اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

دین کی فاسد اخلاق سے جنگ

قرآن مجید ایک مختصر اور سادہ  ترین جملہ میں بھت ھی دلچسپ انداز سے غیبت کی حقیقت کو بیان کرتا ھے

” ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا “

”کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ

 اپنے مرے ھوئے بھائی کا گوشت کھائے “

مذھبی رھنماؤں نے جس طرح شرک و بیدینی کا مقابلہ کیا ھے اسی طرح اندرونی صفات کی اصلاح کی طرف بھت زیادہ توجہ دی ھے ۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں: مجھے اس لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ھے تاکہ مکارم اخلاق کو منزل کمال تک پھنچا دوں، اسی لئے آپ نے بڑی متین منطق اور سعادت بخش پروگرام کے ذریعہ لوگوں کی رھبری فرمائی ھے اور حدود فضیلت سے باھر جانے کو جرم قرار دیا ھے اور بڑی سختی کے ساتھ اس سے روکا ھے۔ نہ صرف غیبت کا سننا اور غیبت کرنا گناہ ھے بلکہ شارع اسلام نے شخص غائب کی حیثیت کا دفاع کرنا بھی ھر مسلمان کا فریضہ قرار دیا ھے۔ چنانچہ ارشاد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھے :

 اگر کسی مجمع میں کسی شخص کی غیبت کی جائے تو تمھارا فریضہ ھے کہ جس کی غیبت کی جا رھی ھے اس کا دفاع کرو اور لوگوں کو اس کی غیبت سے روکو اور وھاں سے اٹھ کر چلے جا وٴ ۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں :

'' جو شخص اپنے برادر مومن کی غیبت کا دفاع کرے اللہ پر اس کا حق ھے کہ اس کے جسم کو جھنم سے بچائے ۔ ''

جو شخص بھی اپنے برادر مومن کی عدم موجودگی میں اس کی آبرو کا دفاع کرتا ھے خدا اس کو عذاب جھنم سے بچا لیتا ھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں :

'' جو شخص کسی مسلمان کی غیبت کرتا ھے خدا چالیس دن تک اس کی نماز اور اس کے روزے کو قبول نھیں کرتا ۔ ھاں جس کی غیبت کی گئی ھے اگر وہ معاف کر دے تب قبول کر لیتا ھے۔''

 ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ھیں :

''جو شخص کسی مسلمان کی ماہ رمضان میں غیبت کرتا ھے

 خدا اس کے روزے کے اجر کو ختم کر دیتا ھے''۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واقعی مسلمان کی پھچان بتاتے ھوئے فرماتے ھیں : وھی شخص مسلمان ھے جس کی زبان اور جس کے ھاتہ سے تمام مسلمان محفوظ رھیں ۔ بھت ھی واضح سی بات ھے کہ غیبت کرنے والا حصار فضیلت سے باھر ھو جاتا ھے ۔ اور اپنے کو انسانیت کی نگاہ میں ذلیل کر لیتا ھے مسلمانوں کا اجماع ھے کہ غیبت گناہ کبیرہ ھے کیونکہ غیبت کرنے والا علاوہ اس کے کہ دستور الٰھی کی مخالفت کرتا ھے وہ حق خدا کی بھی رعایت نھیں کرتا ھے اور حقوق مردم پر تعدی کرتا ھے ۔

جس طرح مردہ جسم اپنا دفاع نھیں کر سکتا اور نہ اپنے بدن پر ھونے والے ظلم کو روک سکتا ھے بالکل اسی طرح شخص غائب اپنی آبرو کی حفاظت نھیں کر سکتا اور نہ اس کا دفاع کر سکتا ھے۔ جس طرح مسلمان جان کی حفاظت ضروری ھے اسی طرح اس کے آبرو کی بھی حفاظت ضروری ھے ۔

غیبت و بد گوئی کی علت روحانی دباؤ اور رنج و غم ھوتا ھے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :

''کمزور و ناتوان شخص کی انتھائی کوشش غیبت کرنا ھے ۔ ''

ڈاکٹر ھیلن شاختر کھتا ھے : انسان کی جو بھی حاجت پوری نھیں ھوتی وہ رنج و الم کا سبب بن جاتی ھے ۔ اور ھر رنج و غم ھم کو اس کے دفاع و تدبیر پر آمادہ کرتا ھے ۔ لیکن الم و تکلیف کے دور کرنے کا طریقہ ھر شخص کا ایک جیسا نھیں ھوتا ۔ جب انسان دوسروں کو دیکھتا ھے کہ وہ اس کی طرف اس طرح متوجہ نھیں ھوتے جس طرح وہ چاھتا ھے تو وہ گوشہ نشین ھو جاتا ھے ۔ اور اس خوف سے کہ کھیں لوگوں کے درمیان اس کی ذلت و رسوائی نہ ھو جائے وہ ملنے جلنے پر تنھائی اور گوشہ نشینی کو ترجیح دیتا ھے ۔ اور اگر لوگوں کے درمیان بیٹھتا بھی ھے تو مضطرب، پریشان خوفزدہ ھو کر ایک کنارے میں بیٹھتا ھے اور ایک کلمہ بھی نھیں کہتا اورخاموش و ساکت بیٹھا رھتا ھے اور پھر اپنے احساس کمتری کو دور کرنے کے لئے دوسروں سے مسخرہ پن کرتا ھے اور بے جا قہقھے لگاتا ھے ۔ اور یا غیر موجود لوگوں کی بدگوئی کرتا ھے ۔ یا موجود ہ لوگوں سے جھگڑنے لگتا ھے ۔ اور یا دوسروں پر اعتراض کرنے لگتا ھے ۔ ان تمام طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اپنا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ھے ۔

ڈاکٹر مان اپنی کتاب ” اصول علم نفس “ میں کہتا ھے : اپنی شکست کا جبران کرنے کے لئے اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے انسان کبھی اپنے گنا ہ کو دوسروں کے سر منڈہ دیتا ھے اور اس طرح اپنی ذات کے احترام کو اپنی نظر میں محفوظ کر لیتا ھے ۔ اور اگر امتحان میں فیل ھو گیا تو کبھی معلم کو اور کبھی امتحانی سوالات کی ملامت کرتا ھے ۔ اور اگر وہ اپنے حسب منشاء مقام و عھدہ نھیں پاتا تو کبھی اس عھدے کی برائی کرتا ھے ۔ اور کبھی اس شخص کی جو اس عھدے پر فائز ھے، اس کی ملامت کرتا ھے  اور کبھی اپنی شکست کی پوری ذمہ داری ایسے دوسرے لوگوں کے سر ڈال دیتا ھے  جن کا اس سے کوئی واسطہ بھی نھیں ھوتا ۔

ان چیزوں سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خود ھمارا فریضہ ھے کہ ایک روحانی جھاد کرکے خلوص نیت کے ساتھ اپنے بلند جذبات کو تقویت پھونچائیں اور سب سے پھلے اپنے نفس کی اصلاح و تھذیب کی کوشش کریں تاکہ نیک بختی کی سر زمین پر قدم جما سکیں اور اپنے معاشرے کی ھر پھلو سے اصلاح کر سکیں ۔

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=65334
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

معروف اور منکر کے معنی
تشیع کے اندر مختلف فرقے
شیطانی تہذیب کا جبر اوراصلاحِ معاشرہ
میاں بیوی کے باہمی حقوق
مومن کی شان
ڈنمارک ؛ ڈینش نوجوانوں میں دین اسلام کی مقبولیت
يورپي معاشرے ميں عورت کے متعلق راۓ
عصر حاضر کے تناظر میں مسلمانوں کا مستقبل-2
اسلام کی نگاہ میں خواتین کی آزادی
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت

 
user comment