اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

میرے والد نے فرمایا:” اے جابر، کیا وہ نسخہ مجھے دکھا سکتے هو؟“

میرے والد نے فرمایا:” اے جابر، کیا وہ نسخہ مجھے دکھا سکتے هو؟“

جابر نے کھا:”ھاں“،پھر میرے والد اس کے ساتھ اس کے گھر گئے، وھاں پھنچ کر نازک کھال پر لکھا هوا ایک صحیفہ نکالا اور فرمایا: ”اے جابر!جو میں بول رھاهوں  تم اپنے نوشتے سے ملاتے جاوٴ۔“

جابر نے اپنے نسخہ پر نظر کی اور میرے والد نے اس کی قرائت کی، کسی ایک حرف میں بھی اختلاف نہ تھا۔ جابر کہتے ھیں:”خدا کو گواہ بنا کر کہتا هوں کہ لوح میں اس طرح لکھا هوا دیکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ تحریر خداوند عزیز وحکیم کی طرف سے محمد کے لئے ھے جو اس کا پیغمبر، اس کا نور،  اس کا سفیر، اس کا حجاب اور اس کی دلیل ھے، کہ جسے روح الامین نے رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ھے۔ اے محمد! میرے ناموں کی تنظیم کرو، میری نعمتوں کا شکر بجا لاؤاور میرے الطاف باطنی کا انکار نہ کرو، بے شک میں وہ خدا هوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نھیں،ظالموں کو توڑ دینے والا، مظلوموں کو حکومت عطا کرنے والا، جزا کے دن جزا دینے والا۔ بے شک میں ھی وہ خدا  هوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدانھیں ھے، جو کوئی بھی میرے فضل کے علاوہ کسی چیز کا امیدوار هو یا  میرے عدل کے علاوہ کسی چیز کا خوف کھائے اسے ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا والوں میں سے کسی کو اس طرح کا عذاب نہ دیا هوگا۔ بس میری عبادت کرو اور مجھ پر توکل کرو۔ بے شک ابھی تک میں نے کوئی پیغمبر نھیں بھیجا کہ اس کے دن پورے هونے اور مدت گزرنے سے پھلے اس کا وصی مقرر نہ کردیا هو۔بے شک میں نے تمھیں انبیاء پر اور تمھارے وصی کواوصیاء پر فضیلت دی ھے، حسن  اور حسین  جیسے دو سبط و شبل عطا کر کے تمھیں احترام بخشا ھے۔

 پس حسن کو اس کے والدکی مدت پوری هونے کے بعد اپنے علم کی معدن قرار دیاھے اور حسین کو میں نے اپنی وحی کا خزینہ دار قرار دیا ھے، اسے شھادت کے ذریعے عزت عطا کی، اس کا اختتام سعادت پرکیا، پس وہ تمام شھیدوں سے افضل ھے اور اس کا درجہ تمام شھداء سے بڑھ کر ھے۔ اپنے کلمہ تامہ کو اس کے ساتھ اور اپنی حجت بالغہ کو اس کے پاس رکھا،اس کی عترت کے وسیلے سے ثواب دوں گا اور عقاب کروں گا۔ ان میں پھلا علی ھے جو سید العابدین اور میرے سابقہ اولیاء کی زینت ھے۔ اس کا فرزند محمد اپنے جد محمود کی شبیہ ھے، باقر، جو میرے علم کو شگافتہ کرنے والاھے اور میری حکمت کا معدن ھے۔ جعفر میں شک وتردید کرنے والے جلد ھی ھلاک هو جائیں گے اس کی بات ٹھکرانے والا ایسا ھے جیسے میری بات کو ٹھکرائے۔ میرا یہ قول حق ھے کہ جعفرکے مقام کو گرامی رکھتاهوں اوراسے،اس کے پیروکاروں، انصاراور دوستوں کے درمیان مسرور کروںگا۔اس کے بعد موسیٰ ھے کہ اس کے زمانے میں اندھا وتاریک فتنہ چھا جائے گا، چونکہ میرے فرض کا رشتہ منقطع نھیں هوتا اور میری حجت مخفی نھیں هوتی، بے شک میرے اولیاء سر شار جام سے سیراب هوں گے، جو کوئی ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے اس نے میری نعمت کا انکار کیا ھے اور جو کوئی میری کتاب میں سے ایک آیت میں بھی رد و بدل کرے اس نے مجھ پر بہتان باندھا ھے۔  میرے عبد، میرے حبیب اور میرے مختار، موسیٰ کی مدت تمام هونے کے بعد وائے هو علی کا انکار کرنے والوں اور اس پر بہتان باندھنے والوں پرجو میرا ولی،میرا مددگا ر ھے، نبوت کے سنگین بوجھوں کو اس کے کاندھوں پر رکھوں گا اور اس کی انجام دھی میں شدت وقوت سے آزماؤں گا، اسے ایک مستکبر عفریت قتل کرے گا  اور جس شھر کی بنیاد، عبد صالح نے رکھی ھے اس میں بد ترین مخلوق کے پھلو میں دفن هو گا۔ میرا یہ قول حق ھے کہ اسے اس کے فرزند محمد کے ذریعے مسرور کروں گا جو اس کے بعد اس کا خلیفہ اور اس کے علم کا وارث هوگا، پس وہ میرے علم کا معدن، میرا رازداں اور خلق پر میری حجت ھے۔کوئی بھی اس پر ایمان نھیں لائے گا مگر یہ کہ بھشت کو اس کا مسکن بنادوںگا۔ اس کی شفاعت اس کے ستر اھل خانہ کے حق میں قبول کروں گا، جو آتش جھنم کے مستحق هوچکے هوں گے۔ اور سعادت کے ساتھ ختم کروں گا اس کے فرزند علی کے لئے جو میرا ولی،میرا مددگا ر، خلق کے درمیان میرا گواہ او رمیری وحی میں میرا امین ھے۔ اس سے اپنی راہ کی جانب دعوت دینے والا حَسن نکالوں گا، جو میرے علم کا خزینہ دار هوگا اور اسے اس کے فرزند م ح م د سے کامل کروں گا ،جو رحمة للعالمین ھے، جس میں موسیٰ کا کمال،عیسیٰ کی  ھیبت اور صبر ایوب ھے۔ ا س کے زمانے میں میرے اولیاء ذلیل هوں گے اور ان کے سر، ترک ودیلم کے سروں کی طرح لوگ ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیںگے۔ وہ  مارے جائیں گے،  جلائے جائیں گے، خوف زدہ، ڈرے هوئے اور سھمے هوئے هوں گے، ان کے خون سے زمین رنگین هوگی،ان کی عورتوں کی فریاد بلند هوگی، حقا کہ وہ میرے اولیاء ھیں، ان کے ذریعے ھر اندھے فتنے کی تاریکی وسختی کو دور کروں گا۔ ان کے ذریعے زلزلوں کو کشف کردوںگا، بوجھوں اور زنجیروں کو دور کروں گا۔ یہ وہ ھیں جن پر ان کے پروردگا ر کی طرف سے صلوات اور رحمت ھے اور یھی ھدایت پانے والے ھیں۔“[145]

حدیث مکمل کرنے کے بعد ابو بصیر نے عبد الرحمن بن سالم سے کھا:” اگر ساری زندگی اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہ بھی سنو تویھی ایک حدیث تمھارے لئے کافی ھے، اسے نا اھل سے چھپا کر رکھنا۔“

اور ائمہ معصومین کی امامت پر اس سے کھیں زیادہ دلائل موجود ھیں، جنھیں ا س مختصر مقدمے میں نھیں سمویا جا سکتا، لیکن امامت کے اعلیٰ مقام کی معرفت کی غرض سے ایک روایت ذکر کر کے اس بحث کو ختم کرتے ھیںاور یہ روایت وہ ھے جسے شیخ المحدثین محمد بن یعقوب کلینی نے محمد بن یحیی  سے (کہ نجاشی جس کی شان بیان کرتے هوئے کہتے ھیں: شیخ اٴصحابنا فی زمانہ، ثقة،عین،اور ان سے چھ ہزار کے قریب روایات نقل کی ھیں )، انهوں نے احمد بن محمد بن عیسٰی سے (جو شیخ القمیین ووجھھم وفقیھھم غیر مدافع اور امام رضا، امام تقی وامام نقی علیھم السلام کے صحابی تھے )،انهوں نے حسن بن محبوب  سے (جو اپنے زمانے کے ارکان اربعہ میں سے ایک اور ان فقھاء میں سے ھیں کہ جن تک صحیح سند اگر پھنچ جائے تو ان کی منقولہ روایت کی صحت پر اجماع ھے۔)، انهوں نے اسحاق بن غالب سے (بطور خاص توثیق کے علاوہ جن کی شان یہ ھے کہ صفوان بن یحیی جیسی عظیم شخصیت نے ان سے روایات نقل کی ھیں)، انهوں نے ابی عبد اللہ(ع) کے خطبے سے روایت نقل کی ھے، جس میں حضرت نے احوال وصفات ائمہ کو بیان کیا ھے۔ چونکہ کلام امام میں موجود خاص لطافت قابل توصیف نھیں ھے لہٰذا  یھاں پر خود متن کا کچھ حصہ ذکر کرتے ھیں:

((عن اٴبی عبداللّٰہ علیہ السلام فی خطبة لہ یذکر فیھا حال الاٴئمة علیھم السلام و صفاتھم: إنّ اللّٰہ عز و جل اٴوضح باٴئمة الھدی من اٴھل بیت نبینا عن دینہ، و اٴبلج بھم عن سبیل منھاجہ، و فتح بھم عن باطن ینابیع علمہ، فمن عرف من اٴُمة محمد(ص) واجب حق امامہ، وجد طعم حلاوة ایمانہ، و علم فضل طلاوة اسلامہ، لاٴن اللّٰہ تبارک و تعالی نصب الامام علماً لخلقہ، و جعلہ حجة علی اٴھل موادہ و عالمہ، و اٴلبسہ اللّٰہ تاج الوقار، و غشاہ من نور الجبار، یمد بسبب الی السماء، لا ینقطع عنہ موادہ، و لا ینال ما عند اللّٰہ الا بجہة اسبابہ، و لا یقبل اللّٰہ اٴعمال العباد إلاّ بمعرفتہ، فهو عالم بما یرد علیہ من ملتبسات الدجی، و معمیّات السنن، و مشبّھات الفتن، فلم یزل اللّٰہ تبارک و تعالی یختارھم لخلقہ من ولد الحسین(ع) من عقب کل إمام یصطفیھم لذلک و یجتبیھم، و یرضی بھم لخلقہ و یرتضیھم، کلّ ما مضی منھم إمام نصب لخلقہ من عقبہ إماماً علما بیّناً، و ھادیاً نیّراً و إماماً قیّماً، و حجة عالماً، اٴئمة من اللّٰہ، یھدون بالحق و بہ یعدلون، حجج اللّٰہ و دعاتہ و رعاتہ علی خلقہ، یدین بھدیھم العباد و تستھل بنورھم البلاد، و ینمو ببرکتھم التلاد، جعلھم اللّٰہ حیاة للاٴنام، و مصابیح للظلام، و مفاتیح للکلام، و دعائم للإسلام، جرت بذلک فیھم مقادیر اللّٰہ علی محتومھا۔

 

فالإمام هو المنتجب المرتضی، و الھادی المنتجی، و القائم المرتجی، اصطفاہ اللّٰہ بذلک و اصطنعہ علی عینہ فی الذرّ حین ذراٴہ، و فی البریة حین براٴہ، ظلا قبل خلق نسمة عن یمین عرشہ، محبوّاً بالحکمة فی علم الغیب عندہ، اختارہ بعلمہ، و انتجبہ لطھرہ، بقیة من آدم (ع)و خیرة من ذریة نوح، و مصطفی من آل إبراھیم، و سلالة من إسماعیل، و صفوة من عترةمحمد(ص) لم یزل مرعیّاً بعین اللّٰہ، یحفظہ و یکلئہ بسترہ، مطروداً عنہ حبائل إبلیس و جنودہ، مدفوعاً عنہ وقوب الغواسق و نفوث کل فاسق، مصروفاً عنہ قوارف السوء، مبرّئاً من العاھات، محجوباً عن الآفات، معصوماً من الزّلات، مصوناً عن الفواحش کلھا، معروفاً بالحلم و البرّ فی یفاعہ، منسوباً إلی العفاف و العلم و الفضل عند انتھائہ، مسنداً إلیہ اٴمر والدہ، صامتاً عن المنطق فی حیاتہ۔

فإذا انقضت مدّة والدہ، إلی اٴن انتہت بہ مقادیر اللّٰہ إلی مشیئتہ، و جائت الإرادة من اللّٰہ فیہ إلی محبتہ، و بلغ منتھی مدة والدہ(ع) فمضی و صار اٴمر اللّٰہ إلیہ من بعدہ، و قلدہ دینہ، و جعلہ الحجة علی عبادہ، و قیمہ فی بلادہ، و اٴیّدہ بروحہ، و آتاہ علمہ، و اٴنباٴہ فصل بیانہ، و استودعہ سرّہ، و انتدبہ لعظیم اٴمرہ، و اٴنباٴہ فضل بیان علمہ، و نصبہ علماً لخلقہ، و جعلہ حجة علی اٴھل عالمہ، و ضیاء لاٴھل دینہ، و القیم علی عبادہ، رضی اللّٰہ بہ إماماً لھم…))۔[146]

                                                                                   

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ...
غیب پر ایمان
اھل بيت (ع) کي شان ميں کتب
انٹرنیٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں
تربیت کا اثر
امام کے معصوم ھونے کی کیا ضرورت ھے اور امام کا ...
انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
انبیاء الہی کی حمایت اور ان کی پیروی
امام کي شخصيت اور جذبہ
اسلام میں عورت کا حق وراثت

 
user comment