتی تقیہ ہی مرادہو سکتا ہے، کیونکہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں توحید اور خدا پرستی کا ذکر ہوا ہے، ارشاد ہوا:
19
"اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو لوگوں کو خدا کی طرف بلائے اور اچھے اچھے کام کرے، اور کہے کہ میں یقیناً (خدا کے) فرمانبردار بندوں میں ہوں"۔
تاریخ شیعہ اور تقیہ کی ضرورت
شیعوں کی تاریخ اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ اسلامی دنیا میں اس قوم کو ہمیشہ غیر شیعہ ظالم اور ستمگر حکومتوں نے اپنے بے انتہا ظلم و تشدد کا نشانہ قرار دیا ہے، اس قوم کو جہاں تک ہو سکا دبا کر رکھا، اسے مختلف قسم کی اذیتیں دیں، اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے، اور یہ حالت ائمۂ طاہرین(ع)کے دور میں جب بنی امیہ اور عباسیوں کے ہاتھ میں طاقت اور حکومت تھی، بہت زیادہ رہی، اس زمانہ میں دل دہلانے والے ستم ڈھائے گئے، اس زمانہ میں شیعوں کو کسی بھی قسم کی نہ اجتماعی اور نہ سیاسی کو ئی آزادی نہیں تھی، اور کچھ مقامات پر تو علوی خاندان سے صرف ارتباط رکھنا سب سے بڑا سیاسی گناہ شمار کیا جاتا تھا، ظاہر ہے کہ ایسے مواقع پر شیعیت کا محفوظ رکھنا جوکہ سچے اسلام کا نشان ہے، تقیہ کے علاوہ اور کسی چیز سے ممکن نہین ہو سکتا تھا (چاہے وہ خوفی تقیہ ہو یا مداراتی تقیہ )چنانچہ جب ان حالات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تب ائمہ کی دور اندیشی اور آپ کی حکیمانہ روش کا اندازہ لگے گا، ائمہ نے اس طریقہ کو اپناکر دین کے حقائق کو لوگوں تک پہنچایا، اور جو معنوی تحریفات دین میں بعض لوگوں کی طرف سے عمداً یا سہواً ہورہی تھی ان سے شائستہ اور حکیمانہ انداز میں مقابلہ کیا، اور مذہب تشیع کو محفوظ رکھا، اگرچہ اس میں آپ لوگوں کو بہت زیادہ قربانی دینا پڑی، اور حد سے زیادہ مشقت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ حضرات نے اس طرح روح اسلام کو بچا لیا ۔( زندہ باد اہل بیت، پائندہ باد اہل بیت، مردہ باد دشمنان اہل بیت)
جو لوگ شیعہ مذہب پر اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ مذہب میں تقیہ کی بہت تاکید کی گئی، یہ لوگ اگر دیدہٴ انصاف سے تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں تو ہر گز یہ بات نہیں کہیں گے، اگر یہ لوگ اپنے تعصب، بغض و عناد، اورمسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں تو یقیناً یہ اپنے فیصلہ میں تجدید نظر کریں گے، اور شیعہ مذہب کی حقانیت ( دوسرے دینی مسائل کی طرح ) کا کلمہ دھرا ئیں گے، لیکن اگر بنا یہی ہے کہ اس مسئلہ میں ملامت اور سرزنش کی جائے تو ان بنی امیہ اوربنی عباسی اور دیگر اہل سنت کی اسلامی حکومتیں کے جابر و ظالم حاکموں کی مذمت ہونا چاہیئے جنھوں نے شیعوں کے لئے سکون کی نیند حرام کر رکھی تھی، ا فسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب حکومتیں اہل سنت کی تھیں، انھوں نے بد ترین ظلم وتشدد شیعوں کے بارے میں روا رکھا، اسی طرح اہل سنت کے ان علماء کی مذمت اور ملامت ہونا چاہیئے جنھوں نے شیعوں کی جان، مال، عزت، آبرو کے مباح ہونے کا فتوی دیا اور حکومت وقت کو شیعوں کے، قتل و غارت گری اور ان کو تہ تیغ کرنا وغیرہ جیسے امور پر ابھارا۔
سیاسی دباوٴ، اذیتیں، بنی امیہ، بنی عباس اور دیگر اسلامی جابر حکو متوں کی جانب سے جو شیعوں کی بارے میں کیا گیا، وہ تاریخ اسلام کے ایسے المناک واقعات ہیں جسے ہر تاریخ داں جانتا ہے، چنانچہ یہ واقعات نہ تنہا شیعہ تاریخی کتب میں نقل ہوئے ہیں بلکہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی ان کے بعض گوشوں کو نقل کیا گیا ہے، لیکن ان تمام حقائق کے باوجود موسی جار اللہ 20 جیسے بعض لوگو ں کے تعصب اور عناد کی حد ہوگئی کہ انھوں نے تاریخ کے حقائق کا انکار کرتے ہوئے اپنے حیلہ، فریب کاری اور سفسطہ گوئی کو اس انداز میں ظاہر کیا:
"شیعہ کبھی اپنے عقیدے کے اظہار کی وجہ سے قتل نہیں کئے گئے، جو کچھ اس بارے میں نقل کیا جاتا ہے وہ شیعوں کی جانب سے گڑھا گیا ہے"
گویا انھوں نے تاریخ کامل ابن اثیر جیسی کتابوں کا مطالعہ ہی نہ کیا ہے، یا اس کو دیکھا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے لیکن اس کے موٴلف کو شیعہ جانا ہے، یا عمداً ان حقائق پر پردہ ڈالا ہے!!
دو غلط فہمیوں کا جواب
پہلی غلط فہمی بعض وہابی حضرات کہ جن کی عادت اور سرشت میں شیعوں کی مخالفت کرنا ہے، اس بارے میں ہر قسم کی گفتگو اور ہر طریقہ کے کردار کو ادا کرناجائز سمجھتے ہیں، چاہے یہ حقائق کی تبدیلی، جھوٹ، بہتان اور ناجائز نسبت پر ہی کیوں نہ تمام ہوتا ہو، انھوں نے شیعوںکے عقائد کو تقیہ کے بارے میں کھلے کذ ب اور آشکارا نفاق سے تعبیر کیا ہے، تقیہ کی اس طرح تصویر کشی کرکے اس کو مردود جانا ہے ۔ 21
جواب
اولاً: جیسا کہ ہم نے گذشتہ مباحث میں ذکر کیا کہ تقیہ صر ف مختصات شیعہ میں سے نہیں ہے، بلکہ نہ تنہا عام مسلمان اس کے قائل تھے بلکہ عقلائے عالم اس کے قائل ہیں، لہٰذا تقیہ اگر کذب اور نفاق کا مستلزم ہے تو یہ اعتراض تمام مسلمانوں پر ہوگا نہ فقط شیعوں پر۔
ثانیاً: ایساجھوٹ کہ جس پر ایک اہم مصلحت مترتب ہوتی ہو، ایسا جھوٹ عقلی اور شرعی طور پر جائز ہے، البتہ ممکن ہو تو پہلے توریہ کرے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
"ان فی المعاریض لمندوحة عن الکذب" 22
تعریضی کلام میں جھوٹ بولنے کی گنجائش ہے ۔
اس کے مقامات میں سے(جیسا کہ فقہی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے) "اصلاح ذات البین"بھی ہے جس کی شریعت مقدس میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، جیسا کہ رسول اسلام نے فرمایا:
"صلاح ذات البین افضل من عامة الصلاة والصیام" 23
لوگوں کے درمیان صلح برقرار کرنا ایک سال کے نماز روزے سے بہتر ہے۔
ثالثاً: نفاق ( جیسا کہ قرآن اور احادیث میں بیان ہوا ہے)کے معنی یہ ہیں کہ انسان حق بات کا اظہار کرے لیکن باطن میں باطل کا عقیدہ رکھتا ہو، حالانکہ تقیہ میں بر عکس ہے، اس میں انسان باطل کاا ظہار کرتا ہے اور باطن میں حق کا عقیدہ رکھتا ہے۔
قرآن کریم میں منافقین اور ان کے عمل کی بڑی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے، حالانکہ اس سے پہلی آیتوں میں تقیہ کو ایک پسندیدہ امر قرار دیا گیا ہے، اور رسول اسلام نے عمار یاسر کو تلقین کی کہ جب بھی تم کفار اور مشرکین کے شکنجہ میں پھنس جاوٴ تو تقیہ کی راہ اختیار کرو ۔
دوسری غلط فہمی اور اس کا جواب
تقیہ سے متعلق وہابیوں کی طرف سے دوسرا اعتراض جو شیعوں کے بارے میں کیا جاتا ہے وہ یہ ہے:
"چونکہ شیعہ مذہب میں تقیہ ایک کلی قاعدہ کے طور پر قبول کیا گیا ہے، لہٰذا ان کے واقعی عقائد اور آراء کو نہیں جانا جاسکتا، کیونکہ تمام مسائل میں تقیہ کا احتمال پایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے تمام اقوال و آراء علمی اعتبارسے ساقط ہیں ۔
جواب
چونکہ یہ شبہ کبھی ائمہ علیہم السلام کی روایات کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے، اور کبھی شیعہ علماء کے اقوال کے بارے میں، لہٰذا پہلے ہم روایات سے متعلق بحث کرتے ہیں:
اولاً: ائمہ طاہرین علیہم السلام نے کچھ خاص طریقے اور شیوے حقیقی اور واقعی احکام تشخیص کرنے کیلئے بیان کئے ہیں، مثلاً جب روایات متعارض ہوں تو مرجحات میں سے ایک مرجح یہ ہے کہ مخالفین مذہب اہل بیت کے اقوال سے مخالفت رکھتا ہو، یعنی جو قول شیعہ مذہب کے مخالف مذہب سے مطابقت کرے گا وہ رد کردیا جائے گا اور جو مخالف ہوگا اسے قبول کرلیا جائے گا ۔
ثانیاً: بالفرض کوئی اگر واقعی حکم کو حکم تقیہ سے تشخیص نہ کرسکے تو اس کے لئے دوسرے قواعد بیان کئے گئے ہیں، اس وقت ان پر عمل کرے اس طرح اہل بیت کے ماننے والوں کے نزدیک کوئی مسئلۂ لاینحل درپیش نہیں ہوتا، کوئی بھی مشکل نہ نظری اور نہ عملی وجود میں نہیں آ تی، لہٰذا دوسرے لوگ جب چاہیں کہ مذہب اہل بیت کے بارے میں فیصلہ کریں تو انھیں ان تمام پہلوؤں پر نظر کرنا ہوگی، ان جانبوں میں سے ایک پہلو تقیہ بھی ہے اس پر غور کئے بغیر کسی قسم کا فیصلہ کرنا صحیح نہ ہوگا ۔
ثالثاً: ایسا نہیں ہے کہ تمام اسلامی معارف، یاعملی احکام اور اخلاقی قضایا میں تقیہ پایا جاتا ہے، تاکہ انسان مذہب اہل بیت سمجھنے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو جائے، اور ہمیشہ سرگرداں رہے، بلکہ تقیہ اگرچہ ایک عقلی اور شرعی قاعدہ ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہے، اولی نہیں، چنانچہ تمام روایتوں میں اصل اولی عدم تقیہ ہے (یعنی پہلے ہم تقیہ پر عمل نہیں کرتے بلکہ جب کوئی صورت حال نہیں رہ جاتی تب اس کی نوبت آتی ہے)تقیہ کا احتمال محدود مقامات سے خاص ہے، جن کی شناخت اہل معرفت و تحقیق اور جو اہل بیت کے مبانی سے واقف ہیں، کیلئے آسان ہے ۔
علمائے شیعہ کے اقوال و آراء کے بارے میں تقیہ کا احتمال
شیعہ علماء کے نظریا ت و اقوال ان کی تفسیر، کلامی اور فقہی کتابوں میں پائے جاتے ہیں علمی مراکز اور کتاب خانے پر ہیں، اگر کسی کو دیکھنا ہے تو ان مقامات میں تلاش کرے ۔
لیکن اگر ہم تمام علماء کے نظریات کا خلاصہ کریں تو یہ ہوگا:
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں سب متفق ہیں، کچھ موارد ایسے ہیں جنھیں اکثریت علمائے تشیع قبول کرتی ہے، یا ایسے مسائل ہیں جو مشہور ہیں، بعض مسائل ایسے ہیں جن میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، جن میں نہ کوئی اجماع و اتفاق ہے اور نہ شہرت ہے، بہر کیف شیعہ علماء کے نظریات ظاہر ہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ مکتوم اور پوشیدہ ہوں جس کی وجہ سے کوئی دست رسی حاصل نہ کرسکے، یا ان کے حقیقی اور واقعی آراء کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوجائیں، البتہ جو لوگ اہل غرض اور دل کے بیما ر ہیں جو ایسے شبہات وارد کرتے ہیں وہ بجائے اس کے کہ اہل بیت کے مذہب کو پہچاننے کے لئے معتبر کتابیں، بزرگ علماء اور مشہور اقوال کی طرف رجوع کریں شاذ و نادر اور غیر معتبر یا کم اعتبار والی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس کے بعد ان کو شیعوں کے عقائد کہہ کر نشر کرتے ہیں یا خود گڑھ کر شیعوں کے عقائد میں تحریف و تبدیلی کرکے شیعوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں اس طرح نا واقف اذہان کو شک و شبہ میں مبتلا کردیتے ہیں، چنانچہ ملل و نحل اور علم کلام 24 کی کتابوں میں شیعوں کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ شیعہ انبیاء کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء کیلئے کفر کا اظہار کر نا جائز ہے کیونکہ یہ لوگ تقیہ کو جائز سمجھتے ہیں، اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء کفر کا اظہار کر سکتے ہیں !
جبکہ علمائے شیعہ نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ ایسے مقامات پر تقیہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کا دین کبھی بھی لوگوں تک نہیں پہونچ سکے گا، کیونکہ معمولاً اکثر انبیاء بعثت کے آغاز میں اپنے دشمن زیادہ رکھتے تھے، لہٰذا ایسے حالات تھے جہاں تقیہ کا روشن مقام تھا، لہٰذا اگر ان کیلئے تقیہ جائز ہوتا تو بجائے اس کے یہ لوگ توحید کا اظہار کرتے کفر و شرک کا اظہار کرتے، اسطرح دین حق کبھی بھی لوگوں تک نہیں پہونچ سکتا تھا، اور اس سے نقض غرض نبوت لازم آتا۔ 25
وہ مقامات جہاں تقیہ کرنا صحیح نہیں
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ تقیہ(خصوصاً خوفی تقیہ) کی حیثیت ثانوی ہے، اور اس تقیہ کا اصل مقصد جان، مال، عزت و آبرو اور دین وشریعت کی حفاظت کرنا ہے، چنانچہ اگر تقیہ سے کہیں یہ مقصد حاصل نہ ہوتا ہو بلکہ اس کے بر عکس نتیجہ ظاہر ہوتا ہو توایسے مقامات پر تقیہ کرنا حرام ہے، ایسے مقامات کو مستثنیات تقیہ کہا جاتا ہے، اس جگہ ہم امام خمینی کے کلام کو جو حرمت تقیہ کی بارے میں ہے نقل کرتے ہیں:
1۔ وہ محرمات اور واجبات جن کی شارع اور متشرعہ کی نظر میں خاص اہمیت ہے ان میں تقیہ کرنا صحیح نہیں ہے، جیسے کعبہ اور مشاہد مقدسہ کو ویران کرنے میں تقیہ کرنا، قرآن اور اسلام کو رد کر نے میں، یا ایسی تفسیر کرے جو حقیقت دین کو تحریف کردے، اور الحادی مذاہب کی مانندہوجائے۔
2۔ وہ شخص جو تقیہ کر رہا ہے مسلمانوں میں ایک خاص مقام ووقار رکھتا ہے، کہ اگر یہ تقیہ فعل حرام یا ترک واجب میں کرے تو توہین مذہب اور دین کی ھتک حرمت لازم آتی ہے، ایسے شخص پر تقیہ حرام ہے، شاید اسی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "میں شراب پینے میں ہرگز تقیہ نہیں کروں گا "
3۔ جب بھی اسلام کی کوئی اصل یا ضروریات دین تقیہ کرنے سے خطرے میں پڑ جائے تو تقیہ جائز نہیں، جیسے جابر حکام وقت فیصلہ کریں کہ ارث یا طلاق، یا نماز یا حج کے احکام بدل دیں، تو ایسے مقامات پر مسلمانوں کیلئے تقیہ جائز نہیں ہے۔ 26
1. شیخ انصاری؛ رسالہٴ تقیہ ۔
2. محسن امین عاملی؛ نقض الوشیعہ ص 181۔
3. سورہٴ آل عمران، آیت 28۔
4. تفسیر مراغی، ج 3، ص 136 ۔
5. سورة النحل، 106۔
6. تفسیر مجمع البیان ج 3، ص388، ۔ تفسیر کشاف ج 2، ص 430۔ تفسیر ابن کثیر ج 4، ص 228۔
7. سورة الموٴمن 28۔
8. سورہ ٴ قصص، آیت 20۔
9. سورہ بقرہ، 195 ۔
10. سورہ ٴ طلاق، 7۔
11. سورہ حج 78۔
12. مفاتیح الغیب (تفسیر فخرالدین رازی) ج 6، ص 13، تفسیر آیہ 28، سورة آل عمران ۔
13. تفسیر مراغی، ج 3، ص 136۔
14. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 100 ۔
15. تاریخ طبری، ج 10، ص 284 ۔ 292 ۔
16. وسائل الشیعہ، ج 6، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، ابواب الامر والنہی با ب 44، روایات نمبر: 2، 3، 6، 22، 25، 29، 31۔
17. وسائل الشیعہ، ج 6، کتاب الامربالمعروف والنہی عن المنکر، ابواب الامر والنہی با ب 44، روایت نمبر2۔
18. سورہٴفصلت، آیت نمبر: 34۔
19. سورہٴ فصلت، آیت نمبر: 33۔
20. «الوشیعہ فی نقد عقائد الشیعہ» اس کتاب کے جواب میں علامہ محسن امین نے کتاب «نقض الوشیعہ» یا «الشیعہ بین الحقائق والاوہام» لکھی ہے، اس بحث کو «الوشیعہ» ص 197۔ 102۔ پر دیکھئے ۔
21. منجملہ ان لوگوں کے جنھوںنے اس مطلب کو لکھاہے، محمد عبدالستار ہیں جنھوں نے«بطلان عقائدالشیعہ» اور موسی جار اللہ نے «الوشیعہ» میں لکھااور احسان الٰہی ظہیر ہیں۔
22. المنجد باب العین۔
23. نہج البلاغہ، نامہ نمبر 47 ۔
24. شرح المواقف، ج 8، ص 264۔ شرح المقاصد ج 5، ص 50۔
25. ارشاد الطالبین ص 303، 304 ۔
26. الرسائل ص 117 178 ۔