استغفار
توبہ انسان کو حقارت اور ذلت سے نجات بخشتي ہے۔ توبہ دلوں کو پاک کرتي ہے۔ دل يعني جان يعني روح يعني حقيقت انسان۔ دل نہايت نوراني شي ہے۔ ہر انسان نوراني ہوتا ہے حتي اگر انسان کا خدا سے رابطہ منقطع ہو جائے تب بھي اسکي ذات اور اسکے جوہر ميں نور باقي رہتا ہے۔ صرف ہوتا يہ ہے کہ گناہوں اور ہويٰ و ہوس کي بنا پر دل غبار آلودہ ہوجاتا ہے۔ توبہ اس غبار کو صاف کر کے دل کو نورانيت بخشتي ہے۔
توبہ يعني طلب مغفرت اور گناہوں سے استغفار۔ توبہ اگر اپنے حقيقي مفہوم کے ساتھ کي جائے تو انسان کے اوپر برکات الٰہي کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ گناہ ہمارے اور ہمارے پروردگار کے درميان حجاب کا کام کرتا ہے جسکا نتیجہ يہ ہوتاہے کہ ہمارے اوپر سارے الٰہي دروازے بند ہوجاتے ہيں ، نہ رحمت الٰہي نازل ہوتي ہے نہ ہدایت الٰہي ، نہ توفیق الٰہي حاصل ہوتي ہے اورنہ فضل خدا۔ توبہ اس حجاب کو ختم کرنے کا باعث ہوتي ہے اور نتیجۃً رحمت و فضل خدا کا دروازہ ہمارے اوپر کھل جاتا ہے۔ يہ ہیں توبہ کے فائدہ۔ قرآن مجيد ميں متعدّد مقامات پر توبہ کے لئے کبھي دنياوي اور کبھي اخروي فوائد شمار کرائے گئے ہيں۔ مثلاً : ’’و ان استغفروا ربکم ثم توبوا اليہ ........يرسل اسمائ عليکم مدراراً۔‘‘
توبہ يعني خدا کي طرف بازگشت۔ يہ ايک اہم ترين نعمت الہي ہے۔ خدا نے اپنے بندوں کے لئے باب توبہ کھول ديا ہے تاکہ اس کے بندے راہ کمال و سعادت ميں پيش قدمي کرتے رہيں اور گناہ اس راہ ميں مانع نہ ہو سکيں کيونکہ گناہ انسان کو اس کے اعليٰ مقام سے پستي ميں لا کھڑا کرتا ہے۔ ہر گناہ روح انسان اور معنويت انسان پر ايک ضرب کي مانند ہوتا ہے جس سے روح کي شفافيت مکدر ہو جاتي ہے۔ گناہ کے ذريعے انسان و حيوانات کے درميان پايا جانے والا فرق ختم ہو جاتا ہے۔
معنوي جنبہ کے علاوہ گناہ انسان کي زندگي ميں دوسري بہت سي رکاوٹیں بھي کھڑي کر ديتا ہے۔
نہ جانے کتني کاميابياں گناہوں کي انجام دہي کي وجہ سے ناکاميابيوں ميں تبديل ہو جاتي ہيں۔ يہ سب صرف زباني يا تعبدي باتيں نہيں ہيں بلکہ انہيں علمي، فلسفي اور نفسياتي طور پر بھي ثابت کيا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر جنگ احد ميں چند مسلمانوں کي کوتاہي اور تقصير کي بنا پر فتح اوّليہ، شکست ميں تبديل ہو گئي تھي يعني مسلمان پہلے مرحلہ ميں فتح حاصل کر چکے تھے ليکن ان چند لوگوں کي بنا پر جنہيں رسول اسلام نے پہاڑ کے دروں ميں معمور کيا تھا اور انہوں نے رسول کے حکم کي خلاف ورزي کي، مسلمان مشکلات کا شکار ہو گئے تھے۔ رسول اسلام نے حکم ديا تھا کہ مقررہ جگہوں سے مسلمانوں حفاظت کريں ليکن يہ لوگ مال غنيمت کے لالچ ميں اپني اپني کمين گاہوں کو چھوڑ کر ميدان ميں آگئے اور دشمن نے موقع غنيمت سمجھ کر مسلمانوں پر حملہ کر ديا۔
سورہ آل عمران ميں تقريباً دس یابارہ آيتيں اسي شکست سے متعلق ہيں۔ چونکہ مسلمان روحي اعتبار سے نہايت تلاطم اور کشمکش کا شکار تھے لہذا يہ شکست ان پر بے حد ناگوار گزري تھي۔ قرآني آيتيں جہاں ان کے اطمينان قلبي کا باعث ہوتي تھيں وہيں ان کي ہدايت بھي کرتي جاتي تھيں ساتھ ہي انہيں يہ بھي باور کراتي جاتي تھيں کہ اس شکست کي وجہ کيا تھي۔ ’’انّ الذين تولوا منکم يوم التقي الجمعان انما استزلہم الشيطان ببعض ذنوبہم‘‘ يعني تم نے ديکھا کے تم ميں سے بعض افراد نے دشمن کو پشت دکھا دي جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ تمہيں شکست ہو گئي۔ يہ لوگ پہلے ہي سے ايسا کرنے کے لئے آمادہ ہو چکے تھے۔ان لوگوں کو ان کاموں کي بنا پر جو يہ پہلے بھي انجام دے چکے تھے، شيطان نے با آساني صراط مستقيم سے منحرف کر ديا يعني انجام شدہ گناہوں نے اپنا اثر ميدان جنگ ميں دکھايا۔
اسي مذکورہ سورہ ميں ايک دوسري آيت ايک دوسرے انداز سے اسي طرف اشارہ کر رہي ہے۔ قرآن کريم در حقيقت کہنا يہ چاہتا ہے کہ اگر تم جنگ احد ميں شکست کھا گئے تو يہ کوئي تعجب و حيراني کي بات نہيں ہے کیونکہ يہ سب زندگي کے معمولات ہيں۔ تم سے پہلے بھي ايسا ہوتا آيا ہے: ’’و کآيّن من نبي قاتل معہ ربيون کثير فما وحنوا لما اصابہم في سبيل اللہ و ما ضعفوا و ما استکانوا‘‘ قرآن مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ آخر تمہيں کيا ہو گيا ہے۔ تم سے پہلے بھي خدا کے نبیوں کو ميدان جنگ ميں مشکلات و شکست کا سامنا کرنا پڑتا تھا ليکن وہ تو ہراسا ںو پريشاں نہيں ہوتے تھے۔ اس کے بعد فرماتا ہے: ’’وما کان قولہم الا ان قالوا ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا في امرنا‘‘ يعني گزشتہ زمانوں ميں جب اصحاب انبيائ کے حوالي مشکلات و مسائل کا شکار ہوتے تھے تو پروردگار کي بارگاہ ميں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کرکہتے تھے: ’’ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا في امرنا‘‘ پروردگار ہمارے گناہوں اور ہمارے ذريعے کي گئي زيادتيوں اور غفلتوں کو معاف فرما۔
يہيں سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ مشکلات و مسائل ہمارے ذريعے انجام دیے گئے گناہوں ہي کا نتيجہ ہوتي ہيں۔ لہذا ضروري ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے ذريعے نازل کي گئي اہم ترين نعمت یعني مغفرت سے استفادہ کريں۔ خدا وند عالم نے فرمايا ہے کہ اگر تم نے کوئي قبيح فعل انجام ديا اور اس پر بعد ميں پشيمان ہوئے تو تمہارے لئے استغفار اور توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ گناہ کي مثال کسي بيماري يا علالت کي سي ہے۔ انسان بيماري سے بہت کم محفوظ رہ پاتا ہے۔ گناہ بھي ايک مرض طرح کا ہے ۔اگر انسان اس مرض کا علاج کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ باب توبہ و استغفار کي طرف آئے۔ اگر انسان اس طرف آگيا تو خدا وند وعالم اتنا غفار ہے کہ اس گنہگار انسان کو بخش دے گا۔
صحيفہ سجاديہ کي پينتالیسويں دعا ميں امام سجادٴ خدا کي بارگاہ ميں عرض کرتے ہيں: ’’انت الذي فتحت لعبادک بابا الي عفوک‘‘ يعني تو ہي ہے جس نے اپنے بندوں کي طرف عفو و مغفرت کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ ’’ و سميتہ التوبۃ‘‘ جسکا نام تونے باب توبہ رکھا ہے۔ ’’و جعلت علي ذالک الباب دليلاً من وحيک لئلّايضلّوا عنہ‘‘ قرآن و وحي سے ايک راہنمابھي اس دروازے پر قرار دے رکھا ہے تاکہ تیرے بندے اس سفر ميں منزل سے بھٹک نہ جائیں۔ اس کے بعد فرماتے ہيں : ’’فما عذر من اغفل دخول ذالک المنزل بعد فتح الباب لاقامۃ الدليل‘‘ يعني اب اس کے بعد انسان کے لئے کيا دليل بچتي ہے کہ اس باب توبہ اور مغفرت الٰہي سے فیض ياب نہ ہو۔ راہ مغفرت الٰہي يعني استغفار۔
رسول اسلام سے حدیث منقول ہے کہ آپ فرماتے ہيں: ’’انّ اللہ تعالي یغفر للمذنبين الا من لا يريد ان يغفرلہ ‘‘ یعني خداوند عالم گناہگاروں کے گناہوں کو بخش ديتا ہے مگر ان گناہگاروں کے علاوہ جن کو خدا بخشنا نہيں چاہتا۔ اصحاب نے سوال کيا : ’’يا رسول اللہ ! من الذي يريد ان لا يغفرلہ؟‘‘ يا رسول خدا وہ کون ہے جس کو خدا بخشنا نہيں چاہتا ؟ ’’قال من لا يستغفر‘‘ يعني وہ جو استغفار نہيں کرتا۔پس استغفار باب توبہ و مغفرت کي چابي ہے۔ استغفار کے ذریعے ہي مغفرت الٰہي کو حاصل کيا جا سکتا ہے۔
غفلت استغفارکي راہ ميں پہلي رکاوٹ ہے
اگر ہم چاہتے ہيں کہ اس نعمت الہي يعني استغفار تک دسترسي حاصل کريں تو ضروري ہے کہ دو صفتوں کو خود سے دور کريں۔ پہلي غفلت و بے توجہي اور دوسري غرور و تکبر۔ غفلت يعني يہ کہ انسان اصلاً متوجہ ہي نہ ہو کہ اس سے گناہ سرزد ہو رہا ہے۔ ايسے بہت سے افراد پائے جاتے ہيں جو گناہ پر گناہ انجام ديتے جاتے ہيں اور انھيں اپنے اس قبيح فعل کا احساس تک نہيں ہوتا۔ دروغ، غيبت، الزام تراشي وغيرہ اسي طرح کے گناہ ہيں۔ بعض افراد ايسے بھي ہوتے ہيں کہ اگر انھيں متوجہ بھي کرايا جائے تو تمسخرانہ انداز ميں قہقہہ بھي لگاتے ہيں۔ گناہ؟ گناہ يعني کيا؟ ايسے افراد اصلاً ثواب و عذاب کے ذرہ برابر بھي معتقد نہيں ہوتے۔ بعض دوسرے ثواب و عذاب کے معتقد تو ہوتے ہيں ليکن مکمل طور پر غفلت اور بے توجہي کے اس قدر شکار ہوتے ہيں کہ اپني ذات سے صادر شدہ فعل کا احساس بھي نہيں کر پاتے۔ اگر ہم اپني روز مرہ زندگي ذرا سا جھانکنے کي کوشش کريں تو با ساني واضح ہو جائے گا کہ ہماري زندگي بھي کم و بيش ايسے ہي حالات سے دو چار ہوتي ہے۔ غفلت ايک بہت خطرناک شئي ہے ۔شايد انسان کے لئے غفلت سے بڑا دشمن اور خطرناک شئي کوئي نہ ہو۔غافل انسان کسي بھي قيمت پر استغفار نہيں کرتا ہے اس کي ساري زندگي گناہوں ميں بسر ہو جاتي ہے اور اس کو احساس تک نہيں ہو پاتا فقط خواب غفلت کا شکار ہوکر رہ جاتا اور بس۔
قرآن کريم نے غفلت کے مد مقابل تقويٰ کو پيش کيا ہے۔ تقويٰ يعني ہميشہ اور ہر حال ميں متوجہ رہنا۔ غافل شخص سينکڑوں گناہ کرنے کے بعد بھي اپنے گناہ کي طرف متوجہ نہيں ہو پاتا ہے۔ اس کے مقابلے ميں متقي و پرہيزگار شخص ہے جہاں چھوٹا سا گناہ اس سے سرزد ہو ا فوراً اپنے گناہ کي طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور جلد از جلد اس کي تلافي کي فکر ميں مشغول ہو جاتا ہے۔ قرآن مجيد فرماتا ہے: ’’ان الذين اتقوا اذا مسہم طائف من الشيطان تذکروا‘‘ اگر شيطان متقي افراد کے پاس سے گزر بھي جاتا ہے تو يہ لوگ فوراً متوجہ ہو جاتے ہيں۔ ’’فاذا ہم مبصرون‘‘ ايسے ہي لوگ با بصيرت ہوتے ہيں۔
غرور و تکبر راہ استغفار ميں دوسري رکاوٹ ہے
انسان جہاں ذراسا کوئي چھوٹاسا کام انجام دے ليتا ہے فوراً مغرور ہو جاتا ہے۔ صحيفہ سجاديہ کي چھياليسويں دعا ميں ايک جملہ ہے: ’’و الشقا الاشقائ لمن اغتربک ‘‘ يعني شقي ترين شخص وہ ہے جو تیرے سامنے غرور و تکبر سے پيش آئے۔ بعض افراد ايسے ہوتے ہيں جہاں کوئي کار خير انجام ديا فوراً يہ تصور کرلیتے ہيں کہ ہم نے خدا سے اپنا حساب بے باق کر ديا۔ اب ہميں کسي چيز کي ضرورت نہيں ہے۔ البتہ يہ ہو سکتا ہے کہ يہ جملہ زبان تک نہ آئے ليکن دل ميں تو بارہا آتا ہے اور يہي غرور ہے۔
خدانے اگر ہمارے لیے باب توبہ فراہم کردیا ہے تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ گناہوں کي کوئي حيثيت نہيں ہے۔ کبھي کبھي يہي گناہ انسان کے وجود حقيقي کو بھي ضائع کر دیتے ہیں اور ا س کو حيات انساني کے عالي مراتب سے ايک پست ترين حيوان ميں تبديل کردیتے ہيں۔
ضروري نہيں ہے کہ انسان ايک مدت تک گناہوں ميں غرق رہے تب ہي گناہوں کاا حساس کر سکتا ہے بلکہ گناہ ، گناہ ہے خواہ ايک گناہ ہو يا گناہوں کا انبار۔ گناہ کو قطعاً حقير نہيں سمجھنا چاہیے۔ روايت ميں’’استحقار الذنوب‘‘کے عنوان سے ايک باب ہے جس کے تحت گناہوں کو حقير فرض کرنے کي شديد مذمت کي گئي ہے۔ خدا کے مغفرت کرنے کي وجہ يہ نہيںہے کہ گناہوں کي کوئي حيثيت نہيں ہے لہذا وہ معاف کریگا بلکہ اسکي وجہ يہ ہے کہ انسان اس کے ذريعے خدا تک واپس آسکتا ہے اور خدا تک برگشت نہايت اہم ہے کہ روايات ميں جس کے لئے نہايت تاکيد کي گئي ہے۔
بہر حال حقيقاً وہي استغفار قابل ستائش ہے جو حقيقي اور دل کي گہرائيوں سے ہو۔ زبان سے توبہ اور استغفار کرنے سے کچھ حاصل نہيں ہو سکتا ۔ استغفار کي شرط يہ ہے کہ انسان اپنے گناہ پر شرمندہ ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا قوي ارادہ رکھتا ہو۔روايت ميں وارد ہوا ہے : ’’من استغفرہ بلسانہ و لم يندم بقلبہ فقد استحضري بنفسہ‘‘ يعني جو شخص زبان سے اسغفار کرے اور دل سے شرمندہ اور نادم نہ ہو ايسا شخص در حقيقت اپنے نفس کي تضحيک کرتا ہے۔ يہ استغفار نہيں ہے۔ استغفار سے مراد يہ ہے کہ انسان واقعي خدا وند عالم کي طرف برگشت کرے اور اس کي بارگاہ ميں دعا کرے کہ وہ اس کے گناہوں کو بخش دے۔
دعا ايمان کو قوي اور الہي وعدوں کو پورا کرتي ہے
دعا انسان کو خدا سے نزديک کرتي ہے۔ معارف ديني کو انسان کے دل ميں اثر انداز اور قائم رکھتي ہے۔ دعا ايمان کو قوي کرتي ہے يعني دعا کئي زاویوں سے برکتوں اور رحمتوں کي حامل ہوتي ہے۔ يہي وجہ ہے کہ قرآن مجيد ميں بارہا دعا اور بندگان صالح کے ذريعے کي گئي دعاؤں سے متعلق گفتگو کي گئي ہے۔ انبيائے الہي مسائل و مشکلات کے وقت خدا کي بارگاہ ميں دعا کرتے تھے ۔خدا سے مدد کي التماس کرتے تھے۔ ’’فدعا ربہ اني مغلوب فانتصر‘‘ جو حضرت نوح ٴ سے منقول شدہ دعا ہے يا حضرت موسيٰ کي زباني قرآن فرماتا ہے: ’’فدعا ربہ ان ہٰولائ قوم مجرمون‘‘ ۔
قرآن کريم ميں خدا وند عالم نے متعدد آيتوں ميں دعاؤں کي قبوليت اور استجابت کا وعدہ فرمايا ہے مثلاً: ’’وقال ربکم ادعوني استجب لکم‘‘ يعني تمہارے پروردگار نے فرمايا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو ميں تمہاري دعاؤں کو مستجاب کروں گا ۔اسي طرح ايک دوسري آيت ميں ارشاد ہوتا ہے: ’’وسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ بکل شئي عليماً‘‘ يعني اگر چہ خدا عالم ہے اور ہماري حاجتوں سے آگاہ بھي ہے مگر اس کے باوجود تم خدا سے طلب کرو۔ دعائے ابو حمزہ ثمالي ميں امام سجادٴ اسي طرف اشارہ فرماتے ہيں : ’’وليس من صفاتک يا سيدي ان تامر باموال و تمنع العطيۃ‘‘ پروردگار تيري يہ صفت نہيں ہے کہ اپنے بندوں کو طلب کرنے کا حکم دے اور ان کے طلب کرنے پر انہيں عطا نہ کرے يعني خد اکے کرم اور اس کي قدرت کا مفہوم يہ ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ مجھ سے طلب کروتو در حقيقت اس نے ارادہ کر ليا ہے کہ استجابت بھي کرے۔ ’’واذا سئلک عبادي عني فاني قريب اجيب دعوۃ الداع اذا دعان‘‘ ۔يعني جب بھي ميرے بندے آپ سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو اے پيغمبر آپ کہديجئے کہ ميں ان کے قريب ہي ہوں ان کي دعاؤں کو سنتا اور استجاب کرتا ہوں۔ اگر کوئي شخص خدا سے کچھ طلب کرتا ہے تو فوراً اس کو حاصل ہو جاتا ہے: ’’بکل مسئلۃ منک سمع حاضر و جواب عتيد‘‘ يہ خدا کا قطعي اور سچا وعدہ ہے يعني خدا ہر طلب و دعا کا جواب ديتا ہے ليکن اس وعدے کے ساتھ کچھ شرائط بھي ہيں جن ميں سے ايک عمل صالح ہے: ’’من عمل صالحاً فلنفسہ و من اسائ فعليہ‘‘ ۔ قرآن مجيد ميں خدا نے اپنے بندوں سے جا بجا وعدے فرمائے ہيں۔ مثلاً: ’’انا لا نضيع اجر من احسن عملاً‘‘ يعني جو شخص کار خير انجام دیتا ہے خدا اس کي جزا اور اجر کو ضائع نہيں کرتا ہے۔ ايک جگہ فرماتا ہے: ’’من کان يريد العاجلۃ عجلنا لہ فيھا ما نشائ لمن يريد‘‘ يعني اگر کوئي انسان دنيا کو اپنا ہدف بنا لے تو ہم اس کے ہدف تک رسائي ميں اس کي مدد کرتے ہيںليکن کب ؟ جب وہ کوشش کرے ، جستجو کرے اقدام کرے اور آگے بڑھے ۔ اس کے بعد فرماتا ہے: ’’و من اراد الآخرۃ و سعي لھا سعيھا و ہو مومن فاولئک کا ن سعيہم مشکوراًکلاً ۔۔۔ ہولائ و ہولائ‘‘ اس آيت ميں فرماتا ہے کہ جو لوگ آخرت کي خواہش کرتے ہيں اور اس سلسلہ ميں سعي و کوشش کرتے ہيں ہم ان کي بھي مدد کرتے ہيں۔
ايک آيت ميں دنيا کا تذکرہ ہے اور دوسري ميں آخرت کا اور دونوں ميں شرط يہ ہے کہ سعي و کوشش کي جائے۔ اگر انسان سعي و کوشش کرے تو خدا وند عالم يقينا اسے اس کے مقصد تک پہنچاتا ہے۔ يہ سنت الہي ہے۔ خدا کسي کي بھي زحمتوں اور کوششوں کو رائيگاں نہيں جانے ديتا۔
خدا وند عالم ايک دوسري آيت ميں يوں وعدہ فرماتا ہے: ’’وعد اللہ الذين آمنوا منکم و عملوا الصالحات ليستخلفنہم في الارض کما يستخلف الذين من قبلہم‘‘۔کوئي بھي قوم اگر عمل صالح انجام دے تو خدا اس قوم کو زمين پر خليفہ بنا دے گاساري زمين کي قدرت اس قوم کے ہاتھ ميں ہوگي۔ ليکن شرط يہ ہے کہ ايمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھي ہو ورنہ فقط ايمان کي کوئي اہميت نہيں ہے۔ فقط ايمان سے کوئي نتيجہ حاصل نہيں ہو سکتا۔
ايک ديگر آيت کريمہ ميں خدا وند عالم وعدہ فرما رہا ہے: ’’و الذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا‘‘ يعني اگر کوئي راہ خدا ميں قدم اٹھائے تو خدا يقينا اس کي راہنمائي کرے گا۔
البتہ ضروري نہيں ہے کہ دعا ہميشہ معجزاتي طور پر قوانين الہي کو توڑتي ہوئي مستجاب ہو بلکہ دعا کا خاصہ ہے کہ دعا قوانين طبيعي کے دائرے ميں قبول ہوتي ہے۔ وعدہ خدا حق ہے ليکن يہ وعدہ بھي حق ہے کہ اگر انسان اپنے ہدف تک رسائي کے لئے عملي اقدام نہ کرے اور فقط بارگاہ الہي ميں دعا کرتا رہے تو دعا قبول نہيں ہوگي۔ ہو سکتا ہے کسي اور وجہ سے مستجاب ہو جائے ليکن استجابت کي کوئي ضمانت نہيں ہے۔ قوانين طبيعي کے خلاف دعا کي کوئي ضمانت نہيں ہوتي ہے۔ کبھي کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ دعا قوانين طبيعي کي مخالفت کے باوجود بھي قبول ہو جاتي ہے ليکن ايسا بہت ہي کم ہو تا ہے۔ جب دعا دل کي گہرائيوں اور پوري توجہ کے ساتھ کي جائے اور اگر ايسي دعا ميں عملي اقدام بھي شامل ہوجائے تو دعا کي استجابت کے امکانات نہایت روشن ہو جاتے ہيں۔ ساتھ ہي اگر قدرت خدا سے مايوس نہ ہوتے ہوئے مستقل دعا کي جاتي رہے تو بھي قبوليت دعا قوي ہو جاتي ہے۔ لہذا اگر باربار دعا کرنے پر بھي کوئي حاجت پوري نہ ہو تو مايوس نہيں ہونا چاہیے مخصوصاً ملک و قوم سے متعلق مسائل ميں۔ جس وقت فرعون کي ظالمانہ اور استکباري حکومت ميں حضرت موسيٰ متولد ہوئے تو آپ کي والدہ گرامي نہايت شش و پنج ميں مبتلا تھيں کيونکہ يہ واضح اور مسلم تھا کہ اس ملک ميں پيدا ہونے والا ہر لڑکا قتل کر ديا جائے گا۔ اگر حضرت موسيٴ کي جگہ کوئي لڑکي پيدا ہوئي ہوتي تو آپ کي والدہ قطعاً پريشان نہ ہوتيں۔ بہر حال ايک طرف ماں کي محبت اور دوسري طرف فرعون کا حکم۔ اسي درميان خدا کي جانب سے مادر موسيٰ پر وحي ہوئي: ’’واوحينا الي ام موسيٰ ان ارضعيہ‘‘ يعني ہم نے مادر موسيٰ کي طرف وحي کي کہ موسيٰ کو دودھ پلائيں۔ ’’فاذا خفت عليہ فالقيہ في اليہم‘‘ پس اگر خطرہ محسوس کرو تو صندوق ميں رکھ کر دريا کے حوالے کردو۔ خدا وند عالم نے قرآن مجيد ميں متعدد مقامات پر اس واقعہ کو نقل کيا ہے اور ہر بار ايک نئي ظرافت اور لطافت کے ساتھ بيان کيا ہے۔ الغرض مادر موسيٰ نے خطرے کا احساس کرتے ہي بچے کو دريائے نيل کے حوالے کر ديا۔ عجيب و غريب کيفيت ہے کہ ايک ماں اپنے نو مولود بچے کو دريا کے حوالے کردے ليکن خدا نے مادر موسيٰ سے اس طرح فرمايا: ’’انا رادوہ اليک و جاعلوہ من المرسلين‘‘ اس آيہ کريمہ ميں خدا نے مادر موسيٰ سے دو وعدے فرمائے۔ پہلا يہ کہ اس بچے کو واپس کرديں گے اور دوسرا يہ کہ اس بچے کو مرسلين ميں سے قرار ديں گے۔ جب بچے کو دريا ميں بہا ديا گيا تو خواہر موسيٰ سے کہا: ’’وقالت لاختہ قصيہ‘‘ جاؤ ديکھو کيا ہو رہا ہے! جيسے ہي صندوق فرعون کے محل کے نزديک سے گزرا: ’’فالتقتہ آل فرعون‘‘ فرعون کے خانوادے نے صندوق باہر نکال ليا۔ اُدھر خدا نے خانوادہ فرعون کے دل ميں يہ بات ڈال دي کہ اس بچے کي پرورش کرے۔ فرعون کي زوجہ، آسيہ نے کہا کہ کيا اچھا ہوگا اگر ہم اس بچے کي پرورش کر ليں۔: ’’قرۃ عيني لي و لک و حرمنا عليہ المواضع‘‘۔ بچے نے دودھ پينے سے انکار کر ديا لاکھ کوشش کي گئي مگر جناب موسيٰ نے دودھ نہيں پيا۔ اس درميان خواہر موسيٰ آگے بڑھيں اور کہا: ’’ہل ادلکم علي اہل بيت يکفلونہ لکم ‘‘ آيا ميں ايسے گھرانے کي نشاندہي کروں جو تمہارے لئے اس بچے کي پرورش کردے۔
اگر خدا وند عالم ارادہ کر لے تو ا سطرح حالات و کوائف کو کسي کے بھي حق ميں ڈھال ديتا ہے۔ خواہر موسيٰ کو اس بات پر مامور کر ديا کہ وہ اپنے اندر شجاعت پيدا کريں اور فرعون کے محل تک آ جائيں اور فرعون کے سامنے اس طرح کي تجويز رکھيں۔ فرعون نے مثبت جواب دے ديا۔ خواہر موسيٰ گئيں اور مادر موسيٰ کو اپنے ساتھ لے آئيں۔ جيسے ہي موسيٰ نے اپني ماں کي خوشبو محسوس کي فوراً دودھ پينا شروع کر ديا۔ يہ ہے قدرت خدا! فرعون اور فرعونيوں کے ذہن و گمان ميں قطعاً ايسي کوئي بات پيدا نہيں ہوئي کہ يہي موسيٰ کي حقيقي ماں ہو سکتي ہے۔ خدا اس طرح اپنا وعدہ پورا کرتا ہے: ’’فرددناہ الي امہ‘‘ ہم نے اس بچہ کو اس کي ماں کي طرف پلٹا ديا۔ ’’کي تقر عينہا ولا تحزن‘‘ تاکہ ان کي آنکھوں کي ٹھنڈک انہيں حاصل ہو جائے اور وہ غمزدہ نہ ہوں۔ ’’ولتعلم ان وعد اللہ حق‘‘ ساتھ ہي يہ بھي جان ليں کہ خدا کا وعدہ حق رہتا ہے۔ يہ وہ وعدہ ہے جس کو خود مادر موسيٰ نے اپني آنکھوں سے ديکھ ليا تھا ليکن دوسرا وعدہ: ’’وجاعلوا من المرسلين‘‘ يہ وہ وعدہ تھا جو مادر موسيٰ سے بعثت موسيٰ کے متعلق کيا گيا تھا جو برسوں کے بعد محقق ہونے والا تھا۔ اس وعدہ کے تحت جناب موسيٰ بطور رسول مبعوث ہونے والے اور بني اسرائيل کو فرعون کے ظلم و جور سے نجات دلانے والے تھے۔ تاريخي مسلمات کي رو سے يہ وعدہ بھي تقريباً چاليس سال کے بعد پورا ہوا اور جناب موسيٰ نے بني اسرائيل کو راہ نجات کي طرف ہدايت فرمائي۔
خدا اپنے وعدے اس طرح پائے تکميل تک پہنچاتا ہے۔ خدا وند عالم مسلمانوں کو فاتح و ظفرياب ديکھنا چاہتا ہے ليکن کب؟ اسي وقت جب مسلمان خواب غفلت سے بيدار ہوں۔ اٹھيں اور اس سلسلہ ميں سعي و کوشش کريں ۔وعدہ الہي يہ ہے کہ اگر کوئي قوم راہ خدا ميں جہاد کرے اور با ايمان بھي ہو تو يقينا فتح ياب ہوگي۔ ’’ولما رآي المومنون الاحزاب قالوا ہذا ما وعدنا اللہ و رسولہ و صدق اللہ و رسولہ‘‘ جس وقت جنگ احزاب ميں قريش، سقيف، يہوديوں اور دوسرے مختلف گروہوں نے ايک ساتھ مدينے کا محاصرہ کر ليا اور مسلمانوں پر حملہ کرديا تھا اس وقت خود مسلمان دو گروہوں ميں تقسيم ہو گئے تھے۔ ايک گروہ مومنين پر مشتمل تھا اور دوسرا غير مومنين پر۔ غير مومنين کہہ رہے تھے: ’’ما وعدنا اللہ و رسولہ الا غروراً‘‘ يعني ہم فريب کھا گئے ہيں ۔اسلام ہمارے امن و امان اور عزت کي حفاظت نہيں کرسکا۔ دوسري طرف مومنين کا گروہ تھا جو يہ کہہ رہا تھا: ’’ہذا ما وعدنا اللہ و رسولہ‘‘ يعني يہ وہي وعدہ ہے جو خود خدا اور اس کے رسول نے ہم سے کيا تھا۔ وعدہ خدا و رسول اس واقع طرح ہوتا ہے: ’’ان الذين آمنوا يقاتلون في سبيل اللہ و الذين کفروا يقاتلون في سبيل الطاغوت‘‘ وہ لوگ جو مومن ہوتے ہيں راہ خدا ميں جہاد کرتے ہيں اور وہ لوگ جو ايمان نہيں رکھتے راہ طاغوت ميں جہاد کرتے ہيں۔اگر مسلمان ميدان جنگ ميں ڈٹا رہے اور خدا کي قدرت سے مايوس نہ ہو تو يقينا فتح اسي کي ہوگي ليکن اگر مايوس اور پسپا ہوگيا تو وعدہ خدا بھي بہر حال پورا نہيں ہوگا۔ پس اگر دشمن حملہ کردے تو تعجب کا مقام نہيں ہے بلکہ يہ تو وعدہ الہي ہے جو پورا ہو رہا ہے:
’’ہذا ما وعدنا اللہ و رسولہ و صدق اللہ و رسولہ ما زادہم الا ايماناً و تسليماً‘‘۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=313&link_book=ethics_and_supplication/ethics_books/akhlaq_o_manaviat