اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

قیامت کی ضرورت

 

جو شخص موضوع قیامت پر گفتگو کرنا چاھے ،تو اس کے لئے ضروری ھے کہ سب سے پھلے مر حلے میں ”قیامت“ کو غیر تفصیلی طور سے ثابت کرے تاکہ اس کی ضرورت اور اس کے یقینی هونے پرعقیدہ رکھے ،نیز اس ضرورت اور یقینی هونے کے اسباب کو تلاش کرے اور اس کی ضرورت پر دینی دلائل قائم کرے۔

اور جب اس ضرورت(معاد) کو انسان دلیل و برھان سے ثابت کر لیتاھے تو ایک دوسری بحث کا آغاز هوتا ھے: کہ اس معاد کی جزئیات کیا کیا ھیں، کیونکہ ضرورت معاد وہ بنیادی مسئلہ ھے کہ جس کے بغیر جزئیات معاد کے بارے میں بحث کرنا فضول ھے۔

کیونکہ انسان کسی ٹھوس نتیجہ تک نھیں پهونچ سکتا مگر یہ کہ تدریجی طور پر اس طرح کہ بعد والا مرحلہ پھلے والے مرحلے سے مر تبط هو اور ان کے درمیان ایک مستحکم رابطہ هو جس کے ذریعہ حقائق سے پردہ اٹھ جائے اور حقیقت واضح هوجائے :

۱۔کیا خدا وند عالم امر و نھی کرتا ھے؟

ھمارے لحاظ سے ھر عقل مند انسان اس بات کو سمجھتا ھے کہ خدا وند عالم نے امر و نھی کیا ھے ،کیونکہ انھیں اوامر نواھی کے عظیم مجموعہ کو شریعت اسلام کھا جاتاھے ،

اور اگر ھم قرآن مجید پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کی دلیل آسانی سے مل سکتی ھے: جیسا کہ ارشاد خدا وند عالم هوتا  ھے:

اَقِیْمُوْالصَّلوٰةَ وَاٴَتُوا  الزَّکٰاةَ

”پا بندی سے نماز اداکرو اور زکوةدیا کرو“

کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ 

”روزہ رکھنا جس طرح تم سے پھلے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا ۔“

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ

”اور لوگوں پر واجب ھے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں“

وَاعْلَمُوْااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ

”اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر)لوٹو ان میں کا پانچواں حصہ مخصوص خدا “

جَاھِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِھَادِہِ 

”جو حق جھاد کرنے کا ھے خدا کی راہ میں جھاد کرو “

<اَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَوٰ> blue; font-size: 10pt; text-decoration: none; mso-ansi-font-size: 11.0pt; mso-ascii-font-family: 'Times New Roman'; mso-hansi-font-family: 'Times New Roman'; text-underline: none;">[6]

”حالانکہ خرید وفروخت کو خدا نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا “

<اٴِنَّ اللهَ یَاٴمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاٴِیْتَا یٴِ ذِی الْقُربٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ

”اس میں شک نھیں کہ خدا انصا ف اور(لوگوں کے ساتھ)نیکی کرنے اور قرابت داروں کو (کچھ)دینے کا حکم کرتا ھے اور بدکاری اور ناشایستہ حرکتوں اور سر کشی کرنے سے منع کرتا ھے“

لاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً

”نہ تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت کرے“

لاَ تَجَسَّسُوا

”ایک دوسرے کے مال کی ٹوہ میں نہ رھا کرو“

<اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکِذْبَ الَّذِیْنَ لَا یُوٴْ مِنُوْنَ بِاٴَیٰاتِ اللهِ

”بہتان تو بس وھی لوگ باندھا کرتے ھیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نھیں رکھتے۔“

اٴِجْتَنِبُوْا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ

”بہت سے گمان (بد )سے بچے رهو“

وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ

”ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی خرابی ھے“

ان کے علاوہ اور دیگر آیات کریمہ ھیں جن میں خدا وندا عالم کی طرف سے امر و نھی بیان هوئے ھیں۔

لہٰذااس وقت ھم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ھیں کہ خدا وند عالم نے امر و نھی کیا ھے ۔

۲۔کیا یہ اوامر و نواھی الزامی هوتے ھیںیا ارشادی؟

یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیلی طور پر ثابت هو چکا ھے جس کا خلاصہ یہ ھے کہ جو چیز وجوب پر دلالت کرے اور وجوب میں ظاھر بھی هو اگر مستحب پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی هو، اس کو امر کھا جاتا ھے،اورحکم عقل کے ذریعہ اس کا وجوب هوتا ھے کیونکہ عبد پر مولا کے حکم کی اطاعت کرنا ضروری ھے اور مولا جس کام کا ارادہ کرلے اس کو انجام دینے کے لئے حرکت کرنا ضروری ھے تاکہ عبودیت و مالکیت کا حق ادا هو سکے۔

نھی بھی الزام پر دلالت کر نے میں امر کی طرح هوتی ھے اور حرمت میں ظاھر هوتی ھے اور جب صیغہ نھی کسی ایسے شخص سے صادر هو جس کی اطاعت واجب ھے تو اس مولیٰ کی وجوب اطاعت ،و حرمت نا فرمانی عقلی طور پر ثابت هونے کا تقاضا یہ ھے کہ جس کام سے مولیٰ منع فرمائے اس کو انجام دینا جائز نھیں ھے،،

اور کیونکر مذکورہ مطلب صحیح نہ هو ، جبکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ھے:

مَا اٴَتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَا کُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا

”جو تم کو رسول دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رهو“

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴَمْرِہِ اٴَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَةٌ اٴَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

”جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ھیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ(مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نازل هو“

پس ان تما م چیزوں سے ثابت یہ هوا کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواھی مکمل طور پر الزامی (ضروری)هوتے ھیں ،اور اس میں کسی کو کوئی اختیار و رخصت نھیں ھے۔

۳۔اگر کوئی ان اوامر و نواھی کی مخالفت کرے تو؟

جیسا کہ ثابت هو چکا ھے کہ خدا وند عالم نے امر ونھی کیا ھے اور ان اوامر و نواھی پر عمل کرنا ضروری ھے نیز ان کی مخالفت جائز نھیں ھے تو کیا اگر کوئی انسان خدا کے امر و نھی کی مخالفت کرے تو کیا اس پر عقوبت و عذاب (مادی معنی میں)هونا چاہئے یا نھیں ؟یا ان کی مخالفت پر معنوی آثار مرتب هوں گے؟

اس سوال کے جواب میں ھمارے لئے کافی ھے کہ ھم چند قرآنی آیات کا مطالعہ کریںتاکہ خدا وند عالم کی مخالفت کا نتیجہ معلوم هو سکے۔

ارشاد خداوندی هوتا ھے:

وَمَنْ یَزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اٴَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ

”اور ان میں سے جس نے ھمارے حکم سے انحراف کیا اسے ھم (قیامت میں)جہنم کے عذاب کا مزا چکھائیں گے“

<قُلْ اِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ

”(اے رسول)تم کهو کہ اگر میں نافرمانی کروں تو بیشک ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا هوں“

وَکَاٴَ یِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اٴَمْرِ رَبِّھَا وَ رُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاھَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنَاہَاعَذَاباً نُکْراً

”اور بہت سے بستیوں (والے)نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر کشی کی تو ھم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انھیں بُرے عذاب کی سزا دی“

ماَ سَئَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ

”آخر تمھیں دوزخ میں کون سی چیز (گھسیٹ )لائی وہ لوگ کھیں گے کہ ھم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے“

فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ َیوْمٍ اٴَلِیْمٍ

”جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک عذاب سے افسوس ھے“

پس مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات ثابت هوتی ھے کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواھی جس کو شریعت اسلام کھا جاتا ھے؛ کی مخالفت پر (ابدی)عذاب هوتا ھے۔

۴۔کیا خدا وند عالم کے وعدوعید حقیقی ھیں یا صرف لوگوں کو اطاعت پر تحریک کرنے کے لئے ؟

بعض لوگ یہ کہتے ھیں کہ خدا وند کریم کا قرآن مجیدمیں بار با ر اس بات کا ذکر کرنا کہ انسان کو مرنے کے بعد قیامت میں اٹھا یا جائے گا اور اچھے اعمال کرنے والوں کو بہشت میں اور برے اعمال کرنے والوں کو جہنم میںبھیجا جائے گا،یہ وعد و وعید صرف لوگوں کی ترغیب اور تحریک کے لئے ھیں ۔تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نا فرمانی نہ کریں جب کہ در حقیقت ان میں کوئی انعام یا عذاب نھیں ھے گویا اس قول کا کہنے والا یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ یہ مادی جسم چونکہ موت کے بعد ختم هو جاتا ھے اور اس کا دوبارہ اپنی حالت پر پلٹنا محال ھے کیونکہ جو چیز ختم هو جاتی ھے دوبارہ واپس نھیں پلٹ سکتی ۔لہٰذامادی معنی کے لحاظ سے انعام و جزا اور عذاب کا تصور ھی نھیں پایا جاتا۔ گویا یہ وعدہ وعید صرف ایک (دھمکی)هوتی ھے جس میں حقیقت کچھ نھیں هوتی۔

جب کہ حقیقت یہ ھے کہ ھم قرآن کریم میں پڑھتے ھیں(اور خدا وند عالم نے قرآن کریم کو عر بی زبان میں واضح طور پر نازل کیا ھے)اور ھم عربی زبان کو جانتے ھیں اور اس کے مورد استعمال نیز اس کے الفاظ کی دلالت سے بھی با خبر ھیں ۔چنانچہ ھم کوئی ایسا جواز نھیں پاتے جس سے الفاظ کو اس کے ظاھر کے خلاف حمل کریں حالانکہ خلاف ظاھر پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی هو۔

اور جب قرآن مجید میں استعمال شدہ الفاظ کے ذریعہ کسی کو مخاطب کیا گیا هو اور اس میں کوئی ایسا قرینہ بھی نہ هو جس سے اس کی تاویل کی جاسکے تو پھر اس کو اس کے حقیقی معنی میں ھی استعمال کیا جائے گا ،اور ھمیں ذرہ برابر بھی اس کو مجاز ،مبالغہ اور جھوٹے وعدوں پر حمل کرنے کا حق نھیں ھے۔

قارئین کرام !    ھم آپ کے سامنے ایسی آیات قرآنی کو بیان کریںگے جن میں حشر و نشر اور قیامت پر واضح طور پر تائید کی گئی ھے اور ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ھے جس میں کسی قسم کی تاویل اور تقیید کی کوئی گنجائش نھیں ھے ،اور جن میں ذرہ برابر بھی ھیرا پھیری نھیںکی جاسکتی۔

چنانچہ ارشاد خدا وندی ھے:

کَمَا بَدَاٴَ نَا اٴَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اٴِنَّا کُنّاَ فَاعِلِیْنَ

”جس طرح ھم نے (مخلوقات کو)پھلی بار پید ا کیا تھا (اسی طرح)دوبارہ (پیدا )کر چھوڑیں گے(یہ وہ)وعدہ (ھے جس کا کرنا)ھم پر (لازم)ھے اور ھم اسے ضرور کر کے رھیں گے“

جَعَلَ لَھُمْ اٴَجْلاً لاَرَیْبَ فِیِہِ

”اس نے ان(کے موت)کی ایک میعاد مقرر کر دی ھے جس میں ذرا بھی شک نھیں “

وَحَشَرْ نَا ھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اَحْدًا

”اور ھم ان سبھوںکو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“

وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَری الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفَقِیْنَ مِمّاَ فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً اٴِلَّا اٴِحْصَاھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حاَضِرًا وَ لاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا

”اور(لوگوں کے اعمال کی)کتاب (سامنے رکھی جائے گی)تو تم گناہگار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا)ھے (دیکھ دیکھ کر)سھمے هوئے ھیں اور کہتے جاتے ھیں ھائے ھماری شامت یہ کیسی کتاب ھے کہ نہ چھوٹے ھی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں) کیا تھا وہ سب (لکھاهوا)موجود پائیں گے اور تیرا پرور دگار کسی پر (ذرہ برابر)ظلم نھیں کرے گا“ 

ثُمَّ اٴِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰ لِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اٴِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُوْنَ

”پھراس کے بعد یقیناً تم سب لوگوں کو( ایک نہ ایک دن) مرنا ھے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاوٴگے“

<اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴِنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَاٴِنَّکُمْ اٴِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ

”کیا تم یہ خیال کرتے هو کہ ھم نے تم کو (یونھی ) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ھمارے حضور لوٹا کر نھیں لائے جاوٴگے “

<رَبَّنَا اٴِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیْہَ اٴِنَّ اللهَلاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ

”اے ھمارے پروردگار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں شبہ نھیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا(تو ھم پر نظر عنایت رھے)بیشک خدا اپنے وعدے کے خلاف نھیں کرتا “

<یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاٴِنْسِ اٴلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا شَھِدْنَا عَلٰی اٴَنْفُسِنَا وَغَرَّتْھُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا

”(پھر ھم پوچھیں گے) کہ کیوںاے گروہ جن و انس کیا تمھارے پا س تم ھی میں کے پیغمبر نھیں آئے جو تم سے ھماری آیتیں بیان کریں اور تمھیں تمھارے اس روز (قیامت)کے پیش آنے سے ڈرائیں، وہ سب عرض کریں گے(بیشک آئے تھے)ھم خود اپنے اوپر آپ اپنے (خلاف) گواھی دیتے ھیں (واقعی)ان کو دنیا کی(چند روزہ)زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا“

إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتاً

”بیشک فیصلہ کا دن مقرر ھے“

ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّہِ مَآبَا

”وہ دن بر حق ھے تو جو شخص چاھے اپنے پروردگار کی بارگاہ (اپنا) ٹھکانا بنائے“

وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَھُوَ اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ

”اور جس شخص نے جیسا کیا هو اسے اس کا پوراپورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ھیں وہ اس سے خوب واقف ھے“

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالاَ تَاٴْ تِیْنَا السَّاعَةُ ،قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزَبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَلاَ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ اٴَکْبَرُ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ لَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُوٴْلٰئِکَ لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ

”اور کفار کہنے لگے کہ ھم پر تو قیا مت آئے گی ھی نھیں (اے رسول)تم کہہ دو ھاں(ھاں)مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پروردگار کی قسم ھے جس سے ذرہ برابر(کوئی چیز)نہ آسمان میں چھپی هوئی ھے اور نہ زمین میں کہ قیامت ضرور آئے گی اور ذرہ سے چھوٹی چیز اور ذرہ سے بڑی (غرض جتنی چیزیں ھیں سب )واضح و روشن کتاب(لوح محفوظ)میں محفوظ ھیں تاکہ جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کو خدا جزاء خیر دے، یھی وہ لوگ ھیں جن کے لئے (گناهوں کی)مغفرت اور (بہت ھی)عزت کی روزی ھے “

وَاٴَقْسَمُوْا بِاللهِ جَھْدَ اٴَیْمَانِھِمْ لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوْتُ بَلٰی وَعْداً عَلَیْہِ حَقًّا وَلٰکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ لِیُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااٴَنَّھُمْ کَانُوْاکَاذِبِیْنَ

”اور یہ کفار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں تھیں کھا (کر کہتے)ھیں کہ جو شخص مرجاتا ھے پھر اس کو خدا دوبارہ زندہ نھیں کرے گا (اے رسول کہدوکہ)ھاں ضرور ایسا کرے گا)اس پر اپنے وعدہ کی وفا لازم و ضروری ھے مگر بہتیرے آدمی نھیں جانتے ھیں(دوبارہ زندہ کرنا اس لئے ضروری ھے )کہ جن باتوں پر یہ لوگ جھگڑ ا کرتے ھیں انھیں ان کے سامنے صاف و واضح کر دے گا اور تاکہ کفار یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ (دنیامیں)جھوٹے تھے“

وَمَا اٴَدْرَاکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَا اٴَدْرَاکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌلِنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاٴَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ

”اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ھے پھر تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا چیز ھے، اس دن کوئی شخص کسی کی بھلائی نہ کر سکے گا اور اس دن حکم صرف خدا ھی کا هوگا“

پس نتیجہ بحث یہ هوا :

۱۔خدا وندعالم امر و نھی کرتا ھے۔

۲۔ اس کے امر ونھی الزامی هوتے ھیں ۔

۳۔ان اوامر و نواھی کی مخالفت موجب عقوبت هوتی ھے۔

۴۔اسی عقوبت کے حقیقی (مادی)معنی ھیں اور صرف ڈرانے کے لئے نھیں ھیں ۔

لہٰذاھم کہتے ھیں کہ ان تمام مطالب کے پیش نظر قیامت کا هونا ضروری ھے اور ایک مسلمان پر قیامت کا ایمان رکھنا اس کو ضروری اور قطعی ماننا ضروری ھے۔

اور اسی بات پر مذکورہ تما م آیات دلالت کرتی ھیں، کیونکہ انھیں آیات میں وضاحت کی گئی ھے کہ قیامت وہ چیز ھے ”جس میں کوئی شک نھیں“اور یھی(یوم الحق)ھے جس میں ایک ساعت بھی کم و زیادتی نھیں هو سکتی ،اوراس قیامت کا مقصد حساب و کتاب ھے کیونکہ ھر انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر جزا یا سزا دی جائے گی۔

انھیں آیات میں وضاحت کی گئی ھے کہ:

لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً إلّٰا اٴِحْصَاھَا

”نہ چھوٹے گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو“

انھی آیات میں موجود ھے:

کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضِرًا وَ مَاعَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ

”ھر شخص جو کچھ اس نے (دنیامیں ) نیکی کی ھے اور جو کچھ برائی کی ھے اس کو موجود پائے گا“

اور انھیں آیات کی بنا پر مجرمین ”مشفقین مما فیہ“دکھائی دیتے ھیں ۔

پس خدا وند عالم کا وعدہٴ قیامت ”حق “ ھے اور خدا سے زیادہ کون صادق الوعد هو سکتا ھے، اور جولوگ گمان کرتے ھیں:

اٴَنْ لَنْ یَبْعَثُوْا> (وہ مبعوث نھیں کئے جائیں گے)اور کہتے ھیں کہ قیامت نھیں آئے گی وہ کافر اور جھوٹے ھیں۔

وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ وَ مَا یُکَذِّبُ بِہِ اِلاَّ کُلَّ مُعْتَدٍاَثِیْمٍ

”اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ھے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ھیں حالانکہ اس کو حد سے نکل جانے والے گنہگار کے سوا کوئی جھٹلاتا۔“

اور جب گفتگو اس نتیجہ پر پهونچ چکی ھے تو ضروری ھے (تاکہ بحث کے تمام پھلوٴں پر گفتگو هو جائے )کہ ھم غور و فکر اور یقین کے ساتھ یہ بات طے کر یں قیامت کے دن کیا چیزپلٹائی جائے گی؟

کیا وہ فقط ”روح“ھے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ھے کہ روح کا جسم میں پلٹنا محال ھے؟

یا فقط”جسم“ھے جیسا کہ جناب جبائی اور ان کے پیر و کار افراد کا نظریہ ھے کیونکہ ان کا نظریہ یہ ھے کہ روح ھی جسم ھے؟

یا جسم کے ساتھ روح بھی جیسا کہ اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ھے۔

اس موضوع سے متعلق آیاتِ قرآنی کے سیاق سے ذہن میںاس بات کا تبادر هوتا ھے کہ قیامت میں ایسے زندہ جسم کے ساتھ اٹھا یا جائے گا جو لذتِ نعمت اور دردِ عذا ب درک کر سکے ،یعنی ”جسم کے ساتھ روح“جس میں تمام عضوو تمام صفات و خصوصیات موجود هوں گے۔قرآن مجید کی مذکورہ آیات اپنی تمام وضاحت کے ساتھ اپنے مقصود و معنی کو بیان کرتی ھیں اور کسی بھی طرح کی تاویل و قید سے منزہ ھے ،اور دلالت کے اعتبار سے بھی اتنی واضح ھیں کہ ان میں کسی طرح کی ھیرا پھیری نھیں کی جا سکتی ۔

ارشاد خدا وندی ھے:

وَیَوْمَ یُحْشَرُ اٴَعْدَاءُ اللهِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُونَ ۔ حَتَّی إِذَا مَا   جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا اٴَنطَقَنَا اللهُ الَّذِی اٴَنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَهو خَلَقَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ ۔ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ اٴَنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَاٴَبْصَارُکُمْ وَلاَجُلُودُکُمْ وَلَکِنْ ظَنَنْتُمْ اٴَنَّ اللهَ لاَیَعْلَمُ کَثِیرًا مِمَّا تَعْمَلُون

”اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہکائے جائیں گے تو یہ لوگ ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے یھاں تک کہ جب سب کے سب جہنم کے پاس جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے( گوشت پوست) ان کے خلاف ان کے مقابلہ میں ان کی کارستانیوں کی گواھی دیں گے اور یہ لوگ اپنے اعضاء سے کھیں گے کہ تم نے ھمارے خلاف کیوں گواھی دی؟!!  تو وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ھرچیز کو گویا کیا، اس نے ھم کو بھی (اپنے قدرت سے)گویا کیا، اور اسی نے تم کو پھلی بار پیدا کیا تھا اور (آخر)اسی کی طرف لوٹ کرجاوٴ گے اور(تمھاری تو یہ حالت تھی کہ)تم لوگ اس خیال سے (اپنے گناهوں کی)پردا داری بھی تو نھیں کرتے تھے کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے اعضاء تمھارے بر خلاف گواھی دیں گے بلکہ تم اس خیال میں (پھولے هو)تھے کہ خدا کو تمھارے بہت سے کاموں کی خبر ھی نھیں“

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اَفْوَاھِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَ تَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ

آج ھم ان کے منھ پر مھر لگا دیں گے اور جو(جو)کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں) کر رھے تھے خود ان کے ھاتھ ھمیں بتا دیں گے اور ان کے پاوٴں گواھی دیں گے“

إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَ

”(یاد رھے)کہ جن لوگوں نے ھماری آیتوں سے انکار کیا انھیں ضرورعنقریب جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے (اورجب ان کی کھالیں (جل ) جائیں گی تو ھم ان کے لئے دوسری کھالیں بدل کر پیدا کر دیں گے تاکہ وہ اچھی طرح عذاب کا مزہ چکھیں“

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَہ

”کیا انسان یہ خیا ل کرتا ھے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو بو سیدہ هونے کے بعد (جمع نہ کریں گے ھاں ضرور کریں گے) ھم اس پر قادر ھیں کہ ھم اس کی پور پور درست کریں۔“

قارئین کرام !   مذکورہ آیات کا غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ھے کہ قیامت میں انسان کو ”جسم و روح“کے ساتھ اٹھایا جائے گا کیونکہ آنکھیں، کان، کھال، منھ، ھاتھ، پیر، ہڈی اور درد عذاب کا احسا س سب کچھ دنیاوی طرح سے هوگا، اوران تما م چیزوں کے پیش نظر شک و تاویلات کی کوئی گنجائش باقی نھیں ر ہ جا تی۔

قارئین کرام !   ھم مذکورہ آیات میں سے صرف آخری دو آیات کے بارے میں کچھ علمی مطالب بیان کرنا چاہتے ھیں اور یہ وہ حقائق ھیں جن کو خدا وند عالم نے اس وقت بیان کیا جب یہ علمی کشفیات نھیں تھے،اور ھم ان مطالب کو قرآن کے معجزہ هونے پر دلیل بھی کہہ سکتے ھیں۔

چنانچہ پھلی آیت میں کفار کو نار جہنم میں جلانے کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:

<کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُوْداً غَیْرَھَا>

”جس وقت جہنم کی آگ انسان کی کھال کو جلائے گی تو ھم اس کھال کو دوبارہ بنادیں گے تاکہ ھمیشہ دردو تکلیف میں مبتلا رھے اورعذاب الیم کا مزہ لیتا رھے“۔

پس یہ ان کی کھال کا تبدیل کرنا کس لئے ؟

اس کی وجہ کو آج کا علم طب بیان کرتا ھے کہ انسان کی کھال میں دردو الم کاشدید احساس پایا جاتا ھے لیکن گوشت اور اندرون اعضاء میں کم احساس هوتا ھے اسی وجہ سے ایک طبیب کا یہ ماننا ھے کہ اگر انسان کا جسم معمولی طورپر اس طرح جلے کہ فقط کھال تک اس کا اثر جائے تو اس کو بہت شدید درد هوتا ھے اس کے برخلاف  اس کے جس کے بدن کا اندرونی حصہ بھی جل جائے اگر چہ اس میں خطرہ زیادہ ھے لیکن درد و تکلیف کا احساس زیادہ نھیں هوتا۔

قارئین کرام !   آپ نے خدا وندعالم کی حکمت کو ملاحظہ فرمایا،جب کہ آج کا انسان تر قی کر کے اس نتیجہ پر پهونچا ھے ”خداوندعالم عزیز و حکیم ھے“

دوسری آیت :

جس میں قیامت کے منکرین کے اعتقاد کو بیان کیا گیا ھے اور اس کے بعد قیامت کے بارے میں تاکید و اصرار کیا ھے:

بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَہ

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خدا کی معرفت اور پہچان
علمائے مكہ اور علمائے نجد میں مناظرہ
ولایت؛ کیوں اور کیسے؟
ضرورت نبوت
اللّٰہ کی تعریف اور توصیف میں
عقيدہ توحيد و عدل کا انساني معاشرہ پر اثر
عقيدہ توحيد و عدل کا انساني معاشرہ پر اثر
حق الناس قبولیت اعمال میں رکاوٹ ہے
کیا علم خدا کی موجوده زمانه کے موسم شناسی اور ...
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment