یہ مسلّم ہے حقیقت ہے کہ آج عالم اسلام جن مہم مشکلات سے دست بہ گریبان ہے ان میں سےایک اسلامی اتحاد ہے، اگر یہ کہیں ائمہ علیہم السلام اپنی پوری زندگی میں قرآن کریم اور سنت نبوی کی بنیاد پر عالم خارج میں جس چیز کے تحقق کی سعی وکوشش کرتے رہے وہ اسلامی قوانین کے دائرہ میں امت اسلامی کا اتحاد تھا تو بے جانہ ہوگا، ان عظیم پیشواؤں کا مقصد یہ تھا کہ کمین گاہ میں چھپے دشمن سے اسلام کی عظمت وعزت کی محافظت کریں، امت اسلامی کے بنانے اور اس کو شکوفا کرنے میں ان پیشواؤں کی فکریں یہ تھیں کہ اسلام کی بڑی مصلحت کو ترجیح دے کر الله کے راستے کی طرف دعوت دینے کی مثال قائم کریں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ شکوفائی بغیر میل ومحبت اور نیک گفتار کے ممکن نہیں ہے۔
اسلامی اتحاد تمدنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے بہت ضروری امر ہے لیکن یہ اتحاد شدیداً زمینہ سازی اور انگیزہ کا محتاج ہے۔
اسلامی اتحاد کے انگیزے
اسلامی اتحاد ایک حقیقی طاقت کو فراہم کرتا ہے جو خدا کے بعد مسلمانوں کے لئے تہذیب اور تمدنوں کے مقابلہ میں تکیہ گاہ بن سکتی ہے، اگرچہ مسلمان عظیم انسانی، فراوان مادّی امکانات، مہم اسٹراٹیجک موقعیت، معنوی بلند حوصلوں، پیشرفتہ اعتقادات اور نظریات سے بہرہ مند ہیں لیکن اگر یہ پراکندہ اجزاء مترتّب نہ ہوں اور ان می ہماہنگی نہ پائی جائے تو دشمن کے پنجے کے ایک لقمے سے زیادہ نہ ہوں گے۔
اسلامی اتحاد منابع اسلامی میں بحث وتحقیق، استنباط واجتہاد کا زمینہ فراہم کرسکتا ہے، اور اتحاد ہی کے سبب ثقافتوں کا مقابلہ کرنے اور انسانی مشکلات کو حل کرنے میں کہ جو مادّی ترقیوں اور علمی اجتماعی تغیر وتبدّل کا نتیجہ ہیں، مدد مل سکتی ہے۔
یہ واضح ہے کہ اس وسیع تحقیقات کا امکان محض سمجھوتے، اطمینان اور عقیدے کے وسائل کی آزادی، ایک دوسرے کے عقیدہ کا احترام او ربرادرانہ اور دوستانہ کوشش سے ہی ممکن ہے۔
اسلامی اتحاد انسان کی زندگی میں مادّی اور معنوی پہلووں کی ترقی اور رشد کے لئے مقدمات فراہم کرسکتا ہے۔
اسلامی اتحاد کے مقدمات
الف: زندگی میں دین کے کردار کے لئے ایک عمومی اور کلی نظر یہ پیش کرنا اور یہ کہ کیا دین فقط انسان اور خدا اور عبادی اعمال اور اخلاقی اصول کے درمیان روحی اور قلبی رابطہ رکھتا ہے کہ جن پر انسان کو پائیبند رہنا چاہئے، یا دین کی اثراندازی اس سے زیادہ وسیع ہے کہ جو انسان کی زندگی کے اجتماعی ، اقتصادی، اداری، سیاسی پہلووں کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔
ب: مسلمانوں کے فکرو عمل اور ان کے عبادت سے متعلق اعمال کے مطابق، دیگر مذاہب اسلامی کے پیروان کے اجتماعی حقوق اور حقوق انسانی کی خاطر ایک کلی قدم اٹھانا اس طرح ہے کہ اِس یا اُس مذہب کے پیروکاروں کو ان کے بنیادی حقوق سے کہ جن سے وہ، دوسرے مسلمان شہریوں کی طرح استفادہ کرنے کا حق رکھتے ہیں محروم نہ کریں، دوسرے یہ کہ لوگوں کا کسی خاص مذہب سے منسوب ہونے کا مسئلہ کسی قسم کے امتیاز یا نقطہ ضعف کا سبب نے بنے۔
ج: اسلام کے اصلی دشمن کے مقابلہ میں ایک کلی نظریہ رکھنا، چاہے وہ اعتقادی پہلو سے ہو، جیسے الحاد اور اخلاق کیوجہ سے ہر چیز کا مباح ہونا یا سیاسی پہلو سے ہو جیسے عالمی کفر۔
د: مذہبی اختلافات کو ایک کلی اور روشن نگاہ سے دیکھنا چاہیے تاکہ ان کو صحیح صورت دی جاسکے کیونکہ اس سلسلے میں وحدت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام مذاہب کو ملاکر ایک مشترک مذہب بنایا جائے، بلکہ اصول یہ ہے کہ اس سلسلے میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کی آراء اور عبادی اور شخصی آئین کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے اس کے بعد جستجو اور تحقیق کی روش اور نقد وگفتگو کے اسلوب کو شک وگمان سے دور بغیر کسی غرض کے متحد کریں۔
ھ: حکومت اسلامی کو تشکیل دینے کی بنیاد پر عمومی نظریات کو ہماہنگ کرنا اور اس کے کردار کو اجتماعی اور سیاسی زندگی میں پیش کرنا اس طرح کہ دنیائے معاصر میں ڈموکریسی کے نظریہ کی طرح حکومت اسلامی کے ڈھانچے میں تناقضات پیش نہ آئیں۔
قرآن مجید کی رو سے اسلامی اتحاد
قرآن مجید نے اتحاد اور اختلاف کے موضوع کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، ایک طرف یہ کہ اس نے تاریخ انسانی میں اختلاف کے نتائج کو علل اور وجوہات کے ساتھ ذکر کرکے اس کے مٹانے کے طریقہ کو پیش کیا ہے دوسری طرف وحدت کے مسئلہ کو ہمبستگی کی راہ اور اصول کی دستیابی کے ساتھ بیان کیا ہے، گویا اسلامی معاشرے میں اتحاد اور اختلاف کا مسئلہ اور مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنے کی راہیں، قرآن کی نظر سے دور نہیں رہی ہیں۔
۱۔ تاریخ انسان میں قرآنی نظریہ کے مطابق اتحاد اور اختلاف کے نتائج:
ایک کلی نظریہ کے مطابق یہ نتائج دو اصلی شاخوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
الف: اختلاف اور اتحاد انسان کی پیدائش کےمانند ہے۔
ب: الٰہی ادیان کے درمیان، اختلاف اور اتحاد ۔
پہلے مورد میں یہ کہا جائے گا کہ قرآن مجید نے انسان کی زندگی کو ایک دوسرے کے مانند جانا ہے کہ جس میں تمام افراد کے آپس میں روابط اور میل جول کو اس کے آغاز میں ڈال دیا ہے ”لوگ ایک امت تھے پھر خدا نے بشارت دینے اور ڈرانے کے لئے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ اپنی باحق کتاب کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان اُن چیزوں میں جن میں وہ اختلاف رکھتے تھے فیصلہ کرے اور ان افراد کے علاوہ جن کو کتاب دی گئی روشن دلائل کے آنے کے بعد اس ظلم وحسد کی وجہ سے جو ان کے درمیان تھا، کسی نے بھی اس میں اختلاف نہیں کیا، پس خدا نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اپنی توفیق سے حقیقت کی طرف راہنمائی کی جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے“۔
”لوگ ایک ملت کے علاوہ نہ تھے، اس کے بعد اختلاف کرلیا اور اگر تیرے پوردگار کا وعدہ مقرر نہ ہوتا تو یقیناً اس میں کہ جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا“
قابل ذکر ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کی زندگی کی فضا پر مسلط خاص حالات، اس کی ضرورتوں اور خواہشوں پر توجہ رکھتے ہوئے اتحاد کی پیدائش اور استمرار کے ساتھ پوری طرح سے سازگار ہونا چاہیے، جس قدر بھی انسان کے دائرہ امکانات اور اس کی توانائی وسیع ہوگی اسی قدراجتماعی حیات جدید پر اس کا نفوذ اور تسلط کم ہوتا چلاجائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی اجتماعی جدید حیات تمام عرصہ حیات کے ساتھ متناقض ہو، نتیجةً اتحاد کی دستیابی کے لئے دشواریوں کا سمانا کرنا پڑے گا، دانش بشری اور اس کی ثقافتی سطح اُن وسائل واسباب کی نسبت جو آفاق اور جدید مقاصد کو انسان کی نظروں کے سامنے پیش کرتے ہیںاس سلسلے میں بغیر تاثیر کے نہ رہیں گے، انسان کی زندگی کے ابتدائی ایام جس میں خدادادی فطرت اس کی زندگی پر کامل طور سے مسلط ہوتی ہے اور اس کو مناسب حالات میں تجلیوں کی طرف ہدایت کرتی ہے، یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہوا وہوس کی وجہ سے پیدائش ہوئیں، کچھ ذاتی زیادتیاں پیش آجائیں البتہ بہت جلد حسد ، کینہ، غیض وغضب یا شہوت کی آگ کے خاموش ہوجانے کے بعد اپنی پاک فطرت کی طرف پلٹ جاتی ہیں، اس سلسلے میں قرآن مجید نے حضرت آدم﷼ کے بیٹوں کے بارے میں گفتگو کی ہے ، اس مرحلے کے گذر جانے اور اایک مشخص مقطع زمانی کے عبور ہونے کے بعد کہ جس میں انسانی معاشرہ کمال کی طرف گامزن ہوتا ہے اوراس کی تعداد ، ضرورتیں اور خواہشات میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے یہیں سے اختلاف کا دور بھی شروع ہوجاتا ہے، اس بحث سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بشریت ہمیشہ اپنی زندگی کے تمام دوروں میں ایک قانون کی محکوم رہی ہے اور اس قانون کا نام اختلاف ہے۔
”اگر تیرا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت قرار دیتا ، حالانکہ وہ ہمیشہ اختلاف میں رہے ہیں مگر وہ لوگ جن پر تیرے پروردگار نے رحم کیا اور اسی کے لئے ان کو پیدا کیا ہے“ (القرآن) اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اختلاف اپنی زندگی کے تمام تاریخی مراحل میں ایک خارجی حقیقت کی طرح موجود رہا ہے اور وہ خود کسی دوسری علت کا معلول ہے جس کو خدا نے انسان کی زندگی پر مسلط کیا ہے اور وہ قانون وہ ہی قانون امتحان اور آزمائش ہے، ایسے قانون کو بس امتوں اور صالح افراد کے پروان چڑھنے اور ان کی ترقی کی راہ جانا جاسکتا ہے، ان افراد نے ہوا وہوس اور خواہشات کی پیدائش کے علیٰ رغم ترقی کی راہوں کو اپنا لیا ہے، یہ پر رونق اور زرق وبرق دنیا لیکن اندھی انسان کے لئے امتحان گاہ اور روحی اور معنوی کمالات کے حاصل کرنے کے لئے عمل کی فرصت بھی فراہم کرتی ہے ”کیا لوگوں کا خیال ہے یہاں تک کہ انھوں نے کہ کہا ہم ایمان لے آئے اور بس آزاد ہوگئے اور امتحان وآزمائش سے چھٹکارا پالیا‘ ”اسی (خدا) نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ نیکوکار ہے“القرآن۔
انسانوں میں اختلاف کا اصلی سبب اس کی ہواوہوس ہے جس کو خداوندعالم نے ایک قوت جاذبہ کی مانند البتہ ارادہ واختیار کے ساتھ عقل اور فطرت کے مقابل قرار دیا ہے۔
ہدایت اور تعقُّل پر ہواپرستی کو قربان کرنے کی صورت میں زیادتی پسند افراد کی دوسروں کے اوپر زیادتیوں اور اشخاص کے مصالح ومنافع کے متضاد ہونے اور نامطلوب رقابت کی وجہ سے مقام ومنزلت جاہ وحشم قدرت وشہوت کو حاصل کرنے کے لئے یہ اختلاف کا پہلا وہ پودا تھا جو جس نے انسانی تاریخ کے پہلے روز ہی جنم لے لیا تھا اور ملائکہ انسان کی خلقت کی طبیعت کی بنیاد اسی چیز کی امید رکھتے تھے۔
وہ اختلافات جن کا منشا ہوا وہوس تھا ایسی فضا میں نمودار ہوئے کہ جس سے انسان کی زندگی تہہ وبالا ہوگئی اور ایک عمیق تبدیلی کے ضمن میں انسان کے اندرپیچیدگی اور ترکیب پیدا ہوگئی، نتیجے میں آدمی فقط اپنے تفکرات اور صلاحتیوں کی بنیاد پر زندگی کی پیچیدہ اور عمیق مشکلات پر تنہا کامیاب نہیں ہوسکتا تھا، یہ عمیق تبدیلی ایک دوسری تبدیلی ظاہر ہونے یعنی کتب آسمانی نازل ہونے اور پیغمبروں کے مبعوث ہونے کے ہمزمان تھی، مقصدیہ تھا کہ لوگوں کی ہدایت وصلاح کی طرف راہنمائی ہو اور پیغمبران الٰہی، حق وعدالت کے ساتھ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں، اس کے علاوہ قرآن مجید نے لوگوں کے اختلافت کو ختم کرنے، فردی اور اجتماعی طور سے ترقی وکمال کی راہ کھولنے اور انسانوں کو عبرت حاصل کرنے اور ان کو آگاہ کرنے کے لئے دو سنتوں کی بنیاد ڈالی ہے۔
۱۔ معفرت، توبہ اور بخشش کی سنت: لوگوں کو اپنی غلطیوں واشتباہات سے باز آنے کے لئےاس سنت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔
۲۔ دنیا میں انتقام کی سنت:جب دنیا میں لوگوں یا گروہوں کے انحرافات شدید ہوجائیں، گناہ زیادہ ہوجائیں تو اس سنت کو آئندہ نسل کو عبرت حاصل کرنے لئے قرار دیا ہے۔
دوسری شاخ: یعنی ادیان آسمانی میں اتحاد اور اختلاف، قرآن کے نظریہ کے مطابق اتحاد اوراختلاف کو مشخص اصول اور جانے پہچانے وسائل کی بنیاد پر ہونا چاہیے، اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا، حقیقت میں انسانوں کے درمیان اتحاد کا محقق ہونا کچھ مشترک وجوہات پر موقوف ہے اور یہی اتحاد کا نقطہٴ آغاز قرار پاتا ہے۔
الف: خدا، آسمانی وحی، نبوت اور قیامت پر ایمان
ب: عزت اورکرامت انسان کو قبول کرنا ، اس کے احترام کا قائل ہونا اس کو عقیدہ اور عمل میںآزاد سمجھنا۔
اس بنیاد ہرگز مومنین اور کافرین کے درمیان واقعی اتحاد کی گفتگو سامنے آہی نہیں سکتی، البتہ ممکن ہے کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جس میں دونوں ایک ساتھ جمع ہوجائیں اور ایک ملک ان کے اجتماع کا مرکزی نقطہ قرار پائے اور اس طرح ان کے درمیان صلح وآرامش برقرار ہوجائے، لیکن یہ اتحاد حقیقی نہیں ہے خدا کا شریک قرار دینا اور اس کا انکار کرنا اتحاد کی راہ میں اندرونی رکاوٹ اور اجتماعی نتاقض ہے۔
ادیان الٰہی کے درمیان اتحاد کے مشخّصات: قرآن مجید نے مکرراً بنیادی انحرافات کی تصحیح کرنے کے لئے جو اہل کتاب کے پیروان کے دامنگیر ہیں ان آیات ، مادہ۷۷۔۸۱، آل عمران۸۱۔۱۸۷، بقرہ ۷۸، ۷۹، ۸۵، ۸۶، ۱۷۴/ میں بیان کیا ہے اور طول تاریخ میں ادیان الٰہی کے درمیان اتحاد کی چارہ جوئی کو مشخص کیا ہے تاکہ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان رابطہ محفوظ رہے، ایک طرف سے یہ کہ ادیان الٰہی کے پیروکاروں کے درمیان مشترک اجتماعی اور سیاسی زندگی کی راہیں فراہم ہوسکیں اور دوسری طرف سے یہ کہ سب خدا اور قیامت پر اعتقاد رکھنے والوں کو بت پرستوںمشرکوں اور ملحدوں کے مقابلہ ، ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیں۔ اس دائرہ کے مشخصات اور پہلو اس طرح ہیں:
۱۔ خدائے واحد، آسمانی وحی، قیامت، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں کی رسالت پر ایمان رکھنا۔
۲۔ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے ایک ہونے پر تاکید کرنا۔
تمام پیغمبروں اور تمام آسمانی پیغاموں کا ایک ہی سرچشمہ ہے، ان کا سرچشمہ خدا وندعالم ہے، پیغمبران الٰہی موٴظف تھے کہ الٰہی پیغام کو بشر تک پہنچائیں، اس کی تربیت میں کوشاںرہیں، نیکی کی ہدایت اور اس کی صلاح کی طرف راہنمائی کریں اور بدی، فساد اور گمراہی سے روکیں۔
۳۔ عمومی دعوت: ادیان کے درمیان تقارب اور اتحاد کو روشن کرنے کی غرض سےتمام ادیان کے پیرواں کو توریت اور انجیل میں خدا کے ثابت اور مشترک احکام کے جاری کرنے کی دعوت دیںخصوصی طور پر یہ کہیں کہ یہ تمام شریعتیں ایک دوسرے کوکامل کرنے کے لئے آئی ہیں، وجوب روزہ قصاص کی کیفیت، رباخواری سے پرہیز سے مربوط آیتیں اسی عمومی دعوت کا نمونہ ہیں۔
اہل کتاب میں اختلاف کے فیصلے کے وقت توریت اور انجیل کی طرف مراجعہ کی دعوت دیں اور ان موارد پر توجہ رکھیں جو توریت، انجیل اورقرآن میں مشترک ہیں۔
لوگوں کو اہل ذکر دانشمندوں کی طرف مراجعہ کی دعوت دیں اور حقائق اسلام کو روشن کرنے لئے اہل کتاب سے آشنائی کرائیں۔
اسلام کے آئین واصول کو قبول کرنے اور پیغمبر اسلام کے احترام بجالانے کے لئے اصل ابراہیمی کے قائل ہوں وتاکید کریں کہ دین محمدی میں حضرت ابراہیم﷼ کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور اس چیز پر توجہ دلائیں کہ حضرت ابارہیم تمام بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے باپ ہیں جن کے اوپر تمام ادیان آسمانی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔
اس نکتہ پر تاکید ہونا چاہیے کہ ”اسلام“ کا نام حضرت ابراہیم کی طرف سے ہے، وہ خود مسلمان اور خدا کے سامنے تسلیم محض اور حنیف تھے۔
قرآن مجید نے اہل کتاب کو حضرت محمد کی رسالت کو قبول کرنے پر گذشتہ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی بشارت واسطہ سے متعدد بار تاکید کی ہے ان میں سے ایک مورد سورہٴ اعراف ہے جہاں پر خدا حضرت موسیٰ کے سلسلے میں گفتگو کررہا ہے اور دوسرا مورد سورہٴ صف میں ہے۔
۲۔ اسلامی معاشرے میں اتحاد کے نتائج:
یہ نتائج تین اصولوں میں تحقیق کی قابل ہیں:
۱۔وہ اصول ، جن کی بنیادقرآن مجیدنے اسلامی معاشرے میں ڈالی ہے۔
۲۔ وہ وسائل جن کے ذریعہ قرآن مجید اس الٰہی بنیاد کی بقا کی ذمہ داری لی ہے اور ان اصول کے تحقّق ، پائیداری اور محافظت کرنے لئے پیغمبر اسلام ﷺ اور لوگوں کو پہنچنوایا ہے۔
۳۔ اسلامی معاشرے میں اتحاد کے آثار اور نتائج۔
اس اصل کی مختلف صورتوں میں تصویر کشی کی جاسکتی ہے۔
الف: خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے سب لوگوں کاایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا ”اے وہ لوگ جو ایمان لائے خدا سے ڈرو جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے، اور نہ مرو مگر یہ کہ (فرمان) خدا کے سامنے تسلیم ہونے کے ساتھ اور سب لوگ خدا کی رسی کو پکڑے رہو آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمھارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی اور اس کی سایہٴ رحمت سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر کھڑے تھے، اس نے تمھیں اس سے نجات دلائی، اس طرح خدا تمھارے لئے اپنی آیات کو بیان کرتا ہے، شاید کہ تم ہدایت پاجاؤ“(القرآن)
ب: غیبی مدد سے دلوں کے درمیان الفت ومحبت کا پیدا ہوجانا ”اگر وہ چاہیں کہ (صلح کی تجویز) سے دھوکہ دیں تو تیرے لئے بس خدا ہی کافی ہے، وہ وہ ذات جس نے مومنین کے ذریعہ اپنی مدد سے تیری نصرت فرمائی اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگر تو جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کردیتا تب بھی ان کے دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتا تھا، لیکن خدا نے ان کے درمیان الفت برقرار کردی، بے شک وہ عزت والا اور حکیم ہے“(القرآن)
دوسری اصل : پیغمبر اکرم کی پیروی
مسئلہ کی اہمیت کچھ اعتقادی واخلاقی اور سیاسی واجتماعی اصول وعوامل کے سبب ہے، جن کا سرسری طور سے جائزہ لیا جائے گا:
الف: حضرت رسول اکرم کا مقام، تبلیغ رسالت ہے ان کی باتیں وحی الٰہی ہیں ”وہ اپنی مرضی سے بولتا ہی نہیں، یہ قرآن کی وحی کے علاوہ کچھ نہیں ہے“ ”جو پیغمبر کی اطاعت کرے گا حقیقت میں اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور جو کوئی اس سے روگردانی کرے گا تو تم کوئی ذمہ دار نہیں ہو، ہم نے تمھیں ان کے اوپر نگہبان بناکر نہیں بھیجا ہے“(القرآن)
ب: رسول وہ ہے کہ جو مقام تبلیغ رسالت پر فائز ہوتے ہوتے ہوئے معاشرے کی امامت اور امام امت کا بھی عہدہ دار ہے۔
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایک پہلو سے حقیقت میں رسول کی اطاعت اسلام کی سیاسی حاکمیت پر پابندی، نشانی اور اسکی اہمیت کو بازگو کرتا ہے اور یہ وہ حاکمیت ہے جس کااسلام اور قرآن قائیل ہے ”اے وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی اطاعت کرو، اور پیغمبر اور جو تم میں سے صاحبان امر ہے اس کی اطاعت کرو، اور اگر کسی چیزمیں تمہارے درمیان اختلاف ہوجائے اگر تم خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اس کو خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ، یہ ہی بہتر اور اس کا انجام اچھا ہے۔ کیا تونے نہیں دیکھا ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں جو تمہارے اوپر اور تم سے پہلے والوں پر نازل ہوچکا ہے ایمان لائے لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلوں کو طاغوت کے پاس لے جائیں در حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے کفر اختیار کریں ۔ اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو گمراہ کرے اور ان میں اختلاف ڈالے۔“
اطاعت رسول کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس نے متعادل اور عمومی اجتماعی مصالح، خاص فردی خواہشوں ،روز مرہ کے مسائل، طرح طرح کے دائم اور ثابت مضوعات کو اپنے اندر سمو لیا ہے ، ایسے ہی مختلف طبیعت کے اجتہادات و نظریات کی اثر اندازی ، اعتقادی فکری اور اخلاقی کے بقایاجات اور اجتماعی اور اقتصادی دباؤ کو اس اطاعت اور پیروی سے دور نہ رکھنا چاہیے خدا اور رسول کی اطاعت کے آثار میں سے ایک مہم اثر نزاع اور اختلاف کا خاتمہ اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا محقق ہوجانا ہے ”خدا اور رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو جس سے تم سست ہوجاؤ گے اور تمہاری طاقت جاتی رہےگی ، صبر کرو ، خدا صابروں کے ساتھ ہے“
تیسری اصل : فرمانروا اور رعایا کے درمیان روابط کا تحفّظ:
اتحاد اسلامی کے ستونوں میں ایک اہم ستون معاشرے میں قرمانروا کے ممتاز مقام کی حفاظت ہے، اس طرح کے قانون سے اتحاد اسلامی شکوفہ ہوتا ہے۔ خشک اور بے جان حالت کو روحی، معنوی، عاطفی سرسبز و شاداب رشتوں میں تبدیل کرنے کی ذمّہ داری فرمانروا کی ہوتی ہے جس میں انسان کے پاک احساسات،مودّت اور دوستی موجزن ہوتی ہے اس طرح فرمانروا اتحاد اسلامی کے استمرار اور بقا کے لئے ایک مہم کردار ادا کرتا ہے ”پس تم خدا کی طرف سے رحمت کے سبب ان کے ساتھ نرم دل ہوگئے ہو، اگر تم سنگدل اور سخت مزاج ہوتے تو وہ تمھارے اطراف سے بھاگ جاتے، پس تم ان کو معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو اور معاشرے کو چلانے میں ان سے مشورہ کرو، اور اگر تم نے ارادہ کر لیا تو خدا پر توکل کرو، خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ ”تم میں سے تمھاری طرف پیغمبر آیا ہے جس کے اوپر تمھارا رنج والم برداشت کرنا دشوار ہے، اور وہ تمھاری ہدایت پر حریص اور مومنین کے اوپر مہربان اور ان کے ساتھ ہمدرد ہے“(القرآن)
چوتھی اصل: قرآنی رو سے دینی اخوّت
اتحاد اسلامی کے شکوفہ ہونے کا پیش خیمہ ہے اور اس کو اجتماعی نمو اور انسانی اقدار فراہم کرتا ہے اشیاء کے درمیان اتحاد اصول واحد کا ضرورت مند ہے کے جو ان کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں ۔ خون، نسل، زبان، قومیت، جغرافیا، زمین، وطن، مصالح و منافع ارزشیں، انسانی آرزوئیں قرآنی نظر سے اس لئے ہیں کے بشریت ایک اصل کی طرف پلٹتی ہے ”اے لوگوں ہم نے تم کو مرد اور عورت پیدا کیا ہے، اور تم کو شعبوں، اور قبیلوں میں بانٹا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک تم میں خدا کے نزدیک سب سے مکرم وہ شخص ہے جس کا تقویٰ زیادہ ہے، یقینا خدا جاننے والا اور آگاہ ہے “(القرآن)
”بس اس کے علاوہ نہیں ہے کہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے مومن بھائیوں کے درمیان صلح وصفائی کراؤ اور تقویٰ الٰہی اختیار کرو، شاید تم پر رحم کیا جائے“
پانچویں اصل: اخلاقی اقدار
یہ اسلامی تعلیمات کا کلّی موضوع ہے، رسول اکرم ﷺ کی بعثت کا فلسفہ، اخلاق کی خوبیوں کو منزل کمال تک پہنچانے سے تعبیر ہوا ہے۔ اخلاقی موازین کے کچھ مشخصات یہ ہیں: عہدوپیمان میں وفاداری، عدالت کو جاری کرنا، فضیلتوں کو رواج دینا وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک اسلامی اتحاد کی عمارت میں ایک سنگ بنیادی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلامی اتحاد کے وسائل:
انسانی اور اسلامی معاشرے کی اکائیوں میں اتحاد اور اتفاق کو برپا کرنے کے لئے قرآن مجید نے کچھ اصول کا ایک مجموعہ بیان فرمایا ہے جس کو ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔
حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ تبلیغ کی دعوت ، صلح وصفائی اور خیرخواہی کے لئے کوششیں، درگذر، عفووبخشش، زیادتی اور دشمنی کے مقابلہ کھڑے ہوجانا، حادثات کے وقت علم ودانش پر تکیہ کرنا۔
اُمید ہے کہ ہم دین اسلام کے ․․․قوانین اور رہبر معظّم انقلاب اسلامی کے ارشادات کے زیر سایہ معاشرے میں حقیقی اتحاد کی تجلیوں اور بھائی چارگی کا نظارہ کریں گے۔
source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=183:2010-05-19-06-42-31&catid=34:1388-06-09-06-50-26&Itemid=55