اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

تعریف معاد اور اس عقیدہ کے آثار و فوائد

خلاصہ :

خداوندعالم کا تمام چیزوں کو مرنے اور ان کے اجزاء بکھرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ھے۔

معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ھے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ھونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ھونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا

لیکن آیا معاد فقط روحانی ھے یا جسمانی اس میں اختلاف ھے

متن:

خداوندعالم کا تمام چیزوں کو مرنے اور ان کے اجزاء بکھرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ھے۔

معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ھے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ھونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ھونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا

لیکن آیا معاد فقط روحانی ھے یا جسمانی اس میں اختلاف ھے، بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق معاد صرف روحانی ھے ،چونکہ ان کی نظر میں ایک قاعدہ عقلی ھے کہ ”إن المعدوم لا یعاد“ (جو چیز ختم ھوگئی وہ دوبارہ پلٹ نھیں سکتی)لہٰذا جب جسم موت کی وجہ سے معدوم ھوگیا تو پھر اس کا پلٹا ناممکن نھیں، لہٰذا یہ لوگ کہتے ھیں کہ معاد صرف روح سے متعلق ھے کیونکہ روح فنا نھیں ھوتی، (بلکہ روح باقی رہتی ھے)

لیکن جسمانی معاد کے معتقد حضرات تقریباً تمام ھی مسلمین، متکلمین، فقہاء ،اہل حدیث اور صوفی حضرات کا یہ نظریہ ھے کہ روز قیامت اسی جسم کے ساتھ پلٹائے جائیں گے، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی بیان کیا ھے۔

البتہ ان لوگوں نے روح کی بازگشت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں اختلاف کیا ھے، اور اس اختلاف کا سبب خود روح کے سلسلہ میں پائی جانے والی تفسیر اور اس کے معنی ھیں

پہلی بحث: معاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی

معاد کے لغوی معنی:

ہر چیز کا اپنے مقصد او رانتھاکی طرف پلٹنا، اور یہ ”عادالیہ “ کا مصدرھے جس طرح کھاجاتا ھے: ”یعود عوداً وعودةً ومعاداً“ یعنی اس کی طرف رجوع کیا اور اس کی طرف پہنچ گیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

<کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ >[6]

”جس طرح اس نے تمھیں شروع (شروع) میں پیدا کیا تھا اسی طرح پھر (دوبارہ) زندہ کئے (اور لوٹائے) جاوٴگے۔ “

اور یہ بنفسہ متعدی[7] بھی ھوجاتا ھے،اور ھمزہ کے ذریعہ بھی متعدی بناتے ھیں، یعنی باب افعال میں لے جاکر متعدی بناتے ھیںجیسے: ”عاد الشیءَ عوداً وعِیادا“، ”واعدتُ الشیء “یعنی میں نے اس کو دوبارہ بنادیا، یا اس کو دوبارہ پلٹادیا۔ جیسا کہ خداوندعالم کا قول ھے:

<ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیہَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا>[8]

”پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا“۔

معاد کی اصل ”مَعْود“ بر وزن ”مَفْعل“ھے جس کے واو کو الف سے بدل دیا گیا، اس کی بہت سی مثالیں بھی ھیں جیسے مقام اور مراح،جس کو حضرت امیر المومنین علیہ الصلاة والسلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ھے:

”والحکم اللہ والمعود الیہ القیامة “۔[9]

”مَفْعل“ اور اس سے مشتق بمعنی عَودمصدر صحیح میں استعمال ھوتا ھے،اور معاد (عود) اسم زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ھوتا ھے جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

<إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ>[10]

”(اے رسول خدا ) جس نے تم پر قرآن نازل کیا ضرور ٹھکا نے تک پہنچا دے گا“۔

اور جیسا کہ حدیث میں وارد ھوا ھے:

”’واصلح لی آخرتی التی فیھامعاد ي“۔

”(پالنے والے میری آخرت کی اصلاح فرما، جہاں مجھے پلٹ کر جانا ھے“۔

”مبدیٴ المعید“ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ھے ، کیونکہ خداوندعالم نے تمام مخلوقات کو زندگی دی اس کے بعد ان کو موت دے گا اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

<وَہُوَ الَّذِی یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ اٴَہْوَنُ عَلَیْہِ >[11]

”اور وہ ایسا (قادر مطلق) ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ھے پھر دوبارہ(قیامت کے دن )پیدا کرے گااور یہ اس پر بہت آسان ھے“۔

معاد کے اصطلاحی معنی:

معاد کے اصطلاحی معنی : خداوندعالم کا تمام چیزوں کو مرنے اور ان کے اجزاء بکھرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ھے۔[12]

معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ھے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ھونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ھونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا[13]

لیکن آیا معاد فقط روحانی ھے یا جسمانی اس میں اختلاف ھے، بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق معاد صرف روحانی ھے ،چونکہ ان کی نظر میں ایک قاعدہ عقلی ھے کہ ”إن المعدوم لا یعاد“ (جو چیز ختم ھوگئی وہ دوبارہ پلٹ نھیں سکتی)لہٰذا جب جسم موت کی وجہ سے معدوم ھوگیا تو پھر اس کا پلٹا ناممکن نھیں، لہٰذا یہ لوگ کہتے ھیں کہ معاد صرف روح سے متعلق ھے کیونکہ روح فنا نھیں ھوتی، (بلکہ روح باقی رہتی ھے)

لیکن جسمانی معاد کے معتقد حضرات تقریباً تمام ھی مسلمین، متکلمین، فقہاء ،اہل حدیث اور صوفی حضرات کا یہ نظریہ ھے کہ روز قیامت اسی جسم کے ساتھ پلٹائے جائیں گے، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی بیان کیا ھے۔

البتہ ان لوگوں نے روح کی بازگشت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں اختلاف کیا ھے، اور اس اختلاف کا سبب خود روح کے سلسلہ میں پائی جانے والی تفسیر اور اس کے معنی ھیں چنانچہ ان میں سے ایک گروہ یہ کہتا ھے کہ روح بھی ایک جسم ھوتا ھے جو انسان کے بدن میں جاری وساری ھوتا ھے جیسے کوئلہ میں آگ اور دریا میں پانی، چنانچہ ان کی نظر میں معاد جسم و روح سے متعلق ھے جس کو جسمانی معاد کھاجاتا ھے۔ دوسرا گروہ جس میں بہت سے بزرگ حکماء ، عظیم الشان علماء کلام وعرفان ھیں، جو کہتے ھیں کہ روح مجرد ھے لیکن یہ روح روز قیامت جسم میں پلٹ جائے گی، ان کے نزدیک یہ معاد جسمانی اور روحانی ھے، چنانچہ اس بنا پر معاد کے سلسلہ میں تین نظریے قائم ھوتے ھیں:

۱۔ معاد روحانی۔

۲۔ معاد جسمانی۔

۳۔ معاد جسمانی و روحانی۔[14]

دوسری بحث: عقیدہ معاد کے آثار

عقیدہ معاد پر مرتب ھونے والے آثار کو بیان کرنے سے پہلے ھم یہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ خداوندعالم نے یوم آخرت پر عقیدہ رکھنا ھمارے اوپر فرض نھیں کیا ھے، اسی طرح جو حساب و کتاب میں دقیق باتیں ھیں اور جو اعمال کے نتائج ظاہر ھوں گے، اس کے بارے میں ھم پر اعتقاد فرض نھیں ھے اسی طرح دنیا میں شر و فساد کے ردع کرنے کے وسائل کے بارے میں اعتقاد رکھنا یا عمل خیر و شر کی طرف ترغیب کے بارے میں اعتقاد ھمارے اوپر فرض نھیں ھے بلکہ خداوندمتعال نے اعتقاد بالمعاد اس لئے فرض کیا ھے کہ یہ ایک ثابت حقیقت ھے اور اس کا وجود واقعی ھے لہٰذا ایمان بالمعاد ایک امر واقع پر ایمان و اعتقاد رکھنا ھے اور ایک حتمی و ضروری قضا کے سامنے تسلیم ھونا ھے۔

جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

<وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لاَتَاٴْتِینَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الْاٴَرْضِ وَلَااٴَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرُ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ >[15]

”اور کفار کہتے ھیں کہ قیامت آنے والی نھیں ھے، تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم !وہ ضرور آئے گی ، وہ عالم الغیب ھے ،اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ دور نھیں ھے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا، بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب (لوح محفوظ) میں محفوظ ھے۔ “

لیکن روز قیامت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے پیدا ھونے والے آثارو فوائد جیسے شریعت کے احکام سے واقف ھونا اور اس کے احکام و قوانین کے مطابق عمل کرنا(اور جو آثار شریعت کی پیروی سے پیدا ھوتے ھیں مثلاً انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صالح اور دیندار بن جاتا ھے، اخلاق و تہذیب کے میدان میں نیک کردار ھوجاتا ھے، نفسیاتی طور پر اس میں نیک سیرت اور اچھائی پیدا ھوتی ھے اور احکام خداوندی پر عمل کرنے سے اس کے فضل و کمال پیدا ھوجاتا ھے وغیرہ وغیرہ، ) یہ ساری چیزیں اعتقاد بالمعاد کی فرع ھیں یعنی اول اعتقاد بالمعاد ھوگا تب یہ ساری چیزیں پیدا ھوسکتی ھیں، قارئین کرام! ھم یہاں پر ان اھم آثار و فوائد کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔انسانی زندگی پر معاد کے آثارو فوائد

قارئین کرام ! یہ بات ظاہر ھے کہ انسانی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت کے پیش نظر بعثت انبیاء ضروری ھے اور یہ اسی صورت میں کارساز ھوسکتی ھے کہ جب اس ہدایت کو نافذ کرنے والی ایک بہترین قدرت ان کے پاس ھو، تاکہ انسان ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ، یہ الٰھی تعلیمات و احکام انسان کو آمادہ کردیتی ھیں جس کی وجہ سے انسان ہدایت و راہنمائی کے ساحل پر پہنچ جاتا ھے، بغیر اس کے کہ اس کی ذرہ برابر بھی مخالفت اور تجاوز کرے، لیکن اگر وہ قوت او رقدرت نہ ھو تو پھر یہ تعلیمات اور احکام صرف موعظہ بن کر رہ جائیں گے، جس کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور انسانی زندگی میں بے اثر ھوجاتی ھے۔

جب ھم بعض دنیاوی قوانین کو دیکھتے ھیں (جیسے سزائے موت، عمر قید، پھانسی اور جلا وطن کرنا وغیرہ) تو نفس پر کنٹرول کرتے ھیں اور یہ قوانین نیک اور اچھے کاموں کی طرف ہدایت کرتے ھیں، لیکن ھم خارج میں دیکھتے ھیں کہ یہ قوانین انفرادی و اجتماعی شرّ و فساد کو بالکل ختم کرنے میں ناکافی ھیںاور نہ ھی ان کے ذریعہ انسانی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کمال کا حصول ممکن نھیں۔

یہ قوانین اس بنا پر معاشرہ سے شر و فساد کوختم کرنے میں ناکافی ھیں کہ قوانین جہاں مجرمین و اشرار کو بڑی سے بڑی سزا دینے میں کفایت کرتے ھیں وھیں پر جب سیاسی حضرات کی باری آتی ھے تو ان قوانین پر عمل نھیں ھوتا، حکام وقت اپنے خود ساختہ قوانین کے سایہ میں لوگوں کا مال ہضم کرتے ھوئے نظر آتے ھیں۔

اس کے بعد یہ بات بھی واضح ھے کہ انسان کی زندگی میں ظاہری اسباب بھی موثر ھوتے ھیں جیسا کہ اکثر حکومتوں میں سزائی قوانین مرتب کئے جاتے ھیں، اور یہ قوانین اس حکومت کی طاقت کے زور پر نافذ کئے جاتے ھیں ، لیکن اگر کسی حکومت میں قوانین نافذ کرنے کی طاقت ھی نہ ھو تو اس ملک میں بدامنی اور فساد پھیل جاتاھے اور پھر ان قوانین کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور نہ ھی ان قوانین سے کسی کو خوف و وحشت ھوتی ھے اور نہ ھی کوئی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ھے۔

لہٰذا جب ھم نے یہ بات مان لی کہ قوانین ھی کے ذریعہ مجرمین کی تعداد کم کی جاسکتی ھے، اور انھیں قوانین کے ماتحت حکومت چل سکتی ھے، لیکن کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ھیں جہاں پر انسان تنہائی کے عالم میں ھوتا ھے اور وہاں پر اس حکومت کی رسائی نھیں ھوتی اور نہ ھی وہاں تک قانون کی رسائی ھوتی ھے اور ان شاذ و نادر جرائم کو حکومت فاش نھیں کرپاتی ، مثلاً انسان نفسانی شھوات کا شکار ھوجائے اور اس پر سوار شیطان ھوجائے:

<وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُضِلَّہُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا>[16]

”اور شیطان تو یہ چاہتا ھے کہ انھیں بہکا کے بہت دور لے جائے “۔

<إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا>[17]

”کیونکہ شیطان تو ایسی ھی باتوں سے فساد ڈلواتا ھے اس میں شک ھی نھیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ھوا دشمن ھے“۔

اگر کوئی شخص کھے: ایک کافر و ملحد بھی کبھی کبھی صاحب فضیلت ھوتا ھے تو یہ اس کی ظاہری فضیلت ھوتی ھے،جس کی بنیاد نفسانی اصول نھیں ھوتے ھیں، ان کے اندر یہ اچھائیاں معاشرہ کے خوف کی وجہ سے پیدا ھوتی ھیں، یا حکومتی قوانین کے خوف سے پیدا ھوتی ھیں، چنانچہ اگر یہ دونوں چیزیں سامنے نہ ھوں اور وہ آزاد ھوں، تو پھر وہ کسی بھی طرح کے اخلاق کی رعایت نھیں کریں گے ، کسی کی بے عزتی کریں گے اور کسی کا مال لوٹیں گے، یا دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ھوں گے، کیونکہ جب نفس پر شھوت کاغلبہ ھوجاتا ھے تو پھر وہ کسی بھی برائی سے پرھیز نھیں کرتا اور برائی میں غرق ھوتا ھوا نظر آتا ھے، پس یہ فضیلت اس شخص میں کیسے جلوہ گر ھوسکتی ھے جو اپنے کو فانی حیوان سمجھتا ھے؟

لہٰذا حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین یہاں تک کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض افراد کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ھے تاکہ وہ موجودہ شرائط کے ساتھ اپنی زندگی آرام سے گزار سکےں، اور یھی انسان کا کردار معاشرہ میں اثرانداز ھوجاتا ھے جس کی بنا پر انسان دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ھے۔

پس مذکورہ باتوں کے پیش نظر انسان کے اندر ایسے اندرونی اسباب ھوتے ھیں اور اس کا ضمیر اور وجدان ھوتا ھے جو انسان کے کرد ار کو سنوارتا ھے اور یھی انسان کا ضمیر اس کے سفر و حضر اور خلوت و بزم میں ادارہ کرتا ھے، اور چونکہ انسان کی روح اس کو اپنے اختیار میں رکھتی ھے، کیونکہ روح ایک بلند اور عالی حقیقت ھے جو انسان کو کمال و بلندی کی طرف لے جاتی ھے، لیکن کبھی کبھی انسان اپنے جسم کے لئے روح کو حاکم بنادیتا ھے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ھے اور اس میں بہت زیادہ روحانی ریاضت کی ضرورت ھے، یہ وہ کام ھے جس کو اس شخص کے علاوہ اور کوئی انجام نھیں دے سکتا جو نفس اور روح کے ھمیشہ ھمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ رکھتا ھو، اور یھی اعتقاد انسان کے ضمیر کو نیک اور اچھے کاموں کے لئے ابھارتا ھے، تاکہ اس کو آخرت میں ثواب مل سکے، اسی طرح یھی عقیدہ انسان کو ھوائے نفس کی اطاعت اور آخرت کے عذاب کے خوف کی بنا پر گناھوں اور برے کاموں سے روکتا ھے۔

یہ اس لئے ھے کہ انسان کا ضمیر برائیوں پر ملامت اور سرزنش تو کرسکتا ھے لیکن اس کو عذاب نھیں دے سکتا، اسی طرح انسان کا ضمیر اس کو وعظ و نصیحت کرتا ھے لیکن کبھی بھی اس کے لئے توجیہ نھیں کرسکتا، کیونکہ انسان ھوائے نفس کے مقابلہ میں کوئی نفع و نقصان نھیں پہنچاسکتا، اور جب اس کا غلبہ ھوجاتا ھے تو اس کو ناکارہ بنادیتا ھے اور پھر انسان لوگوں کی نگاھوں سے بچ کر جو چاہتاھے وہ انجام دیتا ھے۔

لہٰذا جب ایک طرف سے حکومتی قوانین اور معاشرہ انسان کو برائیوں سے روکنے والا ھے اور دوسری طرف خود انسان کا ضمیر اندر سے انسان کو برائیوں سے روکتا ھے تو یہ دونوں چیزیں قدر معین کی طرف ہدایت کرتی ھیں، اور خداوندعالم وروز قیامت پر ایمان کے ذریعہ ان دونوں کے درمیان اتفاق قائم کردیتا ھے، جس کے ذریعہ انسانی نفس میں قول و عمل میں دشمن کے رقیب ھونے کی بنا پر تربیت اخلاقی ھوجاتی ھے، اور کوئی بھی بندہ مومن اپنے رقیب و دشمن سے فرار نھیں کرسکتا چونکہ خداوندعالم ہر چیز پر محیط ھے اور رگ گردن سے زیادہ قریب ھے، ظاہری اور باطنی چیزوں کو جانتا ھے، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا حساب کرنے والا ھے، کوئی بھی ذرہ اس سے مخفی نھیں ھے، اسی وجہ سے بندہ مومن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ھونا چاہئے، خدا کے عقاب سے ڈرنا چاہئے، یہاں تک کہ اگر بندہ لوگوں کی نظروں سے چھپ کر بھی کوئی کام انجام دیتا ھے تو خود اس کے نفس سے جواب طلب ھوگا، چاھے قانون اور حکومت کی سزا سے محفوظ رھے، کیونکہ حکم خدا اور اس کی حکومت سے فرار ممکن نھیں ھے۔[18]

جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ھے کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں ایک عاصی اور گناہگار شخص ھوں، اور گناھوں پر صبر بھی نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھ کو نصیحت فرمائےے اس وقت امام علیہ السلام نے نصیحت فرمائی:

”افعل خمسة اٴشیاء و اذنب ما شئت، فاٴول ذلک: لا تاٴکل رزق الله، و اذنب ما شئت، والثانی: اخرج من ولایة الله، و اذنب ما شئت، والثالث: اطلب موضعاً لایراک فیہ الله،و اذنب ما شئت، والرابع: إذا جاء ملک الموت لیقبض روحک فادفعہ عن نفسک،و اذنب ما شئت، والخامس: إذا اٴدخلک مالک في النار فلاتدخل النار، و اذنب ما شئت“۔[19]

”پانچ کام انجام دینے کی طاقت حاصل کرلو اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو،پہلی: خداوندعالم کا عطا کردہ رزق نہ کھاؤ،اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو، دوسری: خدا کی ولایت و حکومت سے نکل جاؤ پھر جو چاھو گناہ کرو،تیسری: کوئی ایسی جگہ تلاش کرلو جہاں پر خدا نہ دیکھ سکے، پھر جو چاھو گناہ کرو، چوتھی: جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اس کو روح قبض نہ کرنے دینا، پھر جو چاھو گناہ کرو، پانچویں: جب داروغہ دوزخ تمھیں آتش جہنم میں ڈالنا چاھے تو داخل نہ ھونے کی قدرت حاصل کرلو ، پھر جو چاھو گناہ کرو،“۔

پس ایک بندہ مومن کا اعتقاد یہ ھونا چاہئے کہ ہر چیز خداوندعالم کے ارادہ اور حکومت کے تابع ھے، اس کی ولایت کے ما تحت ھے، خداوندعالم انسان کے ہر ہر اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا ھے، ان تمام چیزوں سے باخبر ھے جو انسان کے دل میں پیدا اورخطور کرتی ھیں، یھی وہ اعمال ھیں جو انسان کے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے لئے اس کے ساتھی ھوں گے، اور انھیں اعمال کی بنیاد پر ثواب و عقاب دیا جائے گا، ان کے علاوہ اور کوئی چیز کام آنے والی نھیں ھے۔

حضرت رسول اکرم کا ارشاد گرامی ھے:

” یتبع المرء ثلاثة: اٴہلہ و مالہ و عملہ، فیرجع اثنان و یبقی واحد، یرجع اٴہلہ و مالہ و یبقی عملہ“۔[20]

روز قیامت پر ایمان کے نتائج میں سے یہ ھیں: انسان اس بات پر عقیدہ رکھے کہ ھم لوگ آنے والی چیزوں کے مقروض اور گزشتہ چیزوں کے مرھون منت ھیں، ایک روز آنے والا ھے جس دن اس خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونا ھے جو حساب و کتاب کرنے والا ھے اور اس سے چھوٹی سی چیز بھی مخفی نھیں ھے، تمام لوگوں سے ان کے اعمال، افعال اور مخفی ہر خیر و شرّکے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی لحاظ سے جزا اور سزا دی جائے گی،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<وَلاَتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہَا وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْرَی>[21]

”اور جو شخص کوئی برا کام کرتا ھے اس کا وبال اسی پر ھے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نھیں اٹھا ئےگا “۔

نیز ارشاد فرماتا ھے:

<کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ>[22]

”ہر شخص اپنے اعمال کے بد لے گرو ھے“۔

پس فضائل اور برائیوں کا معیار و مقیاس انسان کے اعمال ھیں، اور یھی اعمال خدا کی رحمت سے نزدیک اور دور ھونے کی بنیاد ھےں، کیونکہ روز قیامت انسان کی شکل و صورت دیکھ کر حساب و کتاب نھیں کیا جائے گا، نہ ھی حسب و نسب کے لحاظ سے، نہ ھی تجارت وکثرت اولاد اور کثرت مال کو مد نظر رکھ کر حساب و کتاب کیا جائے گا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاٴَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَیَتَسَاءَ لُون. فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ . وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ >[23]

”پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رھیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے،پھر جن (کی نیکیوں)کے پلے بھاری ھوں گے تو یھی لوگ کامیاب ھوں گے اور جن (کی نیکیوں )کے پلے ہلکے ھوں گے تو یھی لوگ ھیں جنھوں نے اپنا آپ کو نقصان پہنچایا، وہ ھمیشہ جہنم میں رھیں گے“۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ھے:

< لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوَالُہُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُہُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا>[24]

”ان کو خدا (کے عذاب)سے نہ ان کے مال ھی کچھ بچائیں گے،نہ ان کی اولاد (کچھ کام آئے گی)“۔

< لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوَالُہُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُہُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا>[25]

”خدا (کے عذاب )سے بچانے میں ہرگز نہ ان کے مال ھی کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد“۔

نیز ارشاد فرماتا ھے:

<وَمَا یُغْنِی عَنْہُ مَالُہُ اِذَا تَرَدَّیٰٓ>[26]

”اور جب وہ ہلاک ھوگا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا “۔

حضرت رسول اکرم (ص)کا ارشاد گرامی ھے:

”ان الله لا ینظر الی صورکم ،ولا الی اموالکم ،ولکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم “۔[27]

”خداوندعالم تمہاری شکل و صورت اور تمہارے مال و اولاد کو نھیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کے (لحاظ سے حساب و کتاب کرے گا“)۔

حواشی

[6] سورہٴ اعراف آیت ۲۹۔

[7] فعل کی دو قسمیں ھوتی ھیں ایک لازم (جس کا اثر دوسرے تک نہ پہنچے، جیسے میں گیا،) دوسرے متعدی ( جس کا اثر دوسرے تک پہنچے جیسے میں نے زید کو مارا)، مترجم۔

[8] سورہٴ نوح آیت۱۸۔

[9] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۲۳۱ خطبہ نمبر۱۶۲ ۔دار الھجرة ۔قم۔

[10] سورہٴ قصص آیت ۸۵۔

[11] سورہٴ روم آیت۲۷۔، لغوی معنی کے سلسلہ میں رجوع کریں :لسان العرب ۳ ابن منظور ۔ عود۔۳/ ۳۱۵۔ادب الحوزہ ۔قم ،مفردات القرآن / الراغب ۔عود ۔:۳۵۱۔المکتبہ المرتضویہ ۔طہران، المصباح المنیر/ الفیومی ۔عاد ۔:۲۔۱۰۱مصر،معجم مقاییس اللغہ / ابن فارس ۔عود۔۴:۱۸۱۔دارالفکر ۔ بیروت ۔

[12] النافع یوم الحشر فی شرح الباب الحادی عشرفاضل مقداد :۸۶ انتشارات زاہدی۔

[13] شرح المقاصد /التفتازانی ۵:۸۲۔الشریف الرضی ۔قم۔

[14] المبداء و المعاد / صدرا الدین الشیرازی :۳۷۴۔۳۷۵،حق الیقین / عبد اللہ شبر ۲:۳۶۔۳۷ مطبعہ العرفان ۔صیدا۔

[15] سورہٴ سباآیت۳۔

[16] سورہٴ نساء آیت۶۰۔

[17] سورہٴ اسراء آیت۵۳۔

[18] جیسا کہ مولائے کائنات دعاء کمیل میں فرماتے ھیں، ”ولا یمکن الفرار من حکومتک“۔ (تیری حکومت سے فرار کرنا ممکن نھیں ھے) (مترجم)

[19] جامع الاخبار /سبزواری :ص۳۵۹/۱۰۰۱۔موٴ سسہ آل البیت علیہ السلام قم،بحار الانوار /علامہ مجلسی ج۷۸ص۱۲۶/۷، از امام حسین علیہ السلام ۔

[20] کنزل العما ل /متقی ہندی ۱۵:۶۹۰/۴۲۷۶۱۔موٴسسہ الرسالہ ۔بیروت۔

[21] سورہٴ انعام آیت۱۶۴۔

[22] سورہٴ مدثر آیت۳۸۔

[23] سورہٴ مومنون آیت۱۰۱تا۱۰۳۔

[24] سورہٴ آل عمران آیت۱۰۔ و سورہ مجادلہ آیت۱۷۔

[25] سورہٴ آل عمران آیت۱۱۶و ، سورہٴ مجادلہ آیت۱۷۔

[26] سورہٴ لیل آیت۱۱۔

[27] تفسیر رازی۲۲:۱۳۵۔دار احیا ء الترا ث العربی ۔بیروت۔


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ...
حضرت علی علیه السلام کی خلافت حدیث کی روشنی میں
انتظار احادیث کی روشنی میں
ماہ رمضان کے دسویں دن کی دعا
پھل اور فروٹ کی خصوصیات(حصہ دوم)
حضرت رقیہ بنت الحسین(ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے
میرا زاد راہ تقویٰ اور میری منزل میرا مولا ہے
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
قرآن کی حفاظت
حضرت فاطمہ الزہرا ء تیر ہویں قسط

 
user comment