حج کے آثار و برکات اپنے پہلوئوں، دنیی، سیاسی، اجتماعی،اقتصادی ،ثقافتی اعتبار سے غور طلب ہیں ۔ان آثار و برکات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے: ۱۔مادی ۲۔معنوی.
حج کی عظمت و برکت کے لئے یہی کافی ہے کہ ماہ رمضان ماہ قبولیت دعامیں ائمہ معصومین - کی دعائوں میں سے ایک اہم دعا حج و زیات خانہ خداسے متعلق رہی ہے۔
’’اللھم ارزقنی حج بیتک الحرام فی عامی ھذا فی کل عام‘‘خدایا مجھے اس سال اور ہر سال حج اور اپنے بیت حرام کی زیارت کے شرف سے مشرف فرما۔
یہاں پر حج کے اہم مادی اور دنیاوی برکات وفوائد کو بیان کیا جا رہا ہے۔
الف:حج کے دنیاوی اثرات قرآن مجید کی روشنی میں
قرآن کریم نے حج کے معنوی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے مادی اور دنیاوی اثرات و فوائد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے منجملہ:
۱۔مختلف منافع کامشاہدہ
وَٲَذِّنْْ فِی النَّاسِ بِالْْحَجِّ یَٲْْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَٲْْتِینَ مِنْْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ . لِیَشْْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْْ وَیَذْْکُرُوا اسْْمَ اﷲِ فِی ٲَیَّامٍ مَعْْلُومَاتٍ عَلَی مَا رَزَقَہُمْْ مِنْْ بَہِیمَۃِ الْْٲَنْْعَامِ فَکُلُوا مِنْْہَا وَٲَطْْعِمُوا الْْبَائِسَ الْْفَقِیرَ. ﴿حج ،۷۲۔۸۲﴾
امام جعفر صادق - سے دریافت کیا گیا کہ ’’لِیَشْْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم‘‘سے دنیاوی فوائد مراد ہیں یا اخروی فوائد ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا :
’’تفسیر الصافی ج ۳،ص ۴۷۳‘‘
۲۔ لوگوں کے امو ر کو قوام بخشنا
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:’’جَعَلَ اﷲُ الْْکَعْْبَۃَ الْْبَیْْتَ الْْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّہْْرَ الْْحَرَامَ وَالْْہَدْْیَ وَالْْقَلاَئِدَ ذَلِکَ لِتَعْْلَمُوا ٲَنَّ اﷲَ یَعْْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْْٲَرْْضِ وَٲَنَّ اﷲَ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیمٌ ‘‘ ﴿مائدہ ،۷۹﴾
یہ مقدس مکان،لوگوں کے درمیان وحدت کا راز،اور دلوں کے اجتماع کا مرکز ہے ،اورحج روابط کو محکم و مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے ،حج کے عظیم الشان اجتماع سے اسلامی ممالک کے اقتصاد کو مضبوط بنانا نہ صرف یہ روح حج کے منافی نہیں ہے بلکہ بعض روایات کی روشنی میں حج کی حکمتوں میں سے ایک ہے۔
۳۔بے شمار برکتیں
جناب ابراہیم - نے مکہ کی رونق کے لئے چند دعائیں کیں تھیں ،جو سب کی سب مستجاب ہوئیں ۔
۱۔خدایا !بے آب و گیاہ سرزمین کو آباد کردے اور اسے شہر بنادے۔’’رب اجعل ھذا بلداً‘‘
۲۔اس میں آباد لوگوں کو امن امان عطا کر۔’’رب اجعل ھذا بلداًامناً‘‘
۳۔اس شہر کے باشندوں کو سالم اقتصاد سے بہرہ مند فرما۔’’یجبیٰ الیہ ثمرات کل شئی رزقاً‘‘پروردگار عالم نے اس دعا کو مستجاب کیا اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک کے میوے اور پھل مکہ منتقل ہوتے ہیں اور سال کی ساری فصلوں میں اس بے آب وگیاہ سرزمین میں دنیا کے مختلف میوے پائے جاتے ہیں اورحج اور عمرہ کے ایام میں زائرین ان سے بہرمند ہوتے ہیں ۔لہذا قرآن کریم فرماتا ہے:’’ ٲَوَلَمْْ نُمَکِّنْْ لَہُمْْ حَرَمًا آمِنًا یُجْْبَی ِلَیْْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْْئٍ رِزْْقًا مِنْْ لَدُنَّا وَلَکِنَّ ٲَکْْثَرَہُمْْ لاَیَعْْلَمُونَ ‘‘﴿قصص۔۷۵﴾
۴۔لوگوں کے دلوں کو خاندان حضرت ابراہیم - کی طرف موڑنے کی دعا،’’فَاجْْعَلْْ ٲَفْْئِدَۃً مِنْْ النَّاسِ تَہْْوِی ِلَیْْہِمْْ ‘‘﴿ابراہیم ۷۳﴾
۵۔خاتم الانبیائ حضرت محمد مصطفیٰ کے ظہور کی دعا اس لئے کہ گزشتہ چار چیزوں کا اصل محور ایک ایسی حکومت ہے جو وحی الٰہی کی بنیاد اور رسول اکر م جیسے کامل انسان کے سایہ میں قائم و دائم ہو اسی لئے جناب ابراہیم - نے دعا کی :’’ رَبَّنَا وَابْْعَثْْ فِیہِمْْ رَسُولًا مِنْْہُمْْ ‘‘﴿بقرۃ ۔۹۲۱﴾
ب:حج کے مادی اور دنیاوی اثرات روایات کی روشنی میں
روایات میں حج کے بہت سے مادی و دنیاوی منافع و فوائد بیان کئے گئے ہیں ان میں سے اہم یہ ہیں ۔
۱۔ثقافتی اور اقتصادی رد و بدل
حج کا عظیم الشان اجتماع ایک ایسا اجتماع ہے جس میں دنیا کے تمام مسلمان موجود ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ خانہ خدا کے زائرین میں ہر فرقے ،ذات اور زبان کے افرادہوتے ہیں ۔
ہشام بن حکم نے امام جعفر صادق - سے حج اورطواف کعبہ کے فلسفہ اور راز کو دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:خداوند عالم نے بندوں کو خلق کیا اور ان کی دنیاوی اور دینی مصلحتوں کے پیش نظر انہیں کچھ احکام و دستورات دیئے۔من جملہ ﴿مراسم حج میں ﴾مشرق و مغرب کے افراد کے اجتماع کو معین کیا تا کہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح سے پہچانیں۔﴿اور ان کے حالات سے مطلع ہوں اور ان کے درمیان ثقافتی ردوبدل ہو﴾اور ہر جماعت اپنے تجارتی سرمایہ کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرے۔
نیز ارشاد فرمایا:
اگر ہر قوم و ملت صرف اپنے شہر ملک اور جو کچھ وہاں موجود ہے اسی کے بارے میں بات کرے تو سب کے سب نابود ہوجائیں گے اور ممالک ویران ہو جائیں گے ،منافع ختم ہوجائیںگے اور واقعی خبریں پشت پردہ رہ جائیں گیں ﴿وسائل الشیعہ ج۱۱،ص ۹﴾
۲۔مال و عیال کی حفاظت
حج کی ایک مادی برکت یہ ہے کہ ان ایام میں خدا وند عالم اپنے گھر کے زائرین کے اموال و اہل وعیال کی حفاظت کرتا ہے ۔امام جعفرصادق - نے آیۃ کریمہ’’لیشھدوا منافع لھم‘‘کے ذیل میں ارشاد فرمایا:کوئی بھی شخص مکہ ﴿اور زیارت خانہ خدا کے لئے﴾حاضر نہیں ہوتا مگر یہ کہ خدا وند عالم اسے نفع پہونچاتا ہے۔لیکن تم ﴿شیعہ﴾بخشے ہوئے پلٹتے ہو لیکن تمہارے علاوہ دوسرے افراد ان کے مال اور اہل و عیال کی حفاظت کی جاتی ہے۔﴿تفسیر صافی ص ،۷۳﴾
امام جعفر صادق - نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اپنے برادر﴿ایمانی ﴾کو حج سے روکتا ہے اسے ڈرنا چاہئے کہ عذاب آخرت کے علاوہ کہیںاس دنیا میں بھی وہ مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائے۔﴿وسائل الشیعہ ج ۸،ص ۶۰۱۔﴾
۳۔حاجات بر آنا
خانہ خدا استجابت دعا کی جگہ ہے اسی طرح مید ان عرفات اور دیگر ایسے مقامات ہیں جہاں خدا وند کریم حاجی پر خاص توجہ کرتا ہے اور اسکی حاجتوں کو پورا کرتا ہے ۔
حضرت علی - نے فرمایا:
جو شخص کسی دنیاوی حاجت کے لئے حج کو ترک کرے گا اس کی حاجت پوری نہ ہو مگر یہ کہ اسکی نگاہ سر منڈاتے ہوئے حاجیوں پر پڑے ﴿منتخب میزان ۔ص۳۲۱﴾
۴۔فقیری سے نجات
فریضہ حج کی انجام دہی فقیری کو ہمیشہ کے لئے انسان سے دور کر دیتی ہے ۔ رسول خدا نے فرمایا:
حج فقیری کے خاتمہ کا سبب ہے۔ ﴿تحف العقول ،ص۷﴾
نیز امام جعفر صادق - نے فرمایا:
جو شخص تین حج انجام دے وہ کبھی فقیر نہ ہو گا۔
﴿منتخب میزان الحکمہ،ص۳۲۱﴾
۵۔ روزی میں برکت
حج کی ایک مادی برکت یہ بھی ہے کہ انسان کی روزی میں برکت و اضافہ ہوتا ہے ۔
رسول خدا نے ارشاد فرمایا:
’’حجو ا تستغنوا‘‘حج کرو تاکہ مالی اعتبار سے بے نیاز ہو جائو۔
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق -کی خدمت میں عرض کیا : میں نے یہ طے کیا ہے کہ ہر سال اکیلا یا اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ اپنے پیسے سے حج کروں ۔ امام - نے فرمایا : کیا اس بات پر پکا ارادہ رکھتے ہو ؟ عرض کیا ۔ ہاں ۔ آپ (ع) نے فرمایا:اگر تم نے اس کام کو انجام دیا تو تم اپنے مال کے زیادتی کا یقین کر لو اور تمہیں مال کی زیادتی کی بشارت ہو۔ ﴿ثواب الاعمال ،ص۰۷،ح۴﴾
۶۔ صحت و سلامتی
سفر حج کا ایک اثر بدن کی صحت و سلامتی ہے ۔ امام زین العابدین - نے فرمایا :
’’حِجُّوا وَ اعْتَمِرُواتَصِحُّ اَجْسٰامُکُمْ‘‘
حج و عمرہ کرو کہ یہ تمہارے بدن کی صحت و سلامتی کا باعث ہیں۔
ایک اہم یا د دہانی
حج کے مذکورہ بالا آثار و برکات صرف اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ حج کو انجام دے ۔
۱۔ اخلاص
حج کو صرف مرضی خدا کے حصول اوراسکی بارگاہ میں قربت و نزدیکی کی نیت سے انجام دیا جائے ۔ شہرت ، ریاکاری یا تجارت و سیاحت کی غرض سے نہیں۔
امام جعفر صادق - نے ارشاد فرمایا:
حج دو طرح کا ہے ۔﴿۱﴾اللہ کے لئے ﴿۲﴾ لوگوں کے لئے ۔ جو شخص خدا کے لئے حج کرے اسکا ثواب جنت ہے اورجو لوگوں کے لئے ﴿اور انہیں دکھانے کے لئے حج کرے گا اسکی جزا روز قیامت لوگوں کے ذمہ ہوگی۔ بارگاہ خدا سے اسے کوئی اجر نہیں ،ملے گا ﴾ ﴿ثواب الاعمال ، ص۴۷﴾
۲۔گناہوں اور حالت احرام میں حرام چیزوں سے پرہیز
امام محمد باقر - نے ارشاد فرمایا: خدا کی طرف سے اس شخص پر کوئی توجہ نہیں ہوتی جو خانۂ خدا کی زیارت کا قصد کرتاہے مگر یہ کہ اس میں تین خصلتیں پائی جاتی ہوں:
۱﴾ایسا ورع و تقویٰ جو اسے معصیت خدا سے روک دے۔
۲﴾ایسی حلم و برد باری جسکی وجہ سے وہ اپنے غیظ و غضب کا مالک ہو﴿یعنی اپنے غصہ پر قابو رکھتا ہو﴾
۳﴾جو شخص اس سے دوستی کرتا ہے اس کے ساتھ حسن رفاقت اور اچھا برتائو ﴿یعنی سفر حج میں خوش اخلاق ہونا﴾
﴿الخصال ،ص۸۴۱،ح۸۱﴾
۳۔مال حرام سے دوری
اس حج کے آثار و برکات ہوتے ہیں جو حرام مال جیسے ربایا خمس نہ نکلا ہوا پیسہ، یا ناجائز آمدنی سے نہ ہو ۔ رسولخدا (ص) نے ارشاد فرمایا:
جو شخص مال حرام سے حج کرتا ہے جب وہ لبیک الھم لبیک کہتا ہے تو خدا فرماتا ہے : نہ لبیک اور نہ ہی سعدیک، تمہارا حج تمہاری طرف ہی پلٹتا ہے ﴿اور کبھی بھی مقبول بارگاہ الٰہی نہیں ہوگا﴾﴿منتخب میزان الحکمہ ،ص۸۱۵﴾
source : http://www.fazael.com/masoomeen/hazrat-mahdi/216-hajj-ki-barkaten.html