اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

محبوب کی بارگاہ میں

محبوب کی بارگاہ میں

 

مھمان اور میزبان کے درمیان متعدّد قسم کے رابطے ھو سکتے ھیں  لیکن اگر یہ رابطہ عشق و محبّت کا رابطہ ھو تو ایسی مھمانی اور میزبانی میں  شیرین ترین و لطیف ترین نکتہ عاشق ومعشوق کی ملاقات اور ایک دوسرے سے ھمکلام ھونا ھوتا ھے۔عشق کی ملاقات میں  مقصود اصلی خود معشوق ھوتا ھے،نہ کہ اسکی عطا کردہ نعمتیں  اور اس ملاقات میں  عاشق و معشوق کی سب سے بڑی تمنّا یہ ھوتی ھے کی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ ھمکلام رھیں ۔

روزہ کے فلسفہ و اسرار میں  سب سے عمیق فلسفہ و سرّ اپنے معبود اور معشوق سے ملاقات کرنا اور ھمکلام ھونا ھے ۔ یہ انسانیت کا بلندترین مقام اور ایک انسان کے لئے بھترین لذّت ھے۔ اس لذّت تک پھونچنے کے لئے اس نے روزہ کے ذریعے اپنے آپ کو تمام حیوانی اور شھوانی لذّتوں  سے بلند کیا ھے ۔ روزہ رکہ کر اب وہ ذھنی و تخیّلی لذّتوں  سے آزاد ھو چکا ھے اب اسے غیبت کرنے یا سننے میں  لذّت کے بجائے کرب واذیت کا احساس ھوتا ھے۔ اب اس نے اپنی نظر کی تطھیر کر لی ھے،اب وہ آب و غذا کی لذّتوں  سے بلند ھو چکاھے اس لئے کہ اب وہ وصال محبوب کی لذّت سے آشنا ھو چکا ھے۔

روایت میں  ھے ” لِلصَّائِمِ فَرحَتَان حِیْنَ ی-َفْطُرُوَحِینَ یَلْقٖی رَبَّہ عزّ و جلّ“(۳۶) روزہ دار کودو مواقع پر فرحت و لذّت کا احساس ھوتا ھے ۔ایک افطار کے وقت کہ خدا نے توفیق دی اورروزہ مکمّل ھو گیا،مریض نھیں  ھوا ،سفر در پیش نھیں  آیا، شیطان نے مجھ پر غلبہ نھیں  کیااور خدا نے کسی دوسرے امر میں  مشغول نھیں  کیا اس لئے کہ خدا ھر ایک کو اپنی بارگاہ میں  آنے کا موقع نھیں  دیتا، وہ جنھیں  اپنی بارگاہ کے لائق نھیں  سمجھتا انھیں  دیگر امور میں  مشغول کر دیتا ھے ، کبھی سختیوں  اور مصیبتوں  میں  مبتلا کر دیتا ھے توکبھی کثرت سے نعمتیں  دے کر مشغول کر دیتا ھے۔

روزہ دار کی خوشی کا دوسرا موقع اپنے پروردگار کی ملاقات کے وقت ھے جب وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ھے۔ یہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ھے۔روز قیامت ایک گروہ کے لئے سب سے بڑا عذاب یہ ھو گا کہ ”لَا یُکَلِّمُھُمُ اللہ یَومَ الْقِیَامَةِ“(۳۷) خدا ان سے کلام نھیں  کرے گا۔ روز ہ دار کبھی قرآن پڑھتا ھے تاکہ خدا اس سے ھمکلام ھو، کبھی دعا کرتا ھے تاکہ وہ خدا سے ھمکلام ھواور کبھی وہ کچھ بھی نھیں  کرتا،زبان بھی خاموش ھوتی ھے لیکن پھر بھی خدا سے ھمکلام ھوتا ھے کیونکہ خدا سے ھمکلام ھونے کے لئے زبان اور آواز کی ضرورت نھیں  ھے۔

اگر انسان اس نکتے کو اچھی طرح درک کر لے کہ قرآن کلام خدا ھے اور وہ جب قرآن پڑھتا ھے خدا اس سے محو کلام ھوتا ھے تو پھر وہ قرآن کو فقط ثواب کے لئے نھیں  پڑھے گابلکہ قرآنی آیات کو اپنی زندگی میں  ڈھالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ایک انسان جب اپنے محبوب سے گفتگو کر رھا ھوتا ھے تو وہ اپنے پورے وجود سے اسکی باتوں  کو سننے ، سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرتا ھے ۔انسان اور قرآن کارابطہ اتناعمیق ھے کہ امام سجّاد علیہ السلام  فرماتے ھیں :”لَو مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَّا اسْتَوحَشْتُ بَعْدَ اَن یَکُون القُرَآنُ مَعی“(۳۸)اگر مشرق و مغرب میں  رھنے والے تمام افراد مر جائیں  اور اس دنیا میں  میں  تنھا رہ جاؤں اور قرآن میرے ساتھ ھو تو میں  ھرگز وحشت کا احساس نھیں  کروں  گا۔“

اسی طرح انسان اگر اس نکتہ کو بھی درک کر لے کہ دعا کرتے وقت وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ھے اور خدا بھت قریب سے اسکی دعاؤں  کو سن رھا ھے ”وَاذَا سَئَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ “(۳۹) تو پھر وہ خدا کی بارگاہ میں  معمولی اور پست چیزیں  نھیں  طلب کرے گا بلکہ وہ چیزیں  طلب کرے گا جو مقام انسانیت کے شایان شان ھیں  اور یہ بھی ممکن ھے کہ وہ کچھ طلب کرنے کے بجائے صرف اپنے معبود سے ھمکلام ھونے کے لئے دعا کر رھا ھواور اگر وہ کچھ طلب کر رھا ھو تو خدا سے خدا ھی کو طلب کر رھا ھو،اس لئے کہ اگر انسان کوخدا مل جائے تو کچھ نہ ھوتے ھوئے بھی اسے سب کچھ مل گیا اور اگر خدا نہ ملے تو سب کچھ پا کر بھی اسے کچھ نھیں  ملا۔

” مَا ذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَ مَاالَّذِی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ۔“

پروردگارا!اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا۔

                                                                 امام حسین علیہ السّلام (دعائے عرفہ)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment