بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نہج البلاغہ کا تعارفی جائزہ
محقق:- ڈاکٹر میر محمد علی
تمہید:
تمام حمد اس اﷲ تعالیٰ کے لئے سزا وار ہے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں ۔ جس کی نعمتوں کو شمار کرنے والے گن نہیں سکتے اور کوشش کرنے والے اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ۔ وہ رب العالمین ہر مقصد کی آخری غایت ہے اور تلاش کی آخری حد ہے۔ ( حضرت علی علیہ السلام ، نہج البلاغہ )
ہم مولائے کائنات کو ایک امام اور عظیم ہستی مانتے ہیں۔ ہماری تمام تر محبت اور فدائیت ان کے ساتھ ہے اور ہم نے تاریخ کے طویل سفر میں اپنے اس رویہ پر نہ صرف فخر کیا ہے بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بڑی قربانیاں بھی دیں کیوں کہ علی(ع) سے ہماری وابستگی ہی ہماری امتیازی شناخت ہے لیکن کیا ہم نے ان کو اس طرح پہچانا جس کا حق تھا یا ہے؟ ''علی اور تنہائی '' کے عنوان پر اپنی ایک تقریر میں ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ہم مولا کی ستائش میں زیادہ مصروف ہیں اور ان کو پہچاننے میں نہیں۔ ان کی رائے میں علی کی شناخت کا مضمون ابھی نامکمل ہے اور رہے گا۔ (١) اس لئے ضرور ی ہے کہ محراب و منبر اور دیگر میڈیا سے جہاں جہاں ہماری دسترس ہو ہم ایسی باتیں کہیں جس کے زریعہ ہم علی علیہ السلام کو مزید پہچان سکیں۔
مولائے کائنات کو سمجھنے کے لئے ہمارے سامنے ان سے متعلق بے شمار حوالے اور ماخذ ہیں اور ان کی تعریف میں لکھی جانے والی تحریر یں۔ تبصرے، نظم ، نثر اور سوانح کی کتابیات سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود علی(ع) کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ استبدادی رویوں کے باوجود آپ کے بارے میں اتنی شہادتوں کا باقی رہ جانا خود ایک معجزہ سے کم نہیں۔ لیکن مصنفین اور مولفین کا اپنا ایک رنگ و رجحان رہتا ہے۔ ان ذاتی خیالات کی وجہ سے ممدوح کا حقیقی کردار واضح نہیں ہو تا یا اس میں ایک طرح کی تحلیل واقع ہو جاتی ہے یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کسی انسان کی صحیح شناخت اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولتا ہے۔ اس کا کردار اور شخصیت اس کے کلام ، اقوال اور تحریروں میں جھلکتی ہے اس لئے علی(ع) کی حقیقی شناخت کے لئے ان کا اپنا کلام ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ اس کلام کے مجموعہ کا نام'' نہج البلاغہ'' ہے عربی اور فارسی میں ''نہج البلاغہ '' سے متعلق کافی مواد موجود ہے مگر اردو دان طبقہ کی یہ محرومی ہے کہ ہمارے پاس اس ضمن میں بہت کمی ہے میری نا چیز رائے میں علی(ع) کی صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے ''نہج البلاغہ '' سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ''نہج البلاغہ'' کے تعارفی جائزہ کے اس مقالہ میں اس کی ابتدائ، اس کے مولف ، اس کا اسلوب بیان، مختلف نسخے ترجموں اور شرحوں کے تناظر میں اس کتاب کی عظمت کو اجاگر کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی گئی ہے۔
نہج البلاغہ کی ابتدائ:
جس زمانے میں اسلام دور دراز ممالک میں پھیل رہا تھا، علی(ع) مدینہ میں مسلمان عربوں کی ابھرتی ہوئی قوم کی دماغی قوت بڑھا رہے تھے، مدینہ کی جامع مسجد میں علی اور ان کے چچا زاد بھائی عبداﷲ ابنِ عباس فلسفہ، منطق، فصاحت، و بلاغت، حدیث وقفہ پر خطبات اور درس دیا کرتے تھے ۔ یہ ابتداء تھی اس دماغی تحریک کی جو بعد میں بہت زور و شور سے بغداد میں ظہور پزیر ہوئی ۔ علامہ ضمیر اختر نقوی نے اپنے ایک مقالہ ''علی اور علم'' میں مشہور مورخین اور صاحبِ قلم افراد بشمول جسٹس امیر علی ، جے جے پول اور خلیل جبران کے حوالہ سے اس صورتِ حال کی مزید اس طرح وضاحت کی کہ:
'' علی نے اپنے عہدِ حکومت میں کوفہ کو در الحکومت ہی نہیں بلکہ دار العلم بھی بنا دیا تھا کوفہ کی مسجد میں ہزاروں اصحاب کے سامنے جس میں نہ صرف عرب بلکہ غیر عرب، عجم اور قبطی سبھی ہوتے تھے مختلف عنوانات مثلا الہیٰات، طبعیات، اخلاق، سیاست ، تمدن و معاشرت، تخلیقِ کائنات، فنون و نظام عسکری پر برابر تقریریں فرماتے تھے۔ علی(ع) کی نظر مستقبل پر تھی وہ یہ جانتے تھے کہ تقریر کی حفاظت کے لئے اس کو ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے(اس وقت کے تقاضہ) اسی وجہ سے انہوں نے اپنے زمانہئ خلافت میں مصنفین اور جمع کنندوں کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ ان کو اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ اس حکمت ِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے عہدِ خلافت میں اہلِ قلم آپ کے خطبات اور اقوال کو محفوظ کرنے لگے۔ ان افراد میں امام حسن (ع) ، امام حسین (ع) کے علاوہ عبداﷲ ابن عباس، جابر ابنِ عبداﷲ انصاری، اسبع بن نباتہ، کمیل ابن ِ زیاد اور حسن بصری کے نام لائق ذکر ہیں۔ ''(٢)
یہی چیدہ چیدہ تحریریں بعد کے مولفین اور جمع کنندوں کے لئے ایک بے بہاذ خیرہ ثابت ہوئیں۔
سید رضی اور نہج البلاغہ
کلام امیر المومنین کے جمع کرنے والوں میں سب سے ممتاز نام سید رضی کا ہے۔ ابو الحسن محمد بن حسین ملقب بہ شریف رضی، معروف بہ سید رضی کا تعلق امام ہفتم کی پانچویں پشت سے تھا۔ وہ ٢٥٩ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے ان کا گھرانہ ہدایت ، عزت اور شوکت کا محور تھا اور معاشرہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ ان کا شمار چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر کے دانشوروں میں ہوتا ہے۔ بچپن ہی سے حصولِ علم، شعر و ادب میں اپنے ساتھیوں میں بہت ممتاز پائے گئے ۔ سب سے پہلے امتیاز و اعجاز قرآن سے متعلق تحقیق کے نتیجہ میں ''حقائق التاویل'' نامی تفسیر لکھی۔ بعد ازاں آنحضرت کی ٣٦١ احادیث کی انواع و استعارہ، مجاز اور باریک نکات کی تشریح پرمبنی ایک کتاب ''المجازات النبویہ'' تالیف کی ۔ ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث کے بعد ان کا اگلا ہدف کلام امیر المومنین ہی ہوسکتا تھا۔ شاعری قبلہ قریش کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ خود بھی عرب کے بہترین شعر اسے تھے اپنی اس شاعرانہ، حسن کو کام میں لاتے ہوئے اسنہوں نے کلمات علی سے لفظی و معنوی حیثیت اور بلاغت کے لحاظ سے معتبر ترین کلمات کا انتخاب کیا اور ان کو خطبات، خطوط اور مختصر اقوال کے تین ابواب پر مشتمل کتاب کی صورت میں رجب ١٤٠٠ھ میں مکمل کیا ( جب کہ عمر ٤٠ سال تھی)۔ کلام علی کے اس مجموعہ کو انہوں نے ''نہج البلاغہ'' سے موسوم کیا کیوں کہ خود بقول سید رضی یہ کتاب دیکھنے والوں کے لئے بلاغت کے بند دروازے کھولے گی اور اس کے لئے راہِ تلاش قریب کرے گی۔ ان کو شاید اپنی قلیل مدتِ حیات کا علم تھا اس مختصر سی مدت میں یہ عظیم کام مکمل کر کے صرف ٤٧ سال کی عمر میں ٤٠٦ھ میں وفات پا گئے ۔ ( بعض مورخ ان کی عمر ٤٥ سال بھی بتاتے ہیں) اس کتاب کو مدون ہو کر ١٠٠٠ سال گزر چکے ہیں۔ اس میں ٢٣٧ خطبات ، ٧٩ خطوط اور ٤٨١ مختصر اقوال شامل ہیں۔
سید رضی کا زمانہئ حیات اسلامی تہذیب اور تمدن کے منابع اور ماخذوں سے بھر پور کتب خانوں کی فروانی کے لحاظ سے تاریخ کا نادر دور تھا کیوں کہ ابھی تک یہ کتاب خانے یورپی مسیحیوں اور منگولوں کی چیرہ دستیوں اور وحشیانہ مظالم سے محفوظ تھے ان میں چند قابل ذکر ہیں۔
١۔ کتب خانہ ''دار العلم'' ٨٠٠٠٠ کتابیں جو سید رضی اور ان کے بڑے بھائی سید مرتضیٰ کا تھا۔
٢۔ کتب خانہ ''بیت الحکمت '' جو بغداد کا بہترین کتب خانہ تھا۔
٣۔ کتاب خانہ ''قرطبہ'' (اندلس) ٤ لاکھ کتابیں۔
٤۔ کتاب خانہ ''خزا نۃ الکتب ''(مصر) ١٦ لاکھ کتابیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو خان بغداد آیا تھا تو اس کی فوج نے ان کتب خانوں کی کتابوں سے پل بنا کر دریا کو عبور کیا تھا۔ بس اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ باقی ماندہ کتابیں جلا دی گئیں۔ یورپین نے جب طرابلس اور شام پر حملہ کیا تھا تو ٣٠ لاکھ کتابیں جلا دیں۔ یہ مقامِ عبرت ہے۔ ہم آج انہی اقوام کو مہذب اور متمدن کہتے ہیں۔
مذکورہ بالا کتب خانوں میں حضرت علی(ع) ، امام حسن (ع)، امام حسین ؑ کے نوشتہ خطوط، عہد نامے اور مضامین بھی موجود تھے۔ سید رضی خوش قسمت تھے کہ '' نہج البلاغہ'' کی تدوین میں ان کو دنیا کے ان بہترین کتب خانوں تک رسائی تھی۔ وہ نقیب خانوادہ ابو طالب کے عہدہ پر بھی فائز تھے جو ایک بڑا اعزاز تھا۔ ''نہج البلاغہ'' کی تدوین کے لئے انہوں نے بے شمار سفر کئے اور ان ذخیروں سے بھر پور فائدہ اٹھا کر بڑی محنت شاقہ سے ''نہج البلاغہ'' کی تدوین کی ۔ یہ نا ممکن ہے کہ اس پایہ کے علمی ماخذ اور مصادر آج کے مورخ کو حاصل ہوسکےں۔ لیکن اتنے بڑے مواد کے تلف ہو جانے کے باوجود دانشوروں کی کوشش سے '' نہج البلاغہ '' پر مسلسل تحقیق کا کام جاری ہے۔
نہج البلاغہ : نہ اوّل نہ آخر
نہج البلاغہ کے نام سے فوراً ہمارے ذہن میں صرف ایک کتاب آتی ہے جس کے سید رضی مولف ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ کے ماخذ کی تلاش، انتخاب، نظم اور ترتیب میں اتنی جانفشانی کی ہے کہ اب سید رضی کو نہج البلاغہ سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص بر صغیر کے علماء اور دانشوروں کو زیادہ تر نہج البلاغہ کے ایسے تراجم (اردو اور فارسی) تک رسائی رہی جو سید رضی کی تالیف کردہ ہے لیکن علمی حلقوں میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سید رضی کی نہج البلاغہ کلام امیر المومنین میں نہ اول ہے نہ آخر، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں خود سید رضی نے نہج البلاغہ کے مقدمہ میں لکھا ہے، مجھے یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں نے حضرت کا کلام ہر طرف سے سمیت لیا ہے اور کوئی جملہ بھی چھوٹنے نہیں پایا بلکہ میں یہ بعید نہیں سمجھتا کہ جو مجھ سے رہ گیا ہے اس سے کہیں زیادہ ہو جو مجھ تک پہنچا ہے۔ (٣)
اس وقت ہمارے کتب خانوں اور علماء کے ہاتھوں میں کلام علی پر مشتمل ایک سے زیادہ معتبر نسخے موجود ہیں ذاتی طور پر میں اس کو ایک مصلحت خدا وندی سمجھتا ہوں ۔ یوں بھی علی(ع)کی پر شکوہ اور معجز نما شخصیت کے بارے میں بعض پرستار مبینہ افراد تفریط کی بحث میں مبتلا ہیں۔
ایسی صورت میں اگر نہج البلاغہ اپنی تمام تر صفات کے ساتھ ایک واحد کتاب کا وجود رکھتی تو پھر آپ خود اندازہ لگائیں کہ تخیل کا انتشار کیا رخ اختیار کرتا جب کہ مثنوی مولانا روم کو قرآن در زبان پہلوی سمجھنے والے اور کارل مارکس کو اس کی کتاب ''کپٹل'' پر پیغمبر سے تشبیہ دینے والے بھی موجود ہیں۔ نہج البلاغہ قرآن کا مد مقابل نہیں ہے۔ اس حساس نکتہ کو ہمارے نوجوان مفکر سید کمال حیدر رصوی نے ایک موثر اور لطیف پیرایہ میں ادا کیا ہے۔ نہج البلاغہ کی جامعیت اور ابدیت پر ایک تقریر میں انہوں نے کہا ''محمد کی زبان سے وحی کی ترجمانی نے عربوں کو گونگا کیا ہوا تھا۔ ٣٥ برس کی طویل خاموشی کے بعد علی(ع) کے کلام کی تلوار نیام دہن سے باہر آئی۔ ہونا یہ چاہئے تھاکہ علی(ع) کے کلام کی موجین قرآن کے ساحل سے ٹکرا کر واپس آجاتیں یا قرآن کی موجوں پر علی کے کلام کی لہریں غالب آجاتیں لیکن دونوں میں کچھ نہیں ہوا بلکہ علی(ع) کا کلام وہ کنارے بن گیا جو قرآن کی حفاظت کرتے ہیں یعنی علی(ع) نے قرآن کی حفاظت کے لئے نہج البلاغہ کی فصیل تعمیر کردی۔ '' اس مماثلت پر مجھے بے اختیار علامہ ترابی کا ایک جملہ یا آگیا یعنی ''عصمتِ پیغمبر کے اطراف معصومین (ع) کا کردار ایک حصار کا کام کرتا ہے۔ ''سید رضی سے پہلے اور بعد کے نسخوں کے درمیان ان کی تالیف ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔
سید رضی سے پہلے قابل ِ ذکر تالیف '' خطیب امیر المومنین علی المنابر'' کا مولف زید بن وہب حجفی ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانہ مں مشرف ِ بہ اسلام ہوا۔ آنحضرت کا دیدار نہ کرسکا لیکن وہ ایک سر کردہ مسلمان اورلشکر علی(ع) کا سر گرم رکن تھا کلام علی(ع) کا اولین جمع کرنے والاتھا اور خود امیر المومنین سے جو کچھ سنا تھا ضبطِ تحریر میں لایا اس بناء پر اس کتاب کو تحقیق کی زبان میں بنیادی دستاویز کا درجہ حاصل ہے اس کا انتقال ٩٦ھ میں ہوا۔
دانشمند محقق عبدالزہرا خطیب نے کلام علی(ع) پر مبنی شیعہ اور سنی علماء کی تالیف کردہ ٤٦ کتابوں کی تفصیل مع نام، مولف اور تاریخ تالیف بیان کی ہے جس میں ٢٢ ایسی ہیں جو نہج البلاغہ سے پیشتر لکھی جا چکی تھیں اسی مولف نے ''مصادر نہج البلاغہ '' کی تدوین میں ١٠٠ سے زائد کتابوں سے استعفادہ کیا تھا جن کا تعلق ٤٠٠ھ سے قبل کا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان مدارک سے خود سید رضی نے بھی استفادہ کیا ہو۔
سید رضی کے پہلے اور بعد کے کلام علی کے نسخوں کی کچھ تفصیل اوپر بیان کردی گئی ہے۔ ان بے شمار دستاویزوں کی موجودگی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہین کہ کلام امیر المومنین اس قدر گہرائی اور ہمہ گیر وسعت کا حامل ہے کہ ہر دور میں مولفین اپنی پسند اور بساط کے مطابق اس میں سے شہ پارے جمع کرتے اور مطالب کو اجاگر کرتے رہے اس کلام کی تکثیر ایک فطری ، صحت مند اور خوش آئند رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جس کو جاری رہنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ایران میں قائم بنیاد نہج البلاغہ (نہج البلاغہ فاؤنڈیشن )کی خدمات لائق ستائش ہیں۔
نہج البلاغہ کا اسلوبِ بیان
عربی زبان کی جن تخلیقات کو لا زوال شہرت حاصل ہوئی ہے اس میں نہج البلاغہ سر فہرست ہے یہ علمی دنیا کی انتہائی مقبول ، مشہور اور محترم کتاب ہے اس کا ایک ایک لفظ انسانی وجدان اور بصیرت میں اضافہ کرتا ہے۔ نہج البلاغہ محض ایک صاحبِ علم و حکمت کی گفتگو نہیں جو زندگی کے شور و غوغا سے دور اور روز مرہ واقعات سے بے نیاز ہو کر کسی دانشگاہ میں بیٹھا معارفِ اسلامی کا درس دے رہا ہو بلکہ یہ ایک ایسے انسان کے کلمات ہیں جس کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے اور اس کی دانائی اور بصیرت کلی طور پر معارف قرآن سے مالا مال ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک ذمہ دار مقام پر فائز تصور کرتے ہوئے عوام کے سامنے بولتا ہے۔ ان سے سوال کرتا ہے۔ ان کو سوال کرنے کی کھلی دعوت دیتا ہے۔ سوالات کے جواب دیتا ہے اور سننے والوں کی فکر کو جھنجوڑ تا ہے۔ نہج البلاغہ کا یہی اسلوب ما سوائے قرآن اس کو دوسری تمام کتابوں سے ممتاز کرتا ہے یا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اپنے اس نہج میں وہ قرآن کی پیروی کرتا ہے۔
اس کتاب کی فصاحت و بلاغت کا ہر کوئی معترف ہے۔ چند مثالیں:
١۔ آیت اﷲ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ فصاحت، بلاغت اور فوق العادہ الفاظ کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ
ایک ایسی لغت تر تیب دی جائے جو صرف نہج البلاغہ کے دقیق کلمات کی وضاحتوں پر مشتمل ہو۔
٢۔ علامہ ضمیر اختر نقوی نے نہج البلاغہ میں موجود عجیب و غریب الفاظ کی ایک طویل فہرست اپنے مقالہ میں
دی ہے جس کا حوالہ پہلے آچکا ہے۔
٣۔ اسلوب نہج البلاغہ کے سلسلہ میں مشہور استاد شیخ محمد عبدہ( مصری ) جو خود بھی جامع نہج البلاغہ ہیں کہتے
ہیں کہ ہر خطیب اور مصنف کے لئے نہج البلاغہ کا مطالعہ اس کے تجس کے ہدف کو پورا کرسکتا ہے ۔ اس کتاب میں تر غیب، سیاست، اصول تمدن، اجتماعی اور انفرادی حقوق، قوانین عدالت، پندو نصیحت کے بشمول ہر کوئی عنوان جو انسان کے ذہن میں آسکتا ہے موجود ہے۔
٤۔ استاد محمد حسن نائل المرصفی کہتے ہیں۔''نہج البلاغہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علی ہدایت ،
فصاحت اور عقل کابہترین نمونہ اور قرآنی معجزہ ہے۔ جب بھی میں اس کتاب کا مطالعہ کرتا
ہوں اپنے میں ایک تغیر محسوس کرتا ہوں۔ ''
٥۔ اور پھر نہج البلاغہ کی شرح نے جس ابن ابی الحدید معتزلی کو معتبر بنادیا وہ رقم طراز ہے (حوالہ محمد ابو الفضل
ابراہیم بشرح نہج البلاغہ جلد ١ ص ٧) کہ اپنی بے مثال پذیرائی ، الفاظ کی خوبصورت، معنوی جامعیت اور
زبان کی سلاست نے اس کتاب کو عربی زبان کے خوبصورت نثروں میں ایک بر تر اور اولین مقام دیا ہے۔
٦۔ شیخ ناصف یازجی اپنے فرزند ابراہیم کو ہدایت کرتے ہیں کہ اگر دانش، ادب ، انشاء اور نگارش میں
دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا ہو تو قرآن اور نہج البلاغہ کو از بر کرو۔
٧۔ محمد امین نواری کہتے ہیں '' علی تمام قرآن کے حافظ تھے اور اس کے اسرار سے واقف تھے قرآن ان کے
گوشت و خون میں سرائیت کر گیا تھا۔ اگر قاری چاہتا ہے کہ ان مطالب کو سمجھے تو نہج البلاغہ پڑھے۔''
٨۔ معروف شاعر ابو عثمان بن بحر جاحظ ( سن وفات ٣٠٠ھ ) نے بر ملا اعتراف کیا ہے کہ قرآن اور قول
پیغمبر کے سوا ہر کلام، خط اور مقالہ میں نے پڑھا یا سنا ہے اس کے برابر یا اس سے بہتر پیش کر سکتا ہوں
لیکن میں ہر طرح کی کوشش کے باوجود اپنے آپ میں کلمات امیر المومنین کی برابری کی سکت نہیں پاتا ۔
٩۔ مصر کے ڈاکڑ ذکی مبارک کہتے ہیں کہ ''یہ میرا اعتقاد ہے کہ نہج البلاغہ پر غور و فکر انسان میں توانائی ، علم اور
عظمت روح پیدا کرتی ہے کیونکہ کہ یہ کتاب ایک ایسے بزرگ انسان کی ہے جو تمام مشکلات کے باوجود
شیر کے ارادہ کی طرح مستحکم تھا۔ ''
١٠۔ اور آخر میں عبید اﷲ امر تسری ارحج المطالب میں علی کے کلام، نمو اور فصاحت کے نمونوں پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ افلا طون اور ارسطو بھی باوجود اس قدر علم کے توحید کے نازک اور پیچیدہ مسائل کو اس سلیس انداز میں نہیں بیان کرسکے۔ '' نہج البلاغہ کے خطبہ اول کا جس میں توحید اور تخلیق کائنات کا ذکر ہے حوالہ دے کر کہتے ہیں۔'' جناب امیر کے نادر اقوال کے دیکھنے کا شوق ہو تو نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے۔ '' (٤)
مختصراً یہ کہ اوپر بیان کئے ہوئے تمام نام علم و ادب کی دنیا کی نامور شخصیتیں ہیں۔ گو نہج البلاغہ ان تبصروں کی محتاج نہیں لیکن ان حوالوں کے ذریعہ نا واقف افراد کو اس کتاب کی عظمت کااندازہ ہوتا ہے۔ اور وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علی نے اپنی گفتگو میں عقل ، سیاست ، معنویت اور فصاحت و بلاغت اور طنز کی کچھ اس طرح آمیزش کی ہے کہ ہر وہ شخص جوعربی ادبیات سے واقف ہے نہج البلاغہ کے مطالعہ سے اس کی حقیقت سے آشنا ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر مسلسل تحقیق، غور وفکر اور سیر حاصل بحث کی جائے۔ کاش ہم اپنے اطراف ایسا ماحول پیدا کرسکیں۔
نہج البلاغہ کے تراجم
یہ سمجھنا کہ نہج البلاغہ کی رسائی صرف اسلام تک محدود ہے نا مناسب ہے۔ علم وحکمت کی یہ شاہکار کتاب تمام دنیا کے اہلِ دانش کو مستقل دعوت مطالعہ و تحقیق دیتی رہی اور اس کا سلسلہ باقی ہے۔ کسی کتاب کے اثر و نفوذ کا اندازہ غیر زبانوں میں اس کے تراجم سے بھی ہوتا ہے ۔ نہج البلاغہ کے ضمن میں اس خصوصیت کا حوالہ پروفیسر سردار نقوی نے عبدالکریم گلشنی کے مضمون کے ترجمہ میں یوں دیا ہے۔ '' تاریخی اعتبار سے نہج البلاغہ نہایت قدیم کتاب ہے۔ اس کے عربی متن اور فارسی تراجم بہت پہلے ہی سے موجود ہیں لیکن یورپی مستشر قین سے اس کا تعارف نسبتاً حال کی بات ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ کتب تشیع بالخصوص نہج البلاغہ تک یورپ کے اسلام شناسوں کی رسائی اہلِ سنن کے منابع و مصادر کے مقابلہ میں تاخیر ہوئی۔ ''(٥)
اس صورتِ حال کے باوجود معروف مغربی زبانوں میں معتبر نسخوں اور تبصروں کی موجودگی اس کتاب کی عظمت کے گواہ ہیں۔ ان میں سے ذیل میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
١۔ ''نہج البلاغہ کے بارے میں تحقیق'' جمیل سلطان، فرانسیسی زبان ، پیرس ١٩٤٠ئ
٢۔ ''صحت و اصالت نہج البلاغہ '' س ۔ الف۔ خلوصی۔ انگریزی زبان ١٩٥٠ئ
٣۔ ''نہج البلاغہ اور اس کے مرتب رضی کے بارے میں'' لاور اچیاوالیری اطالوی زبان ١٩٥٥ئ
٤۔ ''نہج البلاغہ کی روشنی میں شیعی نقطہ نظر سے حضرت علی(ع) کی شخصیت ۔ صدر اسلام کی تاریخ کا تحقیقاتی
مطالعہ'' ہانس یورگن میف ، جرمن زبان ١٩٤٩ئ
٥۔ سویڈن کی مادام ریساس چبپل نے نہج البلاغہ کے کچھ حصوں کو جمع کیا اور شرح لکھی ( حوالہ ڈاکٹر علی
شریعتی'' علی اور تنہائی'' ۔)
٦۔ انگریزی ترجموں میں قابل ذکر سید محمد عسکری جعفری کا ترجمہ جو اولاً پاکستان میں شائع ہوا۔ (١٩٦٠) اور
پھر تہران سے کتاب خانہ مسجد جامع چہلستون کے ذریعہ آفسٹ میں طبع ہوا۔ اس میں تقریباً ١٠٠ صفحات
پر مشتمل مقدمہ ہے۔ (٦)
٧۔ علامہ ترابی اعلیٰ اﷲ مقامہ نے مالک اشتر کے نام امیر المومنین کے مشہور زمانہ خط کا انگریزی ترجمہ کیا جو
اب بھی اچھی حکومت کے موضوع پر ایک معتبر دستاویز ہے۔ ١٩٦٨ء (٧)
ہندو ستان اور پاکستان میں نہج البلاغہ کے اردو تراجم کے سلسلہ میں چند معتبر مثالیں ملتی ہیں اس میں ''شرح النہج'' کے نام سے ٢ جلدوں میں سید ظفر مہدی کا ترجمہ ہے اور '' الاشاعتہ'' کے نام سے سید اولاد حسن امروہوی کا ترجمہ ہے جو ١٣٣٨ء میں ہندوستان میں شائع ہوا۔ پاکستان میں ''ترجمہ نہج البلاغہ '' کے نام سے مفتی جعفر حسین کا ترجمہ ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور ١٣٧٥ھ میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں نہج البلاغہ کے ماخذ اور سید رضی کی نہج البلاغہ کی اصالت جیسے اہم نکات پر سید العلماء علی نقی (نقن) کی مدلل بحث پر مبنی تقریباً ٤٠ صفحات کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ (٨)
اس کے علاوہ رئیس احمد جعفری کا اردو ترجمہ ''نہج البلاغت'' بھی ہے۔ '' شرح النہج'' جس کا ذکر اوپر ہوا ہے کہ سلسلہ میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ گجراتی اسکرپٹ میں اس کی اشاعت غلام علی مولوی ہندی کی وساطت سے ہوئی۔ موجودہ دور میں کلام امیر المومنین کی تالیف کی قابل ذکر مثال سید غلام حسین رضا آقا کی '' نہج الاسرار'' ہے جو ٢ جلدوں میں اردو ترجمہ کے ساتھ ہے۔ یہ ١٤٠٢ھ مطبع کاظمی حیدر آباد دکن سے شائع ہوئی۔ مولف کے مطابق اس کے مندر جات نہج البلاغہ میں درج نہیں اس لحاظ سے یہ ایک اہم دریافت ہے۔(٩)
امیر المومنین کے شاعرانہ کلام کے اردو ترجمہ کے حوالہ سے ڈاکٹر عمران لیاقت حسین کی ''انوار العقل '' قابل ذکر ہے یہ ابو الحسن بیہقی کے جمع کردہ دیوان علی(ع) کے عربی متن کے ساتھ اردو ترجمہ پر مشتمل ہے اور کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ (١٠)
مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ اوپر بیان کئے ہوئے مختلف زبانوں میں نہج البلاغہ کے تراجم اور حوالے کوئی حتمی فہرست نہیں ہے ان حوالوں کا مقصد اس عظیم الشان کتاب کے عالمگیر اثر و نفوذ کی نشاندہی کرنا ہے جو اب بھی جاری ہے۔
نہج البلاغہ کی شرحیں
ترجمہ کے علاوہ نہج البلاغہ کی ایک اور خصوصیت اس کی شرحیں ہیں۔ ابتداء ہی سے جب کلام علی دانشوروں اور علماء کے ہاتھوں میںپہنچا تو ان کی فکر اور قلم کو جنبش ہوئی اور علمی محافل میں اس پر بحث کی راہ ہموار ہوئی اور اس کے نتیجہ میں اس کی شرحیں لکھنے کا رواج ہوا۔ خود سید رضی کے زمانہ میں علامہ سید علی بن ناصر نے اولین شرح تحریر فرمائی۔ البتہ ''مصادر نہج البلاغہ'' کی رو سے اولین شارح کے ضمن میں قطب الدین روندی اور ابو الحسن محمد بن حسن بیہقی کے نام لئے جاتے ہیں لیکن عزالدین عبدالحمید ابن ہبتہ اﷲ ابن ابی الحدید معتزلی (متوفی ٦٥٦ھ) نے شارح نہج البلاغہ کے طور پر جو شہرت پائی وہ بے مثال ہے ۔ عربی میں اب تک لکھی جانے ولای شرحوں میں یہ مشہور ترین ہے جو ٢٠ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ نصیر الدین طوسی کے ہم عصر فلسفی بزرگ کمال الدین ابن ِ میثم بحرانی اور استاد شیخ محمد عبدہ( مصری) متوفی ١٣٣٣ھ نے بھی عربی شرح نہج البلاغہ لکھی ہے موخر الذکر کے شاگردوں نے اس شرح کو انضمام اور ترتیب جدید کے ساتھ بار بار شائع کیاہے۔
فارسی زبان میں محمد صالح قزوینی (١١ وین صدی ہجری ) اور محمد باقر اصفہانی نے ٣ جلدوں میں شرح ١٢٣٤ھ میں لکھی جو ١٣١٧ھ میں شائع ہوئی ۔ علامہ سید حبیب اﷲ خوئی ( متوفی ١٣٢٤ھ) نے بھی ''مہناج البراعتہ'' کے نام سے عربی میں ایک شرح تالیف کی مگر اس کی تکمیل سے پہلے وہ وفات پا گئے۔ اس کے معانی، مطالب اور افادیت کے پیش نظر بعد میں استاد محسن زادہ آملی اور شیخ محمد باقر نے اس کو مکمل کیا جو مع فارسی ترجمہ ٢٠ جلدوں میں ہے۔ نہج البلاغہ کی تو ضیحات کے سلسلہ میں ھبتہ الدین شہر ستانی کی '' ماھو نہج البلاغہ'' (فارسی ترجمہ: نہج البلاغہ چیست ) اور شیخ ہادی کاشف العظا کی '' مدارک نہج البلاغہ'' قابل ذکر ہیں۔ امین الاسلام شیخ طبرسی نے اپنی کتاب '' نثر النالی'' میں کلمات علی کو بلحاظ حروفِ تہجی تر تیب دیا ہے اسی طرح عبدالواحد آمدی نے '' غرر الحکم اور دار الکلم'' کے نام سے مختصر کلمات کو حروفِ تہجی ترتیب دیا ہے جس کا فارسی اور اردو ترجمہ بھی موجود ہے ۔ علامہ جاوید جعفری نے اس کتاب کی پاکستان میں اشاعت مکرر کا انتظام کیا۔
نہج البلاغہ کے قلمی نسخے:
کسی کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس کی اشاعتوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں فن طباعت کی ترقی اور فوٹو کاپی کمپوٹر اور دیگر ذرائع کی موجودگی میں ہم قلمی نسخوں کی تیاری کی مشکلات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ہر قلمی نسخہ کواز سر نو ترتیب دینا پڑتا ہے ابتداہی سے نہج البلاغہ علماء اور دانشوروں اور طلباء کی توجہ کا مرکز رہی ۔ حوزہ ہائے علمیہ میں یہ کتاب زیر مطالعہ رہی۔ اس کی مانگ کے پیش نظر مختلف ادوار میں اس کے قلمی نسخے لکھے گئے اس میں اولین خود سید رضی کا لکھا نسخہ ہے جس سے ابن ابی الحدید نے بھی استفادہ کیا اور کمال الدین میثم بحرانی جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اپنی شرح میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ الغدیر میں علامہ امینی نے لکھا ہے کہ انہوں نے نجف اشرف میں بزرگوں کے پاس قدیم نسخہ دیکھا جس پر سید رضی کے بھائی سید مرتضیٰ کا اجازہ لکھا تھا۔ اس کے علاوہ ١٢ ایسے قدیم نسخوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس وقت کتب خانوں کی زینت ہیں۔ ان میں دو نسخے مشہور خوش نویس یا قوت مستعصمی کے لکھے آستانہ قدس رضوی مشہد میں ہیں ۔ یا قوت کا ایک اور نسخہ کتاب خانہ حسینی موصل میں ہے۔ سنہری اور چاندی کے کام سے مزین جلد میں ایک نسخہ (١٠٩٠ھ) لائبریری آف کانگریس واشنگٹن ، امریکہ میں ہے۔ سید نجم الدین حسینی کا لکھا ہوا نسخہ (٦٦٧ھ) کتاب خانہ آیت اﷲ حکیم نجف اشرف میں ہے۔ بغداد میں عراق کے میوزیم میں ٤ نسخے ہیں ( ٧٠٤ھ ، ٧٦٧ھ،٨٧٥ھ، ١١٠٣ھ) کتاب خانہ طاہریہ دمشق میں دو نسخے ہیں (٩١٨ھ، ١٠٧٧ھ) اور ایک قلمی نسخہ لکھنو کے کتب خانہ سید تقی اعلیٰ اﷲ میں موجود ہے۔ (١١)۔
ان قدیم نسخوں کی موجودگی اس عظیم کتاب کی اصالت کی دلیل ہیں۔
نہج البلاغہ : علمی افادیت :
امیر المومنین وہ پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے خداوند عالم کی توحید اور اس کے صفات پر منطقی نقطہ نظر سے بحث کی ان کا کلام اخلاقی تعلیمات کا سر چشمہ ہے، ان کی خطابت اور نگارشات میں ما بعد الطبیعاتی، نفسیاتی مسائل کے علاوہ تہذیب، تمدن اور معاشرتی اصول سائنس ، قانون، سیاست، مشاہدات اور فلسفہ پر مباحث اور ہدایات ہیں جو ان علوم میں نقش اول بھی ہیں اور حرف آخر بھی۔
سید رضی کانہ صرف دنیائے اسلام بلکہ انسانیت پر احسان ہے کہ اِن بے بہا جو اہر ریزوں کو بڑی محنت ، تحقیق اور جستجو سے جمع کر کے ہر مکتبہ فکر کے علمائ، فضلا اور طلاب کو اپنی اہلیت اور ضرورت کے مظابق فیض حاصل کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس کتاب سے استفادہ کرنے والوں میں ایک تنوع (Diversity) ہے جو اس کے موضوعات کے وسعت کی نشاندہی کرتی ہے، محققین نے پچاس سے زائد ایسی مستند کتابوں کی فہرست دی ہے جو تاریخ ، حدیث ، تفسیر، فقہ، سیاست، علم الکلام اور دیگر علوم سے متعلق ہیں جن میں نہج البلاغہ سے چار سو حوالے لئے گئے ہیں ۔ بطور مثال اصول کافی پچاس حوالے، الغارات، چالیس حوالے، تحف العقل ٤٦ ، کتاب صفین ٣٤، الامامہ والسیاستہ ١١ حوالے، دیگر قابلِ ذکر کتابوں میں ارشاد مفید، تاریخ طبری، تفسیر عیاشی، عیون اخبار رضا، من لا یحضر الفقیہہ، تہذیب شیخ طوسی شامل ہے۔
خلاصہ:
اب تک جو کچھ بھی عرض کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
١۔ علی سے وابستگی کا تقاضہ ہے کہ نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔
٢۔ قومی اور علاقائی زبانوں میں اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔
٣۔ نہج البلاغہ قرآن کا مد مقابل نہیں بلکہ قرآن فہمی کا معاون ہے۔
٤۔ نہج البلاغہ کا اسلوبِ بیان بہت ممتاز اور اور موثر ہے اور بلا الحاظ مذاہب ، اعتقاد سب کو غور کرنے کی
دعوت دیتا ہے۔
٥۔ کلام علی کی تدوین میں سید رضی کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔
٦۔ نہج البلاغہ کے تراجم، شرحیں، قلمی نسخے اور دیگر مستند کتب میں اس کے حوالے اس کی افادیت اور
مقبولیت کی دلیل ہے۔
٧۔ علی کے کلام میں جامعیت اور ابدیت ہے جو آنے والے ہر دور میں انسان کی فکر کو جلا بخشتے رہیں گے۔
نتیجہ :
اس مقالہ میں علی کے کلام کے صرف گرد و پیش کے تعارف کی ایک نا مکمل کوشش کی گئی ہے۔ نہج البلاغہ فکر کا اوقیانوس اور بحر ذخار ہے۔ اس میں حمد باری تعالیٰ، علوم معروفت الہیٰ، منقبت، رحمت، للعالمین، منزلت محمد و آل محمد، اسرار ربانی، توحید ، عدل علائم الظہور، عقل ، سیاست ، تمدن، سائنس اور دیگر بے شمار مضامین پر ارشادات ہیں جو ذہن کی تشنگی کی سیر ابی اور ہر شبہ کا دافع ہے۔ ان موضوعات پر گفتگو علمائ، خطیب اور ذاکرین کا نہ صرف حق ہے بلکہ ایک فریضہ بھی ۔
اس مختصر تعارف کے نتیجہ میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیںکہ نہج البلاغہ ہماری فکر ی بالیدگی اور کردار کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ یہ آنے والی تمام نسلوں کی رہنما ہے۔ علی ابن ابیطالب قرآن ناطق ہیں جن سے ساری عقل و دانش کی دنیا فیضیاب ہوتی ہے ۔ ان کے اعمال و خصائل میں در حقیقت قرآن و سنت کی عکاسی ہے۔ علی کی گفتار قرآن اور پیغمبر کے کلام کے بعد بہترین اثر رکھنے والی گفتگو ہے جو انسان کی روح کو صیقل کرتی ہے۔ مشہور ایرانی دانشور ناصر مکارم شیرازی نہج البلاغہ سے متعلق کانگریس میں اپنے مقالہ میں رقم طراز ہیں۔
'' انسانی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ان پیر ہو جاتا ہے، نیا پرانا ہو جاتا ہے انسانی ذہن سے واقعات محو ہو جاتے ہیں لیکن بعض امور انسانی تاریخ کی اس سنت کے بر خلاف حیات جاودانہ پاتے ہیں مثلا حادثہ کربلا کیون زندہ ہے؟ کیوں ایک ہزار سال بعد بھی نہج البلاغہ اب تک اپنے اثر میں درخشندہ ہے؟ اتنے زمانی اور مکانی فاصلوں کے بعد بھی کیوں ہمارے دلوں میں نہج البلاغہ کے مطالعہ اور افہام کے لئے ایک نرم گوشہ ہے؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے وہ یہ کہ نہج البلاغہ میں روحانیت ہے، جامعیت ہے اور ابدیت ہے۔''(١٢)
تتمہ کلام میں عرض ہے کہ مولائے کائنات کی عظیم کتاب آج تک ہمارے ہاتھوں کی زینت نہ بن سکی، ہم ان کے پیغام سے ابھی نا آشنا ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ کلام علی کو ہمارے محراب و منبر سے اس طرح پیش کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔
ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہم ایک صدی بلکہ ایک ہزاروی کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں لیکن گزشتہ صدی کے ہولناک واقعات کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے ماہ و سال مسلم امہ کے لئے بہت چیلنج رکھتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا سمٹ گئی ہے تمدنوں کے ٹکراؤ میں ہمارے تہذیبی، تمدنی اور مذہبی اقدار راست زد پر ہوں گی ایسی صورت میں ہمیں قرآن کے ساتھ ساتھ نہج البلاغہ سے ہدایت لینی چاہئے۔ یہی آنحضرت کا آخری پیغام ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے علمائ، خطیب ذاکرین محراب ومنبر اور دانشور سے کلام علی کو پھیلانے کا ایک نیا دور شروع کریں گے نوجوانوں کی نظریں ان پرہیں۔
آخر میں ایک دعا پر اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں جو سید رضی نے مقدمہ نہج البلاغہ میںلکھی ہے۔
'' میں اﷲ سے توفیق مانگتا ہوں اور بے راہ روی سے بچاؤ کا طالب ہوں۔ عمل کی درستگی اور اعانت کا خواستگار ہوں۔ لغزش زبان سے پہلے لغزش دل و دماغ سے پناہ مانگتا ہوں وہی میرے لئے کافی اور کار ساز ہے۔ آمین''
حوالہ جات
١۔ علی شریعتی۔'' علی اور تنہائی '' کتاب مرکز کراچی۔
٢۔ سید ضمیر اختر نقوی'' علی اور علم'' مرکز علوم اسلامیہ کراچی
٣۔ سید رضی'' نہج البلاغہ'' ترجمہ'' نہج البلاغہ'' مفتی جعفر حسین مترجم ،ادارہ علمیہ پاکستان ١٣٧٥ھ
٤۔ عبید اﷲ امر تسری'' ارحج المطالب'' یعنی سیرت امیر المومنین ، حق برادر ز لاہور ١٩٩٤ئ
٥۔ سردار نقوی مترجم '' نہج البلاغہ کے بارے میں جدید تحقیقات ''( عبدالکریم گلشنی) بنیاد علم و اگہی لاہور۔
٦۔ سید محمد عسکری جعفری، مترجم ''نہج البلاغہ '' ( امام علی) انگریزی خراسان اسلامک سینٹر کراچی ١٩٧٧ء (طبع مکرر)
٧۔ علامہ رشید ترابی مترجم Dos & Donts for Successful Administrators ۔
انگریزی ( مالک اشتر کے نام علی کا خط) سکس بکس کراچی ١٩٦٨ئ
٨۔ سید العلماء سید علی نقی ( مقدمہ) '' ترجمہ نہج البلاغہ '' مفتی جعفر حسین مترجم ادارہ علمیہ پاکستان ١٣٧٥ھ
٩۔ سید غلام حسین رضا آقا مولف و مترجم'' نہج الاسرار'' مطبع کاظمی حیدر آباد دکن ١٤٠٢ھ
١٠۔ عمران لیاقت حسین، مترجم '' انوار العقل یعنی دیوان حضرت علی '' مکتبہ حامدیہ کراچی ١٩٩٦ئ
١١۔ بنیاد نہج البلاغہ '' نہج البلاغہ و گرد آور ندہ آن '' فارسی تہران ١٤٠٥ھ
١٢۔ ناصر مکارم شیرازی ''سہ و پژگی در نہج البلاغہ جامعیت ، عینیت، ابدیت '' بنیاد نہج البلاغہ '' کنگرہ بین
الملل نہج البلاغہ (فارسی) تہران ١٤٠٠ھ
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=697&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/lmam_ali/nahjul_balagha_kataruf