خانداني مسائل کہ جو آج دنيا کے بنيادي ترين مسائل ميں شمار کيے جاتے ہيں ، کہاں سے جنم ليتے ہيں ؟ کيا يہ خواتين کے مسائل کا نتيجہ ہيں يا پھر مرد و عورت کے باہمي رابطے کے نتيجے ميں پيدا ہوتے ہيں؟ ايک خاندان اور گھرانہ جو دنيا ئے بشريت کا اساسي ترين رکن ہے، آج دنيا ميں اتنے بحران کا شکار کيوں ہے؟ يعني اگر کوئي بقول معروف آج کي متمدّن مغربي دنيا ميں خاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کا خواہ ايک مختصر سا ہي منصوبہ کيوں نہ پيش کرے تو اُس کا شاندار استقبال کيا جائے گا، مرد ، خواتين اور بچے سب ہي اُس کا پُرتپاک استقبال کريں گے۔
اگر آپ دنيا ميں ’’خاندان‘‘ کے مسئلے پر تحقيق کريں اور خاندان کے بارے ميں موجود اس بحران کو اپني توجہ اور کاوش کا مرکز قرار ديں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ ِاس بُحران نے اِن دو جنس يعني مرد وعورت کے درميان باہمي رابطے، تعلّقات اور معاشرے سے مربوط حل نشدہ مسائل سے جنم ليا ہے يا بہ تعبير ديگر يہ نگاہ و زاويہ، غلط ہے۔ اب ہم لوگ ہيں اور مقابل ميں مرد حضرات کے خود ساختہ افکار و نظريات ہيں، تو جواب ميں ہم يہي کہيں گے کہ خواتين کے مسئلے کو جس نگاہ و زاويے سے ديکھا جا رہا ہے وہ صحيح نہيں ہے اور يہ بھي کہا جا سکتا ہے کہ مردوں کے مسئلے کو اس زاويے سے ديکھنا بھي غير معقول ہے يا مجموعاً ان دونوں کي کيفيت و حالت کا اِس نگاہ سے جائزہ لينا سراسر غلطي ہے۔
رونا رلانا
ایک امریکن ادبی نقاد ایک مقام پر لکھتا ہے کہ مرد ایک ہنسوڑا جانور ہے اور عورت ایک ایسا حیوان ہے جو اکثر رونی شکل بنائے رہتا ہے۔
مصنف کی خوش طبعی نے اس فقرے میں مبالغے اور تلخی کی آمیزش کر دی ہے اور چونکہ وہ خود مرد ہے اس لئے شاید عورتوں کو اس سے کلی اتفاق بھی نہ ہو لیکن بہرحال موضوع ایسا ہے جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط وکتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیرمعمولی تفصیل اور رقت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔ گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لئے اپنی شناساؤں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کر دیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو، گلی میں روزمرہ آنے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو، کوئی اُڑتی اُڑتی خبر ہو ، کوئی افواہ ہو۔ غرض یہ کہ اس ہمدردی کا حلقہ بہت وسیع ہے:
"سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" نہ صرف یہ بلکہ رقت انگیر کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سب ہی اقوام کا ایک ہی سا حال ہے۔ غیرممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔ وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم والم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لئے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بستر مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک پر بھوکا اور ننگا کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھی رقت دلانی ہو تو اسے سید بنا دیتے ہیں۔ یہ کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مر رہی ہے۔ دوا کے لئے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دیتے جاؤ۔ کبھی کسی سگھڑ خوب صورت نیک طینت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا۔ یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا۔ اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زاروقطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔ خود عورت کی تصنیفات اکثر ہچکیوں میں لپٹی ہوئی اور آنسوؤں میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جو کتابیں عورتوں نے لکھی ہیں۔ اکثر میں نزع، بیماری، دق، سل، خودکشی، زہر، ظلم وتشدد، ایک نہ ایک چیز کا سماں باندھ دینا گویا فرض جانا۔ ہاں کوئی کروشیا یا کھانا پکانے کی کتاب ہو تو اور بات ہے۔
آخر یہ مصیبت کیا ہے۔ یہ بات بات پر صفِ ماتم بچھ جانا کیا معنی؟ بار بار سوچتا ہوں کہ آخر اس امریکن نقاد نے کیا غلط کہا؟ جل کے کہا سہی۔ لیکن بڑی بات کیا کہی!
کسی گھر میں موت واقع ہوجائے تو زنانے اور مردانے کا مقابلہ کیجئے۔ مردوں کا ماتم تو صاف دکھائی دیتا ہے۔ بیچارے گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ سر نیچا کئے چپ چاپ۔ آنکھیں سرخ ہیں۔ کبھی کبھی آنسو بھی ٹپک پڑتے ہیں یا کسی نہ کسی انتظام میں مصروف ہیں۔ چہرے پر تھکن اور اداسی بنی ہے اور قدم ذرا آہستہ آہستہ اٹھتے ہیں۔ اور زنانے کا ماتم تو دور دور سے موت کے گھر کا پتہ دیتا ہے۔ اور جب کوئی نئی فلاں بی بی ڈولی سے اتر کر اندر جاتی ہے تو ماتم کی بھنبھناہٹ میں ازسرنو ایک لہر اٹھتی ہے۔ جیسے یک لخت کوئی ہوائی جہاز سے گرپڑے۔ مرد تو دوسرے تیسرے دن کام میں مشغول ہوجاتے ہیں لیکن عورتوں کے ہاں مہینہ بھر کو ایک کلب قائم ہوجاتی ہے۔ گلوریوں پر گلوریاں کھائی جاتی ہیں اور چیخوں پر چیخیں ماری جاتی ہیں۔ کہیں بیمار پرسی کو جاتی ہیں تو بیمار میں وہ وہ بیماریاں نکال کر آتی ہیں جو ڈاکٹر کے وہم وگمان میں نہ تھیں۔ جتنی دیر سرہانے بیٹھی رہیں، بیمار کی ہر کروٹ پر ہاتھ ملتی ہیں۔ بے چارہ کہیں گلا صاف کرنے کو بھی کھانسے تو یہ سورة یٰسین تک پڑھ جاتی ہیں۔ رنگت کی زردی ، بدن کی کمزوری، سانس کی بےقاعدگی، ہونٹوں کی خشکی، ہر بات کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بیمار کو بھی اپنی یہ خطرناک حالت دیکھ کر چاروناچار مخنی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ جوں جوں بیمار پرس عورتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے موت قریب آتی جاتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ بعض عورتوں کو مریض کے بچ جانے پر صدمہ ہوتا ہوگا کہ اتنی تو بیمار پرسی کی اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
عورتیں نہ صرف دوسروں کے غم میں مزے لے لے کر روتی ہیں۔ بلکہ دوسروں کی اشک باری کے لئے خود بھی سامان مہیا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ ایک پرانے زمانے کے بزرگ اپنی اہلیہ کے متعلق فرمایا کرتے ہیں کہ ہماری گھر والی بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں کہ کوئی پڑوسن آکے کہہ دے! کہ اے بوا ماشا الله آج تو تمہارے چہرے پر رونق برس رہی ہے تو جھنجھلا کر بول اٹھتی ہیں کہ تیرے دیدوں میں خاک۔ میں تو مری جاتی ہوں اور میرا برا چاہنے والوں کو ابھی میں ہٹی کٹی نظر آتی ہوں۔ اور کوئی آکے کہہ دے کہ اے ہے بیٹی تجھے کیا ہو گیا۔ تُو تو دن بدن گھلتی جاتی ہے۔ نہ جانے تجھے کیا غم کھا گیا؟ تو ایسی پڑوسن کو فوراً خالہ کا لقب مل جاتا تھا۔ بڑی خاطر تواضع ہوتی تھی۔ گھر کا کام کاج چھوڑ کر شام تک ان کو اپنے دکھڑے سنائے جاتے تھے اور چلتے وقت وہ پانچ روپے قرض بھی لے جایا کرتی تھیں جن کی ادائیگی کے لئے کبھی تقاضا نہ کیا جاتا تھا۔
اپنے اوپر رحم دلانے کا مرض جس کسی میں بھی پایا جائے۔ بہت ذلیل مرض ہے لیکن عورتوں میں یہ اس قدر عام ہے کہ خوش حال گھرانے کی بہو بیٹیاں بھی گفتگو میں چاشنی پیدا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی دکھ وضع کرلیتی ہیں۔ اور موقع موقع پر سنا کر داد لیتی ہیں۔
اس تحریر سے میرا مطلب ان بہنوں کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں جو فی الواقع غمگین یا مصیبت زدہ ہیں۔ ان کی ہنسی اڑانا پرلے درجے کی شقاوت ہے۔ جو خدا مجھے نصیب نہ کرے۔ کسی کا غم ایسی بات نہیں جو دوسرے کی خوش طبعی کا موضوع بنے۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کا بہت سا دکھ، ضبط، تحمل، اور خندہ پیشانی سے دور ہوسکتا ہے۔ کسی مصیبت زدہ شخص کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ ہے کہ اس کا غم غلط کرایا جائے۔ کسی بیمار کی سب سے بڑی تیمارداری یہ ہے کہ اس کی طبیعت کو شگفتہ کرنے کا سامان پیدا کیا جائے۔ غم کو برداشت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو ضبط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مہذب شص کی یہی پہچان ہے۔ اپنے دکھ کے قصے کو بار بار دہرا کر کسی دوسرے شخص کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا گویا اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے۔ خود بھی ہنسو اور دوسروں کو بھی ہنساؤ۔ دنیا میں غم کافی سے زیادہ ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کرو، ہنسنا اور خوش رہنا دماغ اور جسم کی صحت کی نشانی ہے۔ غم نگار مصنفین کو میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص انمول ہے جو اپنی تحریر سے ہزارہا لوگوں کو خوش کردیتا ہے اور وہ شخص خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا جو اپنے زور قلم سے ہزارہا جوان، معصوم، خوش مزاج عورتوں اور مردوں کو رُلاتا ہے۔ اور رُلاتا بھی اس طرح ہے کہ نہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے نہ کوئی دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اور ہزار قابل افسوس ہے وہ شخص جو یہ سب کچھ کرکے بھی اپنی انشا پردازی پر ناز کرتا ہے۔
مغربي ممالک ميں عورت کي مظلوميت
خواتين اور گھرانے کے بارے ميں مغرب کا افراط و تفريط
سب سے پہلے مغربي معاشرے کي مشکلات اورمغربي ثقافت کے بارے ميں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، اُس کے بعد اسلام کا نقطہ نظر بيان کروں گا۔ اہل مغرب ، عورت کے مزاج کي شناخت اور صنفِ نازک سے برتاؤ ميں افراط و تفريط کا شکار رہے ہيں ۔ بنيادي طور پر عورت کے بارے ميں مغرب کي نگاہ دراصل غير متوازن اورعدم برابري کي نگاہ ہے۔ آپ مغرب ميں لگائے جانے والے نعروں کو ملاحظہ کيجئے، يہ کھوکھلے نعرے ہيں اور حقيقت سے کوسوں دور ہيں۔ ان نعروں سے مغربي ثقافت کي شناخت ممکن نہيں بلکہ مغربي ثقافت کو اُن کے ادب ميں تلاش کرنا چاہيے۔ جو لوگ مغربي ادب ، يورپي معاشرے کے اشعار، ادبيات،ناول، کہانيوں اور اسکرپٹ سے واقف ہيں ، وہ جانتے ہيں کہ مغربي ثقافت ميں قبل از قرون وسطيٰ کے زمانے سے لے کر اس صدي کے آخر تک عورت کو دوسرا درجہ ديا گيا ہے۔ جو فرد بھي اس حقيقت کے خلاف دعويٰ کرتا ہے وہ حقيقت کے خلاف بولتا ہے۔ آپ شيکسپيئر کے ناول کو ديکھئے،آپ ملاحظہ کريں گے کہ اس ناول ميں اور بقيہ مغربي ادب ميں صنف نازک کو کن خيالات ، کس زبان اور کس نگاہ سے ديکھا جاتا ہے۔ مغربي ادب ميں مرد،عورت کا سرادر،مالک اورصاحب اختيار ہے اور اس ثقافت کي بعض مثاليں اور آثار آج بھي باقي ہيں۔
آج بھي جب ايک عورت ، مرد سے شادي کرتي ہے اور اپنے شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي ہے تو حتي اُس کا خانداني نام (يا اُس کے اصلي نام کے ساتھ اُس کا دوسرا نام )تبديل ہوجاتا ہے اور اب اُس کے نام کے ساتھ شوہر کا نام ليا جاتا ہے ۔ عورت جب تک شادي نہيں کرتي وہ اپنے خانداني نام کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتي ہے ليکن جب وہ شوہر دار ہوجاتي ہے تو عورت کا خانداني نام، مرد کے خانداني نام ميں تبديل ہوجاتا ہے، يہ ہے اہل مغرب کي رسم! ليکن ہمارے ملک ميں نہ تو يہ رسم کبھي تھي اور نہ آج ہے۔ (ہمارے معاشرے ميں ) عورت اپنے خاندان (ميکے) کے تشخص کو اپنے ساتھ شادي کے بعد بھي محفوظ رکھتي ہے۔ يہ مغرب کي قديم ثقافت کي نشاني ہے کہ مرد، عورت کا آقا اور مالک ہے۔
يورپي ثقافت ميں جب ايک عورت اپنے تمام مال و منال کے ساتھ شادي کرتي تھي اور شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو نہ صرف يہ کہ اُس کا جسم ، مرد کے اختيار ميں ہوتا تھا بلکہ اُس کي تمام ثروت و دولت جو اُس کے باپ اور خاندان (ميکے) کي طرف سے اُسے ملتي تھي، شوہر کے اختيار ميں چلي جاتي تھي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جس کا انکار خود اہلِ مغرب بھي نہيں کرسکتے کيونکہ يہ مغربي ثقافت کا حصہ ہے۔ مغربي ثقافت ميں جب عورت اپنے خاوند کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو در حقيقت اُس کے شوہر کو اُس کي جان کا بھي اختيار ہوتا تھا! چنانچہ آپ مغربي کہانيوں ، ناولوں اور يورپي معاشرے کے اشعار ميں ملاحظہ کريں گے کہ شوہر ايک اخلاقي مسئلے ميں اختلاف کي وجہ سے اپني بيوي کو قتل کرديتا ہے اورکوئي بھي اُسے سرزنش نہيں کرتا! اسي طرح ايک بيٹي کو بھي اپنے باپ کے گھر ميں کسي قسم کے انتخاب کا کوئي حق حاصل نہيں تھا۔
البتہ يہ بات ضرور ہے کہ اُسي زمانے ميں مغربي معاشرے ميں مرد و خواتين کاطرززندگي ايک حد تک آزادتھا ليکن اِس کے باوجود شادي کااختيار اورشوہر کا انتخاب صرف باپ کے ہاتھ ميں تھا۔ شيکسپيئر کے اِسي ناول ميں جو کچھ آپ ديکھيںگے وہ يہي کچھ ہے کہ ايک لڑکي کو شادي پر مجبور کيا جاتا ہے، ايک عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوتي ہے اور آپ کو ايک ايسا گھر نظر آئے گا کہ جس ميں عورت سخت دباو ميں گھري ہوئي ہے، غرض جو کچھ بھي ہے وہ اِسي قسم کا ہے۔ يہ ہے مغربي ادب وثقافت !موجودہ نصف صدي تک مغرب کي يہي ثقافت رہي ہے۔ البتہ انيسويں صدي کے اواخر ميں وہاں آزادي نسواں کي تحريکيں چلني شروع ہوئي ہيں۔source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=60285