مردوں سے شفاعت کی درخواست کرنا ،لغو ھے
وھابی کہتے ھیں : مرنے کے بعد روح انسان باقی نھیں رہتی ، اور انسان کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے ۔
اسی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ انبیاء(ع) اور اولیاء الٰھی نیز خدا کے نیک وصالح بندوں کی جسمانی موت کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے او رجو چیز موجود نھیں ھے اس سے مدد اور شفاعت چاھنا ، عقل کے خلاف ھے ۔!!
وھابیوں کا ھمارا جواب :
اجمالی طور پر اس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ روح ایک ایساجوھر ھے جو ”مجرد“ ھے اور ھرگز اس کے لئے موت نھیں ھے اوریہ جسم کے مرنے سے نابود نھیں ھوتی ،بلکہ جسم کے مرنے کے بعد ،بدن کے قیدو بند سے آزاد ھوکر مزید عالِم اور طاقتور ھوجاتی ھے اور یہ فلسفہ کی مشکل بحثوں میں سے ھے ، اور جوحضرات اسلامی فلسفہ سے آگاھی رکھتے ھیں او ر”حکمت متعالیہ صدرائی“ سے باخبر ھیں وہ جانتے ھیں ، یھاں اس دقیق اورعلمی اور مشکل بحث کرنے کا موقع نھیں ھے ۔
لہٰذااگر یہ ثابت ھوکہ جسم کے مرنے کے بعد روح نھیں مرتی (جیسا کہ اسلامی فلسفہ میں ثابت ھوچکاھے نیز قرآن مجید میں بھی اس سلسلہ میں آیات موجود ھیں) لہٰذا وھابیوں کی طرف سے اس اعتراض کی جگہ ھی باقی نھیں رہتی۔
او رجیسا کہ ھم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ شفاعت کے سلسلہ میں مختلف گوشہ ھیں اور تمام گوشوں سے اس کتاب میں بحث کرنا ممکن نھیں ھے کیونکہ ھمارا ھدف بحث کو طولانی کرنا نھیں ھے۔
محترم قارئین! مزید آگاھی کے لئے ”تفسیر المیزان“ اور ددسری تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔
شفاعت کے بارے میں علامہ طباطبائی (رہ) کا نظریہ
آخر میں قارئین کرام کی مزید آگاھی اور فائدہ کے پیش نظر مرحوم علامہ الحاج سید محمد حسین طباطبائی تبریزی (رہ) صاحب تفسیر المیزان کا نظریہ بیان کرتے ھیں تاکہ ھمارے قارئین عالم اسلام کے مایہ ناز شیعہ فلسفی علماء کرام کی بلندی فکر او رلطیف نظریات سے مزید واقفیت حاصل کریں اور معلوم ھوجائے کہ جن مسائل کو ابن تیمیہ ، ابن قیّم جوزی اور محمد ابن عبد الوھاب جیسے افراد حل نہ کرسکے اور اس میں غرق ھوکر رہ گئے او راس کا کوئی حل نہ نکال سکے اور بے ھودہ اور باطل چیزیں کھنے پر مجبور ھوگئے او رلغزشوں کے دلدل میں پھنس کر رہ گئے شیعہ علماء اور دانشوروں نے ان مسائل کا حل آسان او راچھے طریقہ سے تلاش کرلیا اور اب کوئی مشکل باقی نھیں رہ گئی ھے۔
صاحب تفسیر المیزان (رہ) ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ھیںکہ جو شدت پسندی کا شکار ھوئے ھیں اور ائمہ معصومین (ع) کے روضوں میں حاجت طلب کرنے کو شرک مانتے ھیں او رکہتے ھیں:بیماروں کی شفا ، نیزحاجت کو پورا کرنا خدا کے ھاتھ میں ھے نہ کہ امام کے اختیار میں !
مرحوم علامہ فرماتے ھیں : ”مطلب کو واضح او رروشن کرنے کے لئے ایک مقدمہ بیان کرنا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ : عالم کائینات میں ”علّیت او رمعلولیت“کا قانون ایک عمومی قانون ھے اور ھرحادثہ کی ایک علت ھوتی ھے کہ جس کی بناپر وہ واقعہ پیدا ھوتا ھے ، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ عالَم”عالَم اسباب“ ھے اورتمام چیزوں کی علت حقیقی اور اس میں مستقل تاثیر خداوندعالم کی ھے ۔
اگر تیغ عالم بجنبد زجای نبُرد رگی تانخواھد خدائی
”اگر کسی کی گردن پر تلوا رچلائی بھی جائے تو جب تک خدا نھیں چاھے گا اس کی ایک رگ بھی نھیں کٹ سکتی “
اور دوسری وہ تمام علتیں جو خدا اور دوسرے معلول کے درمیان ھیں ان کو ”واسطہ“ کہتے ھیں جن کا فعل اور اثر خدا کا فعل واثر ھے او رکسی چیز کا معلول کے وجود کو فیض پھنچانے میں واسطہ ھونا شرکت اورتاثیر میں استقلال کے علاوہ دوسری چیز ھے۔
مثال کے طور پر ”واسطہ“ اور ”ذی الواسطہ“ کے درمیان موجود نسبت جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی قلم سے کوئی چیز لکھ رھا ھو، تو اس کے بارے میں یہ کھنا صحیح ھے کہ قلم لکھ رھا ھے اور ھاتھ بھی لکھ رھا ھے او رانسان بھی لکھ رھا ھے ، جبکہ یہ ایک کام ھے لیکن اس کی نسبت تین چیزوں کی طرف دی گئی ھے ، لیکن حقیقت یہ ھے کہ لکھنے میں مستقل تاثیر انسان کی ھے اور ھاتھ اور قلم لکھنے میں ”واسطہ“ ھےں ”شریک “نھیں ھیں ۔
قرآن کریم میں بھی ایسی بہت سے آیات موجو ھیں جن میں ان تمام اعمال وآثار کی نسبت مخلوق کی طرف دی گئی ھے جبکہ اپنے احتجاج میں علیت او رمعلولیت کے عمومی قانون کو قبول کرتی ھے حالانکہ تاثیر میں استقلال فقط اور فقط خدا سے مخصوص ھے ۔
مثال کے طور پر یہ آیہٴ شریفہ ”وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ“[6]
”اے میرے رسول آپ کنکریاں نھیں پھینک رھے تھے خدا کنکریاں پھینک رھا تھا“
اور یہ آیہٴ مبارکہ ”قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ بِاٴَدِیَکُمْ “[7]
”کفار ومشرکین سے جنگ کرو کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ ان کو عذاب دینا چاہتا ھے “
نیز یہ آیت کریمہ” إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبُہُمْ بِہَا“[8]
”خدا چاہتا ھے کہ ا سکے ذریعہ ان پر عذاب کرے “
لہٰذا وہ تمام چیزیں جو ”وسیلہ“ اور ”واسطہ“ کے سلسلے میں کھی گئی ھیں امام سے حاجت طلب کرنا اس وقت شرک ھوگا جب حاجت طلب کرنے والا امام (ع) کو تاثیر میں مستقل سمجھے او را س کو ذاتی قدرت کا مالک جانے، لیکن اگر خدا کو تاثیر کا مالک سمجھے او راما م کو صرف ”وسیلہ“ او رواسطہ قرار دے، تواس صورت میں واسطہ کو پکارنا بھی صاحب واسطہ (خدا) کو پکارنا ھوگا، جس طرح واسطہ کی اطاعت صاحب واسطہ کی اطاعت ھے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ھے :
”مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ“[9]
”جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی “
اس طرح ملائکہ کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے :
”لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ“[10]
یعنی ملائکہ میں سے کوئی بھی مستقل ارادہ نھیں رکھتا بلکہ یہ وھی ارادہ کرتے ھیں کہ جس چیز کا خدا نے ارادہ کیا ھے ۔
سادہ او رآسان زبان میں عرض کریں : چونکہ انبیاء اور اولیاء علیھم السلام خداوندعالم کے مقرب نبدے ھیں اور خدا کی بارگاہ میں قدر ومنزلت رکھتے ھیں لہٰذا اگر کوئی ان کو کسب فیض میں واسطہ قرار دے اور اس طریقہ سے خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کرے تو اس کا یہ عمل ”شرک“ نھیں ھوگا اور ”توحید“ سے بالکل منافات نھیں رکھتا۔
حقیقت تو یہ ھے کہ کوئی بھی عاقل انسان ”واسطہ“ اور ”وسیلہ“ کو خدا کا شریک نھیں مانتا کیونکہ واسطہ اور وسیلہ ایک ایسا راستہ ھے کہ جس کے ذریعہ توسل کرنے والا متوسل الیہ(خدا) سے ربط دیتا ھے اور عقلی حکم کے مطابق ”رابط“ (رابطہ کرنے والا) ”مقصد اور مقصود “ کے علاوہ ھے ،(یعنی دونوں ایک چیز نھیں ھیں) مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی مالدار اوردولت مند کے سامنے کسی فقیر کے لئے ”شفاعت“ کرے او را سکے ذریعہ سے فقیر کو کچھ دلوائے تو کوئی بھی عاقل انسان بہ نھیں کھے گا کہ جو کچھ فقیر کو ملا ھے وہ دولت مند اور شفیع(دونوں) کا عطیہ ھے بلکہ اس موقع پر یھی کھا جائے گا کہ دولت مند ”صاحب عطا “او رشفاعت کرنے والا ”واسطہ“ اور ”رابط ھے۔[11]
[1] سورہٴ زخرف آیت ۸۶۔
[2] سورہٴ یونس آیہ ۱۸۔
[3] سورہ ٴ جن آیت ۱۸۔
[4] سورہ فاطر آیت ۶۰۔
[5] سورہ زمر، آیت ۴۳،۴۴۔
[6] سورہ انفال آیت ۱۷۔
[7] سورہ ٴ توبہ آیت ۱۴۔
[8] سورہ ٴ توبہ آیت۵ ۵۔
[9] سورہ نساء آیت ۸۰۔
[10] سورہ انبیاء آیت ۲۷۔
[11] یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ اس حصہ کی تالیف میں ھم نے عظیم کتاب”توسل یا استمداد از ارواح مقدسہ“ مولفہ حضرت آیت اللہ سبحانی سے استفادہ کیا ھے ، قارئین کرام کی مزید آگاھی کے لئے استاد مطھری (رہ) کی کتاب ”عدل الٰھی “ او رمشھور واعظ جناب آقای فلسفی کی کتاب ”آیة الکرسی“ پر رجوع فرمائیں ۔