بندہ سے متعلق خداوند عالم کی حمیت
بیشک الله اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور محبت کی ایک خصوصیت غیرت ہے وہ غیور بندوں کے دلوں میں ہوتی ہے بندے اللهسے خالص محبت کریں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے سے محبت نہ کریں اور بندوں کو اپنے دل میں دوسروں کی محبت داخل کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اپنے رب سے وادی مقدس میں مناجات کرتے ہوئے عرض کیا اے پروردگار :
<اني اخلصت لک المحبّة منيّ وغسلت قلبي ممّن سواک >(ا)
”میں صرف تیرا مخلص ہوں اور تیرے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرتا“اور مجھے اپنے اہل وعیال سے شدید محبت ہے خداوندعالم نے فرمایا ۔اگر تم مجھ سے خالص محبت کرتے ہوتو اپنے اہل وعیال کی محبت اپنے دل سے الگ کردو “
الله کی اپنے بندے پر یہ مہربانی ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے غیرکی محبت کو زائل کر دیتا ہے اور جب خداوند عالم اپنے بندے کو اپنے علاوہ کسی اور سے محبت کرتے ہوئے پاتاہے تو اس کی محبت کو بندے سے سلب کردیتا ہے یہاں تک کہ بندہ کا دل اس کی محبت کےلئے خالص ہوجاتاہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی دعا میں آیاہے :
<انت الذي ازلت الاغیارعن قلوب احبّّائک حتیٰ لم یحبّواسواک ماذا وجد مَن فقدک وماالذی فقد مَن وجدک لقدخاب من رضي دونک بدلا“(۲)
”تونے اپنے محبوں کے دلوں سے غیروں کی محبت کو اس حد تک دور کردیا کہ وہ تیرے علاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحارالانوار جلد ۸۳ صفحہ ۲۳۶ ۔
(۲)بحارا لانوارجلد ۹۸ صفحہ ۲۲۶۔
کسی سے محبت ہی نہیں کرتے ۔جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا ؟اور جس نے تجھے پالیا اس نے کیا کھویا ؟جو شخص تیرے علاوہ کسی اور سے راضی ہوا وہ نا مراد رہا “
ہمارے لئے اس سلسلہ میں اس تربیت کرنے والی خاتون کا واقعہ نقل کرنابہتر ہے جس کو شیخ حسن البنانے اپنی کتاب ”مذاکرات الدعوة والداعیة “میں نقل کیا ہے۔ حسن البنّاکہتے ہیں :شیخ سلبی (مصرکے علم عرفان اور اخلاق کی بڑی شخصیت)کو خداوندعالم نے ان کی آخری عمرمیں ایک بیٹی عطاکی شیخ اس سے بہت زیادہ محبت کر تے تھے یہاں تک کہ آپ اس سے جدا نہیں ہوتے تھے وہ جوں جوں جوان اور بڑی ہو رہی تھی شیخ کی اس سے محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا شیخ بنّا نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ایک شب پیغمبر اکرم کی شب ولا دت شیخ شلبی کے گھر کے نزدیک ایک خوشی کی محفل سے لوٹنے کے بعد شیخ شلبی سے ملا قات کی جب وہ چلنے لگے تو شیخ نے مسکرا کر کہا :انشاء اللہ کل تم مجھ سے اس حال میں ملاقات کروگے کہ جب ہم روحیہ کو دفن کرینگے ۔
روحیہ ان کی وہی اکلو تی بیٹی تھی جو شادی کے گیارہ سال بعد خداوند عالم نے ان کو عطا کی تھی اور جس سے آپ کام کرتے وقت بھی جدا نہیں ہوتے تھے اب وہ جوان ہو چکی تھی اس کا نام روحیہ اس لئے رکھا تھا کیونکہ وہ ان کےلئے روح کی طرح تھی ۔
بنّا کہتے ہیں کہ : ہم نے اُن سے رو تے ہوئے سوال کیا کہ اس کا انتقال کب ہوا ؟شیخ نے شلبی نے کہا آج مغرب سے کچھ دیر پہلے ۔ہم نے عرض کیا :تو آپ نے ہم کو کیوں نہیں بتایا تا کہ ہم دو سرے گھر سے تشیع کی جماعت کے ساتھ نکلتے ۔؟شیخ نے کہا : کیا ہوا ؟ہمارا رنج و غم کم ہو گیا غم خو شی میں بدل گیا ۔کیا تم کو اس سے بڑی نعمت چا ہئے تھی ؟
گفتگو شیخ کے صوفیانہ درس میں تبدیل ہو گئی اور وہ اپنی بیٹی کی وفات کی وجہ یہ بیان کرنے لگے کہ خداوند عالم ان کے دل پر غیرت سے کام لینا چاہتا تھا کیونکہ خداوند عالم کو اپنے نیک بندوں کے دلوں کے سلسلہ میں اسی بات سے غیرت آتی ہے کہ وہ کسی دو سرے سے وابستہ ہوں یا کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہوں ۔انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال پیش کی جن کا دل اسماعیل علیہ السلام میں لگ گیا تھا تو خداوند عالم نے ان کو اسما عیل کو ذبح کرنے کا حکم دیدیا اور حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دل حضرت یوسف علیہ السلام میں لگ گیا تھا تو خداوند عالم نے حضرت یوسف کو کئی سال تک دور رکھا اس لئے انسان کے دل کو خداوند عالم کے علاوہ کسی اور سے وابستہ نہیں ہو نا چا ہئے ورنہ وہ محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا ۔
پھر انھوں نے فضیل بن عیاض کا قصہ چھیڑا جب انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ کا بوسہ لیا تو بیٹی نے کہا بابا کیا آپ مجھے بہت زیادہ دوست رکھتے ہیں ؟تو فضیل نے کہا : ہاں ۔بیٹی نے کہا : خدا کی قسم میں آج سے پہلے آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتی تھی ۔فضیل نے کہا :کیسے اور میں نے کیوں جھوٹ بولا؟بیٹی نے کہا کہ : میں سوچتی تھی کہ آپ خداوند عالم کے ساتھ اپنی اس حالت کی بنا پر خدا کے ساتھ کسی کو دو ست نہیں رکھتے ہوں گے ۔تو فضیل نے رو کر کہا کہ :اے میرے مو لا اور آقا چھوٹے بچوں نے بھی تیرے بندے کی ریا کاری کوظاہر کردیا ۔ایسی باتوں کے ذریعہ شیخ شلبی ہم سے روحیہ کے غم کو دور کرنا چا ہتے تھے اور اس کی مصیبت کے دردو الم سے ہو نے والے غم کوہم سے برطرف کرنا چا ہتے تھے ہم نے ان کو خدا حافظ کہا اور اگلے دن صبح کے وقت روحیہ کو دفن کردیا گیا ہم نے گریہ و زاری کی کو ئی آواز نہ سنی بلکہ صرف صبر و تسلیم و رضا کے مناظرکا مشا ہدہ کیا ۔
الله کےلئے اور الله کے بارے میں محبت
اب ہم مندرجہ ذیل سوال کا جواب بیان کریں گے الله کےلئے خالص محبت کے یہ معنی فطرت انسان کے خلاف ہیں چونکہ اللهنے انسان کو متعدد چیزوں سے محبت اور متعدد چیزوں سے کراہت کرنے والی فطرت د ے کرخلق کیا ہے اوراس معنی میں اللهسے خالص محبت کرنے کا مطلب یہ ہے انسان کی اس فطرت کے خلاف محافظت کرے جس فطرت پر اللهنے اس کو خلق کیا ہے ؟
جواب :اللهسے خالص محبت کرنے کا مقصد انسانی فطرت کا انکار کر نا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں سے اللهمحبت کرتاہے اور جن چیزوں کو ناپسند کرتاہے ان کی محبت اور کراہت کی توجیہ کرنا ہے لہٰذا پر وردگار عالم اپنے بندے اور کلیم حضرت موسیٰ بن عمران سے ان کے اہل کی محبت ان کے دل سے نکلوانا نہیںچاہتا ہے بلکہ خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ ان کے اہل وعیال کی محبت خداوندعالم کی محبت کے زیرسایہ ہو اور ہر محبت کےلئے بندے کے دل میں وہی ایک منبع ومصدر ہونا چاہئے دوسرے لفظو ں میں :بیشک پر وردگار عالم اپنے بندے اور کلیم موسیٰ بن عمران سے یہ چاہتا ہے کہ ہر محبت کو الله کی محبت کے منبع اور مصدرسے مر بوط ہونا چاہئے اس وقت بندے کی اپنے اہل وعیال سے محبت تعظیم کےلئے ہوگی یہی اس کا دقیق مطلب ہے اور تربیت کا بہترین اور عمدہ طریقہ ہے اور اسی طریقہ تک صرف اسی کی رسائی ہو سکتی ہے جس کو اللهنے اپنی محبت کےلئے مخصوص کرلیا ہے اور اس کو منتخب کرلیا ہے بیشک رسول الله (ص)لوگوں میں سب سے زیادہ پاک وپاکیزہ اور طیب وطاہرتھے آپ کا فرمان ہے میں دنیا کی تین چیزوں سے محبت کرتاہوں :عورت خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈ ک نمازہے ۔ (۱)
بیشک یہ وہ محبت ہے جو الله کی محبت کے زیرسایہ جاری رہتی ہے اور ان تینوں میں رسول خدا سب سے زیادہ نمازسے محبت کر تے تھے اس لئے کہ نمازان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے بیشک نماز سے رسول الله (ص)کی محبت الله کی محبت کے زیرسایہ جاری تھی ۔
پس الله سے محبت کرنے میں انسان کی فطرت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے جس فطرت پر الله نے انسان کو خلق کیاہے ۔بلکہ جدید معیار و ملاک کے ذریعہ حیات انسانی میں محبت اور عداوت کے نقشہ کو اسی نظام کے تحت کرنا ہے جس کو اسلام نے بیان کیا ہے ۔
انسان کی فطری محبت خود اسکے مقام پر باقی ہے لیکن جدید طریقہ کی وجہ سے الله کی تعظیم وتکریم کرنا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)الخصال صفحہ /۱۶۵۔
اس بنیاد پر الله کےلئے محبت اور الله کے سلسلہ میں محبت کی قیمت کےلئے اسلامی روایات میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے مروی ہے :
<المحبّةللهاقرب نسب>(۱)
”خدا سے محبت سب سے نزدیکی رشتہ داری ہے “
اور حضرت علی علیہ السلام کا ہی فرمان ہے :
<المحبّةفي اللهآکد من وشیج الرحم>(۲)
”خدا سے محبت خو نی رشتہ داری سے بھی زیادہ مضبوط ہے “
یہ تعبیر بہت دقیق ہے اور ایک اہم فکر کی طلبگار ہے ۔بیشک لوگوں کے اپنی زندگی میں بہت گہری رشتہ داری اور تعلقات ہوتے ہیں ۔ان تمام تعلقات میں رشتہ داری کے تعلقات بہت زیادہ معتبر ہیں ،اور الله تعالی کی محبت کی رشتہ داروں کی محبت سے زیادہ محبت کی تاکید کی گئی ہے جب انسان اپنی محبت اور تعلقات رشتہ داری کے ذریعہ قائم کرلے۔اسی محبت سے اور عداوت کی وجہ سے رشتہ داری کا مل اور ناقص ہوگی۔
رشتہ داروں کی محبت پر اس لئے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ جب الله کے علاوہ کسی اور سے محبت ہوگی تو اس محبت میں تغیر وتبدل ہوگا اور خلل واقع ہوگا ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں کے تاثرات دوسرے بعض لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں لیکن جب انسان اپنے بھائی سے الله کےلئے محبت کرے گا تو وہ بہت زیادہ قوی محبت ہوگی اور یہ محبت مختلف اور ایک دوسرے کےلئے متضاد محبت سے کہیں زیادہ موٴثر ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)میزان الحکمة جلد ۲ص۲۲۳۔
(۲)میزان الحکمةجلد ۲صفحہ/۲۳۳۔
الله کےلئے خالص محبت صرف انسان کے فطری تعلقات کی نفی نہیں کرتی بلکہ انسان پر اس بات پر زور دیتی ہے اور اس کے ذہن میں یہ بات راسخ کرتی ہے کہ اس محبت کو ایک بڑے منبع کے تحت منظم کرے جس کو ہر صدیق اور ولی خدانے منظم و مرتب کیا ہے ۔ پس الله کے نزدیک لوگوں میں وہ شخص زیادہ افضل ہوگا جو اپنے بھائی سے الله کی محبت کے زیر سایہ محبت کرے ۔حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
<ماالتقی موٴمنان قط الاکان افضلھمااشدّھماحبّالاخیہ>(۱)
”مو من جب بھی آپس میں ملیں گے تو ان میں وہ افضل ہو گا جو اپنے بھائی سے بہت زیادہ محبت کرتا ہو “
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ہی فرمان ہے :
<انّ المتحابین فی اللّٰہ یوم القیامة علی منابرمن نور،قد اضاء نوراجسادھم ونورمنابرھم کلّ شیٴ حتی یُعرفوابہ،فیُقال:ھوٴلاء المتحابّون فِيْ اللّٰہ >(۲)
”الله کی محبت میں فنا ہوجانے والے قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہو ں گے ان کے اجساد اور ان کے منبروں کے نور کی روشنی سے ہر چیزروشن ہو گی یہاں تک کہ ان کا تعارف بھی اسی نور کے ذریعہ ہوگا ۔پس کہا جائیگا :یہ لوگ الله کی محبت میں فناء فی الله ہوگئے ہیں “
روایت کی گئی ہے کہ پروردگار عالم نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے کہا :
<ھل عملت لي عملاً ؟قال:صلّیت لک وصمت،وتصدّقت وذکرت لک،فقال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ:امّا الصلاة فلک برھان،والصوم جُنّة،والصدقة قدظلّ،والذکرنور،فاٴي عمل عملت لی؟قال موسیٰ:دلّنی علی العمل الذي ھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحار الانوار جلد ۷۴ص۳۹۸
(۲)بحار الانوار جلد ۷۴ص۳۹۹۔
لک۔قال:یاموسیٰ،ھل والیت لي ولیّاوھل عادیت لي عدوّاًقطّ؟فعلم موسیٰ انّ افضل الاعمال الحبّ فی اللّٰہ والبغض في اللّٰہ >(۱)
”کیا تم نے میرے لئے کوئی عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا :
میںنے تیرے لئے نماز پڑھی ہے، روزہ رکھاہے ،صدقہ دیاہے اور تجھ کو یاد کیا ہے پروردگار عالم نے فرمایا :نماز تمہارے لئے دلیل ہے ،روزہ سپر ہے صدقہ سایہ اور ذکر نور ہے پس تم نے میرے لئے کونسا عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ نے عرض کیا :ہر وہ چیز جس پر عمل کا اطلاق ہوتا ہے وہ تیرے لئے ہے خداوندعالم نے فرمایا :کیا تم نے کسی کو میرے لئے ولی بنایااور کیا تم نے کسی کو میرا دشمن بنایا ہرگز؟تو موسیٰ کو یہ معلوم ہوگیا کہ سب سے افضل عمل الله کی محبت اور بغض میں فنا ہوجانا ہے“
حدیث بہت دقیق ہے نماز کےلئے امکان ہے کہ انسان اسکو الله کی محبت کے عنوان سے پیش کرے یا ممکن ہے نماز کو اپنے لئے جنت میں دلیل کے عنوان سے پیش کرے ۔روزہ کو ممکن ہے انسان الله کی محبت کےلئے مقدم کرے اور ممکن ہے اسکو اپنے لئے جہنم کی آگ سے سپر قرار دے لیکن اولیاء الله کی محبت اور الله کے دشمنوں سے برائت الله کی محبت کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے ۔
محبت کا پہلا سر چشمہ
ہم الله کی محبت کےلئے کہاں سے سیراب ہوں؟ہماری اس بحث میں یہ سوال بہت اہم ہے ۔ جب ہم الله کی محبت کی قیمت سے متعارف ہوگئے تو ہمارے لئے اس چیز سے متعارف ہونا بھی ضروری ہے کہ ہم اس محبت کو کہاں سے اخذ کریں اور اسکا سرچشمہ و منبع کیا ہے ؟
اس سوال کا مجمل جواب یہ ہے کہ اس محبت کا سرچشمہ ابتدا وانتہاء الله تبارک وتعالیٰ ہے۔ اس مجمل جواب کی تفصیل بیان کرنا ضروری ہے اور تفصیل یہ ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) بحارالانوار جلد ۶۹ص۲۵۳۔