چھٹا سبقخلافت ظاہرى سے شہادت تك (2) ناكثين ( حكومت على (ع) كى مخالفت) موقف ميں تبديلي مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا سپاہ كے اخراجات عراق كى جانب روانگي سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي پہلا تصادم دھوكہ و عہد شكني جمل اصغر سردارى پر اختلاف خبر رساني سوالات حوالہ جات |
جائزہ ليں گے اور يہ بتائيں گے كہ ان ميں سے ہر گروہ نے حضرت على (ع) كى حكومت كے خلاف كيا كيا كارگزارياں كيں_ ناكثينطلحہ وزبير كى عرصہ دارز سے يہ آرزو تھى كہ وہ اس مقام پر پہنچيں جہاں سے عالم اسلام پر حكمرانى كرسكيں_ عثمان كے قتل كے بعد رائے عامہ حضرت على (ع) كى جانب اس بناپر متوجہ ہوگئي كہ انہوں نے آپ (ع) كو ہى عہدہ خلافت كے لئے شايستہ ترين انسان سمجھا_ چنانچہ جب وہ لوگ اقتدار سے نااميد ہوگئے تو حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے پيش پيش رہے اور بظاہر سب پر سبقت لے گئے_ حضرت على (ع) كى بيعت ميں سبقت لے جانے كى وجہ يہ تھى كہ وہ چاہتے تھے كہ اپنے اس اقدام سے خليفہ وقت كو اپنى جانب متوجہ كريں تاكہ اس طريقے سے وہ اپنے مقاصد تك پہنچ سكيں _ ليكن ان كى توقع كے خلاف اميرالمومنين (ع) نے انكے ساتھ ديگر تمام مسلمين كى طرح يكساں سلوك روا ركھا اور اس طرح ان كى تمام حسرتوں پر پانى پھرگيا_ يعقوبى نے لكھا ہے كہ طلحہ اور زبير اميرالمومنين حضرت على (ع) كے پاس آئے اور كہا كہ پيغمبر خدا (ص) كے بعد ہم سے بہت زيادہ ناانصافى كى گئي ہے ، اب آپ ہميں خلافت كى مشينرى ميں شريك كرليجئے_ اس پر اميرالمومنين على (ع) نے فرمايا : قوت و پايدارى ميں تو تم ميرے ساتھ شريك ہوہى شدائد اورسختيوں ميں بھى تم ميرے ساتھ رہو (3)_ حضرت على (ع) كے اس اقدام سے يہ دونوں حضرات ايسے برگشتہ ہوئے كہ انہوں نے دستگاہ خلافت سے عہد شكنى كا فيصلہ كرليا اور آخر كا اس كا انجام جنگ ''جمل'' كى صورت ميں رونما ہوا_ برگشتگى كا دوسرا عامل يہ تھا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بيت المال كو تمام مسلمانوں كے |
درميان مساوى تقسيم كيا _ اميرالمومنين حضرت على (ع) كا يہ رويہ طلحہ اور زبير كے لئے ناقابل برداشت تھا _ انہوں نے زبان اعتراض دراز كى اور بيت المال ميں سے اپنا حصہ بھى نہيں ليا_ حضرت على (ع) نے انہيں اپنے پاس بلايا اور فرمايا : كيا تم ميرے پاس اس مقصد كے لئے نہيں آئے تھے كہ زمام خلافت كو ميں اپنے دست اختيار ميں لے لوں درحاليكہ مجھے اس كا قبول كرنا ناپسند تھا ؟ كيا تم نے اپنى مرضى سے ميرے ہاتھ پر بيعت نہيں كى ؟ اس پر انہوں نے جواب ديا كہ : ہاں اس ميں ہمارى مرضى شامل تھى _ يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا تو تم نے مجھ ميں كون سى بات ديكھى جو اعتراض شروع كرديا اور ميرى مخالفت پر اتر آئے ؟ انہوں نے جواب ديا كہ ہم نے اس اميد پر بيعت كى تھى كہ خلافت كے اہم امور ميں آپ كے مشير رہيں گے_ اب ديكھتے ہيں كہ آپ نے ہمارے مشورے كے بغير بيت المال كو مساوى تقسيم كرديا ... جو چيز ہمارى رنجيدگى كا سبب ہوئي ہے وہ يہ ہے كہ آپ عمر كى روش كے خلاف جارہے ہيں وہ بيت المال كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ كارناموں كو ملحوظ خاطر ركھتے تھے _ ليكن آپ نے اس امتياز سے چشم پوشى كى جو ہميں حاصل ہے آپ نے ہميں ديگر مسلمانوں كے برابر سمجھا ہے جب كہ يہ مال ہمارى جانبازى كے ذريعے شمشير كے بل پر حاصل ہواہے_ يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا : امور خلافت ميں جہاں تك مسئلہ مشورت كى بات ہے تو مجھے خلافت كى كب چاہ تھى اس كى جانب آنے كى تم نے ہى مجھے دعوت دى تھى مجھے چونكہ مسلمانوں كے باہمى اختلافات اور ان كے منتشر ہوجانے كا خوف تھا اسى لئے اس ذمہ دارى كو قبول كرليا جب بھى كوئي مسئلہ ميرے سامنے آيا تو ميں نے حكم خدا كو اور سنت پيغمبر (ص) كى جانب رجوع كيا اور اس كا حل تلاش كرليا _ اسى لئے اس معاملے ميں مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت پيش نہ آئي _ البتہ اگر كسى روز ايسا معاملہ پيش آيا جس كا حل قرآن اور سنت پيغمبر (ص) كے ذريعے نہ نكل سكے تو مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت محسوس ہوگى ، تو تم سے ضرور مشورہ كروں گا_ رہا بيت المال كا مسئلہ تو يہ بھى ميرى اپنى خصوصى روش نہيں ، رسول خدا (ص) كے زمانے ميں ميں |
خليفہ وقت كے خلاف شورش و سركشى كى دعوت دي_(7) شعلہ شورش كو ہوا دينے كے باعث وہ خود كو اپنے مقصد ميں كامياب محسوس كر رہى تھى اس لئے وہ مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں اور ہر لمحہ عثمان كے قتل نيز مسلمين كا طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كرنے كا انتظار كرنے لگيں _ جس وقت عثمان كے قتل كى خبر انہيں ملى تو انہوں نے كہا كہ : خدا اس كو غارت كرے اپنے ان كرتوتوں سے ہى تو مارا گيا ، خداوند تعالى اپنے بندوں پر ظلم نہيں كيا كرتا _ (8) عثمان كے قتل كے بعدانہوں نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ عثمان كے مارے جانے كے باعث پريشان خاطر نہ ہوں اگر وہ مارے گئے تو كيا ہوا مقام خلافت كے لئے بہترين اور لائق ترين شخص طلحہ تو تمہارے درميان موجود ہيں ان كے ہاتھ پر بيعت كرو اور تفرقہ سے دور رہو_ اپنے اس بيان كے بعد وہ بڑى تيزى سے مدينہ كى جانب روانہ ہوئيں انہيں اطمينان تھا كہ عثمان كے بعد منصب خلافت طلحہ كے ہاتھ آجائے گا ، اسى لئے راستے ميں خود ہى گنگنارہى تھى كہ : ميں گويا اپنى آنكھوں سے ديكھ رہى ہوں كہ لوگ طلحہ كے ہاتھ پر بيعت كر رہے ہيں ميرى سوارى كو تيز ہانكو تاكہ ميں ان تك پہنچ جائوں_ (9) عبيد بن ام كلاب مدينہ سے واپس آرہے تھے راستے ميں ان سے ملاقات ہوگئي ، انہوں نے مدينہ كى حالت ان سے دريافت كى عبيد نے ان سے كہا كہ عوام نے عثمان كو قتل كرديا ، آٹھ روز تك وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ كيا كريں_ عائشےہ نے دريافت كيا كہ اس كے بعد كيا ہوا؟ انہوں نے كہا كہ : الحمدللہ كام بحسن و خوبى تمام ہوا اور مسلمانوں نے ايك دل اور ايك زبان ہوكر على (ع) بن ابى طالب (ع) كو منتخب كرليا _ عائشےہ نے يہ خبر سننے كے بعد كہا خدا كى قسم اگر خلافت كا فيصلہ على (ع) كے حق ميں ہوا ہے تو اب آسمان زير و زبر ہوجائيں گے مجھے يہاں سے واپس لے چلو فوراًمجھے يہاں سے لے چلو(10) چنانچہ وہ وہيں سے مكہ كى جانب روانہ ہوگئيں ليكن اب انہوں نے اپنا نظريہ بدل ديا تھا اور يہ |
عراق كى جانب روانگي''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں_ اس فيصلہ كے بعد عائشےہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_ جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _ (15) عائشےہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_ راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں_ راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشےہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشےہ كو پيغمبر اكرم (ص) كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرت (ص) نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا (16)_ عائشےہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''اناللہ و انا اليہ راجعون'' |
سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشےہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _ ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_ اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(22) سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _ عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ : 1_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_ 2_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _ 3_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيںكہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_ 4_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت على (ع) يہاں تشريف لے آئيں اس |
سوالات1_ جس وقت اميرالمومنين حضرت على (ع) نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟ 2_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_ 3_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟ 4_ عثمان كے قتل سے قبل عائشےہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟ 5_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت على (ع) بر سر اقتدار آگئے تو عائشےہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟ 6_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟ 7_ حضرت على (ع) كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟ |
حوالہ جات1_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپ (ع) فرماتے ہيں : ''فلما نہضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت على (ع) سے قبل پيغمبر اكرم (ص) نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت على (ع) سے آپ(ص) نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 201) 2_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خدا (ص) نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ ''اذہبوا انتم الطلقائ'' 3_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 180 _179 _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود '' 4_ شرح ابن ابى الحديد ج 7/ 42 _ 40 5_ مالنا من ہذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج 4/ 429 ) 6_ واللہ ما اراد العمرة ولكنہما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج 2/180) 7_ عثمان كے خلاف عائشےہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو ( الغدير ج 9/86 _77) 8_ اَبعدہ اللہ بما قدمت يداہ وما اللہ بظلام للعبيد'' _ الغدير ج 9/ 83 9_ الغدير ج 9/ 82 ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول 10_ كامل ابن اثير ج 3/ 206 تاريخ طبرى ج 4/ 448 _ الغدير ج 9 / 82 / 80 انساب الاشراف ج 2/ 217_ 11_ عبيد نے عائشےہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے: فمنك البدء ومنك الضير ومنك الرياح ومنك المطر و انت امرت بقتل الامام و قلت لنا انہ قد كفر فہبنا اطعناك فى قتلہ و قاتلہ عندنا من امر الامامة والسياسة ج 1/ 51_ تاريخ طبرى ج 4/ 459_458 يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا |
ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _ 12_ تاريخ طبرى ج 4/ 448 _ كامل ابن اثير ج 3/ 207 _ انساب الاشراف بلاذرى ج 2/ 218 13_ تاريخ طبرى ج 4/ 452 14_ تاريخ طبرى ج 4/ 451 _ ابن اثير ج 3/ 208 _ تاريخ يعقوبى ج 2/ 181 ليكن طبرى كى تاريخ ج 4/ 450 و 451 پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _ كامل ابن اثير 3/ 208 تاريخ يعقوبى 2/181 15_ تاريخ طبرى 4/ 452 _451 16_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج 2/181 پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشےہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں) ليكن ابن اثير تاريخ ج 2/210 ) كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج 2 / 224 ) ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج 10/ 310 پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_ 17_ مروج الذہب ج 3/ 357 _ انساب الاشراف ج 2/ 224 الامامة والسياسات ج 1/60 ليكن يعقوبى نے (ج 2 /181 ) شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_ 18_ تاريخ طبرى ج 4 ص 461 كامل ابن ايثرج 3/ 211_ 19_ شرح ابن ابى الحديد ج 9/ 313 ، تاريخ طبرى ج 4/ 462 ، 461 _ كامل ابن اثير ج 3/211 _الامامة والسياسة ج 1/61 يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_ 20 _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_ 21_ تاريخ طبرى ج 4/ 462 22_ الامامة والسياسةج 1 / 61_ 60 23_ تاريخ طبرى ج 4/ 463 _ كامل ابن اثير ج 3/ 213 _ 212 |
24_ الجمل للمفيد / 151_ 150 _ تاريخ طبرى ج 4/ 446 _ كامل ابن اثير ج 3/ 214 مروج الذہب ج 2/ 358 شرح ابن ابى الحديد ج 9 /320 الامامة والسياسة 1/65 25_ مروج الذہب ج 2 / 358 شرح ابن ابى الحديد ج 9/ 321 26_ تاريخ طبرى ج 4 / 268 كامل ابن اثير 216 _ 215 27 _ كامل ابن اثير ج 3/ 216 _217 _ تاريخ طبرى ج 4/ 471 _ 470 الجمل للمفيد / 252 _ 151 28_ الجمل للمفيد 153 _ كامل ابن اثير ج 3/ 219 _ تاريخ طبرى ج 4/ 474 _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_ 29_ مروج الذہب ج 2/ 358 _ الجمل للمفيد / 152 _ تاريخ يعقوبى ج 2/ 181 30_ كامل ابن اثير ج 3/ 220 _219 _ تاريخ طبرى ج 4/ 472_ عائشےہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ 160 پر درج كيا ہے_ |