امام مھدی (عج) کا انتظار
پھلا حصہ
غیبت
قارئین کرام! اب جبکہ منجی بشریت اور حضرت آدم علیہ السلام تا خاتم (ص) کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے نیز آخری الٰھی ذخیرہ حضرت حجة بن الحسن علیہ السلام کی شخصیت سے آشنا ھوگئے، اس وقت اس وحید الزماں کی غیبت کے بارے میں گچھ گفتگو کریں جو آپ کی زندگی کا اھم حصہ ھے۔
غیبت کے معنی
سب سے پھلا قابل ذکر نکتہ یہ ھے کہ غیبت کے معنی ”آنکھوں سے مخفی ھونا“ ھے نہ کہ حاضر نہ ھونا، لہٰذا اس حصہ میں گفتگو اس زمانہ کی ھے جب امام مھدی علیہ السلام لوگوں کی نظروں سے مخفی تھے، یعنی لوگ آپ کو نھیں دیکھ پاتے تھے جبکہ آپ لوگوں کے درمیان رھتے تھے اور ان ھی کے درمیان زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ حقیقت ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول روایات میں مختلف طریقوں سے بیان ھوئی ھے۔
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”قسم ھے خداوندعالم کی، حجت خدا لوگوں کے درمیان ھوتی ھے ، راستوں میں (کوچہ وبازار میں) موجود رھتی ھے، ان کے گھروں میں آتی رھتی ھے؛ زمین پر مشرق سے مغرب تک آمد و رفت کرتی ھے، لوگوں کی باتوں کو سنتی ھے اور ان پر سلام بھیجتی ھے؛ وہ دیکھتی ھے، لیکن آنکھیں اس کو نھیں دیکھ سکتیں جب تک خدا کی مرضی اور اس کا وعدہ پورا نہ ھو“۔([1])
اگرچہ امام مھدی علیہ السلام کے لئے غیبت کی ایک دوسری قسم بھی بیان ھوئی ھے:
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دوسرے نائب خاص بیان فرماتے ھیں:
”امام مھدی علیہ السلام حج کے دنوں میں ھر سال حاضر ھوتے ھیں۔ لوگوں کو دیکھتے ھیں اور ان کو پہچانتے ھیں،لوگ ان کو دیکھتے ھیں لیکن پہچانتے نھیں“۔([2])
اس بنا پر امام مھدی علیہ السلام کی غیبت دو طرح کی ھے: آپ بعض مقامات پر لوگوںکی نظروں سے مخفی ھیں اور بعض مقامات پر آپ لوگوںکودکھائی دیتے ھیں لیکن آپ کی پہچان نھیں ھوتی، بھر حال امام مھدی علیہ السلام لوگوں کے درمیان حاضر رھتے ھیں۔
غیبت کی تاریخی حیثیت
غیبت اور مخفی طریقہ سے زندگی کرنا کوئی ایسا واقعہ نھیں ھے جو پھلی بار اور صرف امام مھدی علیہ السلام سے مخصوص ھو، بلکہ متعدد روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ بھت سے انبیاء علیھم السلام کی زندگی کا ایک حصہ غیبت میں بسر ھوا ھے اور انھوں نے ایک مدت تک مخفی طریقہ سے زندگی کی ھے، اور یہ چیز خداوندعالم کی مصلحت اور حکمت کی بنا پر ھوتی تھی، نہ کہ ایک ذاتی اور خاندانی مصلحت۔
غیبت ایک ”الٰھی سنت“ ([3]) ھے جو متعدد انبیاء علیھم السلام کی زندگی میں دیکھی گئی ھے جیسے جناب ادریس، جناب نوح، جناب صالح، جناب ابراھیم، جناب یوسف، جناب موسیٰ، جناب شعیب، جناب الیاس، جناب سلیمان، جناب دانیال اور جناب عیسیٰ (علیھم السلام) ، اور حالات کے پیش نظر ان تمام انبیاء علیھم السلام کی زندگی سالوں تک غیبت (اور مخفی طریقہ) سے بسر ھوئی ھے۔([4])
اسی وجہ سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت سے متعلق روایتوں میں ”غیبت“ کو انبیاء علیھم السلام کی سنت کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے،اور امام مھدی علیہ السلام کی زندگی میں انبیاء علیھم السلام کی سنت کا جاری ھونا غیبت کی دلیلوں میں شمار کیا گیا ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بے شک ھمارے قائم (امام مھدی علیہ السلام) کے لئے غیبت ھوگی جس کی مدت طویل ھوگی، روای کھتا ھے: اے فرزند رسول ! اس غیبت کی وجہ کیا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم کا ارادہ یہ ھے کہ غیبت کے سلسلہ میں انبیاء (علیھم السلام) کی سنت آپ کے بارے میں (بھی) جاری رکھے“۔([5])
قارئین کرام! مذکورہ گفتگو سے یہ نکتہ بھی واضح ھوجاتا ھے کہ امام مھدی علیہ السلام کی ولادت سے سالھا سال پھلے آپ کی غیبت کا مسئلہ بیان ھوتا رھا ھے، اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تا امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپ کی غیبت اور آپ کے زمانہ میں پیش آنے والے بعض واقعات کے خصوصیات بھی بیان کئے ھیں، نیز غیبت کے زمانہ میں مومنین کے فرائض بھی بیان کئے ھیں۔([6])
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
”مھدی (علیہ السلام) میری (ھی) نسل سے ھوگا ۔۔۔ اور وہ غیبت میں رھے گا، لوگوں کی حیرانی (و پریشانی) اس حدتک بڑھ جائے گی کہ لوگ دین سے گمراہ ھوجائیں گے، اور پھر (جب حکم خدا ھوگا) چمکتے ھوئے ستارے کی طرح ظھور کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی“۔([7])
غیبت کا فلسفہ
واقعاً کیوں ھمارے بارھویں امام اور حجت خدا غیبت کی زندگی بسر کررھے ھیں اور کیا وجہ ھے کہ ھم امام کے ظھور کی برکتوں سے محروم ھیں؟
قارئین کرام! اس سلسلہ میں بھت زیادہ گفتگو ھوچکی ھے نیز اس سلسلہ میں بھت سی روایات بھی موجود ھیں، لیکن ھم یھاں مذکورہ سوال کا جواب پیش کرنے سے پھلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
ھم اس بات پر ایمان رکھتے ھیں کہ خداوندعالم کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام حکمت اور مصلحت سے خالی نھیں ھوتا، چاھے ھم ان مصلحتوں کو جانتے ھوں یا نہ جانتے ھوں۔ نیز کائنات کا ھر خرد وکلاں واقعہ خداوندعالم کی تدبیر اور اسی کے ارادہ سے انجام پاتا ھے جن میں سے مھم ترین واقعہ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کا مسئلہ ھے۔ لہٰذا آپ کی غیبت کا مسئلہ بھی حکمت و مصلحت کے مطابق ھے، اگرچہ ھم اس کے فلسفہ کو نہ جانتے ھوں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بے شک صاحب العصر (علیہ السلام) کے لئے ایسی غیبت ھوگی جس میں ھر اھل باطل شک وتردید کا شکار ھوجائے گا“۔
راوی نے آپ کی غیبت کی وجہ معلوم کی۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”غیبت کی علت ایک ایسی چیز ھے جس کو ھم تمھارے سامنے بیان نھیں کرسکتے۔۔۔ غیبت اسرار الٰھی میں سے ایک راز ھے۔ لیکن چونکہ ھم جانتے ھیں کہ خداوندعالم صاحب حکمت ھے کہ جس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ھوتے ھیں، اگرچہ ھمیں ان کی وجوھات کا علم نہ ھو“۔([8])
اگرچہ اکثر مقامات پر انسان خداوندعالم کے کاموں کو حکمت کے تحت مانتے ھوئے ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ھے، لیکن پھر بھی بعض حقائق کے اسرار و رموز کو جاننے کی کوشش کرتا ھے تاکہ اس حقیقت کے فلسفہ کے علم سے مزید مطمئن ھوجائے۔ چنانچہ اسی اطمینان کی خاطر ھم امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کی حکمت اور اس کے آثار کی تحقیق و بررسی شروع کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں بیان ھونے والی روایات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
عوام کی تادیب
جب امت اپنے نبی یا امام کی قدر نہ کرے اور اپنے فرائض کو انجام نہ دے بلکہ اس کی نافرمانی کرے، تو پھر خداوندعالم کے لئے سزاوار ھے کہ ان کے رھبر اور ھادی کو ان سے الگ کردے تاکہ وہ اس کی جدائی کی صورت میں اپنے گریباں میں جھانکیں، اور اس کے وجود کی قدر و قیمت اور برکت کو پہچان لیں، لہٰذا اس صورت میں امام کی غیبت امت کی مصلحت میں ھے اگرچہ ان کو معلوم نہ ھو اور وہ اس بات کو نہ سمجھ سکیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے:
”جب خداوندعالم کسی قوم میں ھمارے وجود اور ھماری ھم نشینی سے خوش نہ ھو تو پھر ھمیں ان سے جدا کرلیتا ھے“۔([9])
دوسروں کے عھد و پیمان کے تحت نہ ھونابلکہ مستقل ھونا
جو لوگ کسی جگہ کوئی انقلاب لانا چاھتے ھیں وہ اپنے انقلاب کی ابتداء میں اپنے بعض مخالفوں سے عھد و پیمان باندھتے ھیں تاکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ھوجائیں، لیکن امام مھدی علیہ السلام وہ عظیم الشان اصلاح کرنے والے ھیں جو اپنے انقلاب اور عالمی عادل حکومت کے لئے کسی بھی ظالم و ستمگر سے کسی طرح کی کوئی سازش نھیں کریں گے، کیونکہ بھت سی روایات کے مطابق آپ کو سبھی ظالموں سے یقینی طور پر ظاھر بظاھر مقابلہ کرنے کا حکم ھے۔ اسی وجہ سے جب تک اس انقلاب کا راستہ ھموار نھیں ھوجاتا اس وقت تک آپ غیبت میں رھیں گے تاکہ آپ کو دشمنان خدا سے عھد و پیمان نہ کرنا پڑے۔
غیبت کی علّت کے سلسلہ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ھے:
”اس وقت جبکہ (امام مھدی علیہ السلام) تلوار کے ذریعہ قیام فرمائیں گے تو آپ کا کسی کے ساتھ عھد و پیمان نہ ھوگا“۔([10])
لوگوں کا امتحان
لوگوں کا امتحان کرنا خداوندعالم کی ایک سنت ھے۔ وہ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ھے تاکہ راہ حق میں ان کے ثبات قدم کی وضاحت ھوجائے۔ اگرچہ اس امتحان کا نتیجہ خداوندعالم کو معلوم ھوتا ھے لیکن اس امتحان کی بھٹی میں بندوں کی حقیقت واضح ھوجاتی ھے اور اپنے وجود کے جوھر کو پہچان لیتے ھیں۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
”جب میرا پانچواں فرزند غائب ھوگا، تو تم لوگ اپنے دین کی حفاظت کرنا تاکہ کوئی تمھیں دین سے خارج نہ کرنے پائے، کیونکہ صاحب امر (امام مھدی علیہ السلام) کے لئے غیبت ایسی ھوگی جس میں اس کے ماننے والے اپنی عقیدہ سے پھر جائیں گے،اور اس غیبت کے ذریعہ خداوندعالم اپنے بندوں کا امتحان کرے گا“۔([11])
امام کی حفاظت
انبیاء علیھم السلام کا اپنی قوم سے جدا ھونے کی ایک وجہ اپنی جان کی حفاظت ھے، یہ حضرات اس وجہ سے خطرناک موقع پر مخفی ھوجاتے تھے تاکہ ایک مناسب موقع پر اپنی رسالت اور ذمہ داری کو پہنچاسکیں،جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) مکہ معظمہ سے نکل کر ایک غار میں مخفی ھوگئے۔ البتہ یہ سب خداوندعالم کے حکم اور اس کے ارادہ سے ھوتا تھا۔
حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) اور آپ کی غیبت کے بارے میں بھی متعدد روایات میں یھی بات بیان ھوئی ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”امام منتظر اپنے قیام سے پھلے ایک مدت سے لوگوں کی نظروں سے غائب رھیں گے“۔
جب امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا:
”انھیں اپنی جان کا خطرہ ھوگا“۔([12])
اگرچہ شھادت کی تمنا خدا کے سبھی نیک بندوں کے دلوں میں ھوتی ھے لیکن ایسی شھادت جو دین اور معاشرہ کی اصلاح اور اپنے فرائض کو نبھاتے ھوئے ھو، لیکن اگر اس کا قتل ھونا ھلاکت کا باعث اور مقاصد کے خاتمہ کا سبب بنے تو ایسے موقع پر قتل سے خوف زدہ ھونا ایک عقلمندی کا کام ھے۔ آخری ذخیرہ الٰھی یعنی بارھویں امام کا قتل ھونے کے معنی یہ ھیں کہ خانہ کعبہ منھدم ھوجائے، تمام انبیاء اور اولیاء (علیھم السلام) کی تمناؤں پر پانی پھر جائے اور عالمی عادل حکومت کے بارے میں خدا کا وعدہ پورا نہ ھو۔
قابل ذکر ھے کہ متعدد روایات میں غیبت کی وجوھات کے سلسلہ میں دوسرے نکات بھی بیان ھوئے ھیں جن کو ھم اختصار کی وجہ سے بیان نھیں کرسکتے، لیکن اھم بات یہ ھے کہ غیبت اسرار الٰھی میں سے ایک راز ھے جس کی اصلی اور بنیادی وجہ امام علیہ السلام کے ظھور کے بعد ھی واضح ھوگی، ھم نے جو کچھ اس سلسلہ میں بیان کیا ھے وہ امام علیہ السلام کی غیبت میں موثر رھا ھے۔
دوسرا حصہ
غیبت کی قسمیں
قارئین کرام! مذکورہ مطالب کے پیش نظر امام مھدی علیہ السلام کی غیبت لازم اور ضروری ھے، لیکن چونکہ ھمارے رھبروں کے تمام اقدامات اور کارنامے لوگوں کے ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کے لئے ھوتے تھے، لہٰذا اس چیز کا خوف تھا کہ اس آخری حجت الٰھی کی غیبت کی وجہ سے مسلمانوں کی دینداری کا ناقابل تلافی نقصان ھوگا، لہٰذا غیبت کا زمانہ بھت ھی حساب و کتاب اور دقیق منصوبہ بندی کے تحت آغاز ھوا جو آج تک جاری ھے۔
امام مھدی علیہ السلام کی ولادت سے سالھا سال پھلے آپ کی غیبت اور اس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو جاری و ساری تھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام اور ان کے اصحاب کی محفلوں میں نقل ھوتی تھی۔ اسی طرح امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا لوگوں سے ایک نئے انداز اور خاص حالات میں رابطہ ھوتا تھا، اور مکتب اھل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا تھا کہ بھت سی مادّی اور معنوی ضرورتوں میں امام معصوم علیہ السلام کی ملاقات کے لئے مجبور نھیں ھیں، بلکہ ائمہ علیھم السلام کی طرف سے معین وکلاء اور قابل اعتماد حضرات کے ذریعہ اپنے فرائض پر عمل کیا جاسکتا ھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت اور حضرت حجت بن الحسن علیہ السلام کی غیبت (صغریٰ) کے آغاز سے امام اور امت کے درمیان رابطہ بالکل ختم نھیں ھوا تھا، بلکہ مومنین اپنے مولا و آقا اور امام کے خاص نائب کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے، اور یھی زمانہ تھا کہ جس میں شیعوں کو دینی علماء سے وسیع پیمانہ پر رابطہ کی عادت ھوئی کہ امام علیہ السلام کی غیبت میں بھی اپنے دینی فرائض کی پہچان کا راستہ بند نھیں ھوا ھے۔ اس موقع پر مناسب تھا کہ حضرت بقیة اللہ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کا آغاز ھو ، اور امام علیہ السلام اور شیعوں کے درمیان گزشتہ زمانہ میں رائج عام رابطہ کے سلسلہ بند ھوجائے۔
قارئین کرام! ھم یھاں غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی خصوصیات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ھیں۔
غیبت صغریٰ
۲۶۰ھ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے فوراً بعد ھمارے بارھویں امام کی امامت کا آغاز ھوا، اور اسی وقت سے آپ کی ”غیبت صغریٰ“ کا بھی آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ ۳۲۰ھ (تقریباً ۷۰ سال) تک جاری رھا۔
غیبت صغریٰ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مومنین امام مھدی علیہ السلام کے مخصوص نائبین کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان کے ذریعہ امام مھدی علیہ السلام کے پیغامات حاصل کرتے تھے اور اپنے سوالات آپ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔([13]) اور کبھی امام مھدی علیہ السلام کے نائبین کے ذریعہ آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ھوجاتا تھا۔
امام مھدی علیہ السلام کے نواب اربعہ جو عظیم الشان شیعہ عالم دین تھے اور خود امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ذریعہ منتخب ھوتے تھے جن کے اسمائے گرامی ان کی نیابت کی ترتیب سے اس طرح ھیں:
۱۔ عثمان بن سعید عَمری؛ آپ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کے آغاز سے امام کی نیابت کرتے تھے، موصوف نے ۲۶۵ھ میں وفات پائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ موصوف امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے۔
۲۔ محمد بن عثمان عمری؛ موصوف امام مھدی علیہ السلام کے نائب اول کے فرزند تھے جو باپ کے انتقال پر امام کی نیابت پر فائز ھوئے، موصوف نے ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔
۳۔ حسین بن روح نوبختی؛ موصوف امام مھدی علیہ السلام کے ۲۱ سال نائب رھے جس کے بعد ۳۲۶ھ میں ان کی وفات ھوگئی۔
۴۔ علی بن محمد سمُری؛ موصوف کا انتقال ۳۲۹ھ میں ھوا، اور ان کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ھوگیا۔
امام مھدی علیہ السلام کے مخصوص نائبین امام حسن عسکری علیہ السلام اور خود امام مھدی علیہ السلام کے ذریعہ انتخاب ھوتے تھے اور لوگوں میں پہچنوائے جاتے تھے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں روایت کرتے ھیں کہ ایک روز عثمان بن سعید (نائب اول) کے ساتھ چالیس مومنین امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے، امام علیہ السلام نے ان کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا:
”میرے بعد یھی میرا جانشین اور تمھارا امام ھوگا۔ تم لوگ اس کی اطاعت کرنا، اور جان لو کہ آج کے بعد اس کو نھیں دیکھ پاؤ گے یھاں تک کہ اس کی عمر کامل ھوجائے۔ لہٰذا (اس کی غیبت کے زمانہ میں) جو کچھ عثمان (بن سعید) کھیں اس کو قبول کرنا، اور ان کی اطاعت کرنا کہ وہ تمھارے امام کے جانشین ھیں اور تمام امور کی ذمہ داری انھیں کی ھے“۔([14])
امام حسن عسکری علیہ السلام کی دوسری روایت میں محمد بن عثمان کو امام مھدی علیہ السلام کے (دوسرے ) نائب کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ھیں:
”عثمان بن سعید“ نے امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کے حکم سے یمن کے شیعوں کا لایا ھوا مال وصول کیا، اس وقت بعض مومنین نے جو اس واقعہ کے شاھد تھے ، امام علیہ السلام سے عرض کی:خدا کی قسم عثمان آپ کے بھترین شیعوں میں سے ھیں، لیکن اس کام سے آپ کے نزدیک ان کا مقام ھم پر واضح ھوگیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: جی ھاں! تم لوگ گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ھیں اور اس کا فرزند ”محمد“ میرے بیٹے ”مھدی“ کا وکیل ھوگا“۔([15])
یہ تمام واقعات امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے کے ھیں، غیبت صغریٰ میں بھی آپ کا ھر نائب اپنی وفات سے پھلے امام مھدی علیہ السلام کی طرف سے منتخب ھونے والے نائب کی پہچان کرادیتا تھا۔
یہ حضرات چونکہ اعلیٰ صفات کے مالک تھے جس کی بنا پر ان میں امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی نیابت کی لیاقت پیدا ھوئی۔ چنانچہ ان حضرات کے مخصوص صفات کچھ اس طرح تھے: امانت داری، عفت، رفتار وگفتار میں عدالت، راز داری اور امام مھدی علیہ السلام کے زمانہ میں مخصوص حالات میں اسرار اھل بیت علیھم السلام کو مخفی رکھنا، یہ حضرات امام مھدی علیہ السلام کے قابل اعتمادافراد تھے اور خاندان عصمت وطھارت کے مکتب کے پروردہ، انھوں نے مستحکم ایمان کے زیر سایہ علم کی دولت حاصل کی تھی۔ ان کا نیک نام مومنین کی ورد زبان تھا، سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و بردباری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت حالات میں اپنے امام علیہ السلام کی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے، اور ان تمام نیک صفات کے ساتھ ان کے یھاں شیعوں کی رھبری کی لیاقت بھی پائی جاتی تھی،نیز مکمل فھم وشعور اور حالات کی شناخت کے ساتھ اپنے پاس موجود امکانات کے ذریعہ شیعہ معاشرہ کو صراط مستقیم کی طرف ھدایت فرماتے تھے، اور ان حضرات نے مومنین کو غیبت صغریٰ سے صحیح و سالم گزار دیا۔
غیبت صغریٰ اور امام اور امت کے درمیان رابطہ ایجاد کرنے میں نوّاب اربعہ کے کردار کا ایک عمیق مطالعہ امام مھدی علیہ السلام کی زندگی کے اس حصہ کی اھمیت کو واضح کردیتا ھے۔ اس رابطہ کا وجود اور غیبت صغریٰ میں بعض شیعوں کا امام مھدی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ھونا بارھویں امام اور آخری حجت خدا کی ولادت کے اثبات میں بھت موثر رھا ھے، اور یہ اھم نتائج اس زمانہ میں حاصل ھوئے کہ جب دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ شیعوں کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند کی پیدائش کے حوالہ سے شک و تردید میں ڈال دیں۔ اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کا یہ زمانہ غیبت کبریٰ کی شروعات کے لئے ایک ھموار راستہ تھا جس میں مومنین اپنے امام سے رابطہ نھیں کرسکتے تھے، لیکن مطمئن طور پر امام علیہ السلام کے وجود اور ان کے برکت سے فیضیاب ھوتے ھوئے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں داخل ھوگئے۔
غیبت کبریٰ
امام مھدی علیہ السلام نے اپنے چوتھے نائب کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے نام ایک خط میں یوں تحریر فرمایا:
” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.
اے علی بن محمد سمری! خداوندعالم آپ کی وفات پر آپ کے دینی بھائیوں کو اجر جمیل عنایت فرمائے، کیونکہ آپ چھ دن کے بعد عالم بقاء کی طرف کوچ کرجائیں گے۔ اسی وجہ سے اپنے کاموں کو خوب دیکھ بھال لو، اور اپنے بعد کسی کو اپنا وصی نہ بناؤ! کیونکہ مکمل (اور طولانی) غیبت کا زمانہ پہنچ چکا ھے،اس کے بعد سے مجھے نھیں دیکھ پاؤ گے، جب تک خدا کا حکم ھوگا، اور اس کے بعد ایک طویل مدت ھوگی جس میں دل سخت ھوجائیں گے اور زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی۔([16])
اس بنا پر بارھویں امام علیہ السلام کے آخری نائب کی وفات کے بعد ۳۲۹ھ سے ”غیبت کبریٰ“ کا آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ھے جب تک کہ خدا کی مرضی سے غیبت کے بادل چھٹ جائیں اور یہ دنیا ولایت کے چمکتے ھوئے سورج سے براہ راست فیضیاب ھو۔
جیسا کہ بیان ھوچکا ھے کہ غیبت صغریٰ میں شیعہ مومنین امام علیہ السلام کے مخصوص نائب کے ذریعہ اپنے امام سے رابطہ رکھتے تھے اور اپنے الٰھی فرائض سے آگاہ ھوتے تھے، لیکن غیبت کبریٰ میں اس رابطہ کا سلسلہ ختم ھوگیا، اور مومنین اپنے فرائض کی شناخت کے لئے امام علیہ السلام عام نائبین جو کہ دینی علماء و مراجع تقلید ھیں؛ ان کی طرف رجوع کریں اور یہ واضح راستہ ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام نے اپنے ایک قابل اعتماد عظیم الشان عالم کے سامنے پیش کیا ھے، امام مھدی علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص کے ذریعہ پہنچے ھوئے خط میں اس طرح تحریر ھے:
”وَ اٴمَّا الحَوَادِثُ الوَاقِعَةُ فَارْجعوا إلیٰ رُواةِ حَدیثنَا فَإنّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُم وَ اٴَنَا حُجَّةُ اللهِ عَلَیْہِمْ“۔([17])
”اور آئندہ پیش آنے والے حوادث (اور واقعات نیز (مختلف حالات میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی پہچان کے لئے) ھماری احادیث کے رایوں (فقھاء) کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ تم پر ھماری حجت ھیں اور ھم ان پر خدا کی حجت ھیں۔۔۔“۔
یہ نیا طریقہٴ کار دینی سوالات کے جواب کے لئے اور ان سے اھم شیعوں کے انفرادی اور اجتماعی فرائض کی پہچان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ھے کہ امامت و رھبری کا عظیم الشان نظام ، شیعہ ثقافت میں ایک بھترین اور زندہ نظام ھے جس میں مختلف حالات میں مومنین کی ھدایت و رھبری بھت ھی مستحکم طریقہ پر انجام پاتی ھے اور اس مکتب کے ماننے والوں کو کسی بھی زمانہ میں ھدایت کے سرچشمہ کے بغیر نھیں چھوڑا گیا ھے بلکہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف حصوں میں ان کے مسائل کو دینی علماء اور پرھیزگار مجتھدین کے سپرد کردیا گیا ھے جو مومنین کے دین اور دنیا کے امانت دار ھیں ، تاکہ اسلامی معاشرہ کی کشتی طوفان اور دریا کے تلاطم نیز استعمار کی گندی سیاست کے دلدل میں پھنسنے سے محفوظ رھے اور شیعہ عقائد کی سرحدوں کی حفاظت ھوتی رھے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں دینی علماء کے کردار کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”اگر ایسے علماء کرام نہ ھوتے جو امام مھدی علیہ السلام کی غیبت میں لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دیتے اور ان کو اپنے امام کی طرف ھدایت کرتے، نیز حجتوں اور خداوندعالم کے دینی مستحکم دلائل (جو کہ خود دین خدا ھے) کی حمایت نہ کرتے، اور اگر نہ ھوتے ایسے با بصیرت علماء جو خدا کے بندوں کو شیطان اور شیطان صفت لوگوں نیز دشمنان اھل بیت علیھم السلام (کی دشمنی) کے جال سے نجات نہ دیتے؛ تو پھر دین خدا پر کوئی باقی نہ رھتا!! (اور سب دین سے خارج ھوجاتے) لیکن انھوں نے شیعوں کے (عقائد اور) افکار کو مضبوطی سے اپنے ھاتھوں میں لے لیا جیسا کہ کشتی کا ناخدا کشتی میں سوار مسافروں کو اپنے ھاتھوں میں لیئے رکھتا ھے۔ یہ علماء خداوندعالم کے نزدیک سب سے بھترین (بندے) ھیں“۔([18])
قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ معاشرہ کی رھبری کے لئے مخصوص صفات و کمالات درکار ھیں، کیونکہ مومنین کے دین و دنیا کے امور کو ایسے شخص کے ھاتھوں میں دینا جو اس عظیم ذمہ داری کے عھدہ دار ھوتے ھیں واقعاً ان افراد کا مکمل طور پر صاحب بصیرت اور صحیح تشخیص کی صلاحیت کا مالک ھونا ضروی ھے، اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیھم السلام نے دینی مراجع اور ان سے بڑھ کر ولی امر مسلمین ”ولی فقیہ“ کے مخصوص شرائط بیان کئے ھیں۔
[1] غیبت نعمانی، باب ۱۰، ح۳، ص ۱۴۶۔
[2] بحار الانور، ج۵۲،باب ۲۳، ص۱۵۲۔
[3] قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جیسے سورہ فتح، آیت ۲۳، اور سورہ اسراء، آیت ۷۷) ”الٰھی سنت“ کے بارے میں گفتگو ھوئی ھے،جن کی پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ الٰھی سنت سے مراد خداوندعالم کے ثابت اور بنیادی قوانین ھیں، جن میں ذرا بھی تبدیلی نھیں آسکتی۔ یہ قوانین گزشتہ قوموں میں نافذ تھے اور آج نیز آئندہ بھی نافذ رھیں گے۔(تفسیر نمونہ، ج۱۷، ص ۴۳۵ ، کا خلاصہ)
[4] کمال الدین، ج۱،باب ۱، تا۷،ص ۲۵۴ تا۳۰۰۔
[5] بحار الانوار، ج۵۲، ح ۳، ص ۹۰۔
[6] دیکھے: منتخب الاثر، فصل۲، باب ۲۶ تا ۲۹، ص ۳۱۲ تا ۳۴۰۔
[7] کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ح۴، ص ۵۳۶۔
[8] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۱۱، ص ۲۰۴۔
[9] علل الشرائع، باب ۱۷۹، ص ۲۴۴۔
[10] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۴، ص ۲۳۲۔
[11] غیبت شیخ طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۵، ح۲۸۴، ص ۲۳۷۔
[12] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۷، ص ۲۳۳۔
[13] خطوں کی تحریر (جو توقیعات کے نام سے مشھور ھیں) شیعہ علماء کی کتابوں میں موجود ھے، (جیسے بحار الانوار، ج۵۳، باب ۳۱، ص ۱۵۰ تا ۱۹۷)۔
[14] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۱۹، ص ۳۵۷۔
[15] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۱۷، ص ۳۵۵۔
[16] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۶۵، ص ۳۹۵۔
[17] کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ح۳، ص۲۳۶۔
[18] احتجاج، ج۱، ح۱۱، ص ۱۵۔