اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ

 

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت نوح علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ۔اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔اسرائیل کے معنی ہیں عبداللہ یا خدا کا بندہ ۔ بنی اسرائیل ان کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسرائیل میں پھر حضرت موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام صحراۓ سینائی کے علاقہ میں پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔

جب حضرت داؤد علیہ السلام نے انتہائی طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کا پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صول نے حسب وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مشل سے کر دی ۔ صول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی مدد سے مسجد الاقصی اسی جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی ۔.586 قبل مسیح میں یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کرکے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ 

 اس کے سو سال بعد بنی اسرائیل واپس آنے شرو ع ہوئے اور انہوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کی مگر اس جگہ نہیں جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے عبادت گاہ بنوائی تھی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کرکے بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسرائیل نے بغاوت کرکے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کرکے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کرکے یہودیوں کو غلاموں کے طور بیچ کر شہر بدر کر دیا اور ان کا واپس بیت المقدّس آنا ممنوع قرار دے دیا ۔

614 عیسوی سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھلی چھٹی دے دی مگر انہوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم کئے ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639 عیسوی میں اس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 636 سے 1918 عیسوی تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا مسلمانوں کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے کچھ عرصہ کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔

بنی اسرائیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریّا علیہ السلام اور حضرت یحی علیہ السلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے انہیں بچا لیا اور ان کا کوئی ہم شکل قتل کر دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسرائیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے ۔

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=82840
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
کربلا،عقیدہ و عمل میں توحید کی نشانیاں
عدل و مساوات
حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر ...
عید فطر احادیث کی روشنی میں
عصمت انبيائ
قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب ...
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم تحفہ
امير المۆمنين حضرت علي (ع) شيخ مفيد کے مقتديٰ

 
user comment