اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

منشور اتحاد اسلامي کا مسودہ

 

چودہ سوانتيس مطابق 2008ميں منعقد ہونے والي وحدت اسلامي کانفرنس کے پيش نظر عالمي مجلس براے تقريب وحدت اسلامي علماء،دانشوروں اور مفکرين اسلام سے اپيل کرتي ہےکہ اتحاد اسلامي کے مسودہ ذيل پراپنے نظريات اور تجويزيں پيش کريں۔

بسم اللہ الرحمن الرحيم الحمد للہ رب العالمين والصلاۃ والسلام علي سيد البشريۃ و مقتداھا محمد النبي الامين و آلہ الطاھرين وصحبہ الميامين ومن تبعھم باحسان الي يوم الدين ۔ اس امر پر ايمان رکھتے ہوئے کہ اسلام مسلمانوں کے پاس امانت الھي ہے اور اس کا اوراس کے مقدسات کا دفاع کرنا سب پر واجب ہے اور اسلام کي اس تاکيد کہ پيش نظر کہ ان تمام امورپر عمل کرنا واجب ہے جو مسلمانوں ميں اتحاد اور بھائي چارے کا سبب بنتے ہيں اور گفتگو کي ثقافت کو رواج ديتے ہيں اور جن کے سبب مسلمانوں ميں تعاون،يکجھتي اور ہمدردي کو فروغ ملتا ہے نيز اسلام کے اعلي اھداف پورے ہوتے ہيں۔اسي طرح اسلام و مسلمين ان کي ثقافت،اقتدار،مفادات،اور آزادي پر عالمي سامراج کے وسيع حملوں کے پيش نظر اس کا مقابلہ کرنے کي ضرورت کے تحت ہم اس منشور پر دستخط کرنے والے مکہ مکرمہ،تہران ،امان اور قاہرہ ميں علماء اسلام کي گران قدر کوششوں کو سراہتے ہوئے مندرجہ ذيل اصولوں اور روشوں پر اپنے ايمان و يقين کا اعلان کرتے ہيں اور امت مسلمہ کے لئے ان کي پابندي ضروري قرارديتے ہيں ۔ 

اسلامي اتحاد کےاصلي محور

1۔دين اسلام دين خاتم اور انسان کي سعادت کا واحد راستہ ہے۔مسلمان اس دين کے امانت دار ہيں لھذا مسلمانوں کو چاہيے کہ اسلامي تعليمات کو زندگي کے ہرشعبہ ميں نافذکريں،اس کے مقدسات کا دفاع کريں اور اس کے مفادات کو تمام مفادات پر مقدم رکھيں۔

2۔قرآن مجيد اور سنت نبوي علي صاحبھا آلاف التحيۃ والثناء اسلامي قانون سازي کے بنيادي مصدرہيں ۔تمام اسلامي مذاھب قرآن و سنت نبوي کي حقانيت و حجيت پر يقين رکھتے ہيں اور ديگر منابع شريعت کا اعتبار بھي قرآن و سنت کے مطابق ہونے کي بناپر ہے ۔

3۔مندرجہ اصول وارکان پر ايمان مسلمان ہونے کا معيار ہے ۔

 الف :خدا کي وحدانيت پر يقين ب:رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نبوت و خاتميت پر يقين اور يہ کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي سنت دين کے بنيادي منابع ميں ايک ہے ۔ج:قرآن کريم اس کے مفاہيم و احکام پر ايمان کہ وہ دين اسلام کا بنيادي منبع ہے ۔د:دين کے مسلمہ اصولوں اور ارکان جيسے نماز،روزہ، زکات ،حج وجھاد پر يقين اور ان کا انکار نہ کرنا ۔ھ:معاد پر ايمان۔

4۔اسلام نے اسلامي منابع کے دائرے ميں اجتھاد کو تسليم کيا ہے اور فکري اختلافات کي بھي اجازت ديتاہے بنابريں ہرمسلمان کے لئے ضروري ہےکہ اجتھاد کو فطري امر تسليم کرتے ہوئے ايک دوسرے کے نظريات کا احترام کرے۔

 5۔اسلامي امت کا اتحاد اور اسکے عام مفادات کا تحفظ مسلمانوں کا ايک بنيادي اصول ہے جو اخوت اسلامي ،ہرطرح کے باہمي تعاون اور يکجھتي کي اساس ہے ۔ 6۔لائحہ عمل ۔

عالم اسلام کے علماء،مفکرين اور دانشوروں کے لئے ضروري ہے کہ مندرجہ ذيل امورکو نصب العين بناليں ۔

الف۔آج کے اسلامي معاشروں کو صدر اسلام کي صورتحال سے نزديک کرنے کي کوشش کي جاے تاکہ مسلمانوں ميں ديني برادري ،تعاون ،تقوے ،اور چيلنجوں سے مقابلہ کرنے کے جذبات کو فروغ ملے اور مسلمان ايک دوسرے کو حق و صبر کي تلقين کرسکيں اور ان تمام چيزوں سے دوري اختيارکرسکيں جن سے ان ميں تفرقے ،رسہ کشي اور کمزوري کا باعث ہوسکتے ہيں ۔

ب۔: مسلمان اپني زندگي ميں ائمہ دين کي سيرت کو نمونہ عمل بنائيں اور اس کوراوج دينے کي کوشش کريں۔

ج: ۔مسلمانوں ميں اتحاد ويکجھتي کے جذبات کو فروغ ديا جاے تاکہ وہ ايک دوسرے کے فکري اختلافات کو تسليم کريں اور اسے موازين شرع کے مطابق اجتھاد کا نتيجہ تسليم کريں۔

7۔عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں کے لئے ضروري ہے کہ وہ اسلامي بيداري کي تحريک کو استحکام پہنچائيں اور اسکي سربراہي کريں۔مسلمانوں کو ايک دوسرے سے آشنا کرنے کي غرض سے اسلامي مذاھب کے پيرووں کے ميل جول کو بڑھاواديں ،ديني الفت ،اخوت اسلامي کو اسلام کے ثابت اور مشترکہ اصولوں کي اساس پر رائج کريں ۔

8۔تقريب مذاھب اسلامي (اسلامي مذاھب کے درميان قربت لانا) ايک ايسا امر ہے جوعقائد فقہ اخلاق اور تہذيت و تمدن سميت زندگي کے تمام پہلووں پرمحيط ہے ۔

 9۔تقريب مذاھب کے لئے عام پروگرام  تقريب مذاھب کےلئے مذکورہ بالا امورکے علاوہ ديگر اصولوں پر عمل درآمد بھي ضروري ہے جو مندرجہ ذيل ہيں ۔1۔مسلمانوں کے متفقہ امور پر مکمل تعاون 2۔اعلائي کلمۃ اللہ اور نفاذ احکام اسلامي کے لئے تمام ترمادي اور معنوي وسائل سے استفادہ ۔3۔دشمنان اسلام کے مقابل خاص طورسے امت اسلاميہ کے اہم مسائل جيسے عراق و افغانستان و فلسطيني وغيرہ کے حل کے لئے  متحدہ اور متفقہ موقف ۔4۔مسلمانوں کو ايک دوسرے پر کفر و فسق و بدعت کا الزام لگانے سے پرہيز کرنا چاہيے ۔ ہميں مسلمان ہونے کے ناطے اجتھاد کے جواز کو تسليم کرتے ہوئے ايک دوسرے کے فکري اختلافات کا احترام کرنا چاہيے اور فکري اختلافات کي بناپر ايک دوسرے کے ايمان و کفر کے بارےميں فيصلہ کرنے کے بجائے نظريے کے صحيح اور غير صحيح ہونے کے بارےميں فيصلہ کرنا چاہيے ۔اسي طرح ملازمات قول و نظرکے باعث کسي پرکفر کا فتوي نہيں لگانا چاہيے ۔5۔ايک دوسرےکے مقدسات کي بے حرمتي نہ کريں ۔جب اسلام نے ديگر اديان کے ساتھ رواداري کاحکم ديا ہے تو ہميں بدرجہ اولي چاہيے کہ ايک دوسرےکے مقدسات کا احترام کريں ۔اس سلسلےميں اھل بيت رسول اکرم صلي اللہ وعليہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کااحترام سرفہرست ہے ۔6۔لوگوں کي کمزوري اور ضرورت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کسي تنظيم يا حکومت کو ان کوکسي خاص مذھب کے قبول کرنے پر مجبور نہيں کرنا چاہيے بلکہ مذکورہ اصولوں کے مطابق معتبر مذاھب کو تسليم کرتے ہوئے ان کے پيرووں کو مکمل حقوق دئے جانے چاہيں ۔7۔شخصي احکام پر عمل کرنے ميں ہرشخص کو آزادي ہوني چاہيے ۔فردي اور شخصي مسآئل پر عمل کرنے ميں ہرمذھب کے ماننے والے اپنے مذھب کے مطابق عمل کرنے ميں آزاد ہيں ليکن عام قوانين پر عمل کرنے ميں وہ اپنے ملک کے تابع ہونگے۔8قرآن کريم نے جونکہ مسلمانوں کو حصول حقيقت کے لئے صحت مند اور منطقي گفتگو کي دعوت دي ہے لھذا مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ انساني آداب و اخلاق کي پابندي کرتے ہوئے گفتگو کے ذريعے اپنے راختلافات حل کرنے کي کوشش کريں ۔9۔اھل اسلام کے نزديک تاريخ،عقائد اور فقہ ميں بحث جاري ہے البتہ ان علوم ميں بحث کرنے کا حق صرف ماہرين اور اصحاب نظر کوہے اور اس کے لئے برادري ،غير جانبداري اور حقيقت پسندي کي ضرورت ہے ۔اسي طرح اعتقادي ،فقہي اور تاريخي بحثوں کے خاص مراکز کي تاسيس کي بھي ضرورت ہے۔10۔فقہ اتحاد اسلامي کي تعليم ۔اختلافات کے براداشت کرنے کے آداب،فقہ،کلام ،تفسير موضوعي و تطبيقي جيسے موضوعات پر باہمي احترام کے اصولوں کے مطابق بحث ہونا چاہيے ۔11۔کتاب و سنت کے پابند تربيتي مکاتب فکر کا احياء تاکہ عوام ميں انتھا پسند مادي رجحانات کم ہوں اور اسلامي اصولوں سے ناآگاہ نئے مسالک عوام کو دھوکہ دينے سے باز رہيں ۔12۔علماء اسلام کو تمام علمي اور عملي طريقوں سے اعتدال پسندي کے طريقوں کورائج کريں تاکہ اعتقادي ،فقہي اور تربيتي مذاھب کے تعلق سے نقطہ ہائي نگاہ کي اصلاح ہوسکے ۔علماء کو اس بات پر زور دينا چاہيے کہ اسلامي مذاھب کے مابين اختلافات تنوع و تکامل کي شکل ہے تضاد و دشمني نہيں ہے ۔اسي طرح علماء کو ہر اسلامي مذھب کي شناخت کي ضرورت پر بھي زوردينا چاہيے۔13۔انتھا پسند اور تشدد پسند اور قرآن و سنت کے سے متعارض مکاتب فکر سے مقابلہ کي ضرورت ہے اوريہ بھي ضروري ہےکہ ايسے گروہوں کے رجحانات کو اسلامي معيارات پر تولا جاے ۔14۔اسلامي مذاھب کو ان کے پيرووںکے غلط اقدامات کا ذمہ دار قرارنہ ديا جاے اور ايسے اقدامات کا سد باب کيا جائے جن سے ان کي طرف کفر و گمراہي کا الزام عائد ہوسکتاہو۔اسي طرح اشتعال انگيز اقدامات کا سد باب کيا جاے جن سے مسلمانوں ميں تفرقہ اور اختلافات پھيلتے ہوں ۔16۔ان ہي لوگوں کو فتوي دينے کا حق حاصل ہے جو فقہ و اصول ميں مہارت رکھتے ہوں اور منابع شريعت سے احکام دين کا استنباط کرنے کي صلاحيت کے حامل ہوں ۔اور زمانے کے تقاضوں،حالات اور موصوعات سے آگاہ ہوں ۔

 


source : http://www.shiacenter.org/urdu/index.php?view=article&catid=7:2008-03-08-19-56-58&id=372:2008-07-19-02-16-22&option=com_content&Itemid=23
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شعب ابی طالب سے غزہ تک
آخري سفير حق و حقيقت
نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ...
غیب پر ایمان
اھل بيت (ع) کي شان ميں کتب
انٹرنیٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں
تربیت کا اثر
امام کے معصوم ھونے کی کیا ضرورت ھے اور امام کا ...
انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
انبیاء الہی کی حمایت اور ان کی پیروی

 
user comment