اهل بیت(علیهم السلام)
اهل بیت(علیهم السلام)




شہادتِ حبیب ابن مظاہر
اهل بیت(علیهم السلام)
یہ وہ سب تھے جو بنی ہاشم کے علاوہ تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اُن کو بلایا نہ تھا، سوائے ایک حبیب ابن مظاہر کے، باقی لوگ سب ساتھ ہوگئے تھے، یہ سمجھ کر کہ یہ سفر وہی ہے جس کے بعد آپ مدینہ نہ آئیں گے۔ یہ سمجھ کر ساتھ ہوئے تھے کہ حسین مرنے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہم ان سے پہلے مریں گے۔ حبیب ابن مظاہر کو تو جو خط آپ نے لکھا تھا، اس کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو آہی رہے تھے مگر جنابِ زینب کو فرمائش ہوگئی تھی اور حسین اپنی بہن کا دل رکھنا چاہتے تھے بیٹھے تھے بہن بھائی۔ جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا! چاروں طرف سے فو






ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟
اهل بیت(علیهم السلام)
مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عقد سنہ 17 ھ


حضرت عباس نمونہ وفا
اهل بیت(علیهم السلام)
تمہید: حضرت عباس علیہ السلام کی ذات بابرکت، فضائل اوربرکات کاوہ موج زن سمندر ہے کہ ایک یا چند مقالوں سے اس عظیم شخصیت کے کسی ایک پہلو پر بھی سیر حاصل بحث نہیں کی جاسکتی، لیکن عربی کےاس معروف موکلہ«مالا یدرک کله لا یترک کله» کومدنظررکھتےہوۓ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس علمدار کی ایک اہم ترین صفت( وفاء) کےذیل میں کچھ مطالب بیان کریں ، البتہ یہ اعتراف کرتے ہوے کہ حضرت عباس (ع) کی زندگی تحلیل کرنا ایک معمولی کام نہیں ، اور مجھ جیسے بے بضاعت کے بس م




شہادتِ مسلم بن عقیل
اهل بیت(علیهم السلام)
حضرت امام علیہ السلام دربارِ ولید کی طرف روانہ ہونے لگے تو بنی ہاشم کے جوانوں نے کہا کہ آقا! ہم آپ کو اکیلا تو نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ جنابِ عباس ، جنابِ علی اکبر ، جنابِ قاسم اور بنی ہاشم کے جوان امام علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے۔ جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو! مجھے تنہا بلایا ہے۔ تم میرے ساتھ اندر نہ آؤ۔ اگر میری آواز بلند ہو تو تم آجانا۔ چنانچہ یہ سب کھڑے ہوگئے۔ امام حسین علیہ السلام اندر تشریف لے گئے۔ ولید کے ساتھ مروان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حاکمِ مدینہ نے وہ خط آپ کو دکھایا جس میں














کریمہ اہل بیت کی کرامتیں
اهل بیت(علیهم السلام)
چونکہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی چشم و چراغ ہیں جس کے لئے زیارت جامعہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملہ ملتا ہے ” عادتکم الاحسان و سجیتکم الکرم “ احسان آپ کی عادت اور کرم آپ کی فطرت ہے ۔ (۱) لہٰذا بہت









