معصوم بچوں کا ماوٴں کی گودوں سے گر کر شہید ہونا اورکربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک گلشن آلِ محمد سے پھول گرتے چلے گئے اور شام آگئی۔
تمام دنیا، حتیٰ کہ انبیاء بھی، ذرا تورات اُٹھا کر دیکھئے، ان کے واقعات ، تاریخیں اُٹھا کر دیکھئے تو انبیاء روتے ہی رہے۔ انہوں نے چالیس چالیس دن تک ماتم قائم کئے ہیں۔ جنابِ یعقوب کا رونا تو بہت مشہور سی چیز ہے۔ رونا ایک فطری امر ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے رُلایا بھی ہے اور ہنسایا بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ فطری چیزیں ہیں۔ ان فطری چیزوں کو کسی نہ کسی مقام پر صرف کرنا ہے تو اچھا محل کیوں نہ دیکھا جائے اور جب آپ اچھا محل تلاش کریں گے تو اس جگہ سے بہتر کونسی جگہ نظر آئے گی جس پر رسولِ خدا بھی روتے ہیں۔
رسولِ اکرم پچاس سال بعد قبر سے نکل کر روئے۔ حضرت اُمّ سلمہ وہ زوجہ مطہرہ ہیں آنحضور کی جنہوں نے جنابِ سیدہ کے بعد حسین کی پرورش کی ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا کی محبتوں کو دیکھا تھا، لہٰذا اُن کو حسین سے بے حد محبت تھی۔ عاشور کا دن جو آیا تو اُن کا دل گھبرارہا تھا۔ دن بھر پریشان رہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کا بیٹا مرجائے مشرق میں اور مغرب میں تو چاہے کوئی پیغام نہ آئے اس کے مرنے کا لیکن حضور! وہ جو ایک تعلق روحانی ہوتا ہے، وہ اثر کرتا رہتا ہے۔ باپ کو یہ معلوم ہوتا ہے بغیر کسی وجہ کے، دل بیٹھا جارہا ہے، کمر ٹوٹ رہی ہے۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت یا اُس دن مرگیا تھا۔
جنابِ اُمّ سلمہ نے تو پالا ہی تھا، عاشورہ کا دن آیا۔ دن بھر بے چین رہیں اور یہ جانتی تھیں کہ حسین گئے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے۔ جب عصر کا وقت گزر گیا، یہ تھکی ہوئی سو گئیں۔
آپ نے خواب میں دیکھا کہ رسولِ خدا تشریف لائے ہیں، آپ کے سر پر عمامہ نہیں ہے، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں، گرد و غبار میں اَٹے ہوئے، ریش مبارک آنسوؤں سے بھیگی ہوئی، جنابِ اُمّ سلمہ نے یہ حالت دیکھی تو کھڑی ہوجاتی ہیں۔ سلام کیا اور کہا: یارسول اللہ!آپ نے یہ کیا حالت بنائی ہے؟ فرماتے ہیں: اے اُمّ سلمہ! تمہیں خبر نہیں کہ میں کربلا سے آرہا ہوں۔ میرا فرزند حسین میرے سامنے ذبح کیا گیا۔ رسول اللہ اُن کے خواب میں اس لئے آئے کہ مجھ سے محبت کرنے والے ذرا حسین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ قربانیاں، دنیا میں کس لئے پیش کی گئیں؟ حسین اور اُن کے تمام یاروانصار کس بیدردی سے بھوکے پیاسے شہید کئے گئے؟مسلمانو! رسول کے گھرانے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اُمت نے کیسا سلوک کیا؟ سب کو شہید کرنے کے بعد بیبیوں کو لوٹا گیا اور پھر اُن کے خیموں میں آگ لگا دی گئی۔ گیارہویں تاریخ کو یہ بیبیاں، چونسٹھ یا چوراسی تھیں جن کی گودوں میں بچے بھی تھے، قید کرکے کوفے کی طرف لے جائی گئیں۔
source : http://www.tebyan.net/