ہر صاحب ِایمان اس بات سے باخوبی آگاہ ہے کہ خداوندِمتعال نے انسان کو اس دنیا میں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیساکہ قرآن ِمجید میں ارشاد ِربّ العزّت ہے"وَما خلقت الجنّ َوالانسَ الّا لیعبدون"(۱)"میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے" لہذااس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کر نے کے بعدپوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے ، اب دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سےصحیح کام لے ، اور یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوۓ خداوندمتعال کے احکام کو مد نظر رکھے ، اور کوئی ایسا کام انجام نہ دے جو اسکی مرضی کے خلاف ہو۔اور اپنی زندگی کے مقصدکو پانے کے لیئے مسلسل کوشا رہے۔
ان کاموں کے لیے انسان کو ’’علم وآگہی ‘‘ کی ضرورت ہے اس لیے کہ جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دُنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ ہوکہ خداوندِمتعال کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کاموں کوناپسند کرتاہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اپنے پروردگار کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ ربّ العزت نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پید اکی ہیں جن کے ذریعہ اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ، ایک انسان کے حواس، یعنی دیکھنے کی قوت ،سننے کی قوت ،سونگھنے کی قوت ،چکھنے کی قوت اورچھونے کی قوت ، ، دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں ، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں اُن کا علم اسے وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے ،
علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے ، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا ، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو تی ہیں اُن کا علم عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک چیزکو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اس چیزکا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ نا ممکن ہے ، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں ، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چُھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس چیزکو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے ، غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی ، اور جہاں حواس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے ، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے ، یہ بھی ایک حد پر جا کر رُک جاتی ہے ، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ ، مثلاً اسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے خداوند متعال راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہو گا، یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعہ ، اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ خداوندِمتعال نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے ،اس سےیہ واضح ہو گیا کہ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق اُن سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ حل نہیں ہو سکتے ،اور ان کا جانناانسان کے لیے ضروری ہے ، اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف حواس خمسہ اور عقل انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الٰہی ایک نا گزیر ضرورت ہے ، اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اُس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں کرتی ، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بات کا ادراک عقل سے ہی ہوجاۓ، بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے ، اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجاۓ وحی کا منصب ہے ، اور ان کے ادراک کے لیے صرف عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں ہے ۔(۲) اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اب تک انسان اس بات کا محتاج تھا کہ اس کی زندگی کے لیے ماوراء عقل یعنی وحی کے ذریعہ رہنمائی کی جاے ۔لیکن اب اس عصر جدید میں انسان کی عقل ارتقاء کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ جسکے بعد انسان وحی کی رہنمائی کے بغیراپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنی زندگی کو جاری رکھتے ہوئے اسے پائے تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔تو اسکے جواب میں ہم یہ کہیں گےکہ یہ بیان آج بھی مختلف جہات کی وجہ سے مخدوش ہے ۔
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ انسان کی معرفت اور شناخت کانہایت اہم ذریعہ عقل ہے اور اسی جوہر عقل کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات ٹھہرا ہے۔ انسان کے لیے علم کا پہلا ذریعہ جیساکہ بیان کیاجاچکاہے حواس خمسہ ہیں جن کے ذریعے سے انسان بیرونی دنیا سے مربوط رہتا ہے اور انہی حواس کے ذریعے معلومات حاصل کرتاہےحواس کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات جزئی ہوتی ہیں عقل انسانی ان معلومات کا تجزیہ وتحلیل کرتی ہے اور ان سے کلی اصول اخذ کرتی ہے انسانی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء میں انسانی فکرو عقل کا کردار نہایت اہم ہے اور دنیا آج جس مقام تک آن پہنچی ہے وہ اسی فکرو عقل کی بدولت ہےلیکن ان تمام تر خوبیوں کے باوجود اس کا دائرہ محدود ہے بعض مسائل آج بھی ایسے ہیں جو اس کی قلمر و قدرت سے باہر ہیں مثال کے طور پر انسان کی عقل یہ درک کرنے سے قاصر ہے کہ اس کا رابطہ اپنے پروردگار کے ساتھ ،خود اپنے ساتھ اور اپنے معاشرے کے ساتھ کس طرح کا ہونا چاہیے اور اس پر وہ کونسی ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں جنکی ادائیگی کے بعد وہ ایک نیک اور سعادتمند انسان بن سکتا ہے۔۔۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنکی حقیقت کا ادراک اس عقل ناتمام کے بس کا روگ نہیں ہے(۳)عقل کی مثال آنکھ کی سی ہے اور وحی وہ خارجی روشنی ہے جس کی موجودگی میں عقل صحیح راستہ پر چل سکتی ہے۔ وحی خالق کائنات ہی کے علم وحکمت کا دوسرا نام ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اشیائے کائنات کی حقیقت کا علم خالق کائنات سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔ لہذا جو عقل وحی کی روشنی سے بے نیاز ہو کر اپنا راستہ تلاش کرے گی وہ ہمیشہ تاریکیوں میں ہی بھٹکتی رہے گی اور یہی کچھ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک عقل اور اہل عقل کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ فکر جدید نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ عقل انسانی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک کر سکے یا حقیقت کے متعلق صحیح علم دے سکے
برگسان(BERGSON)اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتا ہے ۔
"ہماری فکر اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو ہمارے سامنے لا سکے یا زندگی کی ارتقائی حرکت کا صحیح اور پورا پورا مفہوم پیش کر سکے"(۴)
وہ مذیدلکھتا ہےکہ
"انسانی فکر کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ زندگی کا احاطہ کرنے کے لیے فطری طور پر ناکافی ہے "(۵)
عقل انسانی کسی معاملے کے متعلق بھی آخری دلیل،مکمل شہادت اور منطقی یقین بہم نہیں پہنچا سکتی انسانی عقل قطعی یقین تک پہنچانے کے لیے ناکافی ہے.(۶)
عقل کی محدودیت کے متعلق یہ ایک انتہائی درجے کی رائے ہے ہماری رائے یہ ہے کہ عقل یقین کے درجے تک پہنچ سکتی ہے مگر وحی کی روشنی میں جس طرح انسانی آنکھ خارجی روشنی کی محتاج ہے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی اس طرح انسانی عقل وحی کی روشنی کے بغیر یقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی مغربی فلاسفر شین(Sheen)اس حقیقت کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں
”Just as our senses work better when perfected by reason,so too our reason works better when perfected by faith A man temporarily devoid of reason as a drunkard,has the same senses that he had before,but they do not function as they did when he was under rational direction agovernment,what the senses are without reason,reason is with out faith“
"جس طرح ہمارے حواس اس وقت بہتر کام کرتے ہیں جب ان کی تکمیل عقل کے ذریعے سے ہو جائےاسی طرح ہماری عقل اس وقت بہتر کام کرسکتی ہے جب اس کی تکمیل ایمان(وحی) کے ذریعے ہو جائےجو شخص عارضی طور پر عقل سے عاری ہو جائے جیسے شرابی،اس کے حواس وہی ہوتے ہیں جو پہلے تھے لیکن اس وقت وہ کسی بھی صورت اپنے فرائض اس طرح انجام نہیں دے سکتا، جس طرح عقل وہوش کی حالت میں انجام دیتا ہے ،جو حالت عقل کے بغیر حواس کی ہوتی ہے وہی کیفیت ایمان(وحی) کے بغیر عقل کی ہوتی ہے" (۷)
اس بیان سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنہا عقل ہماری راہنمائی نہیں کرسکتی مغرب کے دانشور برگسان(BERGSON) یہاں تک کہتا ہے کہ عقل تنہا ہمیں کسی اور سمت لے جاتی ہے اس لیے کہ عقل کامنصب انسان کو اس کی منزل انسانیت تک پہنچانا نہیں اس کا فریضہ انسانی زندگی کا تحفظ ہے خواہ وہ کسی طریق سے ہو چنانچہ وہ کہتا ہے
"انسان تنہا عقل کی روشنی میں صحیح راہ پرنہیں چل سکتاعقل اسے کسی دوسرے راستے پر ڈال دے گی عقل ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے جب ہم اس مقصد سے بلند مقاصد کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو وہ اس بلند سطح کے متعلق ممکنات کا توشاید سراغ دے سکے ورنہ وہ حقیقت کا پتہ تو کسی صورت میں دے ہی نہیں سکتی" (۸)
بیسوی صدی کے عظیم سائنسدان اور دانشور پروفیسر آئن سٹائن نے ایک کتاب لکھی ہےجس کانام(Out of my later years) ہے اس کے باب (SCIENCE AND RELIGION) میں وہ لکھتے ہیں
”for science can only ascertain what is,but not what should be, and out side of its domain value judgments of all kinds remin necessary Religion ,no the other hand deals only with evaluations of human thought and action
on the other hand representative of science have often made an attempt to arrive at fundamental judgments with respect to values and ends on the basis of scientific method,and in this way have set themselves in opposition to religion “
(۹)
"سائنس صرف یہ بتا سکتی ہے کہ ”کیا ہے“ لیکن کیا ہونا چاہیے وہ یہ نہیں بتاتی اس لیے اقدار کی قیمت متعین کرنا اس کے دائرے سے باہر ہے اس کے برعکس مذہب کاکام یہ ہے کہ وہ انسانی فکر وعمل کی قیمت متعین کرے سائنس کے علمبرداروں نے اکثر اوقات اس امرکی کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کی رو سے اقدار کے متعلق قطعی فیصلہ نافذ کر دیں اس طرح وہ مذہب کے خلاف محاذ قائم کر تے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سائنس کا اپنادائرہ عمل ہے اور وہ محدود ہے انسانی فکروعمل کی راہیں متعین کرنا مذہب کا کام ہے جو وحی کے راستے سے اس علم کو حاصل کرتا ہے
ایک مغربی دانشور کی بات کا یہ مفہوم ہے کہ مذہب کی بنیاد صرف وحی پر ہو سکتی ہے وہ لکھتا ہے
"اگر وحی کا تصور نہ ہو تو مذہب ہی باقی نہیں رہتااور مذہب میں کوئی نہ کوئی عنصر توایسا ضرور ہوتا ہے جو عام فکر انسانی کے احاطہ علم سے باہر ہوتا ہے اس لیے اگر یہ کوشش کی جائے کہ جن باتوں کو انسانی عقل اچھا سمجھتی ہے انہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے اس مجموعہ کا نام مذہب رکھ لیا جائے تو اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گاایسی کوششوں کا نتیجہ مذہب نہیں بلکہ ایک فلسفہ زبوں ہو گا۔ (۱۰)
اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے عقل کا فی نہیں ہے اس کی حدود متعین ہیں جب طبیعات میں عقل مکمل راہنمائی نہیں کرتی تو ظاہر ہے کہ مابعد الطبیعات میں وہ کیسے ہماری راہنما بن سکتی ہے اور چونکہ فضائل اخلاق روحانی کمالات کا تعلق ایک بڑی حدتک حقائق مابعد الطبیعات کے تصور سے ہے اس لیے عقل اس راہ میں ہماری کامیاب اور مکمل راہنما اور ہادی ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہم کلی طور پر اس پر اعتماد کر سکتے ہیں
لہذا ہمیں ایک اور منبع وہدایت کی ضرورت ہے جو وحی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا
(۲)عقل کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عقل کا طریقہ تجرباتی ہوتاہے عقلی طریقہ یہ ہے کہ انسان ایک چیز کو اختیار کرتا ہے اس پر مدتوں محنت کرتا ہے اور آخرالامر دیکھتاہے اس کا تجربہ ناکام رہا ہے تو وہ اسے چھوڑدیتا ہے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے اورایک مدت تک اس راہ پر چلتا ہے اسے اس وقت کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ راستہ اسے منزل مقصود کی طرف لے جائے گا یاہلاکت کے غاروں میں دھکیل دے گا اس راستے کے آخری نقطہ تک پہنچنے سے پہلے اس حقیقت کا معلوم کرلینا اس کے بس کی بات نہیں لہذا وہ ہر اس راستے پر جو اس کے سامنے آتا ہے چل نکلتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ راستہ اسے صحیح مقام تک لے جاتا ہے لیکن اکثر ہوتا ہے کہ اتنے لمبے سفر کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو کسی اور طرف جارہا ہے یہ ہیں وہ مقامات جہاں انسانی عقل تھک کر بیٹھ جاتی ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیاانسانی فکر کو اس تجرباتی طریقہ پر چھوڑ دیا جائے یا اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ بھی ہے جس سے انسانیت اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتی ہے ہاں انسان کی راہنمائی کے لیے ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ وحی کا راستہ ہے
(۳)تیسری بات قابل غور یہ ہےکہ مجرد عقل کی یہ خامی ہوتی ہے کہ یہ جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انسان شہوت سے مغلوب ہو جائے تو اس کی عقل شہوت پرستی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غصے اور انتقام کے جذبات میں جل رہا ہو تو اس کی عقل اسے انتقام کے شدید طریقے سکھاتی ہے۔ لیکن عقل کو وحی کے تابع کر دینے سے یہ مسئلہ ختم ہو جاتا ہے(۱۱)اس لیے کہ خداوندِمتعال خوب جانتا ہے کہ ان جذبات پر کس طرح قابو پایا جائے ۔چنانچہ جب تک انسان میں ایک بھی جذبہ موجود ہے اس کی صحیح رہنمائی کے لیے انسان وحی کا محتاج ہے۔
(۴) اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے وہ معاشرے میں رہتا ہے اور معاشرے کے تمام افراد اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتےہیں ،انسان اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہر چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے زمین اس کے مرکبات و عناصر درختوں پھلوں اور مختلف قسم کے حیوانات سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور ان حاصل شدہ فوائد کو اپنی ضروریات برطرف کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے یہ انسان جو ہر چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے جب اپنے ہم نوع افراد سے روبرو ہوتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان کے احترام کے پیش نظر خلوص دل سے ان کی طرف دست تعاون دراز کرکے ان کے مفادات کی خاطر اپنے مفادات کے کچھ حصے سے دست بردار ہو جائے؟ ہر گز نہیں! ایک طرف سے وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ دوسرے انسان بھی اس کی مانند قوتیں اور خواہشات رکھتے ہیں خود اس کی طرح وہ بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں نظر انداز نہیں کرتے یہی وہ مقام ہے جہاں وہ خود کو معاشرتی تعاون پر مجبور پاتا ہے وہ اپنی محنت اور کام کی کچھ مقدار دوسروں کو دے دیتا ہے اور اس کے بدلے میں اپنی ضروریات کے مطابق دوسروں کے کام کے نتائج سے مستفید ہوتا ہے۔
پس واضح ہو گیا کہ انسان کا معاشرتی تعاون پر آمادہ ہونا اس کی مجبوری ہے۔ اس دعویٰ کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شخص دوسروں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے وہ لامحالہ معاشرتی تعاون کو نظر انداز کر کے دوسروں سے کام لیتا ہے اور ان کی محنت کا پھل بغیر کسی معاوضہ کے ہتھیا لیتا ہے۔ ہما راا معاشرہ ایسی مثالوں سے بھر ا پڑا ہے۔
اگرچہ انسان دوسرے انسانوں کے معاملات میں مجبوراً معاشرتی تعاون کو اپنانے پر تیار ہوا ہے اور یوں درحقیقت اس نے اپنی آزادی عمل کا کچھ حصہ دوسرے افرادکے لیے قربان کردیا ہے لیکن افراد کی روحی اور جسمانی قوتوں کے واضح اختلاف کی وجہ سے صرف معاشرتی تعاون کسی دردکا علاج نہیں کر سکتا اور جب مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو یہی معاشرہ جو اختلافات برطرف کرنے اور اصلاح احوال کی خاطر قائم ہوا تھا فساد و اختلاف کا بنیادی سبب بن جاتا ہے۔
اس مقام پر ایسے مشترک قوانین کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے جو معاشرے کے تمام افراد کی نظر میں قابل قبول اور محترم ہوں اس لیے کہ جب تک لین دین کے ایک چھوٹے معاملے میں بھی ایسے قوانین موجود نہ ہوں جو خرید نے اور بیچنے والے کی نظر مین یکساں محترم ہوں تو وہ معاملہ انجام نہیں پاسکتا۔
پس ضروری ہے کہ معاشرے میں ایسے قوانین نافذ ہوں جو معاشرے کو پراکندہ ہونے سے اور افراد کے مفادات کو ضائع ہونے سے بچائیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی ہدایت اور مذکورہ قوانین کی طرف راہنمائی کس کے ذمے ہے؟
کیا انسان کی عقل اس ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہو سکتی ؟ عقل کی نارسائی کو ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں یہاں پر قانون سازی میں عقل کی عدم کفایت پر بات کر تے ہیں۔
عقل ان اختلافات کو بر طرف کرنے کے لیے ضروری قانون کی طرف راہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتی اس لیے کہ یہ عقل ہی تو ہے جو اختلاف کی دعوت دیتی ہے، یہ عقل ہی تو ہے جو انسان کو اس بات پر اکساتی ہے کہ دوسروں سے خدمت لے اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے بے قیدو شرط اور مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرے اور اگر یہ معاشرتی توازن کو قبول کرتی ہے تو اس کی وجہ وہ مجبوری ہے جو مفادات کےٹکراؤ کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک عاملہ دو متضاد افعال یعنی ایجاد اختلاف اور رفع اختلاف کی حامل نہیں ہو سکتی۔ معاشرے پر حاکم قوانین کی بکثرت خلاف ورزی جو ہم روزانہ دیکھتے ہیں جسے جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے، انہیں لوگوں سے سر زد ہوتی ہے۔جو عقل رکھتے ہیں ، ورنہ اسے جرم یا گناہ نہ سمجھا جاتا۔اگر عقل اختلافات کو زائل کردینے والے قوانین کی طرف راہنمائی کر سکتی اور قانون شکنی کی جبلت سے پاک ہوتی تو ہر گز اس قانون شکنی کی اجازت نہ دیتی بلکہ اس کی ممانعت کرتی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عقل ایسے معاشرتی قانون کی طرف راہنمائی نہیں کر سکتی جو معاشرے میں توازن اور اعتدال کو برقرار رکھے اور معاشرے کے تمام افراد کے مفادات کی عادلانہ طور پر حفاظت بھی کرے ۔لہذابنی نوع انسان کو عقل کے علاوہ ہمیشہ ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جس سے وہ مذکورہ ہدایت حاصل کر سکے اوروہ وحی کےعلاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔"اس لیے کہ صرف خداوند متعال کی ذات ہی اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ انسان کے امور کی اصلاح کے لیے کس قسم کے قانون کی ضرورت ہے اور صرف اسی کی ذات کے لیے یہ تصوّر نہیں ہو سکتا کہ وہ محض اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قانون وضع کرے" (۱۲)
(۵)جید عالم سعید احمد اکبر آبادی وحی کی ضرورت پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا زیور علم و عقل سے آراستہ کیا اور اس نے انسان کے جسمانی نشوونما اور اس کی مادی زندگی کی ترقی و فلاح کے لیے کارگاہ ہست وبود کو رنگ رنگ کے نقش ونگار سے سجایااور ابن آدم کی تربیت و کامرانی کے لیے ایک مخصوص نظام کے ماتحت قطعی و حتمی وسائل معیشت پیدا کیےچنانچہ وہ پانی پیتا ہے،ہوا میں سانس لیتا ہے بادلوں سے بارش ہوتی ہے جو اس کے کھیتوں اور باغوں کو سرسبزو شاداب کر دیتی ہے اور جس سے اناج اور پھل پیدا ہوتے ہیں آگ سے وہ اپنی غذا تیار کرتا ہےآفتاب کی دھوپ سے حرارت پیدا ہوتی ہےیہ سب چیزیں جن کی تخلیق میں انسان کی صنعت و حرفت کا کوئی دخل نہیں اور ان پر ہی حیات انسانی کے قیام و بقا کا دارومدار ہے یہ تمام اشیاء وہ ہیں جن کو مادی زندگی کے قدرتی وسائل وذرائع کہا جاتا ہےلیکن اس مادی زندگی سے بڑھ کر انسان کی ایک اور زندگی ہے جس کو اخلاقی اور روحانی زندگی کہتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ہی وہ اصل حیات ہے جس پر انسان کی اجتماعی زندگی کا صالح اور درست نظام قائم رہ سکتا ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان کی تمام ترقیات،عمرانی ایجادات و اختراعات اور عقلی تحقیقات و اکتشافات انسانیت کی تعمیر میں مفید ثابت ہونے کی بجائے خود اس کے لیے سم قاتل بن جائیں اور اس کی سوسائٹیاں و حشیوں اور درندوں کے مہیب ریوڑ کی شکل میں تبدیل ہو کر رہ جائیں جس طرح پورے نظام شمسی کے قیام وبقا کا دارومدار اجرام فلکی کے باہمی جذب و انجذاب پر ہے اسی طرح انسانی سوسائٹی کے نظم و نسق اور اس کی فلاح و نجاح کا انحصار حاسئہ اخلاقی یا روحانی اعمال و ضوابط پر ہےاس بنا پر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ رب العالمین جس نے انسان کی مادی و جسمانی زندگی کے قرار و قیام کا خود کو مکفل کیااور اس کے لیے ایسے قدرتی وسائل و ذرائع پیدا کیے جن کی صنعت و تخلیق میں انسانی کے اپنے دست ایجاد کو مطلقاد خل نہیں ہے وہ ہمیں اخلاقی اور روحانی زندگی کے ایسے قدرتی اصول و آئین نہ بتاتا جو صالح تمدن کی اساس و بنیاد بنیں اور جو قطعی و حتمی ہونے کی وجہ سے ہر ملک اور ہرزمانہ میں ہر شخض کے لیے لائق عمل اور قابل قبول ہوں اور ان میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہ ہو۔(۱۳)
اس دلیل اور گذشتہ دلیل میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسانی کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے جبکہ سابقہ دلیل میں انسان کو معاشرتی زندگی کے لیے مشترک قانون کی ضرورت کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
مذکورہ بیان کے بعد موصوف یہ سوال اٹھا تے ہیں:
کہ اس طرح کے اصول و ضبط کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ وہ خدا کے بنائے ہوئے ہوں اور اس نے ہی انسان کو ان کی تلقین کی ہو جس طرح انسان اپنے رہنے کے لیے مکانات بناتا ہے گرمی سردی سے محفوظ رہنے کی غرض سے اپنے لیے کپڑے بناتاہے اور اسی طرح کی ہزاروں صنعتیں اس نے اپنے نفع کے لیے ایجاد کر رکھی ہیں وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ اپنے لیے اخلاقی ضوابط و قواعد بنائے اور اپنی روحانی تشنگی کوسیر کرنے کے لیے خود ہی کوئی نسخہ کیمیا تجویز کرلے عقل جس طرح مادی ترقی کی راہ میں راہنمائی کرتی ہے اخلاق اور روحانیت کے میدان میں بھی وہ اسی طرح شمع ہدایت بن سکتی ہے
سوال کاجواب ہم اگرچہ پہلے دے چکے ہیں او ر انسانی ہدایت و راہنمائی کے لیے عقل کی نارسائی کو ثابت کر چکے ہیں لیکن موصوف نے اپنے اسلوب میں ایک اور پہلو سے اس سوال کا جواب دیا ہے لہذا ان کے جواب کو نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے وہ جواب دیتے ہیں:
کسی انسان کی عقل کتنی ہی کامل و مکمل ہو نقص سے مبرا نہیں ہو سکتی انسان خود اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے ناقص و غیر مکمل ہے اس بنا پر اس کی کوئی قوت بھی خواہ ظاہری ہو یاباطنی ،مادی ہو یا روحانی من کل الوجوہ کامل نہیں ہےہر معاملہ میں صحت کے ساتھ خطا،کمال کے ساتھ نقص اور تذکر کے ساتھ سہوونسیان کا خدشہ لگا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو ،امکان و حدوث کی ظلمت کے ساتھ کمال بے خطا کا نور جمع کس طرح ہو سکتا ہے جس طرح انسان رنگ اور شکل میں ایک دوسرے سے متبائن ہیں ٹھیک اسی طرح اپنے قوائے فکریہ و باطنیہ کے لحاظ سے بھی وہ مختلف اور ایک دوسرے سے جدا ہیں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی خوش نصیب عقل حقیقت کے بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زنی کر کے صداقت و حقانیت کے چند آبدار موتی حاصل کر سکے لیکن اس کے پاس وہ قوت کہاں ہے جس سے وہ تمام دنیا کو اس صداقت کا معترف بنا سکے کوئی انسانی اختراع و ایجاد خواہ کتنی ہی حقیقت سے قریب ہو،اختلاف کی گنجائش سے خالی نہیں ہو سکتی یہی وجہ ہے کہ عوام کا تو کیا کہناہآج تک دنیا کی ممتاز عقلیں بھی کسی ایک مسئلہ پر متفق الرائے نہ ہو سکیں فلسفہ یونان کے جو بنیادی نظریے جو قرنہاقرن تک عالم میں مقبول ورائج رہےآخر آج موجودہ فلسفہ یورپ نے ان کو پرزہ پرزہ کر کے فضا میں منتشر کر دیا ہے لیکن کون کہ سکتا ہے کہ آج فلسفہ حال کی عمارت جس بنیاد پر کھڑی ہے مستقبل میں کوئی قوم اپنے جدید نظریات و افکار کی قوت سے اسے پاش پاش نہیں کر دیگی اور اس عمارت کے کھنڈروں پر ایک نئے نظام فکرو عمل کی دنیا نہیں بسائے گی قرنوں اور صدیوں کے بعد جوکچھ ہو گا اسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہےلیکن اتنا تو اب بھی دیکھا جارہا ہے کہ فلسفہ جدیدہ کی شاندار عمارت کو ارتیاب و شک کا گھن ابھی سے لگنا شروع ہو گیا ہےمولانا عبدالباری ندوی استاد فلسفہ جدیدہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن ”مہم انسانی“ کے مقدمہ میں اس راز سربستہ کا افشا اس طرح کرتے ہیں:
اور سچ یہ ہے کہ اس کے بعد فلسفہ کی تاریخ زیادہ تر نام بدل بدل کر کھلے یا چھپے اقرار جہل کی تاریخ بن کررہ گئی ”لاک“ کے یہاں یہ اقرار حسیت کے نقاب میں ہے اور”برکلے“ کے ہاں ادعائے تصوریت کے ،مگر اتنی باریک اور شفاف کہ روپوشی سے زیادہ رونمائی کی زینت ہے آخر برکلے کے بعد ہی ” ڈیوڈ ہیوم“ نے اس رونما نقاب کو بھی تار تار کر دیا اور نہ صرف جہل وارتیابیت کا کھل کر اقرار کیا بلکہ اپنے آپ کو ارتیابی ہی کہلانا پسند کیا
اس کے بعد موصوف متعدددلائل دینے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پس یہ ثابت ہوگیا کہ ہر دور میں اصل صداقت و حقانیت اور کامل اطمینان و سکون کا سراغ صرف وحی الہی کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے اور انسانی کی روحانی تشنگی صرف اسی سر چشمہ ہدایت کے آب زلال سے بجھ سکتی ہے۔
عقل اور اسلامی طرزتفکّر
اب آخر میں ہم عقل کے بارے میں اسلامی طرز تفکر کا جائزہ لیتے ہیں سب سے پہلے قرآن کی طرف رجو ع کرتے ہیں انسان کے علم ومعرفت کے منبع کے بارے میں قران مجید کی بہت سی تعبیرات ملتی ہیں جیسے:لب ،فواد،قلب،روح اور نفس وغیرہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جس طرح قرآن مجید نے انسانی عقل کو برو کار لانے اور انسانوں کو کائنات اور خود قرآن میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے کسی اور الہامی کتاب میں اس کی مثال نہیں ملتی اس سے دو چیزیں روشن ہوتی ہیں ایک یہ کہ قرآن انسانی عقل کواہمیت دیتا ہے اور معرفت کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے دوسرا یہ کہ قرآن کی باتیں اور احکامات خلاف عقل نہیں ہیں عقل ان تک پہنچ سکتی ہے اور ان کی حقانیت کا ادارک کسی سکتی ہے لہذا جب عقل قرآن میں غور و فکر اور تدبر کرے گی وہ قرآنی احکامات پر مہر تصدیق ہی ثبت کرے گی۔ نمونے کے طور پر قرآن کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔
(۱) کَذاَلِک یُبَیّن ُ الله ُ لَکم آیٰته لَعلَّکمَ ُ تَعُقِلُونَ (۱۴)
اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمھیں عقل آجائے
(۲) اِنَّ فی خَلق السَّمواتِ وَالارضِ وَاخُتِلافِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ لَایٰتِ الا ولیِ الالُبابِ ۔ (۱۵)
بیشک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لیےقدرت خدا کی نشانیاں ہیں۔
ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں اس کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی اور خدا پر ایمان کو غور و فکر پر استوار کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں حق و صداقت سے انکار کرنے والوں کی پہچان قرآن اس چیز سے کراتاہے کہ یہ لوگ عقل و فہم سے کام نہیں لیتے۔
(۳) ومَثَل الَّذین کفرُوا کَمثلِ الَّذی ینَعِقُ بمَالَا یسع ُ الَادُعآء وندآء صمَّ بُکم عُمی فَهم لاَ یعقِلون۔ (۱۶)
اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آوازدے اورجانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیں یہ کفار بہرے، گونگےاور اندھے ہیں انھیں عقل سے سرو کار نہیں ہے ۔
اسی طرح قرآن عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے والوں کو بدترین خلائق قرار دیتا ہے۔
(۴) اِنّ شرّ الدّوَآدبّ عِند الله ِ الصُّم البُکم الّذین لاَیعقلُون۔ (۱۷)
یقینا اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اورگونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں
اسلامی روایات میں عقل کا مقام:۔
اسلامی روایات میں عقل و خرد کو بلند مقام دیا گیا ہے اسے دین کی اساس ’عظیم نعمت بہترین دوست اور جزا کے حصول کے لیے میزان ، معیار کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس بارے میں ہم وسیوں روایات میں سے صرف چند کا انتخاب کر کے پیش کرتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
قوام المئر عقله ولادین لمن لا عقل له(۱۸)
انسانی وجود کی بنیاد اس کی عقل ہے جس کی عقل نہیں اس کا دین نہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
ماقسَم الله للعباد شئیا افضل من العقل ۔(۱۹)
اللہ تعالیٰ نے بندوں میں عقل سے بڑھ کر کوئی چیز تقسیم نہیں کی۔
ایک اور حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:
لکل شیء الة وعده والة المومن وعدتهالعقل وکل شیء مطیة ومطیة المرء العقل وکل شیء غایت غایة العبادة العقل۔(۲۰)
ہر چیز کے آلات و وسائل ہوتے ہیں اور مومن کے آلات و وسائل اس کی عقل ہے ہر چیز کی سواری ہوتی ہے اور انسان کی سواری عقل ہے اور ہر چیز کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہوتی ہے اور عبادت کی غرض و غایت عقل ہے۔
علی ابن ابی ظالب فرماتے ہیں:
لاغنی کا لعقل ولافقر کا لجهل(۲۱)
عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بےمائیگی نہیں۔
احادیث وروایات کے علاوہ اسلامی فقہ میں عقل کیا مقام رکھتی ہے؟ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اسلام فقہ کے چار مصادر میں سے ایک عقل ہے ۔ پس عقل سے احکام اسلامی کے استنباط کے لیے منبع کے طور پر استفادہ ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور عقل کا مقام و اہمیت کیا ہو گی۔
نتیجہ بحث:
مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ
قرآن اور اسلام عقل کا مخالف نہیں بلکہ عقل کو ایک بلند مقام عطا کرتا ہے اور یہ امر بھی اپنے مقام پر ثابت ہے کہ عقل کا اپنا دائرہ حدود ہے اور اس کی تمام فضیلت اور افادیت اسی دائرہ کے اندر ہے اس کی حدود سے آگے اس کے لیے وحی کی ہدایت کی ضرورت ہے۔عقل تنہا ظن و تخمین کی وادیون میں محو حیر ت و سرگرداں رہتی ہے لیکن وحی کی رودشنی میں وہ یقین کے درجے پر پہنچ جاتی ہے اسی بات کو علی بن ابی طالب نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا ہے:
فَبَعث فیهم رسله و واتر الیهم انبیاءَه لیستادوهم میثاق فطرته ویذکر وهم منسی نعمته۔۔ ویشیر والهم دفائن العقول ویروهم الایات المقدرة ۔ (۲۲)
اللہ نے ان میں اپنے رسول معبوث کیے اور لگاتار اپنے انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد لائیں۔ ۔ ۔ عقل کے دفینوں کو ابھاریں اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبان وحی کی بعثت کا ایک مقصد عقل کی تقویت اور اس کے چھپے ہوئے خزانوں کو آشکار کرنا ہے اور عقل کی حدود کو وسیع کرنا ہے۔ انبیاء الہیٰ ان امور کو وحی کی راہنمائی میں انجام دیتے تھے لہذا ثابت ہوا کہ عقل کو ہمیشہ اورہر دور میں وحی کی ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت ہے۔
وآخر دعواناان الحمدلله ربّ العالمین
فہرست منابع
(۱)سورہ مبارکہ ذاریات (۵۱)آیت ۵۶
(۲)تلخیص علوم القرآن :مفتی محمّد تقی عثمانی ،ص ۱
اور معارف قرآن ۔مفتی محمد شفیع ،ج۱ ۲۱۔۲۲
(۳)راہ و راہنما شناسی ،آیت اللہ محمّد تقی مصباح یزدی ص۹۔۱۸
(۴)Bergson,Henri,Creative Evolution,px
Bergson,Henri,Creative Evolution,p-174 (۵)
(۶)Brightman,Edgaro,s A philosophy of Religion cobesbury press 1930,p-113)
(۷)(Sheen,Fulion,J,Philosophy of Religion,Appleton,century crofts Inc NewYork may 7,1948,p-341
(۸)Bergson Henri,Two sources of molarity and Religion, Henry Holt & company 1935,p-201) .
(۹)(Einstein,Albert,Out of my latter years,philosophical Library NewYork 1950,p-25-26).
(۱۰)Quspensky P.D,A new Model of universe p-34
(۱۱)وحی اور عقل کا باہمی تعلق :عبدالرحمان کیلانی ص ۳۔۴
(۱۲)"۔آراءاھل المدینۃالفاضلۃ،ابونصر فارابی ؛اشارات وتنیھات،بو علی سینا ،ج۳ص ۳۷۱–۳۷۴ ۔و المیزان فی تفسیر القران ۔ج۲،ص۱۱۸–۱۱۹)
(۱۳)۔وحی الھی ۔ص۷۔۸ مکتبہ عالیہ لاہور۱۹۸۷
(۱۴)(سورہ مبارکہ بقرہ (۲)آیت ۲۴۲)
(۱۵)سورہ مبارکہ آل ِعمران (۳)آیت ۱۹۰
(۱۶)سورہ مبارکہ بقرہ (۲) آیت ۱۷۱
(۱۷)سورہ مبارکہ انفال (۸)آیت ۲۲
(۱۸)بحارالانوار ج ۱ص۹۴
(۱۹)اصول کافی ج۱ ،ص ۱۲
(۲۰)بحار الانوار ،ج۱ص،۳۴۲ ح۹۵
(۲۱)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۵۴۔ترجمہ ۔مفتی جعفر حسین
(۲۲)نہج البلاغہ ،خطبہ ،۱ ص،۸۹ ترجمہ ۔مفتی جعفر حسین
نوٹ : (۱) قرآنی آیات کے ترجمہ میں علّامہ ذیشان حیدر جوادی کے ترجمہ سے استفادہ کیاگیا ہے ۔
(۲)قرآنی اوراحادیثی منابع کے علاوہ دوسرے منابع سے ذراتصرف کے ساتھ استفادہ کیا ہے۔