حضرت زھرا (س ) بلال کو ہشيار شيعہ ، زمانے سے آگاہ ، معاشرے کے ظاہري اور پويشيدہ امور ميں باہوش اور روشن خيال تصوّر کرتي تھيں - اس لحاظ سے تحفظ ولايت کے تمام عرصہ ميں انہوں نے کبھي بھي بلال کي کوتاہي کا شکوہ نہيں کيا اور ہميشہ غاصبين کے خلاف ان کے پرامن اور مرحلہ وار جدوجہد کي مسلسل تعريف کي -
اپني ہوشياري اور بيداري کي وجہ سے بلال نے ايک لمحہ بھي خلافت پر قابض ہونے والوں کے ساتھ رضايت يا نرمي نہيں برتي اور اپني استعداد کے مطابق انہوں نے آگاھانہ مبارزہ کيا -
جس دن بلال کو خبر ملي کہ سقيفہ کا کام اپنے انجام کو پہنچا اور ابوبکر خليفہ بنے، وہ غم اور ماتم کي حالت ميں مسجد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں بيٹھے ہوۓ اس بڑے سانحے کے متعلق سوچ کر اسے قضا اور قدر الہي شمار کر رہے تھے کہ اچانک وہاں خليفہ آ گيا اور اذان کا وقت بھي ہو گيا - ارد گرد بيٹھے لوگ بلال کي آواز کے منتظر تھے تاکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دور کي طرح توحيد و رسالت کي ندا بلند ہو ليکن بلال کو انہوں نے ايک کونے ميں خاموش بيٹھے پايا - خيالوں ميں کھوۓ ہوۓ بلال کے نزديک آ کر انہوں نے کہا :
بلال ! اذان ، اذان !
اور بلال نے بڑي بہادري اور جرات کے ساتھ جواب ديا :
آج کے بعد اذان نہيں دوں گا - کسي دوسرے شخص کو مامور کر ديں -
خليفہ اوّل بلال کے نزديک آيا اور بولا :
اٹھو اذان دو بلال !
اور اس نے مزيد سوچا اور کہا : نہيں !
اور جب ابوبکر نے کہا کہ کيوں بلال ؟
اس نے جواب ديا : اگر تم نے مجھے اپني بندگي کے ليۓ اميہ سے آزاد کرايا ہے تو ميں تيرے اختيار ميں ہوں اور اگر خدا کي راہ ميں يہ کام کيا ہے تو پھر مجھے رہائي دو اور ميرے حال پر چھوڑ دو -
اور جب اس نے يہ سنا کہ " ميں نے تجھے خدا کي راہ کے ليۓ آزاد کيا ہے "
جواب ديا :
آن گونه در برابر سران زر و زور و تزوير ايستادگي کرد و با صراحت بسيار اين سخن را بر زبان جاري کرد:
ميں رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کسي کے ليۓ بھي اذان نہيں دوں گا ! [17]
انھوں نے مال دنيا اور زر و زور اور مکر و فريب کے مالکوں کے سامنے کہا: ميں رسول اللہ (ص) کے بعد کسي کے لئے بھي اذان نہيں دونگا!-
ميرے اوپر علي کا حق ابوبکر سے زيادہ ہے کيونکہ ابوبکر نے مجھے دنيا ميں قيد بندگي اور شکنجے سے آزادي دلائي - اگرچہ ميں بڑے صبر اور بردباري کے ساتھ بھشت جاودان کي طرف جا رہا تھا مگر علي عليہ السلام نے مجھے ابدي عذاب اور ہميشہ رہنے والي جہنم کي آگ سے نجات دلائي - اس سے دوستي ، اس کي ولايت اور اسے دوسروں سے اعلي ماننے کي وجہ سے جنت اور ہميشہ رہنے والي نعمتوں تک رسائي پا لوں گا -
ليکن جب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي پياري بيٹي نے اپنے والد کے عظيم دور نبوّت کي ياد تازہ کرنے کے ليۓ فرمايا :
«اِنّي اشتهي اَنْ اَسْمَعَ صوتَ مؤذنِ اَبي (ع) بالاذان»؛(18)
بہت دل کرتا ہے کہ اپنے والد کے مؤذن بلال کي آواز ميں اذان سنوں - بلال نے اطاعت کي اور پھر سے مدينہ کي فضاğ ميں بلال کي آواز گونجي -
«اشهد اَنَّ محمدا رسولُ اللّه »؛ کے الفاظ سن کر دختر رسول خدا کا دل لرز اٹھا ، سيلاب کي مانند آنکھوں سے آنسو جاري ہو گۓ - ايسے نقل کيا گيا ہے کہ فاطمہ (س ) نے رونا شروع کر ديا ، زمين پر گريں اور بےہوش ہو گئيں -
اچانک بلال تک خبر پہنچي کہ اذان روک دو فاطمہ (س) غش کھا گئي ہيں اور اسي طرح وہ گھبراہٹ اور پريشاني کے عالم ميں چھت سے نيچے آيا - پاک بانو کي خدمت ميں حاضر ہوا تاکہ ان کا حال جان سکے -
زھرا (س ) ہوش ميں آئيں اور فرمايا :
بلال ! اذان کو مکمل کرو -
اور بلال چونکہ جانتے تھے کہ نبي ص کي بيٹي اپنے والد سے کتنا پيار کرتي ہے اس ليۓ جواب ديا :
اے اللہ کے رسول کي بيٹي ! ميں يہ کام کرنے سے معذور ہوں کيونکہ مجھے آپ کي جان کي فکر ہے - ڈرتا ہوں کہ کہيں آپ موت کو گلے نہ لگا ليں - (19)
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
حوالہ جات :
17- بلال سخنگوي نهضت پيامبر(ص)، ص3-
18- احقاق الحق، ج19، ص153؛ کتاب من لا يحضره الفقيه، ج1، ص297؛ بحارالانوار، ج43، ص157-
19- بحارالانوار، ج43، ص158-
source : tebyan