اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

اصحاب الجنۃ

سر سبز باغات كے مالك قرآن ميں پہلے زمانہ كے كچھ دولتمندوں كے بارے ميں جو ايك سر سبز و شاداب باغ كے مالك تھے اور اخر كار وہ خود سرى كى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ايك داستان بيان كرتا ہے ،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان اس زمانہ لوگوں ميں مشہور و معروف تھي،اور اسى بناء پر اس كو گواہى كے طورپر پيش كيا گيا ہے جيساكہ ارشاد ہوتا ہے: ''ہم نے انھيں ازمايا ،جيساكہ ہم نے باغ والوں كى ازمائشے كى تھى _''
اصحاب الجنۃ

سر سبز باغات كے مالك

قرآن ميں پہلے زمانہ كے كچھ دولتمندوں كے بارے ميں جو ايك سر سبز و شاداب باغ كے مالك تھے اور اخر كار وہ خود سرى كى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ايك داستان بيان كرتا ہے ،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان اس زمانہ لوگوں ميں مشہور و معروف تھي،اور اسى بناء پر اس كو گواہى كے طورپر پيش كيا گيا ہے جيساكہ ارشاد ہوتا ہے:

''ہم نے انھيں ازمايا ،جيساكہ ہم نے باغ والوں كى ازمائشے كى تھى _''

 

يہ باغ كہاں تھا ،عظيم شہر صنعا ء كے قريب سر زمين يمن ميں ؟يا سر زمين حبشہ ميں ؟يا بنى اسرائيل كى سر زمين شام ميں ؟يا طائف ميں ؟اس بارے ميں اختلاف ہے ،ليكن مشہور يمن ہى ہے _

 

اس كا قصہ يہ ہے كہ يہ باغ ايك بوڑھے مر د مومن كى ملكيت تھا ،وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس ميں سے لے ليا كرتا اور باقى مستضعفين اور حاجت مندوں كو دے ديتا تھا ،ليكن جب اس نے دنيا سے انكھ بند كر لى (اور مر گيا )تو اس كے بيٹوں نے كہا ہم اس باغ كى پيداوار كے زيادہ مستحق ہيں ،چونكہ ہمارے عيال واطفال زيادہ ہيں ،لہذا ہم اپنے باپ كى طرح عمل نہيں كر سكتے ،اس طرح انھوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ ان تمام حاجت مندوں كو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم كرديں ،لہذا ان كى سر نوشت وہى ہوئي جو قرآن ميں بيان ہوئي _

 

ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھيں ازمايا ،جب انھوں نے يہ قسم كھائي كہ باغ كے پھلوں كو صبح كے وقت حاجت مندوں كى نظريں بچا كر چنيں گے _''اور اس ميں كسى قسم كا استشناء نہ كريں گے اور حاجت مندوں كے لئے كوئي چيز بھى نہ رہنے ديں _''(1)

 

ان كا يہ ارادہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ يہ كام ضرورت كى بناپر نہيں تھا ،بلكہ يہ ان كے بخل اور ضعيف ايمان كى وجہ سے تھاكيونكہ انسان چاہے كتناہى ضرورت مند كيوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو كثيرپيداو ار والے باغ ميں سے كچھ نہ كچھ حصہ حاجت مندوں كے لئے مخصوص كرسكتاہے _

 

اس كے بعد اسى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہتا ہے :

''رات كے وقت جب كہ وہ سوئے ہوئے تھے تيرے پروردگار كا ايك گھيرلينے والا عذاب ان كے سارے باغ پر نازل ہوگيا ''(2)

ايك جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس كے اوپر مسلط ہوئي كہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات كى مانند سياہ اور تاريك ہوگيا _(3)اور مٹھى بھر راكھ كے سوا كچھ بھى باقى نہ بچا_

 

بہر حال باغ كے مالكوں نے اس گمان سے كہ يہ پھلوںسے لدے درخت اب تيار ہيں كہ ان كے پھل توڑ لئے جائيں:''صبح ہوتے ہى ايك دوسرے كو پكارا_انھوں نے كہا:''اگر تم باغ كے پھلوں كو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے كھيت اور باغ كى طرف چلو_''(4)

 

''اسى طرح سے وہ اپنے باغ كى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ايك دوسرے سے باتيں كر رہے تھے _كہ اس بات كا خيال ركھو كہ ايك بھى فقير تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5) اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتيں كر رہے تھے كہ ان كى اواز كسى دوسرے كے كانوں تك نہ پہنچ جائے ،كہيں ايسا نہ ہو كہ كوئي فقير خبردار ہو جائے اور بچے كچے پھل چننے كے لئے يا اپنا پيٹ بھر نے كے لئے تھوڑا سا پھل لينے ان كے پاس اجائے _

 

ايسا دكھائي ديتا ہے كہ ان كے باپ كے سابقہ نيك اعمال كى بناء پر فقراء كا ايك گروہ ايسے دنوںكے انتظار ميں رہتا تھا كہ باغ كے پھل توڑنے كا وقت شروع ہوتو اس ميں سے كچھ حصہ انھيں بھى ملے ،اسى لئے يہ بخيل اور ناخلف بيٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے كہ كسى كو يہ احتمال نہ ہو كہ اس قسم كا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء كو اس كى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چكا ہو _

 

''اسى طرح سے وہ صبح سويرے اپنے باغ اور كھيت ميںجانے كے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء كو روكنے كے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے كے ساتھ چل پڑے _''(6)

 
گل

 

سرسبز باغ كے مالكوں كا دردناك انجام

وہ باغ والے اس اميد پر كہ باغ كى فراواں پيدا وار كو چنيں اور مساكين كى نظريں بچاكر اسے جمع كر ليں اور يہ سب كچھ اپنے لئے خاص كر ليں ،يہاں تك كہ خدا كى نعمت كے اس وسيع دسترخوان پر ايك بھى فقير نہ بيٹھے ،يوں صبح سويرے چل پڑے ليكن وہ اس بات سے بے خبر تھے كہ رات كے وقت جب كہ وہ پڑے سو رہے تھے ايك مرگبار صاعقہ نے باغ كو ايك مٹھى بھر خاكستر ميں تبديل كر ديا ہے _

 

قرآن كہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ كو ديكھاتو اس كا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا كہ انھوں نے كہا يہ ہمارا باغ نہيں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہيں ،''(7)

 

پھر انھوں نے مزيد كہا :''بلكہ ہم توحقيقت ميں محروم ہيں _''(8)

 

ہم چاہتے تھے كہ مساكين اور ضرور ت مندوںكو محروم كريں ليكن ہم تو خود سب سے زيادہ محروم ہو گئے ہيں مادى منافع سے بھى محروم ہو گئے ہيں اور معنوى بركات سے بھى كہ جو راہ خدا ميں خرچ كرنے اور حاجت مندوں كو دينے سے ہمارے ہاتھ اتيں _

 

''اس اثنا ميں ان ميں سے ايك جو سب سے زيادہ عقل مند تھا ،اس نے كہا:''كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ تم خدا كى تسبيح كيوں نہيں كرتے_''(9)

 

كيا ميں نے نہيں كہاتھا كہ خدا كو عظمت كے ساتھ ياد كرو اور اس كى مخالفت سے بچو ،اس كى نعمت كا شكريہ بجالاو اور حاجت مندوں كو اپنے سوال سے بہرہ مند كرو ليكن تم نے ميرى بات كو توجہ سے نہ سنا اور بدبختى كے گڑھے ميں جاگرے_

 

يہاں سے معلوم ہوتاہے كہ ان ميں ايك مرد مومن تھا جو انھيں بخل اور حرص سے منع كيا كرتاتھا ،چونكہ وہ اقليت ميں تھا لہذاكوئي بھى اس كى بات پركان نہيںدھرتا تھا ليكن اس درد ناك حادثہ كے بعد اس كى زبان كھل گئي ،اس كى منطق زيادہ تيز اور زيادہ كاٹ كرنے والى ہو گئي ،اور وہ انھيں مسلسل ملامت اور سر زنش كرتا رہا_

 

وہ بھى ايك لمحہ كےلئے بيدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ كا اعتراف كر ليا :''انھوں نے كہا: ہمارا پرورددگار پاك اور منزہ ہے ،يقينا ہم ہى ظالم و ستمگر تھے ،(10)ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا اور دوسروں پر بھى _''

 

ليكن مطلب يہيں پر ختم نہيں ہوگيا: ''انھوں نے ايك دوسرے كى طرف رخ كيا او ر ايك دوسرے كى ملامت و سر زنش كرنے لگے ''_(11)

 

احتمال يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك اپنى خطا كے اعتراف كے باوجود اصلى گناہ كو دوسرے كے كندھے پر ڈالتا اور شدت كے ساتھ اس كى سرز نش كرتا تھا كہ ہمارى بربادى كا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس كى عدالت سے اس قدر بيگانے نہيں تھے_ اس كے بعد مزيد كہتا ہے كہ جب وہ اپنى بدبختى كى انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان كى فرياد بلند ہوئي اور انھوں نے كہا:''وائے ہو ہم پر كہ ہم ہى سركشى اور طغيان كرنے والے تھے _''(12)

 

اخر كار انھوں نے اس بيدارى ،گناہ كے اعتراف اور خدا كى بازگشت كے بعد اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كيا اور كہا :اميد ہے كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں كو بخش دے گا اور ہميں اس سے بہتر باغ دے گا،كيونكہ ہم نے اس كى طرف رخ كرليا ہے اور اس كى پاك ذات كے ساتھ لولگالى ہے _لہذا اس مشكل كا حل بھى اسى كى بے پاياں قدرت سے طلب كرتے ہيں _''(13)

 

كيا يہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشيمان ہوگيا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل ميں تجديد نظر كر لى تھى اور قطعى اور پختہ ارادہ كر ليا تھا كہ اگر خدا نے ہميں ائندہ اپنى نعمتوں سے نوازا تو ہم اس كے شكر كا حق ادا كريں گے ؟يا وہ بھى بہت سے ظالموں كى طرح كہ جب وہ عذاب ميں گرفتار ہوتے ہيں تو وقتى طورپر بيدار ہو جاتے ہيں ،ليكن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھيں كاموں كى تكرار كرنے لگتے ہيں _

 

اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے كہ ايت كے لب و لہجہ سے احتمالى طورپر جو كچھ معلوم ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ ان كى توبہ شرائط كے جمع نہ ہونے كى بناء پر قبول نہيں ہوئي ،ليكن بعض روايات ميں ايا ہے كہ انھوں نے خلوص نيت كے ساتھ تو بہ كى ،خدا نے ان كى توبہ قبول كر ليا اورا نھيں اس سے بہتر باغ عنايت كيا جس ميں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور كے پُر ميوہ درخت تھے _

 

قرآن اخر ميں كلى طورپر نكالتے ہوئے سب كے لئے ايك درس كے عنوان سے فرماتا ہے :''خدا كا عذاب اس طرح كا ہوتا ہے اور اگر وہ جانيں تو اخرت كا عذاب تو بہت ہى بڑا ہے :''(14)

 

 

--------------------------------------------------------------------------------

(1)سورہ قلم ايت 17_18

(2)سورہ قلم ايت 19

(3)سورہ قلم ايت 20

(4)سورہ قلم ايت 21

(5)سورہ قلم ايت 21و22

(6)سورہ قلم ايت 23و24

(7)سورہ قلم ايت 26

(8)سورہ قلم ايت 27

(9)سورہ قلم ايت 28

(10)سورہ قلم ايت 29

(11)سورہ قلم ايت 30

 (12)سورہ قلم ايت 31

(13)سورہ قلم ايت 32

(14)سورہ قلم ايت


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا علم خدا کی موجوده زمانه کے موسم شناسی اور ...
عبادت اور خدا کا ادراک
قیامت کی ضرورت کا نتیجہ بحث
خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت
اسلام کا قانون
دعا توحید کے دائرہ میں
باب تقلید
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
ولایت ہی امتِ مسلمہ و ملتِ تشیع کے لئے نکتۂ اتحاد ...
علم کا مقام

 
user comment