اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

سیرت عبادت اہلبیت (ع(

سیرت عبادت اہلبیت (ع(

 

1۔ اخلاص عبادت

587۔ امام علی (ع) ! خدایا میں نے تیری عبادت نہ تیری جنت کی طمع میں کی ہے اور نہ تیرے جہنم کے خوف سے … بلکہ تجھے عبادت کا اہل پایا ہے تو تیری عبادت کی ہے۔( عوالی اللئالی 1 ص 404/63۔2 ص11/18،شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی 5 ص361 ، شرح مأتہ کلمہ ص 235)۔

واضح رہے کہ شرح نہج میں الفاظ اس طرح نقل ہوتے ہیں” ما عبدتک خوفا من عقابک ولا طمعاً فی ثوابک…“۔

588۔ امام علی (ع) ! ایک قوم نے اللہ کی عبادت رغبت کی بناپر کی ہے اور یہ تاجروں کی عبادت ہے، دوسری قوم نے خوف کی بناپر کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے اس کی عبادت شکر نعمت کی بنیاد پر کی ہے، یہی آزاد اور شریف لوگوں کی عبادت ہے۔( نہج البلاغہ حکمت 237، تحف العقول ص 246 عن الحسین (ع) ، تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) ص 111 /141 ، حلیة الاولیاء ص 134، روایت ابراہیم علوی از امام صادق (ع)۔

589 ۔ امام صادق (ع) ! عبادت گذاروں کی تین قسمیں ہیں، ایک قوم نے خوف کی بنیاد پر عبادت کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے ثواب کی خواہش میں عبادت کی ہے تو یہ مزدوروں کی عبادت ہے۔ البتہ ایک قوم نے اس کی محبت میں عبادت کی ہے اور یہی آزاد مردوں کی عبادت ہے اور یہی بہترین عبادت ہے۔( کافی 2 ص 84 /5 روایت ہارون بن خارجہ)۔

590۔ امام زین العابدین (ع) ! مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ خدا کی عبادت کروں اور اس کا مقصد ثواب کے علاوہ کچھ نہ ہو اور اس طرح ایک لالچی بندہ بن جاؤں کے اسے طمع ہو تو عبادت کرے اور نہ ہو تو نہ کرے اور یہ بھی ناپسند ہے کہ میرا محرک صرف عذاب کا خوف ہو اور اس طرح بدترین بندہ بن جاؤں کہ خوف نہ ہو تو کام ہی نہ کرے۔

کسی نے دریافت کیا پھر آپ کیوں عبادت کرتے ہیں؟ فرمایا اس لئے کہ وہ اہل ہے اور اس کے انعامات میری گردن پر ہیں۔(تفسیر منسوب بہ امام عسکری (ع) ص 328 /180)۔

 

2۔ مشقت عبادت

591۔ امام محمد باقر (ع) ! رسول اکرم عائشہ کے حجرہ میں تھے تو انھوں نے کہا کہ آپ اس قدر زحمت عبادت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو بخش دیا ہے ؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندہٴ شکر گذار نہ بنوں !۔

آپ پنچوں کے بھل کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ پروردگار نے سورہٴ طہ نازل فرمایا کہ ” ہم نے قرآن اس لئے نہیں نازل کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔( کافی 2 ص 95 /2 روایت ابوبصیر، احتجاج 1 ص 520)۔

592۔ عائشہ ! رسول اکرم را توں کو اس قدر قیام فرماتے تھے کہ پیر پھٹنے لگتے تھے تو میں نے عرض کی کہ آپ اس قدر زحمت کیوں کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام اول و آخر گناہ معاف کردیئے ہیں؟ فرمایا کیا میں بندہ شکر گذار بننا پسند نہ کروں۔( بخاری 4 ص 1830 / 3557 ، مسلم 4 ص 2172، 2820، صحیح بخاری 1ص 380 /1078 ، ص 2375 /8106 ، 4/1830 /4586 ، صحیح مسلم 4 ص 2171 / 2819 ، سنن ترمذی 2 ص 268 ، 412 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 456 / 1419 ، سنن نسائی 3 ص 219 ، مسند ابن حنبل 6 ص 348 / 18366 ، الزہد ابن المبارک 35 / 4731 روایت مغیرہ تاریخ بغداد 4 ص 231 روایت انس 7 ، ص 265 روایت ابوجحیفہ، فتح الابواب ص 170 روایت زہری)۔

593 ۔ بکر بن عبداللہ ! عمر بن الخطاب پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے جب حضرت بیمار تھے اور کہنے لگے کہ آپ کس قدر اپنے کو تھکاتے ہیں؟ فرمایا مجھے کون سی چیز مانع ہے کل شب میں تیس سوروں کی تلاوت کی ہے جن میں سور طوال بھی شامل تھے۔

کہنے لگے کہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے اس کے بعد بھی اس قدر زحمت کرتے ہیں؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندہ شکر گذار نہ بنوں۔( امالی طوسی (ر) ص403 /903)۔ 594۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم مستحب نمازیں فرض نمازوں سے دوگنی ادا کیا کرتے تھے۔( کافی 3 ص 443/3 ،تہذیب 2 ص 4 /3 ، استبصار 1 ص 218 / 7703 روایت فضیل بن یسار و فضل بن عبدالملک و بکیر)۔

595۔ عائشہ ! رسول اکرم لمبی راتوں میں بھی کبھی کھڑے ہوکر نمازیں پڑھتے تھے اور کبھی بیٹھ کر ۔( صحیح مسلم 1 ص 504 / 105 ، سنن ترمذی 2 ص 23 /3751 سنن ابن ماجہ 1 ص 388 /1228 ، سنن نسائی 3 ص 219 ، مسند ابن حنبل 9 ص 393 /24723 ص 397 / 24743 ، مستدرک 1 ص 397 /976)۔

596۔ عائشہ ! آیت کریمہ ”قم اللیل الا قلیلا“ کے نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم بہت ہی کم آرام فرماتے تھے۔( مسند ابویعلی 4 ص466 / 4918 ) ۔

597۔ عائشہ ! رسول اکرم ہر حال میں ذکر خدا کرتے رہتے تھے۔( صحیح مسلم 1 ص 282 /117 ، سنن ترمذی 5 ص 463 /3384، سنن ابی داؤد 1 ص 5 /18)۔

598 ۔ اام علی (ع) ! فاطمہ (ع) نے رسول اکرم سے خادمہ کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی شے بتاسکتاہوں اور وہ یہ ہے کہ سوتے وقت 34 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر( دن بھر کی تمام تھکن دور ہوجائے گی) جس کے بعد میں نے کبھی اس تسبیح کو ترک نہیں کیا۔

ایک شخص نے کہا کہ صفین کی رات بھی ؟ فرمایا ہاں صفین کی رات بھی۔) صحیح بخاری 5 ص 2041 /5044 ، صحیح مسلم 4 ص 2091 / 2727 ، مسند الحمیدی 1 ص 24 / 43 ، تاریخ بغداد 3 ص 24 روایات عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ، مسند احمد 1 ص 332 / 1312 روایت ابن اعبد)۔

599۔ عروة بن الزبیر ! ہم سب مسجد پیغمبر میں بیٹھے ہوئے اصحاب بدر و بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو کررہے تھے تو ابن درداء نے کہا کہ کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاؤں جو ساری قوم میں مال کے اعتبار سے سب سے کمزور ، تقویٰ میں سب سے طاقتور اور عبادت میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا تھا، لوگوں نے کہا کہ یہ کون ہے؟ کہا علی (ع) بن ابی طالب (امالی الصدوق (ر) 72/9 ، روضة الواعظین ص 125 مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 124)۔

600۔ حبّہ عرفی ! ہم نوف و حبة القصر میں سورہے تھے کہ اچانک دیکھا امیرالمومنین (ع) دیوار پر ہاتھ رکھے رات کے سناٹے میں ان فی خلق السماوات والارض … کی تلاوت کررہے ہیں اور اس کے بعد اسی عالم استغراق میں میری طرف رخ کرکے فرمایا کہ حبہ ! جاگ رہے ہویا سورہے ہو؟

میں نے عرض کی کہ میں تو جاگ رہاہوں لیکن جب آپ کی بیقراری کا یہ عالم ہے تو ہم گنہگاروں کا کیا حال ہوگا؟ یہ سن کر آپ نے زار و قطار رونا شروع کردیا، اور فرمایا کہ حبہ ! دیکھو ہمیں بھی پروردگار کے سامنے کھڑا ہوناہے اور اس سے کسی شخص کے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں، وہ ہم سے اور تم سے رگ گردن سے زیادہ قریب تر ہے اور کوئی شے ہمارے اور اس کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی ہے۔

اس کے بعد نوف کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ تم سورہے ہو یا جاک رہے ہو؟ نوف نے عرض کی یا امیر المومنین (ع) ! ویسے تو میں بیدار ہوں لیکن آج کی شب آپ نے بہت رلایا، فرمایا ۔ نوف ! اگر اس شب میں تمھارا اگر یہ خوف خدا سے تھا توکل روز قیامت تمھاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔

نوف ! یاد رکھو خوف خدا میں جو ایک قطرہٴ اشک آنکھوں سے نکل آتاہے وہ جہنم کی آگ کے دریاؤں کو بجھا سکتاہے، پروردگار کی نگاہ میں اس سے عظیم تر کوئی انسان نہیں ہے جو روئے تو خوف خدامیں روئے اور محبت یا دشمنی کرے تو وہ بھی خدا کے لئے کرے، دیکھو جو خدا کے لئے محبت کرتاہے وہ اس کی محبت پر کسی محبت کو مقدم نہیں کرتاہے اور جو برائے خدا دشمنی کرتاہے اس کے دشمن کے لئے کوئی خیر نہیں ہے، اور ایسی ہی محبت اور عداوت سے انسان کاایمان کامل ہوتاہے۔

اس کے بعد حضرت نے دونوں افراد کو موعظہ فرمایا اور آخر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے ہوشیار رہنا کہ میں نے تمھیں ہوشیار کردیاہے، اس کے بعد یہ مناجات کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ خدایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ غفلتوں کی حالت میں بھی تیری نگاہ کرم رہتی ہے یا تو منھ پھیر لیتاہے؟ اور کاش مجھے یہ اندازہ ہوتا کہ اس طویل نیند اور قلیل شکر کے بعد بھی تو نعمتیں عطا فرمارہاہے تو اب میرا کیا حال ہونے والاہے۔

اس کے بعد اسی عالم میں آپ فریاد کرتے رہے یہاں تک طلوع فجر کا وقت آگیا۔(فلاح السائل ص 266)۔

601۔ ابوصالح ! ضرار بن ضمرہ کنانی معاویہ کے دربار میں وارد ہوئے تو اس نے کہا کہ ذرا علی (ع) کے اوصافت تو بیان کرو؟ ضرار نے کہا مسلمانوں کے امیر ! مجھے معاف کردے تو بہتر ہے، معاویہ نے کہا ہرگز نہیں ۔!

ضرار نے کہا کہ اگر بیان ضروری ہے تو سن ! خدا گواہ ہے کہ میں نے بعض اوقات اندھیری رات میں جب ستارے ڈوب چکے تھے یہ دیکھا ہے کہ علی (ع) محراب عبادت میں داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے یوں تڑپ رہے تھے جس طرح مارگزیدہ تڑپتاہے اور پھر بیقراری کے ساتھ گریہ کررہے تھے۔

ایسا لگتاہے کہ میں اس وقت بھی یہ منظر دیکھ رہاہوں کہ وہ پروردگار کو روروکر پکار رہے ہیں اور پھر دنیا کو خطاب کرکے کہہ رہے ہیں … اے دنیا ! تیرا رخ میری طرف کیوں ہوگیا ہے، افسوس کہ تو بلاوجہ زحمت کررہی ہے، جاکسی اور کو دھوکہ دینا ، میں تجھے تین بار ٹھکرا چکاہوں تیری عمر بہت مختصر ہے اور تیری منزل بہت حقیر ہے اور تیرا خطرہ بہت عظیم ہے، آہ ، آہ ! زاد سفر کس قدر کم ہے اور سفر کس قدر طولانی ہے اور راستہ بھی کس قدر وحشتناک ہے“۔

یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے اور اس نے آستینوں سے آنسؤوں کو پونچھنا شروع کردیا اور سارے دربار پر گریہ طاری ہوگیا اور معاویہ نے کہا کہ یقینا ابوالحسن (ع) ایسے ہی تھے۔

ضراراب علی (ع) کے بعد تمھارا کیا حال ہے ! ضرار نے کہا کہ جیسے کسی ماں کا بچہ اس کی گود میں ذبح کردیا جائے کہ نہ اس کے آنسو رک سکتے ہیں اور نہ اس کے دل کو سکون مل سکتاہے، یہ کہہ کر اٹھے اور باہر نکل گئے ۔( حلیة الاولیاء 1 ص 84 ، الصواعق المحرقہ ص 131 ، مروج الذہب 2 ص 433 ، الاستیعاب 3 ص 209 ، خصائص الائمہ ص 70 ، کنز الفوائد 2 ص 103 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 103 ، نہج البلاغہ حکمت ص 77 الفصول المہمہ ص 127)۔

602۔امام حسن (ع) ! میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھاہے کہ شب جمعہ محراب عبادت میں مصروف رکوع و سجود رہیں یہاں تک کہ فجر طالع ہوگئی اور یہ سنا کہ آپ مسلسل مومنین اور مومنات کے حق میں نام بنام دعا کرتی رہیں اور ایک حرف دعا بھی اپنے حق میں نہیں کہا۔

میں نے عرض کی کہ مادر گرامی ! آپ دوسروں کے حق میں دعا کرتی ہیں، اپنے واسطے کیوں دعا نہیں کرتی ہیں ؟ فرمایا بیٹا، پہلے ہمسایہ اس کے بعد اپنا گھر ۔( دلائل الامامة 152 /65 ، علل الشرائع 181 /1 ، کشف الغمہ 2 ص 94 ، ضیافة الاخوان ص 265 روایت فاطمہ صغری)۔

603۔ حسن بصری ! اس امت میں فاطمہ زہرا سے زیادہ عبادت گذار کوئی نہیں گذرا ہے، وہ رابت بھی مصلیٰ پر کھڑی رہتی تھیں یہاں تک کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا ۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 341 ، ربیع الابرار 2 ص 104)۔

604۔ عبداللہ بن زبیر نے شہادت امام حسین (ع) کی خبر سن کر یہ کلمات زبان پر جاری کئے، خدا کی قسم تم نے اسے مارا ہے جو راتوں کو اکثر قیام کیا کرتا تھا اور دنوں میں اکثر روزے رکھا کرتا تھا۔( تاریخ طبری 5 ص 375 ، مقتل ابومخنف ص 247 روایت عبدالملک بن نوفل)۔

605۔ امام زین العابدین (ع) سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے والد محترم کی اولاد اس قدر کم کیوں ہے؟ فرمایا مجھے تو اتنی اولاد پر بھی تعجب ہے کہ رات دن میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے تو انھیں گھر والوں کے ساتھ رہنے کا موقع کب ملتا تھا۔( تاریخ یعقوبی 2ص 247 ، العقدالفرید 2 ص 243 ، فلاح السائل ص 269)۔

606 ۔ امام صادق (ع)! حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) عبادات میں بے حد زحمت برداشت کیا کرتے تھے، دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں نمازیں پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ بیمار ہوگئے تو میں نے عرض کی بابا ! کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا ؟ فرمایا میں اپنے پروردگار سے قربت چاہتاہوں شائد وہ اس طرح اپنی بارگاہ میں جگہ دیدے۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 155 روایت معتب)۔

607۔ امام صادق (ع) ، حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) جب حضرت علی (ع) کی کتاب کا مطالعہ فرماتے تھے اور ان کی عبادتوں کا ذکر دیکھتے تھے تو فرماتے تھے کہ اس قدر عمل کون کر سکتاہے ، یہ کس کے بس کی بات ہے، اس کے بعد پھر عمل شروع کردیتے تھے ، مصلیٰ پر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور واضح طور پر اثرات ظاہر ہونے لگتے تھے اور امیر المومنین (ع) جیسی عبادت ان کے گھرانہ میں بھی حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں کرسکا۔( کافی 8 ص 163 / 172 روایت سلمہ بیّاع السابری)۔

608۔ عمرو بن عبداللہ بن ہند الجملی ، امام محمد (ع) باقر سے رایت کرتے ہیں کہ جب جناب فاطمہ بنت علی (ع) نے اپنے بھتیجے زین العابدین (ع) کو اس شدت اور کثرت سے عبادت کرتے دیکھا تو جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام انصاری کے پاس آئیں اور فرمایا کہ تم صحابی رسول ہو، ہمارے تمھارے اوپر حقوق ہیں اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کو زحمت و مشقت سے ہلاکت ہوتے دیکھو تو اس کی زنگی کا بند وبست کرو، دیکھو یہ علی (ع) بن الحسین (ع) جو اپنے باپ کی تنہا یادگار ہیں، اس قدر عبادت کررہے ہیں کہ پیشانی ، ہتھیلی اور گھٹنوں پر گھٹے پڑگئے ہیں اور اس کے بعد بھی مسلسل نمازیں پڑھتے چلے جارہے ہیں ؟

جابر بن عبداللہ یہ سن کر امام زین العابدین (ع) کے دروازہ پر آئے اور وہاں امام (ع) باقر کوبنئ ہاشم کے نوجوانوں کے ساتھ دیکھا ، جابر نے انھیں آگے بڑھتے دیکھا تو کہا کہ واللہ یہ بالکل رسول اکرم کی رفتار ہے۔ اور پوچھا کہ فرزند آپ کون ہیں؟

فرمایا میں محمد ! بن علی (ع) بن الحسین (ع) ہوں ! یہ سن جابر رونے لگے اور کہا کہ واللہ آپ ہی علوم کی باریکیاں ظاہر کرنے والے باقر (ع) ہیں، ذرا میرے قریب آئیے میرے ماں باپ آپ پر قربان ! حضرت آگے بڑھے، جابر نے بند پیراہن کھولے، سینہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر سینہ مبارک کو بوسہ دیا اور اپنا رخسار اور چہرہ جسم مبارک سے مس کیا اور کہا کہ میں آپ کو آپ کے جد رسول اکرم کا سلام پہنچا رہاہوں اور میں نے وہی سب کچھ کیا ہے جس کا حضرت نے مجھے حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم اس دنیا میں اس وقت تک زندہ رہوگے کہ میرے ایک فرزند محمد سے ملاقات کروگے جو علمی موشگافیاں کرنے والا ہوگا… اور دیکھو تم نابینا ہوجاؤگے تو وہ تمھاری بصارت کا انتظام کردے گا۔

یہ کہہ کر امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ی کی درخواست کی ، آپ گھر کے اندر گئے اور بابا کو اطلاع دی کہ ایک بزرگ دروازہ پر ہیں اور انھوں نے میری ساتھ اس اندازہ کا برتاؤ کیا ہے، فرمایا فرزند یہ جابر بن عبداللہ ہیں اور یہ سارے اعمال کیا انھوں نے خاندان کے بچوں کے سامنے انجام دیئے ہیں اور یہ ساری باتیں سب کے سامنے کی ہیں …؟ عرض کی جی ہاں … فرمایا انا للہ … انھوں نے کوئی برا قصد نہیں کیا لیکن تمھاری زندگی کو خطرہ میں ڈال دیا۔

اس کے بعد جابر کو داخلہ کی اجازت دیدی اور جب جابر گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپ محراب عبادت میں ہیں اور جسم انتہائی لاغر ہوچکا ہے آپ نے اٹھ کر نحیف آواز میں جابر سے خیریت دریافت کی اور اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔

جابر نے گزارش شروع کی، فرزند رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے جنت کو آپ ہی حضرات کے لئے خلق کیا ہے اور جہنم کو آپ کے دشمنوں ہی کے لئے بنایاہے تو آخر اس قدر زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

فرمایا اے صحابی رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے میرے جد رسول اکرم کے جملہ محاسبات کو بخش دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی انھوں نے عبادت کی مشقت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس قدر عبادت کی کہ پیروں پر ورم آگیا اور جب ان سے یہی گزارش کی گئی کہ آپ کو عبادت کی کیا ضرورت ہے ؟ تو فرمایا کہ کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گذار بندہ نہ بنوں؟ جابر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت زین العابدین (ع) پر میری بات کا اثر ہونے والانہیں ہے اور وہ عبادات میں تخفیف کرنے والے نہیں ہیں تو عرض کی کہ فرزند رسول ! اپنی زندگی کا خیال رکھیں کہ آپ ہی حضرات کے ذریعہ امت کی بلائین دفع ہوتی ہے ، مصیبتوں سے نجات ملتی ہے آسمان سے بارش ہوتی ہے؟

فرمایا ، جابر ؟ میں اس وقت تک اپنے اب وجد کے راستہ پر گامزن رہوں گا جب تک مالک کی بارگاہ میں نہ پہنچ جاؤں ! جابر نے حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے اولاد انبیاء میں یوسف بن یعقوب کے علاوہ علی (ع) بن الحسین (ع) جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ علی (ع) بن الحسین (ع) کی ذریت یوسف کی ذریت سے کہیں زیادہ بہتر ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا (امالی طوسی (ر) ص 236 / 1314 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 148 ، بشارة المصطفیٰ ص 66)۔

609۔ امام (ع) صادق ! میرے پدر بزرگوار تاریکی شب میں نمازیں پڑھتے پڑھتے جب سجدہ میں طول دیتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے نیند آگئی ہو۔( قرب الاسناد 5 ص 15 روایت مسعدہ بن صدقہ(

610۔ امام صادق (ع) ! میں پدر بزرگوار کے لئے بستر بچھاکر انتظار کیا کرتا تھا اور جب وہ آرام فرمالیتے تھے تو میں اپنے بستر پر جاتا تھا، ایک شب میں انتظار کرتا رہا اور جب دیر ہوگئی تو آپ کی تلاش میں مسجد کی طرف گیا ، دیکھا کہ آپ تنہا مسجد میں سجدہٴ پروردگار میں پڑے ہیں اور نہایت کرب کے عالم میں مناجات کررہے ہیں ” خدا یا تو مالک بے نیاز ہے اور یقیناً میرا پروردگار ہے، میں نے یہ سجدہ تیری بندگی اور عبدیت کے اقرار کے لئے کیا ہے، خدایا میرا عمل بہت کمزور ہے اب تو ہی اسے مضاعف کردے، خدایا اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھنا جس دن تمام بندوں کو قبروں سے نکالا جائیگا اور میری توبہ کو قبول کرلینا کہ توبہ کا قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔( کافی 3 ص 333/9 از اسحاق بن عمار)۔

611۔ امام صادق (ع) میرے والد بزرگوار بہت زیادہ ذکر خدا کیا کرتے تھے اور میں جب بھی ان کے ساتھ چلتا تھا یا کھانا کھاتا تھا تو انھیں ذکر خدا کرتے ہی دیکھتا تھا، حدیہ ہے کہ لوگوں سے گفتگو بھی آپ کو ذکر خدا سے غافل نہیں بناسکتی تھی، میں اکثر اوقات دیکھتا تھا کہ زبان تالو سے چپک جاتی تھی اور لا الہ الا اللہ کہتے رہتے تھے، ہم سب کو جمع کرکے طلوع آفتاب تک ذکر خدا کا حکم دیا کرتے تھے اور جو قرآن پڑھ سکتا تھا اسے تلاوت کا حکم دیتے تھے ورنہ ذکر خدا کا امر فرمایا کرتے تھے۔( کافی 2 ص 499 / 1 از ابن القداح)۔

612۔ یحیٰ العلوی ! حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) کو ان کی کثرت عبادت کی بناپر عبد صالح کہا جاتا تھا اور ہمارے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ انھوں نے مسجد پیغمبر میں جاکر اول شب میں سجدہ شروع کیا اور اس میں یہ مناجات شروع کی کہ خدایا تیرے بندہ کا گناہ عظیم ہے تو تیری معافی کو بھی عظیم ہونا چاہیئے۔ اے صاحب تقویٰ ، اے صاحب مغفرت ! اور اس طرح صبح تک دہراتے رہے۔(تاریخ بغداد 13 ص 27)۔

613۔ حفص ! میں نے حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) سے زیادہ نہ خدا کا خوف رکھنے والا دیکھا ہے اور نہ اس کی رحمت کا امیدوار دیکھاہے، آپ کی تلاوت کا انداز بھی حرتیہ ہوتا تھا اور اس طرح پڑھتے تھے جیسے کسی انسان سے باتیں کررہے ہو۔( کافی 2 ص 606 /10)۔

614۔ ثوبانی ! حضرت موسیٰ (ع) ابن جعفر (ع) چند سال تک اسی انداز سے عبادت کرتے رہے کہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ ہی میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی … بلندی پر جاکر قیدخانہ میں روشندان سے دیکھتا تھا تو آپ کو سجدہ میں پاتا تھا اور پوچھتا تھا کہ اے ربیع (داروغہ زندان) یہ کپڑا کیسا پڑا ہے؟ تو وہ کہتا تھا کہ امیر المومنین !یہ کپڑا نہیں ہے، یہ موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ہیں جو روزانہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ معبود میں پڑے رہتے ہیں۔

ہارون کہتا کہ بیشک یہ بنئ ہاشم کے راہبوں میں سے ہیں تو میں کہتا کہ پھر آپ نے انھیں اس تنگی زندان میں کیوں رکھاہے ؟ تو کہتا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 95 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 318 از یونانی)۔

615۔ عبدالسلام بن صالح الہردی راوی ہے کہ میں مقام سرخس میں اس گھر تک پہنچا جہاں امام رضا (ع) کو قید رکھا گیا تھا اور میں نے نگرانِ زنداں سے اجازت چاہی تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔

میں نے کہا کیوں ؟ اس نے کہا کہ یہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور صرف ایک ساعت ابتدائے روز میں اور وقت زوال اور نزدیک غروب نماز روک دیتے ہیں لیکن مصلیٰ پر بیٹھ کر ذکر خدا کرتے رہتے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 183 / 6)۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment