اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

کیا ھمارے پیغمبر افضل الانبیاء اور ان کا وصی افضل الاوصیاء نھیں ھیں؟

کیا ھمارے پیغمبر افضل الانبیاء اور ان کا وصی افضل الاوصیاء نھیں ھیں؟

کیا خاتم النبیین کے وصی کوسلیمان کے وصی کی مانند بھی نھیں سمجھتے؟!

ھمارے اور ھمارے حق کے منکروں اور ھماری فضیلت کے جھٹلانے والوں کے درمیان اب خدا ھی فیصلہ کرے“[64]۔

بنا برایں رسول اکرم(ص) کی وزارت، آپ کی پشت کی مضبوطی، آپ کے امر میں شرکت، آپ سے اخوت و برادری، امر امت کی اصلاح اور آپ کی خلافت ھرگز اس شخص سے قابل مقایسہ هوھی نھیں سکتی کہ جس نے رسول اکرم(ص) کے علاوہ کسی اور سے ان فضیلتوں کو پایا هو۔

جو شخص بھی حدیث منزلت میں عمیق غور کرے نیز کتاب میں تدبر اور سنت میں تفقہ کا حامل هو تو وہ یقینا اسی نتیجے پر پھنچے گا کہ آنحضرت(ص)کے ھاتھوں آنحضرت(ص)کی زندگی ھی میں جانشین رسول قرار پانے والی ھستی اور آنحضرت(ص)کے درمیان فصل و جدائی، خلافِ حکم عقل اور قرآن و سنت سے متضاد ھے۔

بکیر بن مسمار سے منقول روایت میں کہ جس کی صحتِ سند کے خود اھل سنت بھی متعرف ھیں، بکیر نے کھاھے: میں نے عامر بن سعد سے سنا کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے پوچھا: ابوطالب کے بیٹے پر سب و شتم کرنے سے تجھے کیا چیز روکتی ھے؟

جواب دیا: جب بھی مجھے وہ تین چیزیں یاد آتی ھیں جو رسول اکرم(ص) نے علی کے بارے میں کھیں تو میں علی پر سب و شتم نھیں کرپاتا اور ان میں سے ھر شئے ایسی ھے جو میرے لئے ”حمر نعم“ (ھر قیمتی شئے) سے بھی زیادہ محبوب و پسندیدہ ھے۔

معاویہ نے پوچھا: اے ابو اسحاق! وہ تین چیزیں کونسی ھیں؟

ابو اسحاق نے کھا: میں علی پر سب و شتم نھیں کرسکتا کہ جب مجھے یاد آتا ھے کہ رسول خدا(ص) پر وحی نازل هوئی جس کے بعد آپ نے علی ان کے دونوں فرزندوں اور فاطمہ کا ھاتھ تھام کر اپنی عبا کے نیچے جمع کیا اور پھر فرمایا: بار الٰھا! یھی ھیں میرے اھل بیت (علیھم السلام)۔

اور میں سب و شتم نھیں کرونگا کہ جب مجھے یہ یاد آتا ھے کہ آنحضرت نے علی کو غزوہ تبوک کے موقع پر (مدینے میں ھی) باقی رکھا، جس پر علی نے عرض کی: کیا مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑ کر جارھے ھیں؟ آپ(ص)نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نھیں هو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسی سے تھی فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا۔

اور میں علی پر سب و شتم نھیں کرسکتا کہ جب مجھے روز خیبر یاد آتا ھے کہ جب رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا اس پرچم کو میں اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور خدا اسی کے ھاتھوں فتح نصیب کرے گا لہٰذا ھم سب اسی سوچ میں تھے کہ دیکھیں رسول اکرم(ص) کی نگاہ انتخاب کس پر ھے؟ کہ آنحضرت نے فرمایا: علی کھاں ھے؟ لوگوں نے جواب دیا: ان کی آنکھوں میں تکلیف ھے۔ فرمایا علی کو بلاوٴ، علی کو بلایا گیا، آنحضرت(ص)نے اپنے لعاب دھن کو علی کے چھرے پر ملا اور اپنا علم سونپا، خداوند متعال نے علی کے ھاتھوں ھی مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔

راوی کہتا ھے: خدا کی قسم جب تک سعد بن ابی وقاص مدینے میں رھے معاویہ نے ان سے کچھ نہ کھا۔ [65]

حاکم نیشا پوری کا کھنا ھے: حدیث موٴاخاة اور حدیث رایت (علم) پر بخاری و مسلم دونوں متفق ھیں۔[66]

بخاری نے سھل بن سعد سے نقل کیا ھے کہ: رسول اکرم(ص) نے بروز خیبر فرمایا: یقینا کل میں یہ علم اسے دونگا کہ جس کے ھاتھوں خدا فتح و کامرانی نصیب کرے گا وہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے نیز خدا اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ھیں۔

لہٰذا تمام لوگوں نے وہ رات اضطراب و پریشانی کے عالم میں بسر کی کہ دیکھیںرسول خدا یہ علم کس کو عطا کرتے ھیں۔

جب صبح هوئی تو ھم لوگ علم پانے کی امید لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر هوئے۔

آنحضرت نے فرمایا: علی بن ابی طالب کھاں ھیں؟ جواب دیا گیا: آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ھیں فرمایا: علی کو لاوٴ۔

علی آئے اور آنحضرت نے اپنا لعاب دھن ان کی آنکھوں پر ملا اور دعا فرمائی، درد اس طرح سے دور هوا گویا علی کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ھی نہ تھی۔

پھر انھیں علم دیا۔ علی نے عرض کی: یا رسول اللہ! ان لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک کہ یہ لوگ ھماری طرح نہ هوجائیں (ایمان لے آئیں)۔ جس کے بعد آنحضرت نے فرمایا: نرمی اور ثبات کے ساتھ بنا کسی عجلت کے میدان جنگ میں داخل هونا، یھاں تک کہ ان کے لشکر کے مد مقابل پھنچ جاوٴ، اس کے بعد انھیں اسلام کی دعوت دے کر ان پر واجب حق اللہ کی انھیں خبر دینا۔ پس خدا کی قسم! یقینا اگر خدا تمھارے ھاتھوں ایک انسان کی بھی ھدایت کردے تو یہ تمھارے لئے  حمر نعم اور ھر قیمتی شئے سے زیادہ بہتر ھے۔[67]

یہ بات مخفی نھیں کہ آنحضرت کا یہ فرمانا: علم اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور خدا اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ھیں۔ اس راز سے پردہ اٹھاتا ھے کہ اصحاب رسول میں سوائے حضرت علی    (ع)کے کوئی بھی شخص مذکورہ بالا صفت سے متصف نہ تھا، ورنہ رسول اکرم(ص)کی جانب سے صرف علی سے اس صفت کو مختص کرنا بغیر ترجیح و سبب کے هوگا اور بارگاہ قدسی رسول اکرم(ص) عقلی و شرعی باطل امور سے مبرّا و منزہ ھے۔

علم کا عطاء کرنا اور علی کے ھاتھوں فتح، حدیث منزلت ھی کی تفسیر ھے اس کے معنی یھی ھیں کہ علی ھی وہ ھستی ھے کہ جس کے ذریعے خداوند تعالی نے اپنے پیغمبر کی پشت کو مستحکم فرمایا اور اپنے نبی کے دست و بازو کی مدد عطا فرمائی۔

 مزید برآں، آنحضرت(ص)کا یہ فرمانا کہ خداوند تعالی علی کے ھاتھوں کا فتح عطافرمائے گا، اس امر کا بیانگر ھے کہ فعل الٰھی علی کے ھاتھوں اسی طرح جاری هوتا ھے جس طرح پیامبر کے ھاتھوں جاری هوا  جس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا:  وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی[68]

اور خود جناب امیر سے بھی یہ نقل هوا ھے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے در خیبر کو جسمانی طاقت سے نھیں اکھاڑا تھا[69]۔ جی ھاں، جس کے ھاتھوں خداوند متعال در خیبر کو فتح کروائے وھی یداللہ ھے، کیا خدا کی افضل ترین مخلوق کے دست و بازو بجز یداللہ کے کسی اور وسیلے سے مستحکم هوسکتے ھیں:

    إِنَّ فِی ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَنْ  کَانَ لَہُ قَلْبٌ اٴَوْ اٴَلْقَی السَّمْعَ وَهو شَہِیدٌ [70]

تیسری حدیث

اس حدیث کو حاکم نیشابوری نے مستدرک[71] اور ذھبی نے تلخیص [72]میں بریدہ اسلمی سے نقل کیا ھے کہ اس نے کھا:”میںایک غزوہ میں علی(ع) کے ساتھ یمن گیا اور آپ(ع) کا ایک عمل مجھ پرناگوار گذرا۔ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر هو کرمیں نے علی(ع) پر نکتہ چینی شروع کی۔ میں نے دیکھا رسول خدا(ص) کے چھرے کا رنگ متغیر هوگیااور آپ(ص) نے فرمایا: اے بریدہ! آیا میں مومنین کی نسبت ان پر خود ان سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا ؟ میں نے کھا : ھاں، یا رسول اللہ(ص)، آپ نے فرمایا: جس جس کا میں مولا هوں علی(ع) اس کے مولاھیں۔“

اوریہ وھی غدیر خم والا بیان ھے جسے آنحضرت(ص) نے بریدہ سے بھی فرمایاھے،اور واقعہٴ غدیر خم کو اکابر محدثین، موٴرخین اور مفسرین[73] نے اپنے اپنے فن میں موضوع کی مناسبت سے ذکر کیا ھے، بلکہ بزرگا ن اھل لغت نے اس واقعہ کو لغت کی کتابوں میں بھی نقل کیا ھے، مثال کے طور پر ابن درید نے جمھرة اللغة میں کھا ھے :((غدیر معروف وھوالموضع الذی قام فیہ رسول اللّٰہ(ص)خطیبا یفضّل اٴمیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب (ع)[74]

اور تاج العروس میں کلمہ ((ولی))کے ضمن میں کھا کہ :((الذی یلی علیک اٴمرک…

     ومنہ الحدیث : من کنت مولاہ فعلی مولاہ))اور ابن اثیر، ”نھایہ“ میں کلمہ ((ولی))کے ضمن میں کہتا ھے ((وقول عمر لعلیّ: اٴصحبت مولی کل مومن، اٴی ولی کل مومن ))

اور حدیث غدیر اھل سنت کے نزدیک صحیح سلسلہٴ اسناد کے ساتھ نقل هوئی ھے، اگرچہ سلسلہٴ ھائے اسناد اتنے زیادہ ھیں کہ صحت ِسند کی ضرورت باقی نھیں رہتی۔

حافط سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں کھا ھے :” مشهور  و معروف موٴرخ جریر طبری نے حدیث غدیر خم کو پچھتر مختلف سلسلہٴ اسناد کے ساتھ نقل کیا ھے اور اس موضوع پر ((الولایة))کے نام سے مستقل کتاب بھی لکھی ھے۔ اسی طرح حدیث غدیرکو ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے بھی روایت کیا ھے اور اس موضوع پر ((الموالاة ))کے نام سے مستقل کتاب لکھی ھے اور اس حدیث کو ایک سو پچاس مختلف سلسلہٴ اسناد کے ساتھ ذکر کیا ھے۔“

اور اس کے بعد لکھا ھے کہ :”علامہ علی بن موسی اور ابو حامد غزالی کے استاد امام الحرمین علی ابن محمد ابی المعالی الجوینی تعجب کرتے هو ئے کھا کرتے تھے : میں نے بغداد میں ایک جلد ساز کے پاس روایات غدیر کے موضوع پر ایک جلد دیکھی کہ اس پر لکھا تھا :یہ پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول  ((من کنت مولاہ فعلی مولاہ))کے سلسلہٴ ھائے اسناد کے سلسلے میں اٹھائیسویں جلد ھے۔ انتیسویں جلد اس کے بعد آئے گی۔“[75]

ابن حجر اپنی کتاب تہذیب التہذیب[76]میں حضرت علی(ع) کے حالات زندگی کا تذکرہ کرتے هوئے، ابن عبد البر سے اس حدیث کو حضرت علی(ع)، ابوھریرہ، جابر، براء بن عازب اور زید ابن ارقم کے واسطوں سے نقل کرنے کے بعدکہتا ھے:”اس حدیث کے ذکر شدہ سلسلہٴ ھائے اسناد کے کئی گنا دوسرے سلسلہٴ ھائے اسناد، ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں جمع کیے ھیں۔اور ابوالعباس بن عقدہ نے سلسلہٴ اسناد کو جمع کرنے میں خاص توجہ کی ھے اور حدیث کو ستّر یا اس سے زیادہ اصحاب سے نقل کیا ھے۔“

امیر المومنین(ع) کی ولایت اور خلافت بلا فصل پر اس حدیث کی دلالت واضح و روشن ھے۔

اگرچہ لفظ ((مولیٰ)) متعدد معنی میں استعمال هوا ھے، لیکن جن قرائن سے یہ بات ثابت ھے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے ولایت امر مراد ھے ان میں سے بعض کو ھم یھاں ذکر کرتے ھیں :

۱۔ اس مطلب کوبیان کرنے سے پھلے حضرت رسول خدا(ص) نے اپنی رحلت کی خبر دی اور قرآن وعترت کی پیروی کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں هوں گے۔ اس کے بعد اس عنوان کے ساتھ کہ جس جس کامیں مولاهوں علی   (ع)اس کے مولاھیں، حضرت علی(ع) کا تعارف کروانا اس بات کی دلیل ھے کہ اس سے آنحضرت(ص) کا مقصد ایسے شخص کی پہچان کروانا ھے کہ جس شخص اور قرآن  سے تمسک رکھتے هوئے امت، آپ(ص)کے بعد ضلالت وگمراھی سے نجات پا سکتی ھے۔

۲۔اس عظیم اجتماع کو حج سے واپسی کے دوران فقط یہ بتانے  کے لئے کہ علی(ع) اھل ایمان کا دوست، اور مددگار ھے، تپتے هوئے صحراء میں روکنا اور پالان ِ شتر سے منبر بنانا، آپ(ص) کے مقام خاتمیت کے ساتھ تناسب نھیں رکھتا، بلکہ یہ خصوصیات اس امر کی نشاندھی کرتی ھیں کہ کوئی اھم اعلان کرنا مقصود تھا اور لفظ مولا سے ولایت امرھی مراد هو سکتی ھے۔

۳۔واحدی نے اسباب النزول میں ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے کہ <یَا اٴَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ  إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>[77]غدیر خم کے روز، علی  بن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل هوئی[78]۔

آیت کریمہ کے شان نزول سے معلوم هوتاھے کہ جس مطلب کی تبلیغ کے لئے رسول خدا(ص) مامور تھے اس کی دو خصوصیات تھیں:

اول۔مرتبے کے اعتبار سے اس کی تبلیغ اتنی زیادہ اھمیت کی حامل ھے کہ خداوند متعال فرما رھا ھے :”اگر اسے انجام نہ دیا تو تبلیغ رسالت ھی کو انجام نہ دیا۔“

دوم۔یہ کہ اس تبلیغ میں خدا تمھیں بچانے والا ھے، یعنی معلوم هوتا ھے کہ اس اعلان کے بعد  منافقین کی سازشوں کا سلسلہ چل پڑے گاجو آپ(ص)کے ظهور اورتوسیع ِحکومت کے بارے میں اھل کتاب سے سن کر اس حکومت کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت(ص) سے آملے تھے،  لہٰذا ((مولیٰ)) کے معنی، ولایت امرکے علاوہ اور کچھ نھیں هوسکتے۔

۴۔خطیب  بغدادی نے ابوھریرہ سے روایت نقل کی ھے کہ:”جو اٹھارہ ذی الحجہ کو روزہ رکھے اس کے لئے ساٹھ ماہ کے روزے لکھے جاتے ھیں اور یہ غدیر خم کا دن ھے، جب نبی اکرم(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا : آیا میں مومنین کا مولاهوں ؟سب نے کھا :ھاں، یا رسول اللہ(ص)، تو فرمایا: جس جس کا میں مولاهوں علی(ع)  بھی اس کے مولاھیں۔

یہ سن کر عمر بن خطاب نے کھا : بخٍّ بخٍّ یا ابن ابی طالب، آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا قرار پائے ، پھر خدا نے یہ آیت نازل فرمائی <اَلْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ >[79]

وہ چیز جس کے ذریعے اکمال دین واتمام نعمت خدا ھے اور جس کی وجہ سے دین اسلام خدا کے نزدیک پسندیدہ ھے، وہ احکامِ خدا کے معلم اور انھیں عملی جامہ پھنانے والے کا تعین ھے۔

۵۔نور الابصار میں شبلنجی نے لکھاھے [80]:”امام ابو اسحاق ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ھیں کہ: سفیان بن عیینہ سے پوچھا گیا کہ آیت ِ<سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ>[81]کس کی شان میں نازل هوئی ھے؟

اس نے کھا:مجھ سے تم نے ایسے مسئلے کے بارے میں سوال کیا ھے جسے تم سے پھلے کسی اور نے نھیں پوچھا۔ میرے لئے میرے والد نے جعفر بن محمد اورانهوں نے اپنے اجداد سے حدیث بیان کی ھے کہ غدیر خم کے مقام پر جب رسول خدا(ص) نے لوگوں کو بلایا اور سب جمع هوچکے تو آپ(ص) نے علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑکر فرمایا:((من کنت مولاہ  فَعلیّ مولاہ))،اس طرح یہ بات شھروں میں مشهور هونے لگی اور جب یہ خبر حارث بن نعمان فھری تک پھنچی تو وہ رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور کھا: اے محمد(ص)! تو نے حکم دیا تھا کہ خدا کی وحدانیت اور تیری رسالت کااقرار کریں، سو ھم نے اقرار کیا، تو نے حکم دیا کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں، ھم نے قبول کیا، زکات دینے کو کھا، ھم نے قبول کیا، حکم دیا کہ رمضان کے روزے رکھیں ھم نے قبول کیا، حج کرنے کا حکم دیا، ھم نے یہ بھی مان لیا، لیکن تم اس پر بھی راضی نہ هوئے اور اپنے چچا زاد بھائی کا ھاتھ پکڑکر اسے ھم پر فضیلت دینا چاھی اور کھا ((من کنت مولاہ  فعلیّ مولاہ))،آیا یہ تمھارا فیصلہ ھے یا خداوند ِ عزوجل کا حکم ھے ؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:والذی لا إلہ إلا ھو، یقینا یہ خداوند عزوجل کا حکم ھے۔

حارث بن نعمان سوار هونے کے لئے اپنی سواری کی طرف بڑھااور کھا:بار الھا! جو کچھ  محمد(ص) کہہ رھا ھے اگر یہ سچ ھے تو ھم پر آسمان سے سنگ یا دردناک عذاب نازل فرما۔

ابھی وہ اپنی سواری تک نہ پھنچا تھا کہ خدا وند عزوجل نے پتھر نازل فرمایا جو اس کے سر پر آیااور دوسری طرف سے نکل گیا او ر وہ وھیں مر گیا۔ اس موقع پرخداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِع ٍة لِِّلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہ دَافِعٌة مِّنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ>[82]

اس میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نھیں کہ علی(ع) کے بارے میں، لوگوں نے  رسول خدا(ص) سے فضائل سن رکھے تھے۔  وہ  بات جو حارث بن نعمان جیسے افراد کے لئے نئی، شھروں میں منتشر شدہ اور نا قابل یقین فضیلت تھی، وہ رسول خد ا(ص) کی جانب سے، علی(ع) کے لئے،مولیٰ اور ولی هونے کا اعلان تھا، جو اس جیسے افراد برداشت نہ کر سکتے تھے، نہ یہ کہ مولی کے کوئی دوسرے معنی هوں۔

 ۶۔احمد بن حنبل نے مسند میں[83]، فخر رازی نے تفسیرمیں[84]،خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں[85] اور ان کے علاوہ دوسروں[86] نے بھی اس روایت کو نقل کیا ھے، لیکن ھم فقط مسند احمد کی روایت پر اکتفا کرتے ھیں :

احمد نے براء بن عازب سے نقل کیا ھے کہ اس نے کھا: ھم رسول خدا(ص) کے ساتھ ھمسفر تھے۔ غدیر خم کے مقام پر رکے، نماز جماعت کے لئے  بلایا گیا، رسول خدا(ص) کے لئے دو درختوں کے نیچے جھاڑو دی گئی،آپ(ص) نے نماز ظھر ادا کی اور علی(ع) کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تم لوگ نھیں جانتے کہ میں مومنین سے ان کی اپنی نسبت اولی هوں؟ سب نے کھا:ھا ں، فرمایا:کیا تم نھیںجانتے هو کہ میںھر مومن سے خود اس کی نسبت اولی هوں ؟سب نے کھا:ھاں، پھر آپ نے علی(ع) کا ھاتھ بلند کر کے فرمایا ((من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ))۔براء بن عازب کہتا ھے: اس کے بعد عمر نے علی   (ع)کے ساتھ ملاقات کی اور آپ سے کھا((ھنیئاً یا ابن ابی طالب، اصحبت وامسیت مولی کل مومن ومومنة))۔

عمر جیسے شخص سے اس طرح کی مبارک باد، ایک ایسی چیز کے لئے جس میں حضرت علی(ع) کے ساتھ دوسرے مومنین بھی شریک هوں، دوستی کے معنی میں نھیں، بلکہ بلا شبہ مبارک باد کا یہ انداز کسی خاص فضیلت کے لئے ھی هوسکتا ھے اور وہ فضلیت زعامت ِامت ومنصب ِخلافت رسول خدا(ص) کے سوا کچھ نھیں۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment