صحابی کی اصطلاحی تعریف:
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب (الاصابة فی تمییز الصحابة)میں صحابی کی تعریف یوں رقم فرماتے ہیں :
الصحابی من لقی النبی موٴمناً بہ ومات علی الاسلام ،فیدخل فیمن لقیہ من طالت مجالستہ لہ اوقصرت ،ومن رویٰ عنہ او لم یرو ،ومن غزا معہ اٴو لم یغز ،ومن روآہ ولم یجالسہ ،ومن لم یرہ لعارض کالعمیٰ ویخرج بقید الایمان من لقیہ کافراً ولو اسلم بعد ذلک اذا لم یجتمع بہ مرة اٴخریٰ۔۔۔۱#
”صحابی وہ ہے جو نبیسے حالت ایمان میں ملاقات کرے اور اسلام پر اس کو موت آئے،پس (اس تعریف میں)وہ داخل ہوجاتاہے جس نے پیغمبرسے روایت بیان کی ہویانہ کی ہو ،نیز آپکے ساتھ غزوہ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ،اور اگر کسی نے آپ کو ایک بار دیکھا ہو لیکن آپ کی ہم نشینی کاشرف حاصل نہ کرسکا یا اصلاً آپ کی زیارت سے محروم رہا ہو کسی مانع کی بنا پر مثلا وہ شخص نابینا ہو تو ایسا شخص بھی آپ کی صحابیت کے زمرے میں داخل ہوگا اس تعریف میں جو ایمان کی قید لگائی گئی ہے اس سے وہ شخص خارج ہو جاتا ہے جس نے پیغمبر اکرم ﷺسے حالت کفر میں ملاقات کی ہو اگر چہ بعد میں مسلمان ہو گیا ہو جب کہ دوسری مرتبہ آپ سے ملاقات نہ کر سکا ہو“
امام بخاری نے صحابی کی تعریف اس طرح کی ہے:
”ومن صحب النبی او رآہ من المسلمین فھو من اصحابہ“ ۲#
” جو بھی نبی کا ہم نشین رہا ہو یا مسلمانوں میں سے کسی نے آپ کو دیکھا ہو تو وہ آپ کے اصحاب میں سے ہے“
ان دونوں تعریفوں کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ پوری جمیعت پیغمبر اکرم کی صحابیت میں داخل ہے جس نے حالت اسلام میں پیغمبر کو درک کیا ہو چاہے وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہو ،یا بزرگ مرد ہو یا عورت۔
اے کاش بات اس حد تک رہتی تو بہتر تھا لیکن علمائے اہل سنت نے تو تمام صحابہ کو عادل و ثقہ قرار دے دیا۔
----------------------------------------------------
۱)۔ کتاب الاصابة ج/۱ص/۴ ۲)۔ صحیح البخاری۵/۲