کربلا جیسے کے نام سے ظاہر ہے چمنستان زہرا(ع)کے نونہالوں کی مظلومیت کی ایک پروردہ داستان ہے اور اہل بیت اطہار کے لیے بے کسی اور بے بسی کا ایک پرسوز باب ہے اور یہ باب آل رسول کی تنہائی مظلومی اور غم کی ایک تصویر ہے اور راکب روش مصطفی کی شہادت عظمیٰ پر آنسوؤں کا ایک عظیم سمندر۔
میدان کربلا حق وباطل کے خونیں معرکے کا ایک الم ناک نقشہ ہے فسق و فجور اورر شد ہدایت کی جنگ کا ایک غم ناک خاکہ بی بی زینب(ع)کے جلتے ہوئے خیموں کا دھواں ہے اور نواسہ رسول کے میدان کربلا میں دوڑنے والے گھوڑے کے قدموں کا غبار سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم اسلام کے مشن کے لیے امام مدینہ سے چلے اتنی مناز ل طے کرکے کربلا میں کیوں آئے؟ کیا یہ مرضی امام کے مطابق تھا یا قول رسول کی تصدیق تھی تاریخ عالم کے اوراق گواہ ہیں جب امام پیدا ہوئے تو جبرائیل نے رسول کو کربلا کی مٹی دی کہ آپ کا یہ نواسہ کربلا کے میدان میں شہید ہوگا جب حرُ نے امام کارستہ روکا تو امام نے گھوڑے کو آگے بڑھایا تو ایک مقام پر آکے گھوڑے نے اپنے قدم گاڑ دیئے امام نے پوچھا یہ کونسا مقام ہے آواز آئی کربلا امام نے وہ مٹی منگوائی جو جبرائیل نے رسول کو دی تھی دونوں کو سونگھ کر امام نے فرمایا یہ خاک وہی ہے جس کو جبرائیل نے نانا کو لاکر دی تھی بے شک یہ میری تربت کی مٹی ہے پھر خاک کو فرش پر بکھیر کر کہا "یہی وہ زمین ہے جہاں میرے حرم اسیر ہوں گے اطفال ذبح ہوں گے ہماری قبریں ا س زمین پر موجود ہوں گی اس زمین پر میرے نانا "دادا" ماں باپ کو انبیاء اور ملائکہ تعزیت پیش کریں گے۔
" مقتل ابومخنف" نے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح لکھی ہے۔ جب یہ جماعت ارض کربلا پر وارد ہوئی تو امام حسین(ع)کی سواری ایک مقام پر اچانک کھڑی ہوگی آپ نے ہر چند بڑھانے کی کوشش کی مگر وہ گھوڑا ایک قدم آگے نہ بڑھا تب امام عالی مقام نے پوچھا اس مقام کا کیا نام ہے۔ تو بتایا گیا ا س زمین کو کربلا کہتے ہیں یہ سن کر امام نے فرمایا خدا کی قسم یہی وہ مقام ہے یہی زمین "کرب" اور "بلا" کی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارا خون بہایا جائے گا اور جس کی خبر نانا نے دی تھی۔
وعظ کا شفی اور علامہ اردبیلی کا بیان ہے۔
جیسے ہی امام حسین(ع)نے زمین کربلا پر قدم رکھا وہ زرد ہوگئی اور ایک ایسا غبار اٹھا کہ آپ کا سر خاک آلود ہوگیا یہ دیکھ کر اصحاب ڈر گئے اور مخدرات عصمت نے رونا شروع کیا۔
"مائین" میں ہے اس دن ایک صحابی نے مسواک کے لیے بیری کے درخت سے شاخ کاٹی تو اس سے تازہ خون جاری ہوگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کربلا کا جغرافیائی تعارف کیا ہے۔
جو سر زمین کربلا کے نام سے موسوم ہے وہ دراصل ان قریوں اور زمینی ٹکڑوں کا مجموعہ ہے جو اس زمانے میں ایک دوسرے سے ملحق تھے عرب میں چھوٹے چھوٹے ارضی قطعات تھے جو مختلف ناموں سے موسوم ہوا کرتے تھے چنانچہ جب انہیں خصوصیت کے اعتبار سے دیکھا جاتا تو وہ کئی مقام منصور ہوتے تھے اور جب ان کے باہمی قرب پر نظر کی جاتی تو وہ سب ایک قرار پائے جاتے اور یہی وجہ ہے ایک مقام کا واقعہ دوسرے مقام سے منسوب کیاجاتا علامہ سید ہبتہ الدین شہر ستانی نے "نہضة الحسین" میں تحریر کیا ہے "کربلا کے محل وقوع کے تحت جو بہت سے نام مشہور ہیں۔ مثلاً نینوا' غاضریہ' اور شطر فرات وغیرہ انہیں ایک ہی جگہ کے متعدد نام نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ متعدد جگہیں تھی جو باہمی اتصال کی وجہ سے ایک سمجھی جاسکتی تھی اور اس لئے محل وقوع واقعہ کے اعتبار سے ہر ایک کا نام تعارف کے موقع پر ذکر کیا جانا درست ہے۔
" نینوا"
یہ ایک گاؤں تھا جس کے پہلو میں 'غاضریہ' تھا جو قبیلہ بنی اسد کی ایک شاخ غاضرہ سے نسبت رکھتا تھا غالباً یہ وہ زمین ہے جو اب "حسینیہ" کے نام سے مشہور ہے۔ اس جگہ "سفینہ" نامی ایک گاؤں تھا اور یہیں پر ایک قطعہ افتادہ اراضی کربلا کے نام سے تھی جو اب موجودہ شہر کربلا کا مشرقی و جنوبی حصہ ہے۔ اسی سے متصل "عقر بابل" نام کا ایک قریہ تھا جو غاضریات کے شمال ومفرب میں واقع تھا۔ جہاں اب کھنڈرات کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ یہ قریہ دریائے فرات کے کنارے آباد تھا اور ٹیلوں میں گھرے جانے کی وجہ سے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔اسی کے مقابل "غاضریات" کے دوسری طرف "نواویس" نام کا ایک مقام تھا جو اسلامی فتوحات سے پہلے ایک قبرستان تھا اس کے وسط میں "حیر" نام کی ایک زمین تھی جو اب "حائر" کے نام سے معروف ہے۔ اسی زمین پر امام حسین(ع)کی قبر مبارک ہے "حیر" ایک وسیع میدان تھا۔ جو تین طرف پہلو بہ پہلو ٹیلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ان ٹیلوں کا سلسلہ شمال و مشرق سے جدھر حرم حسینی کا باب الصدر اور منارہ عبد ہے شروع ہو کر مغرب کی جانب باب زینبیہ(ع) کی حدود تک پہنچتا تھا وہاں سے خم ہو کر در قبیلہ کے مقام پر آکر ختم ہو جاتا تھا۔ان ٹیلوں کے اجتماع سے ایک ہلالی نصف دائرہ کی شکل بنتی تھی اس دائرہ میں داخل ہونے کاراستہ اس طرف سے تھا۔ جدھر سے حضرت عباس(ع)کے روضہ اقدس میں جانے کا راستہ ہے۔ تحقیقاتی انکشاف سے اب تک یہ بات پائی گی ہے ان امکانات کے آثار جو قبر امام حسین(ع)کے گرد ہیں شمالی اور مغربی سمت کی بلندی پر ہیں اور نشیب کے علاوہ نرم مٹی کے اور کچھ نہیں اس مقام کی قدیمی صورت ایسی ہی تھی کہ مشرق کی طرف سے ہموار اور شمال اور مغرب کی طرف سے ہلالی شکل میں بلند اور ناہموار ہیں یہی وہ دائرہ ہے جہاں امام حسین(ع)کو گھیر کر شہید کر دیاگیا تھا۔
" فرات"
جسے ہم دریائے فرات کہتے ہیں اس کا براہ راست تعلق کربلا کی زمین سے نہیں تھا بلکہ وہ "حلہ" اور "میب" وغیرہ سے گزر کر کوفہ کے بیرونی حصہ کو سیراب کرتا تھا لیکن اس کی ایک شاخ مقام رضوانیہ کے پاس سے الگ ہو کر کربلا کے شمالی و مشرقی ریگستانوں سے ہوتی ہوئی اس مقام سے گزرتی تھی جہاں اب علمدار حسینی(ع)حضرت ابو الفضل العباس علمدار(ع)کا روضہ مبارک ہے۔
" طف"
"طف" کے معنی ہیں نہر کاکنارہ خصوصی طور پر دریائے فرات کے اس کنارے کو "طف" کہاجاتا ہے جو جنوبی پہلو میں "بصرہ" سے "ہیئت" تک تھا اس مناسبت سے "علقمہ" کے اس کنارے کو بھی طف کہاجانے لگاجس میں کربلا واقع تھا اس لیے کربلا کے واقعہ کو واقعہ الطف بھی کہا جاتا ہے اور کربلا کو شطر فرات بھی کہا جاتا ہے۔
یہ تھا مختصر تعارف اس سرزمین کا جو اس زمانہ میں گرم ریت کے ٹیلوں کھنڈرات لق و دق صحرا اور جنگلو ں کا نمونہ تھی لیکن امام کے خون نے اس زمین میں وہ تاثیر پیدا کردی اسے خاک شفا بنادیا اسے سجدہ گاہ بنا دیا اور آج دن رات ہزاروں لاکھوں زائرین اس زمین اقدس کو بوسے دے رہے ہیں۔ اس کربلا کو حسین(ع)نے کربلائے معلی بنا دیا۔
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پر لاش جگر گوشہ بتول(ع)
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خون رگ رسول
source : http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=97